Episode 77 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 77 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

”مطلب ،روہی والوں کو پسند نہیں، میں نے کیا کیا ہے ۔“ بدر نے حیرت سے پوچھا
” تم عام جرائم پیشہ لوگوں کی مانند علاقے فتح کر رہے ہو، تاکہ جتنا زیادہ علاقہ تیرے پاس ہوگا۔ اتنا ہی زیادہ تسلط رکھنا چاہتے ہو۔ دولت اور طاقت کے لئے تم وہ سب کرتے چلے جا رہے ہو ، جو روہی والوں کا وطیرہ نہیں ہے۔“
” دولت اور طاقت کے بغیر کیا ہو سکتا ہے ۔
یہاں رہ کر ان جرائم پیشہ لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ان پر دبدبہ چاہئے۔“ بدر نے تیزی سے کہا
” لیکن منشیات کا کاروبار، ناجائز سمگلنگ، اور قتل، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔“تانی نے اس کے چہرے پر دیکھ کر کہا
” یہ سب کرنا پڑتا ہے۔“ اس نے دھیرے سے کہا
”مگر ہم نہیں کرتے ، ہم صرف ان کا خاتمہ کرتے ہیں جو انسانیت کے دشمن ہیں۔

(جاری ہے)

کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں۔

“ اس نے تیزی سے کہا
” میں کیا کروں ، طاقت کے بغیر…“ بدر نے کہنا چاہا تو تانی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” ہم یہاں کیوں ہیں،صرف تمہیں یہ بتانا ہے کہ تمہارے بغیر بھی روہی والوں کے کام ہو سکتے ہیں۔ تم دولت اور طاقت کی ہوس میں وہ سارے اصول بھول رہے ہو، جو تمہیں بتائے گئے تھے۔ اسی لئے تمہیں دبئی سے یہاں بلوایا گیاتھا۔“ تانی نے کہا
” میں سمجھا نہیں تم کہنا کیا چاہ رہی ہو ۔
“ بدر نے غصے میں کہا تو تانی سکون سے بولی
” دیکھو بدر ، میں اس کی تفصیلات میں نہیں پڑنا چاہتی، #یہ تیسری پارٹی کوئی اور نہیں۔ تمہاری ذاتی دشمن ہے ۔ تم نے سونے اور جواہرات کی ڈیل اس سالار صدیقی سے خود کی؟“
” ہاں کی ، میں سونے اور جواہرات سے جان چھڑانا چاہتا تھا ۔“ اس نے تیزی سے کہا
” کس نے کہا تھا؟“ تانی نے پوچھا
” وہ سونا اور جواہرات میرے تھے ، وہ لوگ مجھے دے گئے تھے۔
میں جو چاہوں اس کا کروں۔“ بدر نے جواب دیا
” اگر ہم میں سے کسی نے اس سے حصہ نہیں لیا تو تم بھی اس کے حقدار نہیں ہو۔ اگر ہو تو بتاؤ؟“ تانی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا۔
” اب کیا کرنا ہے؟“ جسپال نے خاموشی توڑی تو تانی نے کہا
” اب جو کچھ کرنا ہے بدر ہی نے کرناہے ، اگر وہ سالار سے جان چھڑا سکتا ہے تو ٹھیک، ورنہ ہم اس کا معاملہ ہی ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتے ہیں۔
” اب ڈیل تو اس سے ہو نہیں سکے گی ، اس لئے دشمنی تو ہو گئی اس سے۔ میں چاہتا تھا کہ اس سے ڈیل کر لوں ، مگر اب میرے پاس تو کچھ نہیں۔“بدر نے سکون سے کہا
” تو بس اس سے یہی کہو کہ اس نے اس ڈیل کے بارے میں شاہد سے کیوں بات کی ۔ مان جاتا ہے تو ٹھیک ، ورنہ آج رات اس کا کام کر دیتے ہیں۔“ تانی نے کچھ اس طرح کہا کمرے میں موت کا سناٹا پھیل گیا ۔
بدر نے چند لمحے سوچ کر فون نکالا اور سالار صدیقی کے نمبر ڈائل کر دئیے ۔ ذرا دیر بعد رابطہ ہو گیاتو اس نے اسپیکر آن کر دیا۔ دوسری طرف سے سالار ہی تھا۔ بدر نے غصے میں پوچھا
” تم میری نگرانی کیوں کروا رہے ہو؟“ 
” تم جانتے ہو، گولڈ میرے لئے نشہ ہے، جہاں یہ ہو گا ، میں وہیں ہوں گا۔ تم میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے ۔ جب تک وہ گولڈ مجھے دے نہیں دیتے ہو۔
مجھے سکون کیسے ملے گا۔ آج رات تم نے مجھے وہ گولڈ دینے کا وعدہ کیا ہے، تو نگاہوں سے دور کیسے کردوں۔“ 
” لیکن تم بلا وجہ میری نگرانی کر کے خود کو مشکوک کر رہے ہو۔مجھے تو یہی لگتا ہے کہ تم مجھ سے ڈیل نہیں، گولڈ مجھے سے چھین لینا چاہتے ہو؟“
” گولڈ لینا ہے میں نے تم سے ۔ نگاہوں سے اوجھل کیسے کردوں تمہیں ۔ اورمیں نے ہر صورت میں گولڈلینا ہے تم سے ، چاہے جس طرح دو۔
” اگر ایسی بات ہے تو پھر میں تم سے ڈیل نہیں کر رہا۔ میں وہ کسی…“ بدر نے کہنا چاہا تو اس نے بات کاٹتے ہوئے دھاڑ کر کہا
” اس کا انجام جانتے ہو نا تم ؟“
”تم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ اگر کوئی خناس ہے تمہارے دماغ میں تو میں اسے نکال دوں گا ۔ “بدرنے کہاتو دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔ تبھی تانی نے کہا
” بس ٹھیک ہے، میں دیکھتی ہوں ۔
اب نکلو یہاں سے ۔“
” کہاں جانا ہے؟“ بدر نے پوچھا
”گڈانی۔اس کا معاملہ وہیں دیکھیں گے۔“ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا اور اٹھ گئی۔کچھ دیر بعد وہ دو فوروہیل جیپوں میں وہاں سے نکلے۔شاہد کو انہوں نے وہیں چھوڑ دیا تھا۔
رات ابھی اتنی گہری نہیں ہوئی تھی جب وہ گڈانی کے علاقے میں جا پہنچے۔ یہاں کلفٹن یا دوسرے ساحلی علاقوں کی مانند رونق نہیں تھی، کافی ویران علاقہ تھا۔
ساحل سے کچھ دور ہی انہوں نے گاڑیاں روک دیں۔ اندھیرا کافی تھا۔تانی ، بدر اور جسپال کے ساتھ چند آدمی تھے، جن کے ہاتھوں میں ٹارچ تھی۔ وہ سبھی ساحل کی جانب بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ تانی اور بدر کے کاندھوں پر بڑے بڑے بیگ تھے۔ جنہیں وہ بہت حفاظت سے لے جا رہے تھے۔ ساحل کے ساتھ ہی ایک موٹر بوٹ بندھی ہوئی تھی۔ جس میں وہ بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی موٹر بوٹ چل دی۔
کچھ دیر بعد ساحل سے کافی دور ایک چھوٹے اسٹیمر کی بتیاں دکھائی دینے لگیں، جو لمحہ لمحہ قریب آتی چلی جا رہی تھیں۔ وہ اسٹیمر کے پاس پہنچ گئے تو ٹارچ ہی کی مدد سے ان کہ پہچان ہوئی۔ موٹر بوٹ سے اسٹیمر کی طرف جانے والے چھ لوگ تھے۔وہ سبھی اوپر چڑھ گئے۔ وہاں اسٹیمر میں صرف تین لوگ تھے۔ اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد انہوں نے ان تینوں کو ایک طرف لے جا کر باندھ دیا۔
وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔تبھی ان میں سے ایک بندے نے ہمت کر کے پوچھا
” یہ کیا کر رہے تم لوگ، ہمیں باندھنے کامطلب جانتے ہو کیا ہے؟“
” جانتے ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اسٹیمر سالار صدیقی کا ہے،جسے ہم نے بڑے طریقے سے کرائے پر حاصل کیا ہے ۔ اب ہم اسی اسٹیمر پر دبئی جائیں گے،تمہیں کوئی اعتراض؟“ تانی نے حقارت سے کہا تو اس بندے کی آنکھیں پھیل گئیں۔
” یہ …یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے ہو۔“ اس نے کہا
” اور تم لوگ ٹھیک کر رہے تھے۔ ابھی تم نے سالار کو اطلاع نہیں دی کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ تاکہ وہ ہمیں قتل کر سکے۔“ تانی نے اس کی پسلیوں میں زور سے لات مارتے ہوئے کہا تو اس نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
 تانی نے انہیں زیادہ وقت نہیں دیا، ان کے سروں پر پسٹل کے دستے مار کر انہیں بے ہوش کر دیا۔
اس دوران بدر اور جسپال نے بیگ کھولے۔ اس بیگ میں چھوٹے چھوٹے کئی بم تھے۔ جنہیں وہ تیزی سے لگانے لگے۔ دس منٹ میں انہوں نے اپنا کام مکمل کر لیا۔ اگلے چندمنٹوں میں وہ سیڑھی کے ذریعے سمندر میں اُتر گئے۔ ان سے کافی دور موٹر بوٹ تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ اس بوٹ پر پہنچ گئے۔ وہ تھک کر چُور ہو چکے تھے ۔وہ بوٹ میں لیٹ گئے۔موٹر بوٹ چلانے والا، آہستہ آہستہ انہیں ساحل کی جانب لے جانے لگا۔
 
اس دوران ساحل کی طرف سے دو موٹربوٹس تیزی سے اسٹمیرکی جانب بڑھنے لگیں تو تانی سمیت سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ بدر نے اپنی جیکٹ کے اندر سے فون لیا جو پلاسٹک کے چھوٹے بیگ میں بند تھا۔وہ بیگ ہٹا کر فون نکالا۔ فون بھیگنے سے محفوظ تھا۔ اس نے فون سے ساحل پر چھپے ہوئے لوگوں سے رابطہ کر کے پوچھا
” تم لوگوں نے سالار کو جاتے ہوئے دیکھا، وہ تھا ان میں؟“
 ” جی تھا ان میں، ابھی یہاں سے گیا ہے ۔
” ٹھیک ہے تم لوگ تیار رہو، ہم ابھی آتے ہیں ،لیکن یہ دیکھ لینا، ان کا کوئی آدمی یہاں پر نہ ہو ۔“بدر نے کہا تو دوسری طرف سے بتایا گیا
” جی ان کے دو آدمی ہیں یہاں پر ، ان کے پاس گاڑیاں بھی ہیں۔ شایدوہ ان کے لوٹنے کا انتظار کریں گے۔“
” انہیں ابھی کچھ نہیں کہنا۔ صرف ان پر نظر رکھو۔آنکھوں سے اوجھل نہ ہوں۔میں دوبارہ رابطہ کرتا ہوں۔
“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ وہ آہستہ آہستہ ساحل کی جانب بڑھ رہے تھے۔
تانی آنکھوں کے ساتھ نائٹ ٹیلی اسکوپ لگائے اسٹیمر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس کا دوران خون تیز ہو چکا تھا۔ وہ دونوں موٹر بوٹس تیزی سے اسٹیمر کے قریب پہنچ چکیں تھیں۔ اب ان کی کامیابی کا امکان صرف یہی تھا کہ وہ لوگ اسٹیمر پر چڑھ جائیں۔ جبکہ وہ ایسا نہیں کر رہے تھے۔
نیچے سے ٹارچ کے ذریعے اشارہ دیا جا رہا تھا ، مگر اوپر سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ یہی اس پلان کا سب سے کمزور لمحہ تھا۔ تانی بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ بم پھٹنے میں چندمنٹ رہ گئے۔ اوپر سے کوئی ہلچل نہ ہوئی تو وہ سب تیزی سے اسٹیمر پر چڑھنے لگے۔ اب بم پھٹنے کا وقت منٹوں سے سیکنڈوں پر آ گیا تھا۔اچانک اسٹیمر پر زور دار دھماکے ہونے لگے۔
چند دھماکو ں کے بعد اسٹیمر میں آگ لگ گئی تو تانی نے ساحل کی طرف جانے کو کہا۔یہ سب تیزی سے ساحل کی طرف گامزن ہو گئے۔ بدر نے فون نکالا اور ساحل پر اپنے لوگوں سے رابطہ کیا
” تم لوگوں نے دھماکے سنے ہیں ؟“
” سنے تو ہیں، یہ کیا ہوا ہے ؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا
” میں آ کر بتاتا ہوں ۔ وہ ساحل پر جو لوگ تھے ،ان کی کیا پوزیشن ہے؟“ بدر نے پوچھا تو دوسری طرف سے بتایا گیا
” وہ ابھی تک وہیں ہیں۔
“ 
” اگر ان پر قابو پا سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ ختم کر دو انہیں۔“ بدر نے کہا اور فون بند کر دیا۔ تبھی تانی نے اونچی آواز میں کہا
” شاید سالار بچ گیا ، ایک بوٹ تیزی سے واپس آ رہی ہے ۔“
” یقینا وہ اسٹیمر پر نہیں گیا تھا۔ چلو جلدی سے ساحل پر پہنچو۔“ بدر نے کہا تو جسپال بھی اٹھ بیٹھا۔وہ اب تک صرف تماشا دیکھ رہا تھا۔ بدر نے ساحل سے رابطہ کر لیا۔کچھ ہی دیر بعد وہ سالار کے آدمیوں سے کافی دور ساحل پر آگئے ۔ موٹر بوٹ سے اترتے ہی وہ انتہائی تیزی سے اس طرف آگئے جہاں سالار کے لوگ تھے۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط