وہ سب گھات لگائے سالار کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی بوٹ ساحل پر آ لگی ۔ ایک پنسل ٹارچ کی محدود روشنی میں وہ اپنی گاڑیوں کی طرف آ رہے تھے۔ وہ فون پر اونچی آواز میں کسی کو انتہائی غصے میں ہدایات دے رہا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں یہی سمجھ آرہی تھی کہ وہ بندوں کی تلاش کرنے اور انہیں قابو میں کرنے کا کہہ رہا تھا۔ جیسے ہی وہ اپنی گاڑی کے قریب آیا۔
ہر طرف سے کئی ٹارچیں روشن ہو گئیں۔ وہ روشنی میں نہایا درمیان میں کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دو فائر ہوئے اور اس کی گاڑیوں کے ٹائر برسٹ ہو گئے۔
”سر پر ہاتھ رکھ کر نیچے بیٹھ جاؤسالار،ورنہ ایسا ہی تمہارے ساتھ کریں گے، جیسا تیری گاڑیوں کے ساتھ ہوا۔“ تانی نے کہا تو سالار نے آواز کی سمت دیکھا اور سر پر ہاتھ رکھ لیے۔
(جاری ہے)
اس کے ساتھی بھی بیٹھ گئے۔
اگلے ہی لمحے تانی اور جسپال آگے بڑھے اور ان کی تلاشی لی۔ سالار کی جیکٹ سے دو پسٹل نکلے۔ اس کے ساتھیوں کے پاس سے جو اسلحہ ملا۔ وہ اکٹھا کر کے ایک گاڑی میں رکھ دیا۔ تبھی بدر آگے بڑھا اور سالار کے سامنے جا کر بولا
” اب بتاؤ سالار، مرنے سے پہلے کا نشہ کیسا ہوتا ہے ؟“
” تم نے مجھے دھوکے سے پکڑا اور …“ اس نے کہنا چاہا تو بدر نے کہا
”تمہارے منہ سے یہ بات نہیں سجتی سالار۔
تم نے ہمارے لئے جو جال بچھایا تھا ، اسی میں پھنس گئے تو یہ دھوکا ہو گیا؟ یہ اسٹیمر کس کا ہے؟ ہم نے خود ساری معلومات تم تک پہنچائی اور تم ہمیں جال میں پھانسنے کے لئے ،ہمارے ہی جال میں آتے چلے گئے ، اور اب کسی چوہے کی مانند یہاں پڑے ہو۔“ تانی نے حقارت آمیز لہجے میں کہا
” میں نے تو بدر سے ڈیل کی تھی، اپنا پیسہ لو اور گولڈ مجھے دو، بس ۔
“سالار نے کہا تو بدر بولا
” اور اس کے بعد…“یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہو گیا،جب سالار نے کوئی جواب نہیں دیا تو بولا،” اس کے بعد تم مجھے مارر دیتے، اور گولڈ تمہارا ہو جاتا۔ یہ اچھا ہوا کہ تم پھنس گئے ۔ ورنہ مجھے زیادہ محنت کرنا پڑتی۔ مجھے میرے ساتھیوں کے سامنے مشکوک ہونا پڑا۔ بولو، کس سے ڈیل ہوئی ہے تمہاری؟“ یہ کہہ کر اس نے زور دار گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا۔
” اگر مجھے یہاں سے جانے دو تو میں ساری بات بتا دیتا ہوں۔“ سالار نے کہا
” بولو۔“ بدر نے تیزی سے کہا
” تو سنو۔! مہرل شاہ اور مہر سکندر کے قتل کا بدلہ تم سے اس لئے نہیں لیا گیاکہ کچھ بیرونی طاقتوں نے انہیں روک دیا۔ کچھ سیاست دان ہیں جو ان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ گولڈ کا تو بہانہ تھا۔ اصل میں وہ تم اور تمہارے ساتھیوں تک پہنچنا چاہ رہے ہیں ۔
ان کا کوئی کام یہاں نہیں ہو پارہاہے اور اب وہ تم لوگوں تک پہنچ چکے ہیں۔“
” کون ہیں وہ لوگ؟“ بدر نے پوچھا
”بھارت سے تعلق رکھتے ہیں اور دبئی میں ان کا نیٹ ورک ہے۔ وہ زیادہ تر سیاست دانوں میں کام کر رہے ہیں۔“ سالار نے کہا تو اچانک جسپال نے اونچی آواز میں بولا
” بدر ، زیادہ باتیں نہیں کرو۔ نکلو یہاں سے، ہم اب بھی محفوظ نہیں۔
وہ لوگ ہمیں گھیر سکتے ہیں۔“
” تمہارا یہ بندہ بہت سمجھدار ہے ۔لیکن ایسی سمجھداری کی کیا اوقات ، جو بعد میں آئے ۔ تم لوگ اب تک گھیرے جا چکے ہو۔ میں نے پہلے ہی ہر طرح سے تم لوگوں کا بندوبست کر دیا تھا ۔ “ یہ کہہ کر سالار نے زودار قہقہہ لگایا ۔ اسی لمحے تانی نے اپنا پسٹل سیدھا کیا اور سالار کے سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ اسی کے ساتھ ہر طرف سے فائرنگ ہوئی اور درمیان میں کھڑا سالار کا ہربندہ گرتا چلا گیا۔
جسپال کا شک درست تھا۔وہ لوگ جو انہیں گھیرنے والے تھے،ان سے کچھ فاصلے پر ہی تھے۔ اسٹیمر کے تباہ ہوتے ہی وہ لوگ حرکت میں آچکے تھے۔ گڈانی کا علاقہ ان کے لئے جال ثابت ہو سکتا تھا۔اب یہاں سے نکلنا ہی ان کے لئے سب سے اہم مسئلہ تھا۔ اسی علاقے میں تانی کے ساتھ منسلک کچھ لوگ تھے، جو یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں یہ اطلاع تانی کو دے دی تھی۔
یہ اطلاع پاتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
” بولو۔! کیا کرنا ہے اب، نکل چلیں یا ان کا مقابلہ کرنا ہے۔“ تانی نے پوچھا
” یہ فیصلہ تم نے کرنا ہے۔“ جسپال نے کہا تو اس نے اگلے ہی لمحے کہا
”چلو۔! نکلتے ہیں۔ خواہ مخواہ الجھنے کی ضرورت نہیں۔ بعد میں دیکھتے ہیں۔“
انہوں نے پلان طے کیا اور واپس سمندر کی جانب چل پڑے۔
وہ زمینی راستے کی بجائے سمندری ساحل کے ساتھ کراچی کی طرف جانا چاہتے تھے۔ وہ تینوں موٹر بوٹ میں بیٹھے تو ان کے ساتھی گاڑیاں وہاں چھوڑ کر اندھیرے میں نکل گئے۔
گہرا اندھیرا، نم دار تیزہوا اور ساحل کے ساتھ سفر کرتے کرتے وہ کافی دور نکل آئے تھے۔ ان کے درمیان خاموشی تھی۔ ان کی ساری توجہ وہاں سے نکل جانے میں تھی۔ رات کا تیسرا پہر ختم ہونے کو تھا جب وہ ایک ویران علاقے میں آ کر رکے اور ساحل کے ساتھ بوٹ روک دی گئی۔
وہ بوٹ سے اتر کر خشک جگہ آ گئے۔سامنے مٹی اور سرکنڈوں سے بنی جھونپڑیاں تھیں۔ وہ اس جانب بڑھ گئے۔ وہاں ہر جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ محتاط انداز میں آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اچانک ان کے سامنے دو لڑکے آ کر رُک گئے۔ وہ بدر کے آدمی ہی تھے۔ انہیں پہچان کر بدر بولا
” ہاں کہو، کیسی صورت حال ہے یہاں؟“
” ٹھیک ہے بھائی، اگر ابھی نکلنا ہے تو ایک چھوٹی گاڑی حاضر ہے ،صبح تک تو بہت کچھ بندو بست ہو سکتا ہے ۔
“ ایک لڑکے نے آہستہ آواز میں کہا تو بدر نے پوچھا
” دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ،تم بتاؤ، یہاں ارد گرد کوئی ایسے لوگ جو اجنبی ہوں، یا ایسا ماحول جس میں کوئی مشکوک …“
” تھے ایسے لوگ ، اور وہ اب بھی ہیں۔ کافی ہلچل ہے ماحول میں بھائی۔“
” کتنے لوگ ہوں گے وہ سب ؟“ بدر نے پوچھا
” آپ ابھی ان کے بارے میں مت سوچیں۔ ماحول کافی سخت ہے، پولیس بھی ہے اُن کے ساتھ۔
اب پتہ نہیں وہ جعلی پولیس ہے یا…“ اسی لڑکے نے کہتے ہوئے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”یہاں کوئی جگہ ہے کچھ دیر تک رہنے کے لئے ؟“ بدر نے پوچھا
” بہت،آپ آئیں تو سہی ۔“ اسی لڑکے نے کہا تو وہ ان کے ساتھ چل دئیے۔ وہ لڑکے انہیں ایک جھونپڑی میں لے گئے ، جہاں زمین پر دری نما رَلّی بچھی ہوئی تھی۔ وہ اس پر بیٹھ گئے تو وہ لڑکا بھنی ہوئی مچھلی کے ساتھ تنوری روٹیاں لے آیا۔
وہ برتن ان کے سامنے رکھتے ہوئے بولا
” ہیں تو یہ ٹھنڈی۔ اگر کہیں تو گرم کر لاتا ہوں۔ ویسے کچھ دیر بعد گرما گرم چائے ضرور مل جائے گی۔“
” چل لا یار، یہ پیٹ کا دوزخ تو بھریں۔“ جسپال نے کہا اور روٹیاں اپنے آگے رکھ لیں۔ جب تک انہوں نے کھانا کھایا، وہ لڑکا چائے لے آیا۔ وہ تینوں پینے لگے تو وہ لڑکا باہر چلا گیا۔ تانی کو وہ چائے اچھی نہیں لگی تھی اس لئے اُس نے پیالی ویسے ہی رہنے دی۔
وہ چائے پی کر تھوڑا تازہ دم ہوئے تو تانی نے سیدھا لیٹتے ہوئے پوچھا
” بدر ۔! تمہارا فون کام کر رہا ہے یہاں؟“
” ہاں کر رہا ہے۔ کیوں؟“
”میرا خیال ہے کہ یہ جو ہمارے ارد گرد ماحول بنا ہوا ہے اسے ختم نہ کر دیں؟“ تانی نے عجیب سے لہجے میں کہا تو بدر نے پوچھا
” تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟“
” یہی کہ جو لوگ ہمیں پکڑنا چاہتے ہیں، انہی پر وار کر دیں۔
“ اس نے سکون سے کہا تو جسپال تیزی سے بولا
” نہیں ، میں تمہاری بات سے اتفاق نہیں کرتا ، ہمیں بہر حال یہاں سے نکلنا ہے ۔ اب یہاں کے معا ملات بدر خود جانے۔ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے ۔“
” مجھے اب نئے سرے سے سارا سیٹ اپ کرنا پڑے گا۔ میں مانتا ہوں کہ میں روہی والوں کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔“
” بس ٹھیک ہے ۔ تو پھر فون کرو، ہمارے لئے پہلی فلائٹ سے ٹکٹیں بُک کروا لو ۔ ہمیں بھی اب نور نگر ہی جانا ہے۔“
” تو نکلیں پھر؟“ بدر نے ایک دم سے کہا تو وہ دونوں اُٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ایک چھوٹی کار سے کراچی شہر کی طرف گامزن تھے۔ صبح کا نور چاروں جانب پھیل گیاتھا، جب وہ واپس بنگلے میں پہنچ گئے۔
#…#…#