Episode 81 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 81 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

میں اور سوہنی چھت پر کھڑے دور اندھیرے میں گھور رہے تھے۔ میں اس سے پہلے آ گیاتھا۔ کچھ دیر بعد وہ میرے ساتھ آ کر کھڑی ہوگئی، شاید میرے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ میرے چہرے ہی پر دیکھ رہی تھی۔
” اتنی بڑی تبدیلی کی وجہ پوچھ سکتا ہوں سوہنی؟“
” میں نے بہت سوچا ہے جمال، تم ٹھیک ہو اور میں غلط تھی۔
زندگی کا تو کوئی بھروسہ نہیں ہے ، ابھی ہے، ابھی نہیں ہوگی ۔ کون اس بارے حتمی بات کر سکتا ہے ۔ جس دن میں تمہیں ان راستوں سے لوٹ آنے کا کہہ رہی تھی ، ضد کر رہی تھی تم سے ، اس وقت مجھے ادراک نہیں تھا کہ سانپ تو سانپ ہی ہوتا ہے ، اس کا بچہ بھی سانپ ہی ہوتا ہے۔“
” کہیں تم شاہ زیب کی بات تو نہیں کر رہی ہو؟“ میں نے تیزی سے پوچھا
” میں وقاص پیرزادہ کی بات کر رہی ہوں۔

(جاری ہے)

وہ محض دشمنوں ہی سے نہیں ملا ، بلکہ اپنی قوت بڑھانے کے لئے اس نے نجانے کن کن لوگوں سے ساز باز کر لی ہے ۔ اس کا پہلا ٹارگٹ میں ہوں۔ اب یہ مت سمجھنا کہ جب مجھ پر پڑی ہے تو میں تمہیں اس کے خلاف اکسا رہی ہوں۔ بلکہ…“
” اصل بات بتاؤ، کہانیاں چھوڑو۔“ میں نے اکتا کر اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تووہ بولی
” یہ پیرزادہ وقاص اورچوہدری شاہنواز بہت عرصے سے گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہیں۔
اس کا تمہیں علم ہی ہوگا۔ شاہنواز جب سے خفیہ والوں کے ہتھے چڑھا ہے، وقاص نے اپنا راستہ بدل لیا۔ وہ ایک طرف خود بھارتی لوگوں کی مدد کر رہا ہے تو دوسری جانب یہاں پر بھارتی لوگوں کا نیٹ ورک اس کے ساتھ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاہ زیب اور ملک سجاد نے بھی اس کے ساتھ دوستی کر لی ہے۔“
” یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے سوہنی ، ایسا انہوں نے کرنا ہی تھا، لیکن تم ان کا ٹارگٹ کیسے ہو؟ یہ بتاؤ۔
“ میں نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد بولی
” میں نے تعلیم کے ذریعے لوگوں میں شعور پھیلانے کی مہم کا جیسے ہی آغاز کیا تو یہاں پر میری زبردست مخالفت ہوئی ہے۔ پہلے تو میں سمجھ ہی نہیں سکی ۔ لیکن بعد میں مجھے پتہ چلا کہ پورے علاقے کے وہ شہ زور جو یہاں میلے میں میدان جیتتے رہے ہیں۔ وہ اب پیرزادہ وقاص کے ذاتی ملازم ہیں اور اسی کی ایماء پر یہاں کے بہت سارے لوگ بھی ایسی تعلیم کی مخالفت کررہے ہیں ، جو یہاں کے سر کردہ ہیں۔
وہ اس تعلیم کو مذہب کے خلاف کہہ رہے ہیں۔“ 
” تمہارے نصاب میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے ، جس سے وہ …“ میں نے پوچھا
” نہیں ایسی کوئی بات نہیں، بلکہ میں نے تو صرف ایک بات کو، بلکہ ایک آیت کریمہ کو سامنے رکھا ہے اور وہ ہے ۔’ تم اپنے رَبّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘ میرا سارا نصاب اسی بات پر ہے۔“
” تو پھر میں دیکھ لوں گا سب کو ۔
ایک صرف ہمارا دین ہے جس میں عورت اور مرد دونوں پر تعلیم فرض قرار دی گئی ہے۔ جتنا حق کسی مرد کا ہے اتنا ہی کسی عورت کا حق بھی ہے ۔ تم گھبراؤ مت ، تیرا اور میرا دشمن ایک ہی ہے ۔“ میں نے اسے حوصلہ دیا
” علاقے میں منفی پروپیگنڈا پھیل رہا ہے ۔“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے بتایا 
” یہ منافق لوگوں کا ہتھیار ہے ، انہیں سے بچنا ہے، لیکن جب سامنے حق آ جاتا ہے تو یہ لوگ کسی خارش زدہ چوہے کی مانند چھپ جاتے ہیں۔
حوصلہ اور اپنی نیت درست رکھو۔ رَبّ تعالی ہمارے ساتھ ہے ۔“
” اب مجھے حوصلہ آ گیا ہے اور جمال میں محسوس کر رہی ہوں کہ رَبّ میرے ساتھ ہے۔ “ اس نے جذب سے کہا تو میں اس کے چہرے پردیکھتا رہ گیا ، تبھی اس نے یوں کہا جیسے اسے یاد آ گیا ہو،” سارہ ، اس کا بیٹامراد اور سسر یہاں پر ہیں۔میں نے انہیں حویلی میں رکھا۔ ان کے بارے میں کیا ارادہ ہے۔
” میں سمجھا نہیں، تم کہنا کیا چاہتی ہو؟“ میں نے واقعتا کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا
” وہ بہت بڑی دولت اپنے ساتھ لے کر آئی ہے ۔ دو دن ہوئے وہ یہاں کے بارے باتیں پوچھتی رہی تھی ۔ یہاں کا سارا سیٹ اپ اس نے دیکھا تو اس نے اپنی ساری دولت اس سیٹ اپ میں لگانے کے لئے میرے سامنے ڈھیر کردی ۔ اور اس نے یہیں رہنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
” نہیں۔! وہ دولت ہماری نہیں ہے۔اور میرے خیال میں وہ یہاں رہ بھی نہیں سکے گی۔ خواہش اور فیصلے میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔ بس اس کی دل آزاری نہیں ہونی چاہئے۔ اسے بہت عزت اور احترام دینا۔“ میں نے اسے سمجھایا تو بولی 
”جیسے تم کہو۔“ 
اس نے کہا تو ہم میں خاموشی چھا گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے ایسے ہی تنہائی کے لمحوں میں وہ میرے ساتھ لگ کر سکون محسوس کیا کرتی تھی۔
آج اس نے میرے وجود کے لمس کی ضرروت محسوس نہیں کی تھی۔ مجھ سے فاصلے پر ہی کھڑی رہی۔ کچھ لمحے یونہی گذر گئے تو میں نے کہا 
 آؤ چلیں، مجھے چھاکے سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ “ میں نے کہا اور واپس مڑ گیا۔ وہ بھی میرے پیچھے آگئی۔ ہم دونوں چھت پر سے نیچے آ گئے۔ 
چھاکا باہر والے کمرے میں ، میرا انتظار کر رہا تھا۔ وہ چار پائی پر لیٹا ہوا تھا۔
مجھے دیکھ کر میری جانب کروٹ لے لی ، میں نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا
” چھاکے ، اپنے علاقے کی صورت حال کیا ہے؟،کچھ پتہ بھی ہے یا …“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ وہ چند لمحے خاموش رہا ، پھر دھیرے سے بولا
” پتہ ہے، سب پتہ ہے، اگر شاہنواز پکڑا گیاہے تو اس کے حواری کیا چُپ بیٹھے ہوں گے۔ وہ پہلے سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔
تمہارے خلاف اس قدر زہر اگلا جا رہاہے کہ لوگ تم پر اعتماد ہی نہ کریں۔ اور اس وقت اس کا سب سے زیادہ فائدہ پیر زادہ وقاص لے رہا ہے۔“
” کیا کر رہا ہے وہ ؟“ میں نے پوچھا
” چوہدری شاہ دین اور چوہدری شاہ نواز کو وہ اس علاقے کا نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہا ہے اور تجھے ڈاکو ، جو عزت دار لوگوں سے ان کی حیثیت چھین رہا ہے ۔ قاتل ، چور اور ڈاکو، جو اس علاقے پر غنڈہ گردی سے حکومت کرنا چاہتا ہے ۔
اور بس۔“ یہ کہتے ہوئے اس کا لہجہ بڑا عجیب ہو رہا تھا ، جیسے یہ سب کہتے ہوئے اسے بہت دکھ ہو رہا ہو۔ 
” یہ تو ہوتا ہی ہے ، مخالف پھول برسانے سے تو رہے ، وہ تو آگ ہی اگلیں گے ۔ خیر تم اس کو اپنے ذہن پر مت سوار کرنا ۔“ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تو وہ بولا
” ایک اور بڑا کھیل دکھا رہا ہے وہ ۔ ایک پیر صاحب نجانے کہاں سے لایا ہے ، وہ لوگوں میں عجیب باتیں کر رہا ہے ۔
انہیں خوف زدہ کرکے نجانے کس دین کی تبلیغ کر رہا ہے ۔“ وہ میری طرف دیکھ کر بولا تو میں ہنس دیا۔
” ایسا ہو تا ہے ، ہمارے ہاں ابھی بہت سارے لوگ ضیف العتقاد ہیں۔ ایسے لوگوں کی باتوں میں زیادہ آ جاتے ہیں۔ کہا نا تم فکر نہ کر و۔ رَبّ تعالی بہتر کرے گا۔“
” تم آگئے ہو نا ۔ یہ بات انہیں معلوم ہو گئی ہو گی ، اور تم بچ جانا ، وہ سیدھے سبھاؤ تم سے مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ کوئی سازش بنائیں گے ، دھیان رکھنا۔
“ اس نے تیزی سے یوں کہا جیسے یہ بات اسے ابھی یاد آئی ہو۔ میں چند لمحے سوچتا رہا پھر اسے سو جانے کا کہہ کر باہر والے کمرے سے اندر آ گیا۔میں نے سوچ لیا تھا کہ اب ان کے ساتھ کیا کرنا ہے ۔
 اگلی صبح میں ، جسپال اور تانی ڈیرے پر چلے گئے۔ بھیدے نے پہلے سے کہیں زیادہ مویشی پال لیے تھے۔ چھاکا اس کے ساتھ کاروبار کرنے لگا تھا۔ ہم وہاں دھری ہوئی چار پائیوں پر جا کر بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔
میں بھیدے سے وہاں کا حال احوال لے رہا تھا کہ باہر گیٹ پر ایک کار آ کر رکی ۔ چند لمحوں بعد علاقے کے وہ معززین اندر آگئے جو ہر سال میلہ منعقد کرواتے تھے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ وہ میرے پاس یوں آئے تھے۔ میں نے انہیں احترام سے بٹھایا اور تپاک سے ملا۔ وہ سات لوگ تھے۔ بھیدے کو مزید چارپائیاں نکال کر لانا پڑیں۔ وہ سب بیٹھ گئے، حال احوال بھی ہو گیا تو ان میں سے ایک بزرگ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔
” بیٹا۔! ہم سب علاقے کے بزرگ تیرے پاس خود چل کرآئے ہیں ۔تم سے ایک درخواست کرنا تھی ، اگر تم قبول کر لو تو۔“
” آپ کیسی بات کر رہے ہیں، آپ اپنے آپ کو میرا بزرگ بھی کہہ رہے ہیں اور ایسی بات بھی ، میں سمجھا نہیں یہ کیا ہے؟“ میں نے الجھتے ہوئے کہا
” دیکھو۔! نجانے کب سے ہر سال مسافر شاہ کے میدان میں میلہ لگتا آ رہا ہے ۔ لیکن پچھلے سال نہیں لگا۔
اس کی وجہ تم بھی جانتے ہو۔ اسی وجہ سے درخواست کرنا پڑرہی ہے ۔“ اس بزرگ نے اپنا لہجہ حد درجہ مودبانہ بناتے ہوئے کہا تو مجھے بڑا عجیب لگا۔ ایک طرح سے میں بات تو سمجھ گیا تھا لیکن ان سے پوری بات کہلوانے کے لئے میں نے کہا
” میں اب بھی نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور میں بھی نہیں جانتا کہ پچھلے برس میلہ کیوں نہیں لگا تھا۔
” تم ہی تھے بیٹے ، جس کی فائرنگ نے میلہ اُجاڑ دیا تھا۔پتہ ہے چار بندے مرے تھے پیرزادہ وقاص کے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تو اب یاد بھی نہیں ہے۔ سارے تم سے ڈرتے ہیں، اور پھر اس میں ناچنے والی وہ لڑکی تیرے گھر آگئی، جس کی وجہ سے چوہدری شاہ دین کے ساتھ تمہاری مخالفت چلی ، ایسے میں میلہ بھلاکیا لگتا ۔ چوہدری شاہ دین بھی گیا، اور اس کا بیٹا بھی ،جسے تم نے یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
یہی لوگ تو ہوتے تھے میلہ لگوانے والے ۔ اب وہ نہیں تھے ، ایک تمہارا ڈر تھا ، میلہ کیسے لگتا؟“
” آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میلہ میرے ڈر کی وجہ سے نہیں لگتا ۔ اور اب چوہدری نہیں ہیں تو میلہ نہیں لگتا۔ یہی بات ہے ؟“ میں نے تصدیق چاہی تو اس بزرگ نے سر ہلا کر کہا
” ہاں ، میں نے یہی کہا ہے ۔“
” کیا میں نے کسی کو روکا میلہ لگانے سے ؟ اس معاملے میں کسی سے بات ہوئی ؟“ میں نے پوچھا
” نہیں ، چاہیے نہ ہوئی ہو ، لوگ تو تمہارے نام سے کانپتے ہیں۔
ایسے میں میلہ کہاں لگے گا اور پھر بیٹا چوہدری کی حویلی پر اب وہ سوہنی مائی کا قبضہ ہے ، اس لئے…“ بزرگ نے کہنا چاہا تو میں نے ٹوکتے ہوئے کہا 
” بزرگو۔! اس نے قبضہ نہیں کیا ، اپنا حق لے بیٹھی ہے وہ۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ سوہنی مائی ، اسی شاہ دین کی بیٹی ہے ۔ اس کا اپنے باپ شاہ دین کے ساتھ جھگڑا تھا ،میرا نہیں تھا۔ شاہ زیب اپنے کرتوتوں کی وجہ سے دربدر ہے ، کسی کے خوف سے نہیں۔
“ میں نے کہا تو ایک دوسرے بزرگ نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا
” چلیں ہم تمہاری بات مان لیتے ہیں۔ اور مانے بغیر ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اور پھر ہم یہاں بحث تو کرنے آئے نہیں، سیدھے سیدھے تم سے بات کرنے آئے ہیں کہ ہم میلہ لگوا لیں؟“
” میں کون ہوتا ہوں اجازت دینے والا، کیا پہلے میری اجازت سے میلہ لگتاتھا ؟“ میں نے بات کو کسی حد تک سمجھتے ہوئے کہا ۔
بڑا اوچھاوار کیا تھا مجھ پر ۔ بلاشبہ وہ بہت سوچ سمجھ کر آئے تھے۔
” دیکھو ، بات پھر وہیں آ جائے گی کہ پچھلے میلے میں تمہاری وجہ سے…“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا
” کیا میں نے ہنگامہ کیا تھا؟ میں نے پیرزادہ وقاص سے کہا تھاکہ وہ اپنے بندوں کو ہتھیار دے کر وہاں لائے اور ہنگامہ کرے ۔ “
” تم بھی تو ہتھیار لے کرآئے تھے بیٹا۔“ تیسرے نے کہا
” تو آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط