Episode 83 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 83 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” تیری کہانی اسی میدان سے شروع ہوئی تھی۔یہ میرے پیروں تلے جو جگہ ہے یہ اسی وقت مخصوص کر لی گئی تھی۔یہ کیوں مخصوص ہوئی ۔یہ تجھے وقت بتائے گا، لیکن تمہاری کہانی یہیں سے شروع ہوئی تھی، یہ ایک حقیقت ہے۔“
”کیسے بابا جی ، میری کیا کہانی ہے ۔کیسے شروع ہوئی تھی یہ ۔اس جگہ کا اس سے کیا تعلق ہے؟“ میں نے پوچھا تو پہلی بار بابا جی جسپال سے مخاطب ہوئے ۔
” جسپال۔!تم جانتے ہو کہ تم بھی اس جمال سے کچھ تعلق رکھتے ہو؟“
” تم دونوں ایک دوسرے سے بہت ساری باتیں کر چکے ہو ۔ لیکن کبھی یہ احساس نہیں کیا کہ جب جمال حرکت میں آیا تو تم بھی اس وقت بھارت میں آ کر اس چکر ویو میں پڑ گئے تھے۔ تم دونوں کی کہانی ساتھ ساتھ کیوں ہے۔ اکٹھے روہی کیوں پہنچے؟ یہ تم نے ابھی نہیں سوچا۔

(جاری ہے)

مگر آج سے نہ صرف تم سوچو گے بلکہ سمجھ بھی جاؤ گے۔

جمال کیا ہے ،یہ بھی سمجھ جائے گا۔“
” آپ بتائیں گے نا بابا جی ؟“ میں نے کہا تو وہ اپنی بھاری آواز میں بولے 
” میں نہیں ،وقت تمہیں بتائے گا۔اپنا رُخ میدان کی جانب کر لو۔ اور ادھر غور سے دیکھو۔ وقت پلٹ کر اپنا آپ تمہیں دکھانے آ رہا ہے ۔ اس میں کیا ہوا ، وہ سوچنا اور اس سے اخذ کرنا یہ تم دونو ں پر منحصر ہے۔ پلٹ جاؤ اور بدلتے منظروں کو دیکھتے رہو، سوال مت کرنا۔
“ انہوں نے گھمبیر آواز میں کہا تو ہم پلٹ گئے۔ 
ہماری سامنے اندھیرے میں ڈوبا ہوا میدان تھا۔ بس کہیں کہیں خار دار جھاڑیوں کا پتہ چل رہا تھا۔ اس سے آگے ہم دیکھنے سے بے بس تھے۔ اچانک ہمارے سامنے کا منظر بدل گیا۔ رات کا اندھیرا غائب ہوگیااور اس کی جگہ دن کا اجالا آگیا تھا۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا صحرا تھا۔ جس کے درمیان میں ایک چٹیل میدان تھا اور اس پر لوگ ہی لوگ تھے۔
ہمارے سامنے میلہ جاگ اٹھا تھا۔ 
میلے کے آخری دن کا میدان سج چکا تھا۔ دوپہر ڈھلنے کے ساتھ ہی علاقے بھر سے آئے ہوئے لوگ ایک بڑے دائرے میں کھڑے تھے۔ اسی دائرے میں جاگیرداروں،زمینداروں اور میلے کے منتظمین کے الگ الگ جگہوں پر شامیانے لگے ہوئے تھے۔ وہ سبھی اپنے اپنے لوگوں کے ساتھ کرسیوں پر براجمان تھے۔ انہی کے درمیان ان کے شہہ زور بھی تھے، جو مقابلے کے لئے آئے ہوئے تھے۔
یوں دکھائی دے رہا تھا کہ جیسے ہرعلاقے کا بااثر آدمی میدان سے باہر مقابلے کے لئے موجود ہے۔ اس وقت لوگوں میں عام تاثر یہی تھا کہ مقابلہ تو رام گڑھ والوں نے جیت ہی لینا ہے۔ مگر تجسس یہ تھا کہ ان کے مقابلے میں آنے والا وہ کون سا شہہ زور ہے، جس نے اتنا حوصلہ کر لیا۔ کس نے یہ ہمت کی ہے کہ ان کے سامنے مقابلے لئے اُترے۔ 
تماشائیوں کی بڑی تعداد نعرے بازی کر رہی تھی۔
ان میں سب سے زیادہ شور رام گڑھ والوں ہی کاتھا۔ان سب کے درمیان ٹھاکر رام دیال رائے تنی ہوئی مونچھوں اور چڑھی ہوئی خمار آلود آنکھوں سے میدان کو دیکھ رہا تھا۔ اس کا یہ خمار یونہی نہیں تھا۔ وہ کئی برسوں سے یہ مقابلہ جیتتا آ رہا تھا۔ جس کے لئے ہر طرح کی تیاری بڑے اہتمام سے ہوا کرتی تھی۔ جس کی وہ خود نگرانی کیا کرتا تھا۔
میلے کے لئے رام گڑھ سے نکلنے والی سج دھج ہی نرالی ہوا کرتی تھی۔
ٹھاکر رام دیال رائے بڑے شوق اور اہتمام سے میلے میں شریک ہونے کے لئے آتا تھا۔ چاندی کی زین والے گھوڑے پر سوار وہ سب سے آگے ہوتا، اس کے پیچھے رام گڑھ والوں کا قافلہ ہو تا تھا۔ باجے گاجے کے ساتھ وہ یوں نکلتے جیسے کسی جنگ کے لئے جا رہے ہوں۔
صحرا کے درمیان موجود اس چٹیل میدان میں تین دن تک خوب رونق رہتی۔ یوں لگتا جیسے وہاں پر کوئی بستی اُگ آئی ہو۔
ٹیلے آباد ہو جاتے۔ وہاں خیمے لگ جاتے۔ خرید و فروخت کے لئے میدان کے ایک جانب دُکانیں سج جاتیں۔ جا بہ جا ناچنے والوں کی منڈلیاں لگ جاتیں۔ جادو گری اور شعبدے بازی کے کمالات دکھانے والے ، عورتوں کے سنگھار اور بچوں کے کھلونے بیچنے والے ، مختلف بھگونواں کی مورتیاں اورتصویریں فروخت کرنے والے، طوائفیں ، حکیم، سنیاسی، پتھر نگینے بیچنے اور نوٹنکی والے بھی آ جاتے۔
چھوٹے موٹے نوسر باز، چور اور ٹھگی لگانے والی بھی موجود ہوتے۔ اس میلے میں تفریح کے ساتھ مویشیوں کی نمائش بھی ہوتی۔ تین دن میں جہاں دوردراز کے لوگوں کو آپس میں ملنے کا موقعہ ملتا، وہاں ہر طرح کے مقابلے ہوتے۔ وہاں اسی میلے میں پتہ چلتا کہ کس علاقے میں کون ، کتناشہہ زور ہے۔ ان شہہ زورں کے مقابلے ہی میں ان شہہ زوروں کی طاقت کا اندازہ ہوتا، وہاں ان شوقین جاگیرداروں اور زمینداروں کے بارے میں معلوم ہوجاتا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔
کیونکہ ان میں بعض ایسے مقابلے تھے، جن کی سر پرستی زر کثیر خرچ کر نے ہی سے ہوسکتی تھی ۔ شہہ زوروں کے ان مقابلوں سے نہ صرف اُن کے شوق کا پتہ چلتا تھا بلکہ علاقے پر اپنی دھاک بٹھانا بھی مقصد ہوتا تھا۔ طاقت کے اس اظہار کی خواہش کی وجہ سے ان مقابلوں کی تیاری کے لئے محنت ، زر اور وقت خرچ کیا جاتاتھا۔ عوام کی بھی سب سے زیادہ دلچسپی اسی میدان میں دیکھنے کو ملتی ، جہاں شہہ زور اپنی طاقت اور مہارت دکھاتے تھے۔
تین دن تک میدان میں مختلف مقابلوں میں ہار جیت چلتی رہتی تھی۔ یہاں تک کہ تیسرے دن کی دوپہر کے بعد آخری مقابلہ شمشیر زنی کا ہوا کرتا تھا۔ جو اس میدان کا سب سے بڑا، سب سے سنسنی خیز اور دل ہلا دینے والا مقابلہ ہوتا تھا۔ بڑے بڑے شہہ زور یہاں سے ساری زندگی کے لئے اپاہج ہو کر گئے تھے۔ کئی شہہ زوروں کی تو یہیں موت ہوگئی تھی۔
 ٹھاکر رام دیال رائے، کی اسی شمشیر زنی کے مقابلے میں سبب سے زیادہ دلچسپی ہوا کرتی تھی۔
یہ دلچسپی اسے اپنے سورگ باشی پِتّی سے وراثت میں ملی تھی۔ اسی میدان میں اس نے بھی اپنی طاقت اور مہارت کا کئی بار مظاہرہ کیا تھا۔پھر بعد میں اس نے خود شمشیر زن نوجوان تیار کئے۔ وہ سارا سال ان پر بے تحاشا دولت لٹاتا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ رام گڑھ والے کبھی شکست نہیں کھاتے تھے۔ ہر برس علاقے میں سے کوئی نہ کوئی شہہ زور مقابلے پر آتا، شکست کے ساتھ ساری زندگی کے لئے اپاہج ہو جاتا۔
حریفوں نے بڑی محنت کی ہوتی تھی مگر جیت ان کا مقدر نہ بن سکتی تھی۔ یوں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ شمشیر زنی کے مقابلے میں رام گڑھ والوں سے کوئی بھی مقابلہ نہیں جیتا جا سکتا۔ ٹھاکر رام دیال رائے اس پر نہ صرف فخر کرتا بلکہ اسے یہ زعم بھی تھا کہ وہ ناقابلِ شکست ہے۔
 اس بار اس نے بہت سوچ رکھا تھا۔ وہ اپنے اس ناقابلِ شکست ہونے کی حیثیت کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔
جیت جانے کا خمار بہت سارے لوگ کو پاگل کر دینے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ شکست کے اندر جیت اور جیت کے اندر ہار پڑی ہوتی ہے۔ بس اسے دیکھنے کے لئے نگاہ چاہئے۔
اس وقت میدان میں موجود ہرذی روح کا دورانِ خون تیز ہو گیا،جب منصفین میدان میں آگئے ۔ یہ مقابلہ شروع ہونے جانے کا علامت تھا۔ تماشائیوں کا شور بلند ہوا اور پھر آہستہ آہستہ خاموشی چھانے لگی۔
یہاں تک کہ جیسے آواز سلب ہو گئی ہو۔ بپھرا ہو اہجوم سماعت بن گیا۔ منصف میدان کے درمیان میں آگئے تھے۔ انہوں نے شہہ زوروں کو میدان میں آ کر مقابلہ کرنے کی دعوت دے دی۔ تبھی پورے ہجوم کی نگاہیں رام گڑھ والوں کی جانب اُٹھ گئیں۔یہی وہ خمار آلود لمحہ تھا، جس کا نشہ سارا سال رہتا تھا، اسی خمار میں ٹھاکر رام دیال رائے نے پورے کروفر کے ساتھ پورے پنڈال پر نگاہ دوڑائی۔
کوئی باہر نہ نکلا تو اس نے اپنے اس شہہ زور کو میدان میں جانے کا اشارہ کیا، جو اس کے اشارے کا منتظر تھا۔
شہہ زور تیزی سے میدان کی جانب لپکا۔ ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لہراتا ہوا ، بجرنگ بلی کی جے کے نعرے لگاتا ہوا، وہ اس مقام تک چلا گیا، جو میدان کے وسط میں تھا۔ وہیں منصف بھی کھڑے تھے۔ وہ شہہ زور اپنی چمکتی ہوئی تلوار اور نقش و نگار والی ڈھال کے ساتھ بجرنگ بلی کے نعرے لگاتا پورے پنڈال کو للکار رہا تھا۔
مگر اس کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں نکل رہا تھا۔ کسی طرف سے بھی کوئی شمشیر زن تلوار سونت کر مقابلے کے لئے میدان میں نہیں نکلا تھا۔ شہہ زور کی ہر للکار ٹھاکر رام دیال رائے کو ایسا نشہ دے رہے تھے۔ جو پرانی سے پرانی شراب بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کا نشہ وہی محسوس کر سکتا ہے ، جس نے ایسا احساس پایا ہو۔ اس نے بڑے غرور کے ساتھ اپنی دائیں مونچھ کو انگلیوں کی پور سے مسئلہ۔
فتح مندی کا نشہ سب نشوں پر بھاری ہوتا ہے۔ اوریہی لمحات اس کے دماغ کو خمار آلود کررہے تھے۔ 
پنڈال میں سے کوئی بھی باہر نہیںآ یا تھا۔ جبکہ اس مقابلے کے لئے اعلان پر اعلان کیا جا رہا تھا۔ ٹھاکر رام دیال رائے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوتی جا رہی تھی۔ کیونکہ اس کے دماغ پر فتح مندی کا نشہ چڑھتا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اسی خمار میں جھوم گیا۔
ایک طرح سے وہ پورا علاقہ اپنے نگیں کر چکا تھا۔ پورے علاقے نے یہ مان لیا تھا کہ رام گڑھ والوں سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میدان میں للکارنے والے شہہ زور کے ہر نعرے کے ساتھ ٹھاکر رام دیال رائے کا یہ احساس بڑھتا چلا جارہا تھا۔ پنڈال میں بھی یہ سرگوشیاں ہونے لگیں تھیں کہ اب ان کے مقابلے میں کوئی نہیں اُترے گا۔ دن ڈھل رہا تھا۔ ٹھاکر رام دیال رائے کی گردن مزید تن گئی تھی کہ کوئی بھی ان کے مقابلے میں نہیں اترے گا۔
اب فقط منصفین کی طرف سے فتح مندی کے رسمی اعلان ہونا تھا۔ایسا پہلی بار ہوا تھاکہ کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آیا تھا۔ انہی فتح مندی اور سنسنی خیز لمحات میں ٹھاکر رام دیال رائے نے دماغ میں موجود خیال کے اظہار کا فیصلہ کر لیا۔
پورے علاقے میں دھاک بٹھانے کا یہ سب سے بہترین موقعہ تھا۔ اس طرح ہمیشہ کے لئے یہ مقابلہ وہ اپنے نام کر لے گا۔
یوں پورے علاقے میں اس کے نام کا ڈنکا بج جائے گا بلکہ پھر جس سے جو چاہئے گا اپنی بات منوا لے گا۔ اس کے اندر کا راجپوت پوری طرح سے جاگ گیا تھا۔ تبھی وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ منصفوں نے بھی اس کی جانب دیکھا تو ٹھاکر رام دیال رائے نے کہنا شروع کیا۔ وہ جو کہہ رہا تھا، اس کی آواز کو اعلان کرنے والے پورے پنڈال تک پہنچا رہے تھے۔
” ٹھاکر رام دیال رائے کو اس بات پر افسوس ہو رہاہے کہ پورے علاقے کی جنتا میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو رام گڑھ کے شہہ زوروں سے مقابلہ کر سکے۔
ٹھاکر جی اعلان کرتے ہیں کہ چاہے کوئی ہار بھی جائے لیکن اس شہہ زور کا مقابلہ کرے تو اسے دُوگنا انعام دے دیا جائے گا۔“
اس اعلان کے ساتھ ہی پورے پنڈال میں بھنبھناہٹ شروع ہوگئی۔مگرکافی دیر تک کوئی بھی مقابلے کے لئے نہیں نکلا۔ تب ٹھاکر رام دیال رائے کی طرف سے اگلا اعلان کیا گیا۔
”اگر کوئی شہہ زور اس زعم میں نہیں نکلتا کہ اس کے ہاتھوں رام گڑھ کا شہ زور نہ مارا جائے تو یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ نہ ڈرے، اسے خون معاف ہوگا بلکہ فتح مندی کی صورت میں سو گنا انعام دیا جائے گا۔
یہ اعلان پورے پنڈال میں گونج گیا۔مگر حیرت یہ تھی کہ کوئی بھی میدان میں نہیں نکلا۔ ٹھاکر رام دیال رائے میدان مار لینے کے خمار میں جھومنے لگا۔ تبھی اس نے وہ اعلان کر دیا جس کے بارے میں اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔
” اگر کوئی شہہ زور مقابلہ کرنے کہ ہمت نہیں رکھتا تو پورا علاقہ یہ مان لے کہ ٹھاکر رام دیال رائے کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
یہ انہی کی شان ہے کہ وہ مقابلہ جیت کر جا رہے ہیں۔اب یہاں کبھی شمشیر زنی کا مقابلہ نہیں ہوگا۔ یہ جگہ جہاں یہ میلہ لگا ہوا ہے، اب ٹھاکر رام دیال رائے کی ملکیت ہے۔ تاکہ یاد رہے کہ یہ میدان ٹھاکر رام دیال رائے جیت چکے ہیں۔ اس اعلان کے بعد بھی اگر کسی میں ہمت اور جرات ہے، کسی کے خون میں جوش آیا ہے تو وہ سامنے آ سکتا ہے۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط