Episode 87 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 87 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

وہ سہانی شام بڑی دلکش تھی۔ مغربی اُفق پر جھکتا ہوا سورج اپنی طلائی کرنیں زمین پر نچھاور کر رہا تھا۔ گہرے نیلے آسمان پر تیرتے ہوئے سفید بادل بسنتی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ذرا دیر پہلے ساکت ہوجانے والی ہوا، یوں چل رہی تھی جیسے وہ خمار آلود ہو۔ موسم ِ بہار کے شروع میں جو بارشیں ہوئیں تھیں، انہوں نے رام گڑھ کے اس صحرائی علاقے کی فضا کو شفاف بنا دیا ہوا تھا۔
یوں پورے ماحول میں مست کر دینے والی سوندھی سوندھی مہک رچی ہوئی تھی۔ لہلہاتی فصلوں سے لیکر درختوں تک کے رنگ نکھرے ہوئے تھے۔ ایسی خوشگوار شام میں ٹھاکر دیال رائے اپنی شاہانہ بگھی میں سوار اپنی حویلی واپس آ رہا تھا۔ وہ میلے کی تیاریاں دیکھ کر واپس آ رہاتھا۔ وہ اس سہانی شام سے ضرور لطف اندوز ہوتا مگر اس کا دھیان اسے غافل کئے ہوئے تھا۔

(جاری ہے)


 میلے پر جانے کے لئے رام گڑھ کے لوگوں میں وہی جوش اور جذبہ تھا، جو ہمیشہ ہوتا تھا۔اگلی صبح سورج نکلتے ہی انہیں میلے میں جانے کے لئے رام گڑھ سے نکلنا تھا۔ اسی میدان کی جانب کوچ کرنا تھا،جس میں اس کی راجپوتی انّا کو کچل دیا گیا تھا۔میلے کی ہمیشہ کی طرح بھرپورتیاری بھی اس کے من میں تازگی نہیں بھر سکی تھی ۔ سارے جذبے ماند تھے ۔
سفید گھوڑوں کی بگھی اپنے راستوں پر چلی جا رہی تھی۔ بھانوو بگھی چلا رہا تھا۔ وہ بھی اپنے مالک کی کیفیت سے آشنا تھا، سو وہ خاموش تھا۔ صرف پرندوں کے اپنے گھونسلوں میں جانے کا شور تھا یا بگھی کا ، یہاں تک کہ وہ حویلی جا پہنچے۔
ٹھاکر دیال رائے ڈانوں ڈول کیفیت میں بگھی سے اترا اور حویلی کے اندر چلا گیا۔ اسے احساس ہوا کہ حویلی میں سناٹا ہے ۔
ہر طرف اور ہر وقت رہنے والی چہل پہل محسوس نہ ہوئی تو وہ چونک گیا۔ کیونکہ اسے پوری طرح احساس تھا کہ آج ضرور کچھ ہوگا۔ اسی لئے اسے سب سے پہلے اپنی پتنی جیوتیکا کا خیال آیا۔ وہ امید سے تھی اور یہی وہ دن تھے جب اس کی نسل کا وارث اس دنیا میں آنے والا تھا۔ وہ کون سا دن ہو سکتا تھا ، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ بس ٹھاکر دیال رائے کو قوی امید تھی کہ یہ چمتکار اسی دن ہوگا جب اسے میدان میں جانا ہوگا، ورنہ یہ سب کچھ غلط ہو جاتا۔
وہ ایک دم سے مضطرب ہو گیا۔ اس کے قدم تیزی سے زنان خانے کی جانب اٹھ گئے ۔
 جہازی پلنگ ، سفید ریشمی بستر پر دراز جیوتیکا کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے چہرے پر کرب پھیلا ہوا تھا۔ وہ درد کی اس کیفیت سے گذر رہی تھی، جس کے نتیجے میں کسی بھی عورت کو ماں جیسا اعلی مقام مل جاتا ہے۔۔ جیوتیکا کراہ رہی تھی۔ پاس کھڑی دائی جنداں اس کاہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے اسے مسلسل حوصلہ دے رہی تھی۔
ٹھاکر پر نگا ہ پڑتے ہی اس نے دھیرے سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ جس پر جیوتیکا نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کی خاص ملازمائیں رکمنی اور کانتا بھی دائی جنداں کے ساتھ باہر چلی گئیں۔ سترہ برس کی ناامیدی والی زندگی کے بعد جو چمتکار اس نے دیکھاتھا اور جس کی وجہ سے یہ دن اس کی زندگی میں آیا تھا۔ اس کی اہمیت کو وہ پوری طرح سمجھ گیا تھا۔میلے پرجانے کے دن ہی اس کی پتنی ایسی کیفیت میں آگئی تھی کہ وہ اسے چھوڑ کر نہیں جاسکا تھا۔
بظاہر وہ آزاد تھا، جا بھی سکتا تھا، اسے روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ مگر وہ محسوس کر رہا تھا کہ ان دیکھی زنجیریں اسے باندھ چکی ہیں۔ اس کا یقین پختہ ہو گیا۔ مرضی اسی شخص ہی کی چلنی ہے، جس نے اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس نے جیوتیکا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ سسکتے ہوئے بولی
” ناتھ…“
اس ایک لفظ میں نجانے کتنی امیدیں، خواہشیں، خوف ، آرزوئیں، اور تشنگی گھلی ہوئی تھی۔
ٹھاکر اس لہجے کا احساس کرکے پورے شریر سے کانپ گیا ۔ تبھی اس نے کہا
” دھیرج رکھو جیوتیکا، بھگوان تم پر بڑی دِیّا کرنے والا ہے ۔“
” پرنتو، مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ میرا جیون ہی میرا ساتھ چھوڑ رہا ہے ،ناتھ۔“ اس نے سسکتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ کرب کی انتہاؤں کو چھو رہی ہو ۔
” نہیں ، ایسا نہیں ہوگا، وشواس رکھو۔“ اس نے حوصلہ دیا تو وہ بولی 
” میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بھگوان مجھ پر اتنی دِیّا کرے گا۔
آپ کو تو پتہ ہے نا کہ ہم نے ان سترہ برسوں میں کتنا اذیت ناک وقت گذارا ہے ۔ اور…“ شاید وہ مزید کہتی لیکن درد کی لہر نے اسے مزید نہیں بولنے دیا۔ دائی جنداں فوراً ہی وہاںآ گئی۔ اس کے پیچھے ہی رکمنی اور کانتا تھی ۔ ٹھاکر نے ان کی طرف دیکھ کر کہا
” یہ کتنانازک وقت ہے، تم اچھی طرح جانتی ہو ۔ جس شے کی بھی ضروت ہو حاضر کی جائے ، کسی نے بھی غفلت کی تو اس کاانجام بہت برا ہوگا۔
“ یہ کہہ کر اس نے کانتا سے پوچھا 
” یہ حویلی میں اتنا سناٹا کیوں ہے ؟“
” مالکن نے حکم دیا ہے کہ اس گھڑی کسی کا سایہ نہ پر جائے ، شبھ سمے…“
” اچھا، ٹھیک ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اپنی خواب کی طرف چل دیا۔
 اس کا اضطرب بڑھ رہا تھا۔ اس کی سوچوں نے اسے خود سے بے گانہ کر دیا تھا۔جس طرح خود ٹھاکر نے اس شخص کو دیکھا تھا، اسی طرح دوسرے لوگوں نے بھی دیکھاتھا۔
ان کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا تھا۔ ٹھاکر ہی نے اس شخص سے بات کی تھی۔ اور وہ تیر کی صورت میں ایک حقیقت اس کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا تھا۔ اس شخص کے اپنے لہو میں ڈوبا ہوا تیر جو اب اس کی خواب میں سج چکا تھا۔ اس نے اپنی فتح اور شکست کی بات نہیں کی تھی ۔ ٹھاکر کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ آج یقین ہو گیا۔ تذبذب بھرے لوگوں نے جو دیکھا، وہ چھپا نہیں رہ سکا، حقیقت عیاں تھی ۔
دھیرے دھیرے یہ بات پھیلنے لگی کہ وہ شخص کوئی اوتار تھا ، بھگوان کا کوئی روپ تھا۔ افواہوں نے اسے نجانے کیا سے کیا بنا دیا ۔ جس معنی میں بھی ذکر کیا گیا، اسے ماورائے مخلوق ہی گردانا گیا۔ ٹھاکر نے ایک دن پنڈت چرن جی لعل سے پوچھا تھا۔ 
” پنڈت جی یہ بتاؤ ، کیا ایسی کوئی مخلوق ہو سکتی ہے ؟“
” کیوں نہیں ٹھاکر جی ، آتما کے کئی روپ ہوتے ہیں، اوش جو چاہئے سو کر سکتی ہے ، میرے انوسار وہ کوئی بھٹکی ہو ئی آتما تھی جو آپ کے ارادے نشٹ کرنے آئی تھی۔
اس کا اپائے بھی ہے ۔“
” وہ کیا؟“ ٹھاکر نے پوچھا تو پنڈت آتما ، بھینٹ ، پوجا اوربھگوان سے باہر نہیں آسکا۔ وہ تو بس یہ جان گیاتھاکہ جس دن اس نے اس مسلمان خاندان سے معافی مانگی تھی ، اس سے اگلے ہی دن اس کے حویلی میں سبزہ آ گیاتھا۔ جیوتیکا کی گود ہری ہوگئی تھی ۔ تبھی اس کے ذہن میں تھا کہ میرا غرور کدھر گیا؟ جس دن اس نے خود کو بے بس مخلوق مانا ، اس پر سبزہ آ گیا۔
اب اسے یقین آ گیا تھا۔ اس کی اپنی موت ہی اسے زندگی بخش رہی ہے ۔لاشعوری طور پر اس کی نگاہ دیوار پر ٹنگے تیر پہ پڑی۔ اس کی سوچ کا دھارا ہی بدل کر رہ گیا تھا۔ وہ اس شخص پر یقین کر چکا تھا۔ موت میں نہیں زندگی میں زندگی پڑی ہوئی ہے۔ یہ زندگی کیا ہے ؟ وہی سمجھتا ہے جو زندہ ہے۔
ٹھاکر انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس کا دروازہ یوں بجا جیسے کوئی دیوانہ دستک دے رہا ہو ۔
وہ باہر گیا تو رکمنی اپنی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لئے کھڑی تھی ۔ اسے دیکھتے ہی بولی 
” بدھائی ہو مالک، بھگوان نے آپ کو پتر دیا ہے ۔“
” بھگوان نے نہیں…“بے ساختہ اس نے بڑ بڑاتے ہوئے کہا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر جتنے بھی سونے کے سکے اس کے ہاتھ میںآ ئے اسے دے دئیے اور جیوتیکا کی خواب گا ہ کی جانب چل دیا۔
جیوتیکا کے چہرے پر خوشیوں کے گلاب کھلے ہوئے تھے۔
مامتا کاروپ ہی تقدس بھرا ہوتا ہے ۔ وہ جو کچھ دیر پہلے موت وحیات والی کیفیت میں مبتلا تھی۔ اب سکون سے آنکھیں موندے پڑی تھی ۔اس کے پہلو میں نوزئیدا بچہ پڑا تھا۔ دائی جنداں نے اسے اٹھایا اور ٹھاکر کی گود میں دے دیا۔ اس کالمس پاتے ہی ٹھاکر جیسے ہواؤں میں اڑنے لگا۔ نجانے کہاں سے فخر اس میںآ گیا تھا، ایک باپ بن جانے کا فخر جو غرور سے کہیں لذت آمیز تھا، اسے بھی احساس ہوا کہ وہ بھی اپنی نسل دے پایا ہے ۔
ایک زندگی سے نئی زندگی ۔ اس کا اپنا کوئی گمشدہ حصہ۔ گلابی رنگت، کھڑے نین نقش، گول مٹول سا ایک عام سا بچہ، جس نے انہیں مقام دے دیا تھا۔ وہ یقین اس کے ہاتھوں میں تھا، جو اس شخص نے اسے دیا تھا۔ 
سورج نکلنے سے پہلے تک رام گڑھ کے لوگوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ ٹھاکر دیال رائے کا وارث پیدا ہو چکا ہے۔ رام گڑھ پر ابھی اندھیرا چھایا ہوا تھا، مگر حویلی پوری طرح روشن تھی ۔
خوشی کے شادیانے بجنے لگے ۔ جس میں مندر کی بجنے والی گھنٹیاں زور دار آواز میں گھل مل گئی تھیں۔ بلا شبہ پنڈت چرن جی لعل کو معلوم ہو گیا تھا کہ حویلی کا وارث آ گیاہے۔ جس طرح یہ اطلاع رام گڑھ میں پھیلی ہر بندہ اپنی وفاداری جتانے حویلی کی جانب لپکا۔ہر چہرے پر خوشی تھی۔ ٹھاکر کے مردان خانے میں بدھائی دینے والوں کا تانتا بندھ گیا ۔حلوائیوں نے بھی وہیں آکر ڈیرہ جما لیا۔
اندھرا چھٹنے لگا اور سورج طلوع ہونے کی بسنتی روشنی مشرقی افق پر پھیل گئی۔
” ٹھاکر جی ۔! میلے پر جانے کا فیصلہ کیا ہے ؟“رام گڑھ کے باسی نے ٹھاکر سے سوال کیا تو وہاں موجود ہر بندے کی نگاہ ٹھاکر پر جم کر رہ گئی ۔ تب اس نے بڑے تحمل سے جواب کہا
” ایسے موقعہ پر جبکہ میری نسل کا وارث اس دنیا میں آیاہے، تو کیا مجھے اپنی خوشیاں چھوڑ کر میلے پر چلے جانا چاہیے؟“
” نہیں ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔
“ کئی لوگوں نے ہم نوا ہو کر کہا تو وہ بولا
” تو پھر سنو۔! میں نے ایک فیصلہ کیاہے ، مجھے پر یہ دِیّا ایسے وقت میں ہوئی جب میں میلے سے آ رہاتھا ، اور ابھی میلے ہی کا سمے ہے ۔کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اس لئے اب میں کبھی میلے پر نہیں جاؤں گا ۔ اور نہ کسی مقابلے میں حصہ لوں گا۔ رام گڑھ کی پَرجا اپنے طور پر جانا چاہئے ، مقابلوں میں حصہ لیناچاہئے تو میں نہیں روکوں گا۔ یہ ان کا حق ہے ۔“
” ٹھاکر جی یہ کیسا فیصلہ ہے ۔ یہ مقابلے ہمارے لئے کسی یدھ سے کم نہیں ہیں۔ اس طرح تو رام گڑھ والوں کی ناک کٹ کر رہ جائے گی ۔“ ایک جذباتی نوجوان نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تو اس نے تحمل سے جواب دیا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط