” جسے یہ احساس ہے وہ چلا جائے ۔ رہا ناک کٹنے کا مسئلہ، تو ایسی کوئی بات نہیں ہے ، بہت ہو چکا ۔ اب دوسروں کو موقعہ ملنا چاہئے ۔“ ٹھاکر کو یہ لفظ کہتے ہوئے خود ان کے کھوکھلے پن کا احساس ہو گیا تھا۔
” پھر بھی ٹھاکر جی ، آپ رام گڑھ کے لوگوں سے خود کو جدا نہیں رکھ سکتے ہیں۔“ ایک بزرگ بندے نے کہا تو وہ بولا
” میں کب ان سے الگ ہوں ۔
میں نے خود کبھی نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے ، پَرجا کو تو نہیں روکا۔ میں شہہ زوروں کی سرپرستی اسی طرح کرتا رہوں گا۔ میں آپ لوگوں سے الگ نہیں ہوں۔ اب بھی تم لوگ جو فیصلہ کرو میں اس کے مطابق ہی کروں گا۔“ اس نے تیزی سے کہا تو ایک بزرگ نے کہا
” نہیں، یہ ایسا وقت نہیں ہے۔ آپ نہ جاؤ، لیکن وہاں پر مقابلے کے لئے لوگ ضرور بھیجو، آپ آخری دن آ جانا۔
(جاری ہے)
یہ ہماری انا کا مسئلہ ہے ۔“
” تو ٹھیک ہے ، جیسا آپ لوگ چاہو۔“ ٹھاکر نے کہا اور پھر اس موضوع سے توجہ ہٹاتے ہوئے بولا،” رام گڑھ اور ارد گرد کی بستیوں میں یہ اعلان کروا دو کہ ہر کوئی تینوں وقت کا تین دن تک بھوجن حویلی میں کرے۔ ہر خاص و عام، ہر مذہب اور ہر ذات کا فرد اس دعوت میں آ سکتا ہے ۔“
یوں سورج نکلنے کے ساتھ ہی روشنی پھیلتی چلی گئی۔
میلے پر نہ جانے اورحویلی میں ہونے والی دعوت کے بارے میں اطلاع ہر جانب پھیل گئی۔
دوپہر ہونے والی تھی۔حویلی میں جشن کا سماں تھا۔ اتنی بڑی دعوت کے لئے بہت سارے لوگ موجود تھے۔ دالان سے لیکر باہر باغیچوں تک قالین بچھا دئیے گئے تھے۔لوگ آ کر ان پہ بیٹھتے جا رہے تھے۔ مگر۔! سب ایک جگہ نہیں بیٹھ رہے تھے۔ ہندو اپنی ذات پات کے انوسار مختلف ٹولیوں میں بیٹھے تھے۔
اور باقی مذاہب کے لوگ اپنے اپنے لوگوں میں۔ ایک ہی نگاہ میں دیکھا جا سکتا تھا کہ لوگ مذاہب کی بنیاد پر تقسیم ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں۔
حویلی کے بڑے دالان میں علاقے بھر سے آئے ہوئے معززین بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ سب ٹھاکر رام دیال رائے کو بدھائی یا مبارک باد دینے آئے تھے۔ دوسرا وہاں پر اس علاقے کا مہا پنڈت بھگوان داس آیا ہوا تھا ۔
وہ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ان سب کے دماغ میں یہی تھا کہ یہ کام نپٹا کر ہی میلے میں جایا جائے۔ اسی لئے وہاں پر سب موجود تھے۔ مہا پنڈت بھگوان داس پوری محویت سے پوجا میں مصروف تھا۔ بھگوان داس کے ساتھ کئی چیلے تھے۔ پنڈت چرن جی لعل بھی اس کا چیلا تھا۔ وہ سب اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ سبھی نے پیلے رنگ کی دھوتی پہنی ہوئی تھی ۔ اوپری ننگے بدن پر جینو ا اور پیلے چادر اوڑھی ہوئی تھی، جس پر سنسکرت میں لفظ کڑھے ہوئے تھے۔
بھگوان داس کی طرح سب کا سر منڈھا ہوا تھا اور چہرے پر کوئی بال نہیں تھا۔ بھگوان داس ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود مضبوط جسم کا مالک تھا۔ اس کے سامنے آگ روشن تھی ۔ جس کے آس پاس پھل ، میوے اور دوسری کھانے پینے کی اشیاء دھری ہوئیں تھیں۔ وہ زور زور سے اشلوک پڑھتا جا رہا تھا۔گاہے بگاہے آگ میں گھی ڈالتا جا رہا تھا۔ وہ نومولود کے لئے پوجا کر رہے تھے۔
معززین کی نگاہیں ان پنڈتوں پر تھی جو پرار تھنا کا ساانداز اپنائے ہوئے تھے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے پوجا ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔ جس کے ساتھ ہی دعوت عام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ابھی پوجا کا ایک حصہ رہتا تھا۔ جس کے مطابق مہا پنڈت نے نومولود کی جنم کنڈلی بنانے اور اس کے مطابق اس کا شبھ نام بھی رکھنا تھا۔
ہندو معاشرہ کوئی باقاعدہ مذہب یا مربوط نظام نہیں ہے ، جس میں انسانیت کی فلاح ہی مقدم ہو۔
بلکہ اس کی ایک تاریخ ہے کہ آریان نے مقامی مفتوح لوگوں اور اپنی قوم کو جکڑ کر رکھنے کے لئے رسومات کا سہارا لے کر ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جس میں انسان کی انسان پر حکومت سے جبر کا نظام وجود میں آ گیا۔ جس کے تلے آج تک انسانیت سسک رہی ہے ۔ آج کا ہندو معاشرہ اس کی گواہی خود پیش کرتا ہے، جو انسانی جبر کے بدترین دور سے گذر رہا ہے۔
ایسا اس لئے ہے کہ یہ کوئی الہامی مذہب نہیں بلکہ رسومات ، توہمات اور چند ایسے نظریات کی بنیاد رکھتا ہے ،جو وید بتاتے ہیں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ وید الہامی ہیں یا نہیں، یہ طے ہے کہ ان ویدوں کا ظہور اُن آریا لوگوں نے کیا جو یہاں کے مقامی باشندے نہیں تھے اور انہوں نے مقامی باشندوں کو غلام بنا کر جانوروں سے بھی زیادہ ذلیل کیا تھا، رسومات، توہمات اور چند نظریات کی بنیاد میں حالات و واقعات اور ماحول پر دسترس کی شدیدضرورت کے تحت، ہندو معاشرہ میں ان گنت افکار نے جنم لینا شروع کر دیا۔
جن میں ”شکتی کی پوجا اور خوف کا نفوذ“ شامل تھا۔ اس نظام نے انسان کو یوں جکڑ لیا جیسے آکٹوپس، جس نے وقت کے دریا میں زندگی کو جکڑ لیا۔ رسومات کی کوئی انتہا نہ رہی اور بڑھتے ہوئے توہمات نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا۔ نظریات نے مختلف افکار کا چوغہ پہن کر مذہبی رنگ اپنایا تو یہ سلسلہ دراز ہونے لگا۔ ہندو معاشرہ ، خصوصاً برہمن نے ،یا دوسرے لفظوں میں ہندو مذہبی اجارہ داروں نے دھرم کے نام پر مختلف طبقوں کو ، مختلف طریقوں سے اپنا غلام بنا لیا۔
ذات پات کی حد بندی نے اسی حیثیت کو مقام بنایا کہ زندگی اسی کے تابع ہو گئی۔ منو شاستر نے جو قوانین بنائے اسے مذہبی حیثیت مل گئی ۔ انسان کی انسان پر حکومت کومذہبی درجہ مل گیا۔
انسان کا اس دنیا میں آنے اور اس دنیا سے چلے جانے تک میں اگرچہ ہر مذہب اور ہر نظامِ فکر میں انسانی بہبود کے لئے طریقہ کار موجود ہیں۔ ان طریقہ ہائے کار میں تبدیلی، رسومات کا مختلف انداز اور فکر کی بنیاد جہاں ایک معاشرے کو دوسرے سے الگ کرتاہے، وہاں ان رسومات، فکر اور طریقہ کار کی اہمیت اپنے اپنے معاشرے میں اہمیت بھی رکھتی ہے۔
ہندو معاشرہ ہے ہی رسومات کا مجموعہ۔ اسی معاشرے میں پیدائش سے لیکر راکھ ہو جانے تک کی اتنی رسمیں ہیں، جن کا انت نہیں۔ مختلف علاقوں میں نہ صرف ان کی ہیت تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ ان کی اہمیت بھی مختلف ہو جاتی ہے ۔ چونکہ اس دھرم کی بنیاد خوف پر رکھی گئی ہے ، اس لئے یہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند ہوتے ہیں۔ یہی فکر مندی نے چند ایسی رسومات یا فنون میں ترقی کی، جو انہیں کسی نہ کسی طرح اس خوف سے نجات دے ۔
ان میں ایک فن مستقبل میں جھانکنے کا بھی ہے ، جسے وہ جوتش کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بچے کی پیدائش پر ، جوتش کے ذریعے اس کے مستقبل میں جھانکا جاتا ہے ۔ تاکہ یہ اندازہ کیا جا سکے کہ اس بچے کے بھاگیہ یا قسمت میں کیا ہے ۔ وہ درست ہے یا غلط ، یہ ایک الگ بحث ہے ، تاہم ، یہ رسم ہے کہ اس کی جنم کنڈلی بنائی جاتی ہے اور جو پنڈت نے کہہ دیا اسے تسلیم کر لیا جاتاہے ۔
جنم کنڈلی میں جوتش یا علم نجوم سے سہارا لیا جاتاہے ۔ علم نجوم اور فلکیات دو الگ الگ دائروں میں ہونے کے باوجود ستاروں کے بارے ہی میں جاننے کو کہا جاتا ہے ۔ قدیم ہندوستان میں جوتش کے علم کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے ، جو آج کے جدید دور میں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے ۔ اسی طرح حضرت عیسی کی آمد سے ہزاروں سال پہلے بابل کی تہذیب میں بھی یہ علم اپنی اہمیت رکھتا تھا۔
ہندوستان میں یہ علم وہاں کی تہذیب کے تسلسل میں آیا پھر اس علم کی پیدائش یہاں ہندوستان میں ہوئی۔ اس بحث سے بھی صرف ِنظر کرتے ہوئے بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ علم ان مذہبی لوگوں کے ساتھ منسلک رہا جو عبادت گاہوں میں تھے اور اس کا انتظام کرتے تھے ۔ مطلب پروہت یا پنڈت،وہی اس علم کے وارث قرار پائے انہوں نے اس علم سے بے شمار آمدنی حاصل کی، اور یہی لوگ دوسروں کی قسمت کا حال بتایا کرتے تھے۔
یوں یہ لوگ معتبر ٹھہرے۔ ان کا مقام و مرتبہ بلند ہوا ۔
اب مائتھالوجی چاہے یونانی ہو یا ہندوستانی، ان مذہبی لوگوں نے ان کی قسمت ان ستاروں کے ساتھ جوڑ دی ،جو راس منڈل ، منطقہ البروج یا Zodiac belt کہلاتے ہیں۔ اور انسان ان مذہبی لوگوں کے ہاتھوں یر غمال بن کر اپنی قسمت کا حال چاہتا رہا ۔ حالانکہ یہ بے بس ستارے اس سورج کے گرد گردش کرتے ہیں جو خود کشش کا محتاج ہے، خود کسی کشش میں تیر رہا ہے اور یہاں تک کہ اپنا نام رکھنے پر بھی قادر نہیں۔
سورج کو سورج کا نام کس نے دیا، انسان نے ، جب تک وہ اپنی اس صلاحیت پر غور نہیں کرے گاکہ رب تعالی نے یہ صلاحیت انسان کو دی ہے کہ وہ ان کے نام رکھنے سے لیکر اس کی چالوں تک کو جان لے ، وہ انسان پر انسان کی حکومت کے لئے ان مذہبی لوگوں کا محتاج رہے گا۔
بھوجن کے بعد پنڈت بھگوان داس نومولود کی جنم کنڈلی بنانے میں پوری طرح محو تھا۔ پیدائش کی ایک ایک ساعت اس کے سامنے تھی۔
ٹھاکر دیال رائے بھی موجود تھا۔ سبھی چیلے اور وہ معززین جو ابھی گئے نہیں تھے، وہ سب وہیں موجود تھے۔ ایک دم سے پنڈت بھگوان داس کی پیشانی عرق آلود ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں قہر اور چہرے پر خوف طاری تھا۔ سبھی چونک گئے ۔ ہر کسی کا یہی احساس تھا کہ کوئی انہونی ضرور ہے۔ کچھ دیر بعد مہا پنڈت نے اپنا سر اٹھایا اور بولا
”اس بالک پر سایہ ہے ، گھمبیر سایہ ۔
جس نے اس کا بھاگیہ چھپا لیا ہے، سایہ … جس سے یہ کبھی نہیں نکل پائے گا۔“
” مہاراج ۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟“ ٹھاکر نے پوچھا
” ترنت ٹھیک کہہ رہاہوں۔ مجھے تو یہ لگتا ہے یہ تیرا سب کچھ چھین لے گا۔ ایسا بھاگیہ میں نے آج تک نہیں دیکھا، نشٹ کر دے گا یہ سب کچھ… اُتم آتما۔“ یہ کہتے ہوئے مہاپنڈت کی آنکھیں پھیل گئیں، جیسے وہ کوئی خوف ناک منظر دیکھ رہا ہو۔
مہا پنڈت کے یوں کہنے پر وہاں سراسیمگی پھیل گئی ۔ ٹھاکر دیال رائے بھی چونک گیا۔ اس نے پوچھا
” میں سمجھا نہیں مہاراج ، یہ …“
مہا پنڈت نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” نہ … نہ بالک ،ایسا بالک …“ مہا پنڈت نے کہا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے چیلے بھی اٹھ گئے ۔ تو پنڈت چرن جی لعل نے تیزی سے کہا
” مہاراج ، جنم کنڈلی تو بنائیے، بالک کا شبھ نام بھی تو رکھیئے؟“
” ہم دوبارہ آئیں گے ، تبھی سب ہو گا۔
اس وقت نہیں ۔“ مہا پنڈت نے تیزی سے کہا اور باہر کی جانب چل دیا۔ اس کے چیلے بھی ساتھ میں چل پڑے۔ علاقے کے وہ معززین خاموشی سے سب دیکھ رہے تھے ۔ وہ بھی چپ چاپ وہاں سے جانے لگے۔ ٹھاکر دیال رائے گہری سوچ میں ڈوب گیاتھا۔
#…#…#