رام گڑھ میں دودن دعوت چلی ، ہر کسی نے وہیں سے کھایا۔ ایک طرح سے جشن کا سماں رہا۔ دور و نزدیک سے مانگنے والے بھکاریوں نے بھی خوب پیٹ بھرا۔ راہ چلتے مسافروں کو بھی دعوت دی گئی ۔یہاں تک کہ تیسرے دن کی سہ پہر دسترخوان لپیٹ دیا گیا۔ حویلی میں سکون سا در آیا۔ ٹھاکر دیال رائے جیوتیکا کے پاس سے ہوکراپنی خواب گاہ میں تھا۔ وہ کچھ دیر تک اپنے بیٹے کے ساتھ رہا تھا۔
جس نے حویلی ہی کو خوشیاں نہیں دیں، اسے بھی فخرسے نوا زدیا تھا۔ اس کی نگاہ سامنے دیوار پر ٹنگے ہوئے تیرپر تھی۔ اس کے ذہن میں مہاپنڈت کی باتیں گونج رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس شخص کی کہی ہوئی بات بھی یاد آ رہی تھیں جو اس نے تیر دینے سے پہلے کہیں تھیں۔ دونوں کی باتیں باہم گتھم گھتا ہو رہی تھیں۔ وہ بہت الجھا ہوا تو تھا ہی ، لیکن ایک نکتے پر وہ کامل یقین رکھتا تھا کہ اس کا بیٹا غیرمعمولی حالات میں پیدا ہوا ہے ۔
(جاری ہے)
جبکہ وہ ناامید ہو چکا تھا۔ اس نے سارا غرور اور تکبر مٹی کر دیا تھا۔ آئندہ بھی انہونی ہو سکتی تھی ۔ ٹھاکر نے ہمیشہ اپنی پیٹھ خالی محسوس کی تھی۔ نوکروں ، چاکروں ، محافظوں اور شہہ زوروں کی فوج ہونے کے باوجود اسے اپنی تنہائی کا احساس ستاتا رہتا تھا۔ اب محض تین دن کا بیٹا ہونے کے باعث اسے لگا جیسے اس کی پشت پر کوئی ہے ۔ حالات کے پانی میں نمک کی مانند گھلتاہوا حوصلہ اب ایسی چٹان بن گیا تھا جو طوفانوں میں بھی ایسادہ رہنے کی سکت رکھتا ہو ۔
زندگی کے پھیکے رنگ، الجھی ہوئی بے لگام سوچیں اور بے مقصد شب و روز بالکل ہی بدل گئے تھے ۔ اب اسے زندگی بامقصد دکھائی دینے لگی تھی ۔ اب اس کے سامنے اپنے پتر کی زندگی تھی۔جسے اس نے خود بنانا تھا۔ ایسی اعلی تعلیم و تربیت کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ٹھہرے۔
انسان کی زندگی سوچ کے ساتھ ہی تبدیل ہو جاتی ہے ۔ اس کی تو سوچ ہی بدل گئی تھی ۔
ابھی کل ہی کی بات تھی ۔ وہ صبح سویرے ہی اٹھ گیاتھا۔ رام گڑھ میں زندگی دھیرے دھیرے جاگ رہی تھی۔ مشرقی افق نیلگوں ہو رہا تھا، جس میں صبح کا ستارہ اپناآپ منوانے کی کوشش میں ٹمٹما رہا تھا۔ مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کاارتعاش پھیل رہاتھا۔ لوگ اپنے ڈھور ڈنگر باندھ رہے تھے ۔گلیوں میں چہل پہل شروع ہوگئی تھی۔حویلی کا ہر مکیں جاگ کر اپنے کام دھندوں میں مصروف ہوگیا تھا۔
ایسے میں ٹھاکر اپنی خواب گاہ کی کھڑکی میں آ کھڑاہوا تھا۔ اگرچہ یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا لیکن یہ سب اس نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔ صبح کے نظارے میں زندگی کا احساس بہت خوشگوار تھا۔اسے یہ صبح نئی لگی تھی۔ اس کی سوچ پھیلتی گئی ۔
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے، وہ سبھی انسانوں جیسا گوشت پوست کا ہوتا ہے ۔ اس کے لہوکا رنگ بھی ایک جیسا ہوتا ہے اور سارے اعضاء بھی ۔
یہاں تک کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر انسان ایک جیسا ذہن لے کرآتا ہے ۔ دُنیا میں آنے کے بعد ہی وہ سماجی مراتب ، اندا زِفکر، مذہب ، قوم ، رنگ اور نسل میں تقسیم ہوتا ہے ۔ فطرت اسے ایک جیسا بناتی ہے ۔ اور یہ انسان کی اپنی تقسیم ہے کہ وہ خود ہی دائرے بنا بنا کر دائرہ در دائرہ تقسیم ہوتا رہتا ہے ۔ مان لیا جائے کہ دنیا کی یہ رنگینی مختلف افکار کی مرہونِ منّت ہے ۔
تو افکار کی اہمیت سے پہلے انسان کو الوہیت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے ہونے ہی سے یہ سارے رنگ ہیں۔ یہ سارے افکار انسان ہی دے رہا ہے، ہاں یہ بحث الگ ہے کہ یہ افکار کہاں سے آتے ہیں اور کس لئے آتے ہیں؟
بیٹے کے پیدا ہونے سے پہلے اس نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔جس سے اس کی اپنی ذات اور اس کے ارد گرد پھیلی کائنات کا حوالہ ہو ۔اس سے پہلے اس کی زندگی چند معمولات کے گرد گھومتی تھی۔
جائیداد، طاقت کا اظہار ، اور خواہشوں کی تکمیل ، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ زندگی کیا ہے ؟ کہاں سے آتی ہے اور کہاں چلی جاتی ہے ۔ وہ سورج کو سوریا دیوتا مان کر روزانہ اس کی پوجا کرتا تھا۔ لیکن کبھی اس کی مائیت، حیثیت اور افادیت پر نہیں سوچا تھا ۔ وہ بجرنگ بلی کو مانتا تھالیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ شکتی کا دیوتا کیوں اور کیسے ہے ؟ اس کا دھرم یہی تھاکہ جو پنڈت نے بتا دیا، کبھی اس پر سوچتا بھی تو الجھ کر رہ جاتا۔
وہ انہی خیالات میں اُلجھا ہوا تھا کہ بھانوو تیزی سے اندر آیا۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
” بھانوو ، خیریت توہے، کیا ہوا ہے تمہیں؟“ ٹھاکر دیال رائے نے حیرت سے پوچھا
” غضب ہو گیا مالک۔! آپ چلیں میرے ساتھ باہر اور پنڈت چرن جی لعل کی بات سنیں۔“
” ایسی کیابات بھانوو؟“
” مالک وقت نہیں ہے ۔ چلیں۔“ بھانوو نے ٹھاکر دیال رائے کاہاتھ پکڑ کر التجا کی تو وہ اس کے ساتھ باہر کی جانب چل دیا۔
دلان کے پاس پنڈت چرن جی لعل خوف زدہ انداز میں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ٹھاکر دیال رائے نے اس کی طرف دیکھا تو وہ چلاتے ہوئے بولا
” ٹھاکر جی ۔! ابھی کچھ سمے بعد سیناآپ پر چڑھائی کرنے کو ہے ، آپ کوئی بھی اُپائے کر لو۔“
” پنڈت جی ، آپ کیا کہہ رہے ہیں، مجھے صاف بات بتائیں کیاہوا۔“ ٹھاکر دیال رائے نے سکون سے کہا تو وہ تیزی سے بولا
” مجھے مہا پنڈت نے آج میلے میں بلایا تھا۔
وہیں سارے علاقے کے وہی چند معزز تھے جو آپ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میلہ ختم ہونے کے فوراً بعد رام گڑھ پر چڑھائی کر دی جائے۔“
” مگر کیوں پنڈت جی ؟“ ٹھاکر دیال رائے نے پوچھا تو وہ بولا
” اس کی وجہ مہا پنڈت بھگوان داس جی مہاراج ہیں۔ان کا کہنا کہ آپ کے گھر میں جو پتر پیدا ہوا ہے ، وہ دیوی دیوتاؤں کی اچھیا نہیں ہے، بلکہ وہ ایسا پورش ہے جو اِن دیوی دیوتاؤں کا اپمان کرے گا۔
وہ ایک مہا آتما کے جیسا ہے جو ہندو دھرم کے خلاف ہوگا ، اسے یہیں ختم کرنا ہوگا۔“
” مطلب انہیں مجھ سے نہیں میرے بیٹے سے خوف ہے؟“ ٹھاکر دیال رائے نے پوچھا
” یہی بات ہے ٹھاکر جی ، اسی لئے انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے ۔ وہ آپ کے بیٹے کی بھینٹ مانگ رہے ہیں یا پھر وہ خود اسے مار دیں گے۔میلے کے بعد وہ ایک سینا لے کر آ رہے ہیں۔
“پنڈت نے کہا تو ٹھاکر نے سوچتے ہوئے کہا
”بھانوو، کوئی اور ہوتا تو میں اس کی بات کو اہمیت نہ دیتا۔ مگر یہ پیغام پنڈت جی لے کر آئے ہیں۔ سب کو بلاؤ ، ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔“
” جیسے حکم مالک۔“ بھانوو نے کہا اور فوراً ہی پلٹ گیا۔ جس انہونی کا ٹھاکر دیال رائے لاشعوری طور پر انتظار کر رہا تھا اس کا سمے آگیا، لیکن یہ سمے، اتنی جلدی آ گیا؟ یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
حویلی کے مردان خانے میں رام گڑھ کے سبھی بڑے جمع تھے۔ ان کے سامنے ساری صورت حال رکھ دی گئی تھی ۔ وہ لوگ لڑنے مرنے کو تیار تھے۔
” ٹھاکر جی ، یہ سب لوگ بہانہ بنا رہے ہیں، انہیں آپ کی شا ن و شوکت نہیں بھائی ، وہ کب سے رام گڑھ کو ختم کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ “ یہی ان کی رائے تھی جس کی ترجمانی ایک بوڑھے نے کی تھی ۔ اس پر ٹھاکر دیال رائے نے ان سب کی طرف دیکھ کر کہا
” میرے ایک بیٹے کے لئے نجانے کتنے مارے جائیں گے۔
کیوں نا میں ایسا کروں ، یہ سب چھوڑ کر یہاں سے چلا جاؤں۔“
” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ٹھاکر جی ، کیا آپ کی رگوں میں راجپوتی خون پانی بن گیا ہے ۔ وہ آپ کو للکارہے ہیں اور آپ خوف زدہ ہیں؟“ انہوں نے یک زبان ہو کر کہا تو ٹھاکر دیال رائے کے خون نے جوش مارا۔ وہ خاموش ہو گیا ۔ فیصلہ ہو گیا کہ ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔شہہ زوروں اور محافظوں کو تیاری کا حکم دے دیا گیا تھا۔
رام گڑھ کے لوگ تیار تھے۔
سو رج غروب ہو گیا تھا۔ ٹھاکر اپنی بیوی جیوتیکا کے پاس تھا، جو خوف زدہ ہونے کے ساتھ بے حال ہو رہی تھی کہ اسکے بیٹے کے دشمن حملہ آور ہو رہے ہیں۔ وہ روتے ہوئے بولی
” ناتھ ۔!ایک طرف آپ کا بیٹا ہے اور دوسری طرف آپ کی راجپوتی انا، اگر وہ کامیاب ہو گئے تو دونوں نہیں بچ پائیں گے، لیکن اگر ہم اپنے بیٹے کو بچا لیں تو انا کاکیا ہے ۔
“
” تو کیا کروں میں؟“ ٹھاکر دیال رائے نے پوچھا تو تیزی سے بولی
” ہم کسی کو بتائے بنا یہاں سے نکل جاتے ہیں۔ خون بھی نہیں بہے گا۔ ہم یہاں سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔“
” میں اپنے لوگوں کو کیا جواب دوں گا؟“ ٹھاکر دیال رائے بولا ،وہ میرے خون پر شک کریں گے ۔ میں ایسا نہیں کر سکتا کہ ٹھاکر دیال رائے کے خاندان پر کوئی دھبہ لگے ۔ ہم راجپوت اپنی انا کے لئے اپنے بیٹے قربان کر دیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پلٹا اور جیوتیکا کی خواب گاہ سے نکل گیا۔