تین دن کا نومولود بچہ اس شخص کے ہاتھوں پر تھا۔ اس کے سامنے جھگیاں تھیں۔ کسی میں روشنی تھی اور کوئی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کسی میں سے ڈھولک بجنے کی آواز آ رہی تھی کوئی گا رہا تھا۔ دوسری جھگیوں کی طرح ایک جھگی کے باہر ریچھ بندھا ہوا تھا۔ جس کے پاس ایک بندریا اور بندر بھی تھے اوران سے ذرا پرے ایک سفید کتا لیٹا ہوا تھا۔ جھگی کے اندر ایک ادھیڑ عمر مرد اور ایسی ہی عمر کی خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔
چراغ کی دھیمی روشنی میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ ان کے چہروں پر زندگی کی تھکن موجود تھی۔ وہ جھگیاں ان لوگوں کی تھیں جو ذات کے قلندر تھے ۔ ان کا پیشہ یہی تھا کہ گلیوں ، بستیوں اور شہروں میں ریچھ ، بندر اور کتوں کو نچا کر ان کا تماشا دکھا کر روزی روٹی کماتے ہوئے بستی بستی ، شہر شہر گھومتے رہتے۔
(جاری ہے)
یہی ان کی زندگی تھی۔ وہ مرد اور خاتون بھی قلندر ذات تھے۔
ان کی اولاد نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ زندگی کو جھیل رہے تھے۔ وہ شخص اس بچے کو اپنے ہاتھوں میں اُٹھائے جھگی میں داخل ہوا تو ان دونوں نے اسے چونک کر دیکھا اور ان کی آنکھوں میں حیرت پھیل گئی ۔ وہ بچے کو دیکھ رہے تھے۔ تبھی اس شخص نے کہا
”یہ لے ،لالو، میں نے تجھے تیرا بیٹا لا دیا ہے ۔“
” کس کا بچہ اٹھا لایا ہے تو ۔“ اس نے غور سے بچہ دیکھتے ہوئے کہا
” تجھے اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے۔
پارسہ کیا تو اس بچے کوقبول کرتی ہے ۔؟“
” ہاں ، اب تو میں اس قابل نہیں رہی، یہی سہی ، میرا بیٹا تو ہوگا۔“ پارسہ بولی
” چل دے دے اسے، میں اس کی خوشی میں خوش ہوں۔“ لالو یوں بولا جیسے وہ بھی اندر سے خوش ہو ۔تبھی پار سہ نے جذباتی لہجے میں کہا
” جھوٹ کہہ رہا ہے تو، میں سمجھتی ہوں۔ لا دے میرا بچہ۔“
اس شخص نے وہ بچہ پارسہ کی گود میں دے دیا۔
اس نے اسے اپنے سینے سے لگایا ہی تھا کہ مامتا کے سوتے پھوٹ پڑے۔وہ حیران رہ گئی ۔ اس نے لالو کی طرف دیکھا اور لرزتے ہوئے بولی
” لالو ، یہ میرا ہی بیٹاہے۔ چاہے اس نے کسی دوسری عورت کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔“
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟“ لالو نے حیرت سے کہا تو وہ شخص تیزی سے بولا
” یہ بعد میں بتاتی رہنا۔ پہلے اس کا نام سن لو ، یہ خوشی محمد ہے۔
اس کے ختنے ہوچکے ہیں۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی یہاں سے نکل جانا۔ اب میں چلتا ہوں۔ “ یہ کہہ کر وہ شخص جھگی سے نکلتا چلا گیا۔ لالو نے جب بچے کو دیکھا جو پارسہ کے سینے سے زندگی پا رہاتھا تو ساری بات سمجھ گیا۔ وہ ساری رات ان کی آنکھوں میں کٹ گئی۔ انہیں خوشی اور حیرت ہی اس قدر تھی۔قبیلے کے سردار نے رات ہی کہہ دیا تھا کہ صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔
اور پھرسورج نکلنے سے پہلے ہی قلندروں کی وہ ساری جھگیاں اکھڑنے لگیں۔ لالو بھی ان میں شامل تھا۔گدھے ، گھوڑے اور خچروں پر سامان لاد کر وہ چل پڑے۔
جس وقت سورج کی روشنی پھیل رہی تھی، وہ رام گڑھ کے پاس سے گذر رہے تھے۔ وہ اب زندگی نہیں رہی تھی۔ موت نے سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ انسانی خون کی بُو ہرطرف پھیلی ہوئی تھی۔ جلی ہوئی لاشوں کے ساتھ ہر گھر جل چکا تھا ۔
وہ حویلی جہاں انہوں نے تین دن تک کھانا کھایا تھا ، وہ آج کھنڈر بن چکی تھی۔ نجانے کیوں پارسہ نے اس بچے کے چہرے پر دیکھ کررام گڑھ کو دیکھا۔موت بھی زندگی ہی سے دیکھی جا سکتی تھی۔ وہ رام گڑھ سے آگے نکل گئے ۔ ان کے پاس چمکتی ہوئی زندگی تھی۔
#…#…#
منظر اچانک ہی بدل گیا۔ جمال اور جسپال ساکت تھے اور یہ سب دیکھ رہے تھے۔
انہیں یوں محسوس ہو رہاتھا کہ جیسے وہ بھی اسی منظر کے کردارہوں۔ وقت تیزی سے نوبرس آگے گذر گیا تھا۔ وہ منظر ایک گاؤں کا تھا۔وہ پوری توجہ سے اس نئے منظر کو دیکھنے لگے۔
#…#…#
وہ گرمیوں کی دوپہر تھی۔ گرمی اور حبس نے ہر ذی روح کو سایے تلے پہنچا دیا تھا۔ ایسے وقت میں لالو قلندر جھکے ہوئے شانوں اور بوجھل قدموں سے کھیتوں میں بنے راستے پر چلا جا رہا تھا۔
اس کی سانسیں اکھڑی ہوئیں تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی ساری قوت صرف کر کے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ بوڑھے قلندر کا بہت برا حال تھا۔ اس کے بوسیدہ کپڑے پھٹے ہوئے تھے ۔ سر کے لمبے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے۔ ہونٹو ں پر پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ وہ بہت لاغر دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ساتھ بندر اور کتا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایک چھوٹا سا لڑکا بھی چلا آ رہا تھا۔
جو چہرے سے بہت بھولا اور معصوم دکھائی دے رہا تھا لیکن بھوک اور غربت کی اپنی ایک چھاپ ہوتی ہے جو اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی ۔ اس نے اوپر قمیص پہنی ہوئی تھی جو جا بجا پھٹی ہوئی تھی ۔ نیچے اس نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔ پیروں سے بھی ننگا تھا ۔لمبے لمبے بکھرے ہوئے بال مٹی سے اَٹے ہوئے تھے۔ لالو قلندر نے دور ہی سے کنواں دیکھ لیا تھا اور اس کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
اسے امید تھی کہ اگر روٹی نہ بھی ملی تو کم از کم یہ جھلسا دینے والی دوپہر تو وہیں گذر جائے گی۔ پینے کو پانی مل جائے گا۔
وہ کنواں سردار ہیرا سنگھ ڈھلوں کا تھا۔ جس کاشمار گاؤں کے ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہیں فقط اپنی محنت مزدوری سے غرض ہوا کرتی تھی۔ ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر کے قریب گاؤں اُوگی بھی ان گاؤں میں شمار ہوتا تھا، جہاں فصلیں شاداب اور کسان خوشحال تھا۔
دودریاؤں کے پاٹ میں آباد یہ علاقہ ویسے بھی زرخیر تھا۔ سردار ہیرا سنگھ ڈھلوں نے یہاں اس گاؤں میںآ کر جو تھوڑی سی زمین بنائی تھی، وہ اسی میں ایک اچھی زندگی گذار رہا تھا۔ وہ اپنی محنت کرتا اور خوشحال تھا۔ اس کی شادی ہوچکی تھی اور اس کے تین بیٹے تھے ۔ بڑا بیٹاکلوندر سنگھ تھا۔ جس کی ابھی مسیں نہیں بھیگی تھیں۔
سردار ہیرا سنگھ اپنے کنویں کے پاس درختوں تلے چار پائی پر بیٹھا ہو ا تھا۔
کچھ دیر پہلے ہی اس نے بیلوں کی جوڑی کو باندھا تھا۔ اور اب خود آرام کرنے کی غرض سے لیٹا ہی تھا کہ اسے دور کھیتوں کے پاس سے ایک قلندر آتا ہوا دکھائی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ قلندر وہیں آگیا۔ اور اس کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔ بچہ بھی اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھا تو جانور بھی بہتے ہوئے پانی میں جا کر بیٹھ گئے ۔ اس نے گدڑی زمین پر رکھ دی تھی۔ اسے سانس چڑھا ہوا تھا جو بحال ہی نہیں ہو رہا تھا۔
وہ آنکھیں بند کئے سانس بحال کرنے کی کوشش میں تھا۔اس کی کمزور حالت دیکھ کر سردار ہیرا سنگھ ڈھلوں کو بہت ترس آیا۔ اس نے نرم سے لہجے میں پوچھا
” او بابا، خیر تو ہے ، ٹھیک تو ہے نا تو؟“
” نہیں سردارا، میں ٹھیک نہیں ہوں۔بس کسی وقت یہ سانسیں ختم ہو جاسکتی ہیں۔بہت مشکل میں ہوں۔“ قلندر نے اکھڑی ہوئی سانسوں میں بتایا
” کیا مشکل ہے تجھے؟“ ہیرا سنگھ نے پوچھا
” مشکل ہی مشکل ہے ، میرا بدن میرا ساتھ نہیں دے رہا ہے ، نجانے کب کہاں میری زندگی ختم ہو جائے، بس یہ میرا بچہ ہے ، سوچتا ہوں اس کا کیا بنے گا۔
“قلندر نے تیز سانسوں میں کہا
” کیا تیرا کوئی نہیں ہے ؟ تیرا قبیلہ ،کوئی رشتے دار ، کوئی بھی نہیں ہے؟“ ہیرا سنگھ نے حیرت سے پوچھا
” قبیلہ بھی تھا، ایک بیوی بھی تھی ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہی۔قبیلہ بھی بچھڑ گیا۔ بس اکیلا ہوں۔“ قلندر نے کہا اورخاموش ہو گیا۔ وہ اب سردار کو کیا بتا تا کہ اس کے اپنے قبیلے والوں نے اسے الگ کردیا تھا ۔
انہوں نے اس بچے کو قبول ہی نہیں کیا تھا۔ ریچھ ، کتوں اور بندوں کو اپنی انگلی پر نچانے والے، اسے برداشت نہیں کر سکے۔ خود اس نے اس بچے کو بھی کام نہیں سکھایا۔ بچہ ہی ایسی صلاحیتوں والا تھاکہ بجائے اسے کچھ سکھانے کے، ریچھ، بندر اور کتے اس کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ خود ڈر گیا تھا۔ بچے کی فطرت میں ایسا تھا۔
اوپر سے اس کے قبیلے والوں نے نہ صرف اس بچے کو قبول نہیں کیا بلکہ خواہ مخواہ اس کی ذمہ داری بھی نہیں لی ۔ جیسے ہی اس کی بیوی پارسہ اگلے جہاں سدھاری، قبیلے والے بھی اس سے نظر انداز کرنے لگے۔ قلندر در بدر پھرتا، ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک جاتا ہوا ، یہاں آ گیا تھا۔
” روٹی کھائے گا؟“ ہیرا سنگھ نے پوچھا
” بھوک تو لگی ہے ،پر جاتا ہوں گاؤں میں، کہیں نہ کہیں سے روٹی مل جائے گی، بس یہ ذرا دھوپ ڈھلے اور تھوڑی دیر سانس لے لوں۔
“ قلندر نے کہا
” یار بات سن ،بھوکاتو میں بھی ہوں۔ میری روٹی نہیں آئی ابھی تک، بندہ روٹی لینے گیا ہوا ہے ، ابھی آ جاتا ہے تو کھاتے ہیں۔“ ہیرا سنگھ نے کہا تو قلندر نے سر ہلا دیا۔ بچہ شاید بہت تھکا ہوا تھا۔ اس لئے سایہ ملتے ہی زمین پر لیٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد سو گیا۔ سردار ہیرا سنگھ اور لالوقلندر یونہی وقت گذاری کے لئے باتیں کرنے لگے۔
”کدھر کا ہے تو؟“ ہیرا سنگھ نے اس سے پوچھا۔