Episode 94 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 94 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

اس رات کا باقی حصہ ہم دونوں نے اپنی آنکھوں ہی میں کاٹا۔ مجھے اچھی طرح احساس تھا کہ جیسے میری طرح جسپال کو بھی نیند نہیں آئی، ویسے ہی سوال اس کے ذہن میں بھی ہوں گے۔ مگر ہم میں خاموشی ہی رہے ،ایک لفظ تک کا تبادلہ نہیں ہوا۔ ہم کروٹیں بدل بدل کر تھک گئے تو میرے ساتھ ہی وہ بھی اُٹھ گیا۔ میں جو ایک ذرا سی اجنبیت اس سے محسوس کرتا تھا، وہ اب نہیں رہی تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ اس کے من سے بھی اجنبیت نکل گئی ہوگی ۔
ابھی سورج نکلنے کے آثار ہویدا نہیں ہوئے تھے ، میں نے بائیک نکالا اور ہم ڈیرے پر چلے گئے ۔ اس صبح میں نے پہلی بار نور نگر کو نئے انداز سے دیکھا۔ یہی جگہ کبھی رام گڑھ ہو اکرتی تھی۔ یہ سچ ہے کہ زمین چالیس برس بعد اپنا مالک بدل لیتی ہے ۔ یہاں توبستی ہی کا رنگ ڈھنگ بدل گیاتھا۔

(جاری ہے)

کھنڈر کس نے آباد کئے کوئی پتہ نہیں، ممکن ہے قیام پاکستان کے بعد یہاں کے لوگ چلے گئے ہوں۔

 
چھاکا ابھی سویا ہوا تھا۔ میں نے اسے جا کر جگایا تو وہ حیرت سے اٹھ کر بیٹھ گیا پھر تشویش زدہ لہجے میں پوچھا
” اوہ جمال تجھے خیر توہے؟، ابھی تو صبح نہیں ہوئی اور تو ڈیرے پر آگیا ہے؟“
” اوہ خیرہی ہے۔ چل تو اُٹھ اور منہ ہاتھ دھو ، تجھے کہیں کام بھیجنا ہے ۔“ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، اس کے چہرے پر حیرت ابھی تک پھیلی ہوئی تھی۔
تبھی اس نے کہا
” میں پوچھتا ہوں خیر ہی ہے ہے نا؟“
” تو ایسے کر ، منہ ہاتھ دُھو کے ہر اس بندے کے گھر جا ، جو کل یہاں میلے کروانے کے سلسلے میں آئے تھے، انہیں جا کر کہو کہ ہم میلے میں کسی بھی طرح کی گڑ بڑ نہ ہونے کی ضمانت دیتے ہیں ، وہ میلہ کروانے کی تیاریاں کریں۔“ میں نے کہا تو وہ حیریت سے بولا
” تو پاگل ہو گیا ہے جو ان کی باتوں میں آکر یونہی میں بَڑ مار رہا ہے ، تجھے پتہ بھی ہے کہ وہ ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں اور تُو پھر بھی پاگل پن کر رہا ہے ۔
” جب میں نے کہہ دیا ہے تو بس کہہ دیا ہے ، تو یہ پیغام جاکر ان سب کو دے دے ۔“ میں نے پر سکون لہجے میں کہا تو وہ جسپال کی طرف دیکھ کر بولا
” یار تو ہی سمجھا اسے، پورا علاقہ ہمارے سامنے ہے ، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ میلہ خراب کرنے کی وہ پوری تیاری کئے بیٹھے ہیں۔ وہ ہمیں پھنسانے کی پوری …“ اس نے کہنا چاہا تو جسپال نے کہا
” جب تجھے جمال کہہ رہا ہے، تو پھر ویسا ہی کر، جیسا یہ کہہ رہا ہے ۔
اس کے یوں کہنے پر اس نے دیوانوں کی طرح ہم دونوں کی جانب دیکھا اور پھر پوچھا
” یہ تم دونوں کی صلاح ہے ، لیکن مجھے سمجھاؤ کہ یہ کیسے ہوگا؟“ چھاکا اَڑ گیا۔
” یار صحیح پوچھو نہ تو ہمیں بھی پتہ نہیں کہ یہ کیسے ہوگا، لیکن دشمنوں کی سازش نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ یہ انہی پر اُلٹ جائے گی، یہ میرا گمان کہتا ہے۔“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو ایک دم سے خاموش ہو گیا ، اس کے چہرے سے صاف دکھائی دے رہا تھاکہ جیسے وہ مطمئن نہیں ہوا۔
تبھی اس نے دھیمے سے لہجے میں سر ہلاتے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے میں جاتا ہوں۔“
یہ کہہ کر وہ اُٹھ گیا۔بھیدہ اپنے کام کاج میں مصروف تھا۔ہم بھی اس کا ہاتھ بٹانے لگے۔
سورج نکلنے پر ہم واپس گھر کی جانب لوٹ آئے ۔اماں اور سوہنی ناشتہ تیار کئے بیٹھی تھیں۔ میں نے اور جسپال نے نہا دھو کر اچھے کپڑے پہنے اور ڈٹ کر ناشتہ کر کے باہر نکلنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارا گیٹ بجا، میں اٹھ کر باہر گیا توسامنے ایک نوجوان سی دیہاتی لڑکی اور ایک تنو مند دیہاتی جوان کھڑا تھا۔
لڑکی نے ہمارے ہی علاقے کی عورتوں جیسا لباس پہنا ہو اتھا، سر پر بڑا سا سرخ آنچل تھا۔ جوان نے بوسکی کی قمیص پہنی اور لٹھے کی چادر باندھی ہوئی تھی ۔ ان سے ذرا فاصلے پر بائیک سٹینڈ پر لگی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے پوچھتا، وہ لڑکی بولی 
” جمال بھائی ہم تم سے ملنے آئے ہیں۔ اندر آنے کے لئے نہیں کہو گے ؟“
” مگر میں تم لوگوں کو جانتا نہیں ،پہچانتا نہیں ، تم لوگ ہو کون؟“ میں نے دونوں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ جوان بولا
” جمال بھائی کہیں بیٹھ کر بات کریں؟“ 
” آؤ …“ میں ان دونوں کو غور سے دیکھتا ہوا اندر لے گیا۔
میں سمجھ رہا تھا کہ یوں کسی اجنبی کو اپنے گھر میں لا رہا ہوں ، ممکن ہے اس کے پاس اسلحہ ہو، کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔۔ مگر ۔۔۔!نجانے کیوں میرے دل نے گواہی دے دی تھی کہ ان پر اعتماد کر لیا جائے۔ وہ دونوں ایک چار پائی پر بیٹھ گئے۔ جسپال انہیں دور کھڑا غور سے دیکھ رہا تھا۔
” باتیں بعد میں کرتے ہیں ، پہلے سناؤ کیا کھاؤ پیئو گے ۔“ میں نے پوچھا
” سب کچھ کھائیں پئیں گے جمال بھائی، لیکن پہلے یہ تو جان لو کہ ہم ہیں کون؟“
” توبتادو، یہ تو تم دونوں ہی نے بتاناہے نا؟“ میں نے ہنستے ہوئے کہا 
” میں پروین ہوں اور یہ میرا منگیتر ذوالفقار عرف زلفی۔
اسے تو تم پہلی بار دیکھ رہے ہوگے، لیکن مجھے آپ نے ایک بار دیکھا ہوا ہے ، میرے ذہن میں تھا کہ میرا چہرہ تمہیں یاد ہو گا۔“ پروین نے مسکراتے ہوئے بتایا
” کہاں دیکھا ہے ؟“ میں نے پوچھا
” شاہ زیب کے ڈیرے پر ، یاد ہے تمہیں وہاں ایک کمرے میں ایک بوڑھا آدمی اور دو لڑکیاں بندھی ہوئیں ملی تھیں۔ جنہیں تم نے بڑی عزت کے ساتھ واپس بھیجا تھا۔
“ پروین کے یاد دلانے پر میرے ذہن میں فوراً آ گیا۔
” ہاں مجھے یاد آ گیا، کیا وہ تم تھی ؟“ میں نے پوچھا
” ہاں ان میں ایک لڑکی میں تھی اور دوسری اس زلفی کی بہن اور اس کا باپ تھا۔“ پروین نے بتایا تو زلفی بولا
” جمال بھائی ۔! میں تمہارا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ تم نے میری بہن اور باپ کے ساتھ میری منگیتر کی بھی مدد کی اور انہیں حفاظت سے گھر بھیجا۔
“ زلفی نے ممنونیت سے کہا تو میں نے ہنستے ہوئے پوچھا
” یار اتنے عرصے بعد؟“
” میں یہاں نہیں تھا۔ اگر یہاں ہوتا تو ان بے غیرتوں کی جرات نہ ہوتی۔ مجھے یہاں آئے ہوئے صرف تین دن ہوئے ہیں۔ اور اب بھی دیکھنا، میں کیا کرتا ہوں۔“ وہ یوں بولا جیسے اپنے آپ پر قابو پا رہا ہو۔ تب میں نے پوچھا
” اتنا عرصہ رہے کہاں ہو ؟“
” جیل میں ، سزا کاٹ رہا تھا۔
تین دن پہلے رہائی ہوئی ہے۔“ اس نے بتایا
” کیا ،کیا تھا؟“ میں نے پوچھا
” قتل کئے تھے۔خیر ، وہ کیس تو نہیں پڑا مجھ پر ، بچ گیا ہوں ، ڈکیتی پڑ گئی تھی۔ اسی کی سزا کاٹی ہے۔ پر دشمنوں نے میرے باپ سمیت میری بہن اور میری منگیتر پر بڑا ظلم کیا ۔“ یہ کہہ کر وہ پھر یوں ہو گیا جیسے خود پر قابو پا رہا ہو ۔
” میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔
“ میں نے پوچھا
” نہیں۔! جمال بھائی نہیں۔“ یہ کہہ کر وہ چارپائی سے نیچے بیٹھ گیا اور دونو ں ہاتھ جوڑ کر بولا
” زلفی نے آج تک کسی کے سامنے ہاتھ نہیں جوڑے، پر میں ہاتھ باندھ کر تم سے منّت کر رہا ہوں کہ مجھے کوئی کام بتا، کسی دشمن کا پتہ دے ۔ میں تیرا احسان مند ہوں۔ جو تو نے مجھ پر احسان کیاہے ، میں اس کا بدلہ تو نہیں دے سکتا، پر جان تو دے سکتا ہوں۔
میری بہن اور منگیتر کی عزت کی تم نے، بتا جمال بھائی بتا،تیرے کسی بھی کام آ سکتا ہوں ۔ سمجھ لو کہ میں تیرا زر خرید ہوں۔ “
” پہلے تم چار پائی پر تو بیٹھو۔“ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تو وہ اٹھ کر چار پائی پر بیٹھ گیا، پھر بولا
” مجھے جیل ہی میں ساری بات معلوم ہو گئی تھی ۔ تب سے میں نے تہیہ کر لیاتھا کہ پہلے تیرے کام آؤں گا، پھر اس بے غیرت وقاص کی…“ یہ کہتے ہوئے اس نے دانت پیس کر گالی دے ڈالی تو میں نے پوچھا
” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ، وقاص پیرزادہ نے ہی اپنے بندے بھیجے تھے اور انہی کے ہاتھ انہیں واپس اپنے گھر …“
” نہیں ، اصل میں وہی بندہ تھا۔
یہ شاہ زیب تھا یاپیرزادہ وقاص، چوہدری شاہنواز تھا یا سردار کھرل یہ سب ایک ہی ہیں، ان سب نے علاقے کو اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے ۔ میں نے بندے سردار کھرل کے مارے تھے ۔ اس نے پیرزادہ وقاص سے کہہ کر انہیں گھر سے اٹھوایا، شاہ زیب کے ڈیرے پر رکھا تاکہ اگر میں واپس آ بھی جاؤں تو ان سب کا مقابلہ نہ کر سکوں۔ میرے دشمن یہ سب ہیں ۔“زلفی نے کہا تو میں ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا۔
کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں ہے ؟ میں اس معاملے میں خاموش رہا اور بولا
”زلفی ، رَبّ نے مجھے اتنا حوصلہ دیا ہے کہ میں اپنی حفاطت کر سکوں۔ مجھے تم سے کوئی کام نہیں لینا اور نہ ہی میرا کوئی ذاتی دشمن ہے۔ تو جو چاہئے سو کر ۔“ 
” لیکن ایک شرط پر ؟“ یہ کہہ کر اس نے میرے چہرے پر دیکھا
” وہ کیا؟“ میں نے پوچھا
” جب بھی میر ی ضرورت پڑے ۔ مجھے آواز ضرور دے لینا۔ رَبّ کی قسم تجھ سے پہلے جان دوں گا، یہ زلفی کا وعدہ ہے۔“
” دیکھ جمال بھائی ، اس کے جیل سے آنے پر ہم نے شادی کرنا تھی ، لیکن اب یہ آیاہے تو ہم دونوں نے مل کر یہ فیصلہ کیاہے کہ جب تک اپنے دشمن ختم نہ کر لیں، ہم شادی نہیں کریں گے۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط