Episode 95 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 95 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” یار ، دعا کر کہ ایسا ہو ہی نہ ، خیر تو بیٹھ میں تیرے لئے کچھ لاتا ہوں۔“ میں یہ کہہ کر اٹھنے لگا تو جسپال ٹرے پکڑے ہوئے آتا دکھائی دیا۔اس نے کھانا ان کے سامنے رکھ دیا اور میرے ساتھ چار پائی پر بیٹھتے ہوئے پروین سے بولا
” تُو اندر جا اماں کے پاس ، وہیں ادھر بیٹھ کر کھا لے، اماں نے کہا ہے ۔“
زلفی، کھاتے ہوئے اپنی جیل کی روداد سنانے لگا۔
وہ وجہ بتانے لگا جس باعث اسے قتل کرنا پڑے۔ وہ کھا پی چکا توکچھ دیر بعد پروین بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ایسے میں چھاکا آ گیا۔ جیسے ہی وہ گیٹ سے اندر آیا اور اس کی نگاہ زلفی پر پڑی تو وہ بری طرح چونک گیا۔ میں نے اس کے چہرے کا بدلتا ہوا رنگ اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ اس نے بائیک کھڑی کی اور سیدھا اس کی طرف آیا۔ تب تک زلفی بھی اٹھ گیا۔

(جاری ہے)

وہ دونوں یوں گلے ملے جیسے صدیوں کے بچھڑے ہوئے ہوں۔

میں نے چھاکے سے پوچھا
” تُو جانتا ہے اسے؟“
” ارے یار یہی تو ہے زلفی ڈکیت۔“ چھاکے نے بتایا تو ایک دم سے میرے ذہن میں یہ نام گونج گیا۔ اس کے بارے میں سنا ہی کرتا تھا، کبھی دیکھا نہیں تھا۔ اس کی اس علاقے میں کبھی بڑی دہشت ہوا کرتی تھی ۔ وہ ان نوجوانوں کے لئے بڑا ہیرو تھا جو کسی نہ کسی طرح جرائم کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتے تھے۔
جہاں تعلیم نہ ہو وہاں جرائم پیشہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔اور انہیں پیدا کرنے والے یہی جاگیردار ، وڈیرے اور زمیندار ہوتے ہیں۔ کچھ دیر بعد چھاکے کو معلوم ہو گیا کہ وہ کس وجہ سے میرے پاس آیاہے ۔ 
” یہ کب سے تیرا جاننے والا ہے ، تُو نے کبھی ذکر ہی نہیں کیا۔“
” کافی عرصے سے ، ہم نے ایک دوسرے سے کام لئے ہیں۔ پر اتنا واسطہ نہیں تھا۔
میں اس تعلق کو چھپا کر ہی رکھتا رہا ہوں، اس جیسے اور پتہ نہیں کتنے تعلق ہیں ، اب کس کس کا ذکر کروں۔“ چھاکے نے بتایا تو میں نے پوچھا
” ہاں ، تو بتا،کیا کر آیا ہے ؟“
” ان سب لوگوں کو پیغام دے آیا ہوں۔ آگے سے کوئی حیران ہوا اور کوئی مسکرا دیا۔ اب پتہ نہیں ان لوگوں کے دل میں کیا ہے ۔“ چھاکے نے کہا تو زلفی نے تجسس سے پوچھا
” میں پوچھ سکتا ہوں کہ معاملہ کیا ہے ؟“ 
 اس پر چھاکے نے مختصر انداز میں اس سے کہہ دیا تو وہ سوچتے ہوئے بولا
” میں سمجھ گیا ہوں کہ اس نے کیاکرنا ہے ۔
بس ذرا سی تصدیق کرنا ہوگی ۔“
” میں سمجھا نہیں۔“ میں نے کہا
” جمال بھائی ،تم جا نتے ہو ، ذخیرے میں پیر زادے نے اپنا ایک نیا ٹھکانہ بنا لیاہے؟“ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا تو اس نے تفصیل بتا دی
” میں اس کے بارے میں جہاں تک ہو سکتا تھا ، جیل میں خبر رکھتا تھا۔ کئی سنگی ساتھی اس کے بارے میں بتادیتے تھے ۔مجھے کوئی تین مہینے پہلے ایک خبر ملی تھی کہ اس نے ذخیرے میں بندے رکھے ہیں۔
وہ سارے ہی اشتہاری ہیں۔ ان سے وہی ڈکیتی، قتل اور ایسی ہی واداتیں کروا رہا ہے ۔مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ایک دم وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے۔“
” وہ جدی پشتی زمیندار ہے ۔ اور …“ چھاکے نے کہنا چاہا تو وہ بولا 
” وہی تو، پہلے بھی وہ ایسا ہی تھا۔ لیکن اب یاتو اس پر کسی کا ہاتھ ہے، یا پھر کوئی وقت اس کے ساتھ آ ملی ہے ۔ پہلے اتنا حوصلہ نہیں تھا اس میں، پہلے بھی تو یہ ذخیرہ اسی کی ملکیت تھا۔
“ زلفی نے اپنے طور پر تجزیہ کیا۔ 
میں اس ذخیرے کے بارے میں جانتا تھا۔ ایک دو بارمیں شکار کرنے اس طرف گیاتھا۔ وہ درختوں سے بھرا ایک جنگل تھا۔ پہلے وہ قدرتی تھا بعد میں دریا کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے اسے پھیلا کر مصنوعی جنگل بنایا گیا۔ جس سے لکڑیاں فروخت کی جاتی تھیں۔اس کے ایک طرف سڑک تھی۔خاصا جنگل پار کرنے کے بعد دوسری جانب دریائے ستلج تھا۔
اگر ایک طرف سے خطرہ ہوتا تو وہ لوگ دوسری طرف نکل جاتے تھے ۔ پہلی تو بات یہ ہے کہ اس طرف کوئی جاتا ہی نہیں تھا۔ ممکن ہے اب پیرزادہ وقاص نے اپنے مقصد کے لئے بندے وہاں رکھ چھوڑے ہوں ۔ ان کے ڈیرے پر بھی تو ایسے کئی بندے پڑے ہی رہتے تھے ۔
” ایسے میں جبکہ وہ اتناطاقتور ہو گیاہے ، تو کیا کرے گا۔“ میں نے پوچھا
” یہی تو میں نے تصدیق کرنی ہے ، اگر اس نے میرے ساتھ منافقت کی ہے تو میں کیوں نہ کروں۔
اور میں نے تو وقاص کو مارنا ہی مارناہے ، جب بھی موقعہ ملے ، چاہے آج ہی ۔“ زلفی تیزی سے بولا
” چلو دیکھتے ہیں کیا کرتا ہے تو ؟“ میں نے کہا تو اس نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا
” جمال بھائی ۔! تو میرا محسن ہے ۔ میری جان بھلے چلی جائے ، پر بس چلے نا تو تجھ پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ چھاکا جانتا ہے میرے بارے میں ۔“
” فون ہے تیرے پاس ؟“ میں ے پوچھا
” ہاں ہے ۔
“ اس نے بتایا تو میں نے کہا
” رابطہ رکھنا۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔“ میں نے کہا اور بات ختم کر دی ۔وہ بھی سمجھ گیا۔ وہ پروین کے آنے تک انتظار کرتا رہا، وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا آنچل تھا۔ پروین وہ زلفی کو دکھاتے ہوئے بولی 
” اماں نے دیا ہے ، کہہ رہی تھی کہ تم پہلی بار ہمارے گھر آ ئی ہو ۔“
زلفی نے میری طرف دیکھا اور شدت جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
ہمارے علاقے میں رواج تھا کہ جب بھی کسی کو اگر سر پر ڈالنے والا آنچل دے دیا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے بیٹی یا بہن کے طور پر عزت دی گئی ہے ۔ میں نے پروین کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیا ر دیا تو زلفی میرے گلے ملا۔ پھر اس کے بعد وہ چلے گئے ۔ نجانے کیوں مجھے زلفی پر اعتماد ہو رہا تھا۔
ہم تینوں ذرا اطمینان سے بیٹھے تو میں نے چھاکے سے کہا
” اس علاقے میں جب شاہ زیب نہیں رہا، چوہدری شاہنواز بھی پکڑا گیا ہے ۔
یہی پیرزادہ وقاص چاہتا تھا۔میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ شاہ زیب کے بارے میں سازش کا گواہ تومیں خود ہوں۔“
” اسے گمان بھی نہیں تھا کہ تم اس طرح واپس آؤ گے اور حویلی کے ساتھ ساری جائیداد بھی تیرے اشارے پر ہوگی ۔ اب وہ تمہیں اپنے راستے کا کانٹا سمجھ رہا ہے ۔ اور سازش ہی کے ذریعے ہی ختم کر نا چاہتا ہے ۔“ چھاکے نے جواب دیا تو جسپال بولا
” یار تم لوگ کن چکروں میں پڑ گئے ہو ۔
ابھی جاتے ہیں اور اس کا کام ہی ختم کر دیتے ہیں۔نہ وہ رہے گا اور نہ کوئی سازش۔“
” یہ بہت آسان ہے، لیکن اس کے بعد ہم بھی انہی میں سے ہی ہو جائیں گے۔ضرور ت ہوئی تو یہ کام بھی ہو جائے گا۔ ہم نے یہاں رہنا ہے جسپال، اور علاقے میں اپنی ساکھ بنانی ہے ۔ مجھے پتہ ہے کہ دشمن سانپ کی مانند ڈنگ مارے گا۔ فی الحال سانپ کا زہر نکالنا ہے ، اس کا سر نہیں کچلنا۔
“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ الجھتے ہوئے بولا
” مجھے تمہاری منطق کی سمجھ نہیںآ تی، میں تو کہتا ہوں کہ عوام کو پتہ چلنا چاہئے کہ ہم ان سانپوں کا نہ صرف زہر نکال سکتے ہیں بلکہ ان کا سر بھی کچل سکتے ہیں۔ “
” نہیں ۔! ہم نے خوف کی فضا طاری نہیں کرنی ۔ ایسا ظالم لوگ کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد تو لوگوں کو شعور دیناہے، انہیں بتانا ہے کہ ان کا حق کیا ہے ۔
فطرت نے انہیں جو آزادی دی ہے، وہ اس کے مطابق جئیں۔ ہمیں لوگوں کی محبت چاہئے ۔“میں نے کہا تو جسپال کاندھے اُچکا کر رہ گیا۔
” تو محبت صاحب ، پھر کرنا کیا ہے ؟“ چھاکے نے پوچھا
”ابھی تم نے صرف یہ کرنا ہے کہ علاقے میں اپنے لوگوں کو پھیلا دو، پتہ کرو کہ آخر وہ کر کیا رہا ہے ؟“
” سمجھو،ہو گیا۔“ چھاکے نے کہا
” تم یہ کرو۔
میں اور جسپال افضل رندھاوا سے مل کر آتے ہیں۔“ میں نے کہا تو اس نے غور سے مجھے دیکھا اور سمجھ گیا کہ میرا اس سے ملناضروری ہے۔ میں نے سیل فون نکال کر رندھاوا کا نمبر پش کیا۔ اس کا فون بند تھا۔ میں نے کچھ دیر بعد فون کرنے کا سوچ کر سیل جیب میں رکھ لیا۔پھر جسپال کو اشارہ کرتے ہوئے کہا 
” چل، حویلی کی خبر لیں،ادھر جا کر نیٹ پر بھی کچھ دیکھتے ہیں۔
میرے یوں کہنے پر وہ اٹھا اور گاڑی نکالنے چل دیا۔ میں نے اندر جا کر سوہنی سے پوچھا کہ وہ جانا چاہے گی ،؟ وہ بھی تیار ہوگئی ۔ ہم نے اماں کو بھی ساتھ لیا اور حویلی چلے گئے ۔
بظاہر سکون تھا۔ کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ صرف میلے والی بات سامنے تھی ۔ میں حویلی کے لان میں اسی چھتری تلے بیٹھاہو اتھا ، جس کے نیچے کبھی شاہ دین بیٹھاکرتا تھا، میرے پاس جسپال اورتانی بیٹھے ہوئے تھے ، ہمارے درمیان یونہی گپ شپ چل رہی تھی۔
تبھی مجھے خیال آیا کہ مجھے افضل رندھاوا کو فون کرنا ہے ۔ میں نے سیل نکالا اور رابطہ کیا ۔ لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔
” بڑی عمر ہے جمال تمہاری۔ میں ابھی تمہیں فون کرنے والا تھا۔“ اس نے پر جوش لہجے میں کہا تو میں نے پوچھا
” خیر تو ہے نا ؟“
” ہے بھی اور نہیں بھی ، یہ تو وقت بتائے گا ، ویسے خبر سن لو ، چوہدری شاہنواز کی ضمانت ہو گئی ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے۔
شاہ زیب اور ملک سجاد اسے لینے عدالت میں آئے ہوئے ہیں۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ تینوں اب اکھٹے جائیں گے ۔“ اس نے بتایا 
” تیرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چوہدری شاہنواز ، ملک سجاد اور شاہ زیب ایک ہو گئے ہیں۔“ میں نے پوچھا
” جی ، اور دوسری اطلاع یہ ہے کہ شاہ زیب اب اپنی زمین واپس لے گا اور پوری طرح سوہنی بی بی کا مقابلہ کرنے آرہا ہے ۔
“ اس نے مزید کہا تو میں نے پوری توجہ سے پوچھا
” یہ اطلاع دی کس نے ؟“
” یار میرے بندے ہیں نا ان کے ارد گرد ، خیر تم گھبرانا نہیں ، میری بات ہو گئی ہے ، کچھ دیر بعد کوئی نہ کوئی بندہ تمہارے پاس ضرور پہنچے گا۔“
” ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا۔ “ میں نے کہا اور فون بند کر دیا ۔ جسپال اور تانی میرا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگا چکے تھے کہ بات کس نوعیت کی ہو گی ۔ میں نے کال کی تفصیل بتائی تو جسپال نے کہا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط