” میرے خیال میں یہ اچھا نہیں ہوا کہ دشمن خود ہی چل کر ہمارے پاس آ رہا ہے ۔“
”لیکن اس کے لئے پوری پلاننگ کی ضرورت ہوگی ۔خیال رہے کہ تینوں نے اپنے طور پر انتقام لینا ہے ، اور وہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔“
” میں سمجھتا ہوں۔“ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا
” چل ، دیکھ کون تجھ سے آ کر بات کرتا ہے ۔ پھر اپنی پلاننگ کر لیں گے ۔“ تانی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تو میں ہنس دیا۔
پھر بولا
” یہ سارا کچھ جو ہو رہا ہے ، یہ سارے حالات جو بن رہے ہیں، کیا ہم نے بنائے ہیں؟“
” نہیں تو ؟“ تانی نے کہا
” تو پھر سوچنا سمجھنا کیسا ؟ حالات جیسے بھی ہوں ، ہم نے اپنا دفاع کر نا ہے ۔ ہمارا مقصد صرف فتنے کو ختم کر نا ہے۔“ میں نے کہا تو وہ ماحول جو ایک دم سے کھردرا ہو گیا تھا ، وہ ٹھیک ہو گیا۔
(جاری ہے)
اس سے پہلے کہ ہم باتیں کرتے، باہر سے ملازم نے آ کر بتایا کہ کوئی صاحب ہیں جو مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔
ان کے ساتھ ایک خاتون بھی ہے ۔
” کون ہیں ، یہ پوچھا؟“
” شکل سے وہ غیر ملکی لگتے ہیں، یہاں کے نہیں ہیں۔“ ملازم نے کہا ۔ تبھی تانی نے تیزی سے کہا
” اسے اچھی طرح چیک کر کے گاڑی وہیں کھڑی کر لینا اور انہیں ادھر بھیج دو ۔“
” ٹھیک ہے جی ۔“ ملازم نے کہا اور واپس مڑ گیا۔ ٹھیک انہی لمحات میں جسپال کا فون بج اٹھا۔ اس نے اپنا سیل دیکھا اور ماتھے پر تیوریاں ڈالتے ہوئے کہا
” نمبر کوئی نہیں ہے ، شاید روہی سے ہو ۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے اسپیکر آن کر کے فون کال رسیو کرلی
” ہیلو جسپال ۔، جسمیندر بات کر رہا ہوں ۔“ دوسری طرف سے آواز آئی تو جسپال نے پوچھا
” اوہ جسمیندر ، کیا حال ہے تیرا ، کدھر ہو ؟ اور اتنے عرصے بعد کال کی ؟“
” میں، ادھر کینیڈامیں ہی ہوں۔ کال اس لئے کی کہ ابھی تمہارے گیٹ پر ، بلکہ ، جمال کے گیٹ پر، نہیں میرا مطلب ہے سوہنی بی بی کی حویلی کے گیٹ پر دو مہمان آکر رکے ہیں۔
وہ اپنے ہی بندے ہیں۔“ جسمیندر نے ایک ہی سانس میں اپنی معلومات بتانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ ہمارے بارے میں سب جانتا ہے ۔
” کون ہیں وہ ، کس لئے آئیں ہیں وہ ؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا
”اپنے ہی لوگ ہیں، دوست ہیں میرے ۔اور وہ جو بات کریں گے ،وہ خود ہی کریں گے ۔ حالات جو بھی ہوں ، مجھے یقین ہیں کہ تم سب ان کے ساتھ سلوک اچھاکروگے،وہ مہمان ہیں تمہارے ۔
“ جسمیندر نے دوسرے لفظوں میں ہمیں احساس دیا کہ اگر بات سمجھ میں آتی ہے یا نہیںآ تی ، ان کے ساتھ اچھا ہی برتاؤ کیا جائے ۔
” ٹھیک ہے ، میرے خیال میں وہ آگئے ہیں۔“ جسپال نے دور سے ایک نوجوان جوڑے کو آتا دیکھ کر کہا تو جسمیندر بولا
” بعد میں کال کرتا ہوں۔“ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔
میرے سامنے لان کے درمیان پختہ راہداری پر نوجوان جوڑا چلتا چلا آرہا تھا۔
لڑکے نے رائل بلیو سوٹ کے ساتھ ہلکی نیلی شرٹ اور سرخ ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ لمبے قد کا کسرتی بدن والا، اس کے ساتھ سفید کرُتا ، کالی جینز والی لڑکی تھی جس کے بال بوائے کٹ تھے۔ اس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا۔ایک چھوٹا سا بیگ کاندھے پر تھا۔ وہ ہمیں دیکھ کر سیدھے ہی ہماری طرف آگئے ۔
” تانی ، ان کے کھانے پینے کا بندو بست کرو۔“ جسپال نے کہا تو تانی اُٹھ کر دور چلی گئی ۔
وہ وہاں سے ہٹی نہیں بلکہ فون پر ہی سب کہہ دیا ۔ وہ ان کی طرف سے الرٹ تھی، تانی کی یہ ادا مجھے بہت اچھے لگی تھی۔ نوجوان نے آتے ہی اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور انگریزی میں بولا
” ہیلو، میں جا ن ہوں ، برطانیہ سے ۔ تم جسپال ہو نا اور یہ جمال۔“
” میں جسپال ہی ہوں ۔“ اس نے ہاتھ ملایا تو جان نے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھا دیا
” میں کرسٹینا، فرانس سے “
وہ دونوں ہاتھ ملا کر بیٹھ گئے تو نوجوان نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا
” میں آپ سے پہلے کبھی نہیں ملا، مگر آپ کے بارے میں مجھے بتایا ضرور گیا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ جسمنیدر نے ہمارے بارے میں آپ کو فون کر دیاہوگا۔“ اس نے تصدیق کرتے ہوئے پوچھا
” ہاں بتا دیا ہے ۔ لیکن اس نے تم دونوں کی آمد کا مقصد نہیں بتایا۔“ جسپال نے کہا
” اگر آپ کو جلدی ہے تو میں چند منٹ میں اپنی بات ختم کر دیتا ہوں لیکن اگر مجھے اپنی بات سمجھانے کا موقعہ دیں گے تو میں پوری تفصیل سے بات کہوں گا بھی اور اگر آپ چاہیں گے تو میں سمجھانے کی کوشش بھی کروں گا۔
“
” ٹھیک ہے ، تم اطمینان سے اپنی بات کہو۔“ جسپال نے کہا تو اس دوران میرا سیل فون بج اٹھا ۔ وہ چھاکے کی کال تھی ۔ میں نے فون رسیو کیا تو چھاکے نے تیزی سے کہا
” اوئے زلفی نے کارروائی ڈال دی ، اس نے وقاص کو گولیاں مار دیں ہیں۔“
یہ خبر ہلا دینے والی تھی ۔ایک لمحے کے لئے تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی، میں اس اطلاع پر کیسے ردعمل کا اظہار کروں ۔
میں ان کے سامنے یہ فون نہیں سن سکتا تھا ، اس لئے اٹھ کر ذرا فاصلے پر چلا گیا اور دھیمے لہجے میں پوچھا
”یہ کیسے ہوا ؟ کچھ پتہ چلا؟“
” ہونا کیا تھا۔ زلفی یہاں سے گھرگیا ، پروین کو چھوڑا اور سیدھا وقاص کے ڈیرے پر چلا گیا۔ وہ کہیں جانے کے لئے اپنی لینڈ کروزر پر سوار ہو رہا تھا۔ زلفی نے جاتے ہی فائر کھول دیا۔ پورا برسٹ اس کے بدن میں اتار دیا، ساتھ میں دو گارڈز بھی پھڑک گئے ہیں۔
“ اس نے بتایا تو میں نے خود پر قابو پا کر پوچھا
” پھر ۔!وقاص بچا تو نہیں ہوگا۔“
” وہ نہیں رہا اس دنیا میں۔ “ چھاکے نے مزید بتایا تو میں نے پوچھا
” اور زلفی کہاں ہے ؟“
” اس بارے کوئی پتہ نہیں ، وہ ڈیرے پر گیا، اس نے فائرنگ کی ، جب تک کسی کی سمجھ میں آیا ، وہ وہاں سے بھاگ گیا، پورے علاقے کے لوگ ہائی الرٹ ہیں مگر پھر بھی زلفی کا کچھ پتہ نہیں چلا۔
“
” خیر اس کی خبر رکھنا، اگر رابطہ کرے تو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مجھے بتانا، میں ابھی مصروف ہوں ، بعد میں بات کرتے ہیں۔“ میں نے اسے سمجھایا اور فون بند کر دیا۔
جان اور کرسٹینا بظاہر جسپال کی بات سن رہے تھے ، لیکن ان کی ساری توجہ میری طرف تھی۔ میں جیسے ہی ان کی سامنے والی کرسی پر آ کر بیٹھا تو جان نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا
”ہم دراصل ایک عالمی انسانی حقوق کی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہم لوگ امن، تعلیم اور انسانی وسائل کے کے لئے کام کرتے ہیں۔ ہمارا مرکز ی دفتر برطانیہ میں ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ہماری شاخیں ہیں۔ یہاں پاکستان میں بھی شاخ ہے۔ ہم اسی سلسلے میں آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں، تاکہ آپ کو ہم اپنے بارے میں بتا سکیں ۔“
” بہت سارے اداروں کو آپ نے دعوت دی ہے، ان میں ایک ادارہ ہمارا بھی ہے ۔آپ تعلیمی میدان میں یہاں کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہماری خدمات حاضر ہیں۔
“ کرسٹینا نے بتایا تو میں نے کہا
” آپ کو میں نے دعوت نہیں دی۔“ میں نے دونوں کی طرف دیکھ کر کہا
” سوہنی بی بی کی طرف سے خط تھا۔ ہم اس کی تفصیلات کے لئے آئے ہیں۔“ کرسٹینا نے کہا تو ایک لمحے کے لئے میں سوچ میں پڑ گیا۔ پھر چند لمحے بعد میں نے ان سے کہا ،” آپ پلیز، ہمیں کچھ وقت دیں، تانی بی بی ہی آپ سے بات کریں گی ۔ “ یہ کہتے ہوئے میں اٹھا تو جسپال بھی میرے ساتھ اٹھ آیا۔
میں حویلی کے اندر گیا اور جسپال سے پوچھا
” یہ کیا ڈرامہ ہے ؟ جسمیندر کا تعارف اور یہ لوگ دوسری بات کر رہے ہیں۔“
” میں اس سے بات کرتا ہوں۔“ اس نے سیل سے جسمیندر کو کال ملائی ، لمحوں میں اس سے رابطہ ہوگیا۔جسپال نے ان دونوں کے بارے میں بتایا تو وہ ہنستے ہوئے بولا
” بظاہر ان کا یہی کام ہے ۔ لیکن اصل میں اِن کے جوکام ہیں، ان کی تفصیلات میں تمہیں بعد میں بتا دوں گا، یہ یاد رکھو کہ میں نے انہیں تمہارے پاس بھیجا ہے ، میں نے ہی انہیں معلومات دی ہیں۔
لیکن وہ لوگ مجھ سے براہ راست واقف نہیں ہیں ، میں ان کے بارے میں سب جانتا ہوں۔“
” کچھ تو بتاؤ ، ان کے بارے میں ، ایسے ان سے کوئی کیا بات کرے۔“
” انہوں نے وہی کچھ بتانا ہے جو وہ بظاہر کرتے ہیں۔ اس نے پس منظر میں تفصیل یہ ہے کہ بلاشبہ ان کا تعلق عالمی انسانی حقوق کی تنظیم سے ہے لیکن ان کا ٹارگٹ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنے علاقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔
جو بالاآخر سیاست کی دنیا میں داخل ہو کر اسمبلی تک پہنچ سکتے ہیں۔اٹھارہ کروڑ عوام کے ذہن بدلنے کی بجائے وہ چند ایسے لوگوں پر بے بہا نواز شات کرتے ہیں۔ اور پھر ان سے اپنے مقاصد حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی پارٹی کوئی بھی ہو، وہ ہرطرف سے اپنا فائدہ لینے میں کامیاب ہیں۔“
” ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟“ جسپال نے پوچھا تو اس نے کہا
” اب تم بچوں والی بات کر رہے ہو ، یار عالمی طاقتوں کا ایجنڈا کیا ہے ؟ وہ مختلف روپ میں اپنے خونیں پنجے گاڑتے ہیں، یہ بھی سمجھو ان کا ایک پنجہ ہے۔“
” اب بتاؤ ، ان کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟“ جسپال نے پوچھا۔