Episode 97 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 97 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرو اور انہیں پھر آنے کا کہہ دو ۔ اس دوران تمہیں روہی سے بھی معلومات مل جائیں گی۔ اگر تم لوگ ان سے مدد لینا چاہو تو یہ بہت زیادہ مدد دے سکتے ہیں ۔“ جسمیندر نے مشورہ دیا تو میں سمجھ گیا کہ ضرور اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے ، یہ ابھی صرف تعارف چاہتا ہے ۔ میں نے جسپال کے ذمے لگایا کہ وہ ان کے ساتھ بات چیت کرے۔جسپال چلا گیا تومیں نے رندھاواکا نمبر ملایا ۔
اس نے فوراً ہی کال رسیو کر لی تو میں نے پوچھا
” تمہارے کسی بندے نے آ نا تھا، آ یا کیوں نہیں، میں انتظار کر رہا ہوں۔“
” آنا تو تھا، لیکن وہ پیرزادہ وقاص قتل ہو گیا ہے نا، اس لئے تھوڑی سی ہلچل ہے ۔ میں خود آتا ہوں اسے اپنے ساتھ لے کر ۔“
” اور وہ دوپنچھی جو ادھر آنا چاہ رہے تھے ؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولا
” وہ آئیں گے ، یہ ان میں طے ہے۔

(جاری ہے)

شاہنواز انہیں لے کر آئے گا۔ میں اسی کے لئے تو سار ا بندو بست کرنا چاہ رہا تھا، خیر ملتے ہیں یار بعد میں اور تفصیل طے کرتے ہیں ۔“ اس نے تیزی سے کہا اور فون بند کر دیا۔ میں نے ایک طویل سانس لی اور حویلی کے اندر چلا گیا۔
میں نے نیٹ آن کیا اور روہی کی طرف سے کسی متوقع ہدایات کے لئے میل دیکھی۔ وہاں میرے لئے بہت کچھ تھا۔ جان اور کرسٹینا کے بارے میں تفصیل درج تھی۔
وہاں ان لوگوں کے بارے میں بھی فہرست تھی جو اس تنظیم کے پروردہ تھے اور اس وقت سیاست میں طاقتور تھے۔ انہیں بہت اچھا ریسپانس دینے کو کہا گیا تھا۔ تفصیلات پڑھنے میں مجھے کچھ وقت لگ گیا ۔ لیکن بنیادی معلومات مل گئیں۔ میں نے نیٹ بند کیا اور واپس لان میں آگیا جہاں میز پر ڈھیر سارے لوازمات سجے ہوئے تھے ۔ سوہنی ، سارہ اور جسپال سے وہ باتیں کر رہے تھے۔
سوہنی ان سے کہہ رہی تھی ۔
” آ پ کی خدمات بہت اچھی ہیں۔ اور لوگ بھی ہمارے رابطے میں ہیں۔ بہت جلد ہم آپ سے رابطہ کرتے ہیں۔“
” ہم انتظار کریں گے ، اور آپ ہماری بہترین خدمات سے استفادہ کریں گے ، اس کی ہم پوری توقع رکھیں گے ۔“ جان نے مسکراتے ہوئے کہا تبھی کرسٹینا اٹھتے ہوئے بولی 
” تو پھر ہمیں اجازت دیں۔“
” نہیں آپ ہمارے ساتھ لنچ کریں گے ، اس وقت تک آپ آرام کر سکتے ہیں، چاہیں تو گپ شپ کریں ۔
“ جسپال نے کہا تو جان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔ 
سہ پہر کا وقت تھا۔ میں اپنے گھر میں نیم کے درخت تلے پڑا ، رندھاوا کا انتظار کر رہا تھا کہ ایسے میں تانی آگئی ۔ وہ میری سامنے والی چار پائی پر آ بیٹھی پھر میری جانب دیکھتے ہوئے بولی
” یہ وقاص کا قتل ہمارے لئے کوئی مشکل پیدا کر سکتا ہے؟“
” میرے خیال میں تو آسانی ہی ہوئی ہے ، تم نے ایسے کیوں سوچا؟“ میں نے اس سے پوچھا
” ظاہر ہے اس کی آخری رسومات پر شاہنواز کے ساتھ، ملک سجاد اور شاہ زیب بھی آئیں گے ، انہیں یہاں آنے کا جواز مل گیا ہے ۔
” میں انہیں ویسے بھی یہاں آنے سے نہیں روک سکتا۔ ہاں اگر یہاں آکر وہ کوئی ایسی ویسی بات کرتے ہیں تو پھر میرا خیال ہے انہیں معاف نہ کیا جائے ۔“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ بولی 
” تمہارے خیال میں کیا اب وہ میلہ لگانے کی ضد کریں گے ، ظاہر ہے وہ ہمیں گھیرنے کے لئے یہ سارا اہتمام کر رہے تھے ۔“
” وہ نہیں ، اب ہم چاہیں گے کہ میلہ لگے، وہ بھی ہماری مرضی کے مطابق، باقی جو حالات ہوں گے، اس کے مطابق دیکھ لیں گے ۔
“میں کہہ چکا تو ایک دم سے میرے ذہن میں خیال آیا، میں نے تانی کے چہرے پر دیکھا اور پیار بھرے لہجے میں پوچھا،” تانی ، تم کہیں بور تو نہیں ہو گئی ہو، یہاں کی زندگی سے اُکتا گئی ہو؟“
” میں اکتائی نہیں ، بلکہ اتنے سارے لوگوں کے درمیان رہنے کا مجھے مزہ آ رہا ہے، بس ایک شکایت ہے مجھے ۔“ اس نے حسرت آمیز لہجے میں کہا 
” وہ کیا شکایت ہے ؟“ میں نے پوچھا 
” تم مجھے وقت نہیں دیتے ۔
میں جانتی ہوں کہ اب تمہارا اپنا کوئی وقت نہیں ہے لیکن پھر بھی ، میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ، ہر دم ہر پل ۔“
” اوکے،میں کوشش کروں گا کہ تم میرے ساتھ رہا کرو ، اب خوش ؟“ میں نے کہا تو وہ ایک دم سے خوش ہو گئی۔ پھر کراچی میں گذرنے والے وقت کی بابت بتاتی رہی ۔ اسی دوران رندھاوا کی کال آگئی کہ وہ آگیا ہے ۔ میں نے اسے اندر آ جانے کو کہا تو وہ اندر صحن ہی میں آ گیا۔
 رندھاوا اب ڈی ایس پی بن چکا تھا۔ ایک بہت بڑا معرکہ اس نے سر کیا تھا۔ را کے ایجنٹ پکڑنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔لیکن شاہنواز کا بچ جانا،گویا سانپ کو زخمی کر دینے کے مترادف تھا۔ اس وقت وہ سادہ لباس میں تھا۔ اس کے ساتھ ایک لمبا تڑنگا، خوبرو نوجوان تھا۔ انہیں دیکھتے ہی تانی اٹھ گئی۔ علیک سلیک کے بعد رندھاوا نے اس نوجوان کا تعارف کرایا
” یہ شعیب ہے ، اورصاف بات بتادوں کہ یہ اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کا آفیسر ہے ۔
اس کی ڈیوٹی تمہارے ساتھ لگائی جا رہی ہے ، تمہارے ساتھ مطلب اس علاقے میں ، ظاہر ہے اسے یہاں رہنے کا کوئی جواز چاہئے ہوگا۔“ رندھاوا کہہ چکا تو میں نے براہ راست شعیب کی طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں نے اسے پہلے کہیں دیکھا ہوا ہے ، کہاں دیکھا ہے ، یہ مجھے یاد نہیں آرہا تھا۔ لمحہ بھر سوچتے رہنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا
” کیسا جواز چاہیے تمہیں؟“
” حویلی میں کوئی ایسی جاب، جس سے میں آزادنہ ادھر ادھر آ جا سکوں ۔
” ہو گیا،تم ابھی سے وہاں جاب پر ہو ۔ اور میرا نہیں خیال کہ تمہیں مزید کوئی بات سمجھانا ہوگی ۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ مسکراتے ہوئے بولا
” میں سمجھتا ہوں ، آپ بے فکر رہیں۔“
”وقاص کی نماز ِ جنازہ مغرب کے بعد ہے ۔ آؤ گے ؟“ رندھاوا نے پوچھا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا
” کیوں نہیں ،ضرور آؤں گا۔“
” ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔
“ یہ کہہ کر وہ اٹھا تو تانی نے کچن کے دروازے پر ہی سے کہا
” چائے بن گئی ہے ، پی کے جائیں۔“
اس پر رندھاوا ایک دم سے چونکا اور بولا
” مجھے تو خیال ہی نہیں تھا۔ یہ بھی یہاں پر ہیں۔“
” تعارف ہے اس سے ؟“
” ہاں ، ان کے بارے میں سنا ہے ۔“ اس نے کہا اور چارپائی پر بیٹھ گیا تومیں نے اس سے پوچھا
” تم نے یہ نہیں پوچھا کہ شعیب کی ڈیوٹی کیوں لگائی گئی ہے ادھر ؟“
” یہ ہی بتا دیتا ہے۔
“ اس نے شعیب کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ دھیمے سے لہجے میں بولا
” شاہ دین یہاں کا ایم این اے تھا، اور شاہنواز ایم پی اے۔ یہ دونوں بیرونی قوتوں کیلئے کام کرتے تھے، خاص طور پر ’را ‘کے لئے۔ ان کے بڑے بڑے پرا جیکٹ تھے، جنہیں آپ کی مدد سے ختم کیا گیا۔ میں یہاں پر اس لئے ہوں کہ یہ دوبارہ کم از کم اپنے علاقے میں کوئی ایسا کام نہ کریں اور انہیں کبھی بھی اسمبلی کارکن منتخب نہ ہونے دیا جائے ۔
” ٹھیک ہے ، لیکن ان کے پرا جیکٹ کیا تھے ؟“ میں نے پوچھا۔ ایسے میں تانی چائے کے کپ ایک ٹرے میں رکھے آگئی ۔ سب نے کپ لئے تو وہ ایک طرف بیٹھ گئی ۔
” میں آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا۔ میں نے اسے خصوصی طور پر اسٹڈی کیا ہے ، فی الحال اتنا جان لیں کہ یہ اعلی سطح کی معلومات دیتے تھے ،اپنے دشمنوں کو ختم کرتے تھے ،ٹارگٹ لوگوں کا قتل، خوف وہراس ،خاص طور پر تعلیم دشمنی ۔
“ ا س نے اختصار سے بتایا تو میں نے پوچھا
”وقاص کی یاری شاہنواز سے تھی لیکن وہ شاہ دین کے خلاف تھا، اب شاہ زیب…“
” میں بتاتا ہوں ۔“ اس نے میری بات کاٹ کر کہا، پھر لمحہ بھر سانس لے کر بولا
” وقاص خود ایم پی اے بننا چاہتا تھا، اس لئے ایک لمبی سازش کر رہا تھا۔ اب شاہ دین نہیں رہا تو شاہنواز ایم این اے اور وقاص ایم پی اے بننا چاہتا تھا۔
اب وقاص کی جگہ شاہ زیب لے گا۔ وہ اب سکون سے نہیں بیٹھیں گے ۔ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اسمبلی تک رسائی لیں۔ اور ایسا ہم نے ہونے نہیں دینا۔“
” مستقبل کی بات تو ایسے ہی سمجھ میں آتی ہے ۔ یورپی یونین کے لوگ بھی اس علاقے میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیا وہ بھی ایسے ہی ہیں؟“ میں نے پوچھا
” طریقہ واردات مختلف ہے اور ظاہر ہے ، جو آدمی کروڑوں اربوں روپے لگا کر رکن بنتا ہے ، اس کی اپنی دلچسپی تو ہے نا کہ اس سے دوگنا مال کمائے ۔
وہ کئی گنامال لگاتے ہیں اور اپنا مقصدحاصل کرتے ہیں ۔ جمال صاحب۔! تاریخ شاہد ہے کہ جب تک کوئی قوم مضبوط ہے ، اسے کوئی شکست نہیں دے سکا ، کھوکھلی قوم کو اپنی انگلیوں پر نچایا جا سکتا ہے ۔ اور یہ لوگ قوم کو کھوکھلا کرنے کا جرم کر رہے ہیں ۔ ان کی اپنی زندگی تو شاید اچھی بن جائے لیکن آئندہ آنے والی نسلوں کو تاریکی میں دھکیل رہے ہیں۔“ 
” فکر نہیں کرو شعیب ، کم از کم یہ لوگ اب ہماری انگلیوں پر ناچیں گے۔
“ میں نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا تووہ لمبی سانس لے کر رہ گیا۔
” ٹھیک ہے ، میں اب چلتا ہوں،وقاص کے ہاں ہی ملاقات ہوگی۔“رندھاوا نے اٹھتے ہوئے کہا تو شعیب بھی اٹھ گیا۔
” میں آتا ہوں حویلی۔“
وہ دونوں چلے گئے ۔ تانی نے میری طرف دیکھ کے کہا
” لگتا ہے ، بہت ساری قوتیں یہاں جمع ہو رہی ہیں، تم نے محسوس کیا؟“
”ہاں۔! ایسا ہونا ہی ہے تانی، جب بھی کہیں اچھائی ہونے لگتی ہے ، تبھی وہیں شیطانی قوتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔“ میں نے کہا تو وہ سر ہلاتے ہوئے اٹھ گئی۔
                                #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط