Episode 101 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 101 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

رات کااندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔لیکن ہمارے گھر میں اُجالا تھا۔ اماں نے گھر میں رات کے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ سارہ ، اس کا بیٹا مراد ، تانی اور سوہنی کے ساتھ چھاکا بھی موجود تھا۔ اماں نے صحن میں ہی دستر خوان لگا دیا۔ ہم بڑے سکون سے کھانا کھا رہے تھے کہ میرا فون بج اٹھا۔ میں نے فون سننے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو سوہنی نے روکتے ہوئے کہا
” جمال کھانا تو کھا لو ، پھر دیکھ لینا۔
میں نے ہاتھ روک لیا۔ مگر فون مسلسل بجنے لگا تو اماں نے کہا
” جمال دیکھ لو نا ۔“
میں نے فون اٹھا کر اسکرین دیکھی تو وہ حویلی سے تھا۔ میں کال رسیو کی تو دوسری طرف سے سیکورٹی گارڈز کا انچارج تھا۔ میری آواز سنتے ہی بولا
” سر آپ فائرنگ کی آواز سن رہے ہوں گے ، حویلی پر حملہ ہوا ہے، پتہ نہیں کون لوگ ہیں۔

(جاری ہے)

” انہیں کچھ دیر روک کر رکھو ، میں ابھی آیا ۔
“ میں نے کہا اور انتہائی تیزی سے اٹھتے ہوئے کہا،” حویلی پر حملہ ہو گیا ہے ، جلدی نکلو ۔“
جب تک میں ہتھیار اٹھا کر نکلا، چھا کے کے ساتھ تانی جا کر کار میں بیٹھ چکی تھی۔ اس نے سوہنی اور سارہ کو سختی سے منع کر دیا کہ کچھ بھی ہو باہر نہیں نکلنا ۔ چھاکا کسی کو فون کر رہا تھا۔ اسی دوران اس نے تیزی سے کہا،
” تم نکلو ، میں آ رہا ہوں۔
 میں کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار بھگا دی ۔ گاؤں سے نکل کر جیسے ہی میں سڑک پر آیا تو تانی نے کہا
” جمال، بہت دھیان سے ، ہو سکتا ہے دشمن ہمارے لئے گھات لگائے بیٹھا ہو ۔“
” تم ٹھیک کہتی ہو ۔“ میں نے سوچتے ہوئے کہا اور کار ایک دم سے اس کچے راستے پر ڈال دی جو حویلی کے پچھلی طرف سے نہر پر جا نکلتی تھی۔ بچپن سے حویلی کا ایک ایک راستہ میں نے سوچا ہوا تھا۔
اچھا خاصااندھیرا تھا۔ میں نے کار کچھ فاصلے پر روکی اور نکل کر تقریباً بھاگتے ہوئے آگے بڑھا۔ تانی میرے ساتھ تھی۔ وہ مجھ سے ذرا فاصلے پر تھی۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہم حویلی کی چار دیواری تک جا پہنچے۔ چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں تیزی سے اندر داخل ہوا۔ کافی دور سے فائرنگ کی آواز آ رہی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ حملہ اتنا بھرپور نہیں تھا یا پھر دشمن کچھ اور ہی چاہتا تھا۔
میں حویلی کے بغلی دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے چار پانچ گن بردار ملازمین کو یرغمال بنائے کھڑے تھے۔ 
 وہ حویلی میں جس حد تک آ چکے تھے،وہ توایک حقیقت تھی ۔ لیکن میں فائر کرنے سے پہلے پوری طرح جانچ لینا چاہتا تھا کہ وہ کس حد تک رسائی کر چکے ہیں۔اچانک مجھے شعیب کا خیال آیا۔ میں نے اسے کال ملائی تو اس نے فوراً کال وصول کر لی
” کہاں ہو تم ؟“ میں نے پوچھا
” میں اس وقت حویلی کی دوسری منزل پر ہوں۔
“ اس نے تیزی سے بتایا
” صورت حال کیا ہے؟“ میں نے پوچھا
” نچلی منزل تک وہ آگئے ہیں، دوسری کی طرف وہ بڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی طرف سے خاموشی چھا گئی ہے ، کوئی فائرنگ نہیں ہو رہی ہے ۔ نیچے کیا صورت حال ہے ، میں نہیں جانتا۔“
” میں نیچے ہوں ، انہیں اوپر نہیں آنے دینا، کوشش کرنا کہ ان میں سے لوگ زندہ پکڑے جائیں۔ فکر نہیں کرنا۔
“ یہ کہہ کر میں فون بند کر دیا۔ میں نے ملگجی روشنی میں تانی کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر غضب تھا، اس نے سب سن لیا تھا۔ ہم نگاہوں ہی نگاہوں میں پلان ترتیب دے کر خاموشی سے مخالف سمتوں کی جانب بڑھ گئے۔
وہ پانچوں میرے سامنے تھے۔ تین ایک طرف تھے اور دو ایک جانب، انہوں نے ملازمین پر گنیں تانیں ہوئیں تھی ۔ اچانک ایک طرف سے فائر ہوا، اسکے ساتھ ہی ایک زمین پر گر کر تڑپنے لگا، اس سے پہلے کہ وہ سمجھتے میں نے تین والی قطار میں سے ایک کو نشانہ بنایا اور فائر کر دیا۔
جب تک وہ فائر کی سمت کااندازہ کرتے یا بھاگ کر جاتے ، دو مزید فائر ہوئے ، وہ بھی زمین پر تھے۔ ایک آخری بچا تھا وہ باہر کی جانب بھاگا، اس کے دونوں طرف سے فائر آ لگے۔ ان کے گرتے ہی ملازمین اٹھ گئے۔ میں نے دور ہی سے پوچھا۔
” اندر کتنے لوگ ہیں؟“
” کوئی بھی نہیں ہے ،“ ایک ملازم بولا تو میں نے سامنے آ کر کہا
” سب لوگ ایک کمرے میں چلے جاؤ۔
ایک اوپر جا کر شعیب سے کہے کہ نیچے آ جائے اور انہیں دیکھے، جو زندہ ہے اسے سنبھالے۔“ میں نے تیزی سے کہا، کہنے کے دوران تانی میرے پاس آ گئی۔ اب ہمیں باہر کی جانب دیکھنا تھا۔ میں اور تانی باہر کی جانب نکلے ہی تھے کہ باہر سے زور دار فائرنگ ہونا شروع ہو گئی ۔ایک دو منٹ یہ بھر پور فائرنگ رہی پھر ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ میں محتاط انداز میں آگے بڑھتا چلا گیا۔
تبھی چھاکے کا فون آ گیا
” کدھر ہو ، میدان صاف ہے۔“
” میں گیٹ پر آرہا ہوں۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ پھر سوہنی کا نمبر ملا کر اسے محتاط ہو جانے کا کہا ، وہ مجھ سے تفصیل پوچھنا چاہتی تھی لیکن وقت نہیں تھا۔ میں گیٹ کے پاس پہنچا تو وہاں چھاکا کئی سارے لوگوں کے ساتھ تھا ، اس نے کچھ لوگوں کو زمین پر لٹایا ہوا تھا۔ میں نے جاتے ہی کہا
” چھا کے ان سب کو سنبھالو، میں ابھی آتا ہوں ۔
“ میں نے کہا اور سامنے کھڑی بائیک پر بیٹھا تو تانی میرے پیچھے آ بیٹھی۔ نجانے کیوں مجھے بے چینی ہو رہی تھی ۔ اس حملے کا مقصد مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ جو میں سمجھ رہا تھا وہ بہت بھیانک تھا ۔ میں ہوا کی رفتار سے اپنے گاؤں کی طرف جا نکلا۔
میں گلی میں پہنچا تو دھک سے رہ گیا۔ وہی ہوا جو میں نے سوچا تھا۔گلی میں تین گاڑیاں اور دو موٹر سائیکل کھڑے تھے۔
دو آدمی گیٹ میں گولیاں مار رہے تھے۔ فائرنگ کی آواز سے پورا ماحول خوف سے بھرا ہوا تھا۔
” تانی ۔! تم یہیں ٹھہرو، میں اوپر کی گلی سے جاتا ہوں، جیسے ہی موٹر سائیکل کی روشنی نظر آئے تم …“ یہ کہتے ہوئے میں نے اسے دستی بم دے دیا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بائیک سے نیچے اتر گئی۔ میں اسی وقت واپس مڑا اور برق رفتاری سے بڑھا۔ بلاشبہ وہ سوہنی کو اغواء کرنے کے چکر میں تھے ۔
انہوں نے بہت سوچ کر پلان کیا تھا ۔ یہ پلان ہمارے درمیان کسی بندے کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ میں گلی کی نُکر پر پہنچا اور بریک لگا کر جیسے ہی دستی بم کی پن نکالی، گلی میں ایک زبردست دھماکا ہوا، اسی لمحے روشنی ہوئی ، میں نے بھی بم پھینک دیا۔ اچانک ہی کئی چیخیں بلند ہوئیں۔ ان میں سے کئی میری طرف بھاگے۔ میرے ہاتھ میں آ ٹومیٹک پسٹل تھا۔
میں نے تاک کر ان کا نشانہ لینا شروع کر دیا۔ گلی کی دوسری نُکر پر بھی ایسی ہی فائرنگ تھی۔ اس وقت میں حیران رہ گیا جب میرے گھر کی چھت پر سے فائرنگ ہونے لگی۔ اچانک ہی ایک زور دار دھماکا ہوا ، یہ چھت پر سے دستی بم تھا۔ چھت پر بنا کمرہ اسلحے سے بھرا ہوا تھا۔ گلی میں چیخیں ، کراہیں اور آہ وزاری تھی ۔ میں چند منٹ وہیں کھڑا رہا ، پھر اسی طرح اوپر سے گھوم کر وہاں چلا گیا جہاں تانی تھی ۔
وہ مجھے دکھائی نہیں دی ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا وہ دیوار کی جڑ کے ساتھ بے حس و حرکت لیٹی ہوئی تھی۔ میں چونک گیا ۔ تانی کا اس طرح پڑے ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ میں نے بھاگ کر اسے اٹھایا تو وہ بے ہوشی کی حالت میں تھی۔ اس کا پورا بازو خون سے لت پت تھا، اس نے کاندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا، جہاں سے خون ابل رہا تھا۔ میرا دماغ اچانک پھر گیا۔
میں نے اس کا پسٹل اٹھایا اور فائر کرنے ہی والا تھا کہ مجھے ایک دم سے خیال آیا۔ یہ میری بے وقوفی تھی ۔ مجھے تانی کو بچانا چاہیے تھا۔ میں نے لمحے میں خود پر قابو پایا اور فون نکال کر چھاکے کا نمبر پش کیا۔
” میں گاؤں آ رہا ہوں۔“
” جلدی پہنچ، تانی کو فائر لگا ہے۔“ یہ کہہ کر میں نے فون جیب میں ڈالا اور پسٹل تان لی۔ سامنے سے فائرنگ ختم ہو چکی تھی ۔
شاید وہ لوگ دبک گئے تھے یا پھر بھاگ گئے تھے ، اس بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اچانک چھت پر سے پھر فائرنگ ہوئی مگر نیچے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔تبھی مجھے خیال آیا کہ میں سوہنی کو فون کر کے پوچھوں ۔ میں نے جلدی سے کال ملائی تو لمحوں میں رابطہ ہو گیا
” میں چھت پر ہوں، میرے ساتھ سارہ ہے، اماں اور مراد نیچے ہیں۔“
” ٹھیک ہے میں گلی ہی میں ہوں۔
“ یہ کہہ کر میں نے فون بند کردیا ۔میں نے جان بوجھ کر تانی کے بارے میں اسے نہیں بتایا۔ چھاکا پہنچ گیا تو اس کی کار کی ہیڈ لائیٹس کی وجہ سے گلی میں روشنی ہو گئی۔ اس کے ساتھ کافی لوگ تھے جو یکے بعد دیگرے اپنی اپنی گاڑیوں میں وہاں پہنچ گئے ۔گلی روشن ہو گئی تھی۔ مجھے کوئی بندہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیا۔ اگر کوئی تھا تو وہ چھپاہوا ہو سکتا تھا۔
چھاکے نے تانی کو کار میں ڈالا اور مجھے وہیں رکنے کا کہہ کر نکل گیا۔ کچھ اس کے ساتھ چلے گئے اور باقی وہیں ٹھہر گئے۔
”جو کوئی بھی ہے اسلحہ پھینک کر باہر آ جائے ، ورنہ دیکھتے ہی گولی مار دوں گا۔“ میں نے اونچی آواز میں کہا تو چند لمحے تک کوئی حرکت نہ ہوئی ، پھر ایک کار کی سائیڈ سے آدمی نکلا۔اس نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ زخمی تھا۔
وہ قریب آیا تو اسے لوگوں نے سنبھال لیا۔ اگلے چند منٹ تک کوئی دکھائی نہ دیا تو میں آگے بڑھا۔ میرے ساتھ دو نوجوان تھے ۔ اچانک ایک کار کے پیچھے سے ایک بندے نے فائر کرنا چاہا ، وہ فائر تو نہ کر سکا، اس سے پہلے ہی تین فائر اسے لگ گئے ۔ وہ ڈکارتاہوا زمین پر تڑپنے لگا۔ میرے سامنے کئی بے حس و حرکت لوگ پڑے ہوئے تھے ، جن کا مجھے افسوس تھا۔ وہ ان لوگوں کی حفاظت کر رہے تھے ، جو انسان کہلانے کے حق دار ہی نہیں تھے۔
پوری گلی میں پھر لیا۔ کوئی خطرہ نہ رہا تو میں نے سوہنی کو فون کرکے باہر آ جانے کو کہا۔ اگلے چند منٹ میں وہ چاروں باہر آئے ، باہر کامنظر بڑا بھیانک تھا۔ وہ فوراً ہی حویلی کے لیے نکل گئے۔ میں اس زخمی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا
” کس نے بھیجا ہے تم لوگوں کو ؟“
” شاہ زیب نے ، ہم اس کے ساتھ ہی آئے ہیں ۔ “ اس نے کراہتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھا
” اس کا فون نمبربول، میں اس سے پوچھ لوں کہ وہ تیرا علاج کروائے گایا میں کروں۔
” میں مر جاؤں گا ، مجھے بچا لو ، جو کہو گے کروں گا۔“ اس نے منّت بھرے انداز میں کہا تو میں نے اپنا سوال دھرا دیا تو اس نے نمبر بتا دیا۔ میں نے شاہ زیب کا نمبر ملایا ۔چند لمحے بعد رابطہ ہو گیا۔ اس نے ہیلو کہا تو میں نے آواز پہچانتے ہوئے کہا
” تجھے پتہ تو چل ہی گیا ہوگا کہ تیرے سارے بندے مارے گئے ہیں ، یا میرے قبضے میں ہیں ۔
اب یہ مت کہنا کہ تم نے تو بندے بھیجے ہی نہیں تھے۔“
” یہ تو شروعات ہیں پیارے ، میلے تک دیکھ تیرے ساتھ ہوتا کیا ہے ۔ تو اس قابل ہی نہیں رہے گا کہ میلے میں جا سکے ، ورنہ وہیں تجھے ختم کروں گا ، میں جانتا تھا کہ تو ایسے ہی کسی حملے کی تیاری میں ہو گا ، مگر کب تک ؟ کب تک ایسے حملوں سے بچتا رہے گا۔“ اس نے نفرت سے کہا 
” جب تک میرے رَبّ سائیں نے چاہا، مجھے کوئی نہیں مار سکتا۔
باقی رہی بات حملوں کی تو یہ مجھے بھی کرنے آتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ میں خود آتا ہوں ، اورتو چوہے کی طرح چھپ جاتا ہے ۔ اب تم نے پہل کر لی ہے ، انتظار کر میں تم تک کب پہنچتا ہوں۔“ میں نے اس کی دھمکی کا جواب دیتے ہوئے کہا تو وہ غصے میں بولا 
” اگر مردہے تو ابھی آ جا۔“
” کسی میدان میں آؤں؟ یا اس بل میں جہاں تم چھپے بیٹھے ہو ۔ ابھی تم اپنے بندے سمیٹ کر لے جاؤ ، یقین کرومیں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔
“ میں نے انتہائی طنز سے کہا تو ایک دم سے فون بند ہو گیا۔ میں نے زخمی بندے کی جانب دیکھا، اسے ہسپتال پہنچانے کا کہہ کر حویلی کی جانب چل دیا۔
میں نے راستے میں چھاکے سے پوچھا، وہ ہسپتال پہنچ چکا تھا۔ تانی کے کاندھے، ران اور پنڈلی میں گولیاں لگی تھیں۔ اس وقت وہ بے ہوش تھی ۔ ابتدائی طبی امداد دے دی گئی تھی اور وہ اسے ضلعی ہسپتال لے کر جا نے کی تیاری کر رہا تھا۔
حویلی میں رندھاوا پہنچ چکا تھا۔اس نے لاشیں قبضے میں لے لیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچا دیا۔ اس وقت میں جسپال کی کمی شدت سے محسوس کر رہا تھا۔
                                   #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط