Episode 105 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 105 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

سورج کافی اونچا چڑھ آیا تھا ،میں جب کار میں سوارمسافر شاہ کے تھڑے کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ درویش مجھے وہاں ضرور ملے گا ، جس نے میرے اندر ایک نیا حوصلہ بھر دیا تھا۔ ایک ذرا سی بات سے میرے اندر ولولہ پیدا ہو گیا تھا۔ وہ میلہ جو میرے لئے چیلنج بن رہا تھا اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد میں وہاں پہنچا تو اسی درویش کو وہیں برگد کے درخت تلے پایا۔
اس دن وہ دھونی رمائے بیٹھا تھا۔ میں جب کار سے اتر رہا تھا، اس نے نگاہ بھر کر میری طرف دیکھا۔پھر جب تک میں اس کے قریب جا کر بیٹھ نہیں گیا، وہ مٹی کے پیالوں میں چائے ” پھینٹتا “ رہا۔ میں سکون سے بیٹھ گیاتو اس نے ایک پیالہ میری طرف بڑھا تے کہا
” لے پی لے ،آج ہماری چائے پی کربھی دیکھ۔

(جاری ہے)

“ درویش نے کہا تو میں نے وہ پیالہ لیا اور چائے کا سپ لیا۔

گڑ والی چائے مزیدار تھی۔ وہ اس وقت تک خاموش رہا، جب تک میرا اور اس کا پیالہ خالی نہیں ہو گیا۔ اس نے اپنے لب صاف کیے اور بولا
” مٹی کے اس پیالے میں چائے ہم نے خود ڈالی اور خود ہی مزے سے پی لی، سواد تو چائے کا ہی تھا نا کہ ہم نے اس میں ڈالی ہی چائے تھی ۔ اب اگر ہم اس میں دودھ ڈال لیتے،تو مزہ دودھ ہی کا آنا تھا، پانی ڈال لیتے تو پانی کا ، یا پھر بھنگ ڈال لیتے تو بھنگ نے اپنا رنگ دکھانا تھا۔
” جی ، ظاہر جو چیز بھی اس میں ڈالی جائے گی ، مزہ تو اسی کا آنا ہے نا ۔“ میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا تو مسکراتے ہوئے بولا
” تیرا اور میرا وجود مٹی کا ہے ، اس میں جو ڈالنا ہے وہ ہم نے ہی نے ڈالنا ہے ۔ اس وجود میں نیکی ہو گی تو نیکی کی لذّت سے آشنا ہوگا ، اگر برائی ہے تو اس کا سواد ہی پائے گا۔ جو بھی کچھ ، جس میں ہوگا ، وہی اسے محسوس کر پائے گا۔
اب وہ اپنے اندر جھانکے گا تو ہی اسے پتہ چلے گا نا ۔“ انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا 
” جی بالکل ، یہ ایک فطری سی بات ہے؟“ میں نے کہا
” اور ہاں ۔ ! یہ فطرت ہے کیا؟ کبھی سوچا ہے اس کے بارے میں؟“ انہوں نے پوچھا تو میں نے عاجزی سے کہہ دیا 
” جی نہیں ، میں نے کبھی نہیں سوچا۔“
” تو پھر غور کر، یہ سارا نظام جو تیری نگاہ میں ہے۔
یہ اگر کشش کے تحت ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے نا تو یہ تجسس بھی ابھارتا ہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تجسس آخر کہاں ابھرتا ہے ، کسی درخت میں تو نہیں ابھرتا، تجسس کا ظہور وہیں ہوگا نا جہاں یہ پڑا ہوگا۔ یہ کسی قوت ہی کے تحت ابھرتا ہے ، اور جس میں سے ابھرتا ہے ، وہاں تجسس کے ابھرنے کا مقصد تو ہو گا ۔ یہ باہر کی کائنات اپنی طرف متوجہ کرکے انسان کے اندر تجسس پیدا کر دیتی ہے تو کیوں؟ اس کا بڑا سیدھا اور سادہ سا جواب ہے کہ انسان اس فطرت کو سمجھے ، وہ اسے تب سمجھ سکے گا جب وہ اپنے آپ کو سمجھے گا۔
اب دیکھو ، چھوٹی سے بات ہے ، کیا تم سرخ رنگ کی وضاحت کر سکتے ہو؟ کیا آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہی درست ہے، دن کے وقت جو چیز جس طرح دکھائی دیتی ہے اور وہ رات کو کسی اور طرح دکھائی دیتی ہے ۔ یہ سب اسی وقت پتہ چلے گا جب وہ اس جہانِ رنگ و بومیں اترے گا، اورانسان کے سوا کوئی دوسرا نہیں اترتا۔“
” کیونکہ بابا جی اسے یہ صلاحتیں عطا کردی گئیں ہیں نا ، اوروہ اسی بل بوتے پر وہ سمجھ سکتا ہے۔
“ میں نے کہا
” اسے صلاحیتیں کیوں دی گئیں؟“ یہ کہہ کر انہوں نے لمحہ بھر رک کر کہا،” رَب تعالی کی عنایت سے ،اس مادی دنیا میں، اسی خاک سے انسان خود کو بناتا بھی ہے ، اور خود کو توڑ بھی لیتا ہے، وہ اپنے بارے میں اور اس کائنات کو بھی جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وہ ایسے منصب پر فائز ہے کہ رَبّ تعالی نے اسے اپنا نائب مقرر کر دیا۔ اس ارض کا خلیفہ بنا دیا، کیونکہ یہی وہ ہستی ہے جو خود اپنی معرفت اپنے آپ سے خود حاصل کرتی ہے، اس کا ادراک اس عزازیل کو تھا، اس نے انکار تو آدم کی ہستی کا کیا اور نافرمانی رَبّ تعالی کی ہوئی ۔
” میں یہ بات تو سمجھ گیا ہوں بابا جی کہ انسان کے وجود ہی سے سب کچھ ظاہر ہو رہا ہے ، یہاں تک کہ شیطانیت بھی ۔“ میں نے کہا تو وہ بولے 
” بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ، خاک پڑی ہوئی تھی لیکن اس میں زندگی نہیں تھی ، رَبّ تعالی نے ارادہ فرمایا اور اس خاک میں زندگی پیدا ہوگئی ۔ کُن میں ہر شے رکھ دی گئی جس کا ظہور ہو رہا ہے ، یہ انسان ہی ہے جو اس کُن کا ظہور اس زمین پر کرتا چلا جا رہا ہے ، یہ رَبّ تعالی کی دی ہوئی خلافت کے باعث ہی تو ہے۔
سورج کا چمکنا کون دیکھ رہا ہے ، اور چاندنی کو چاندنی کانام کون دے رہا ہے ۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت کر پاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے۔ کیونکہ یہ بھی شیطانیت ہی ہے کہ وہ فقط اسی کائنات میں غرق ہو جائے اور اسے اس معیار پر نہ دیکھے جو عین انسانیت ہے۔ عین انسانیت کا معیار اسے اس وقت ملے گا جب وہ خود کو بہ حیثیت انسان دیکھے گا اوراسی نگاہ سے اس کائنات کو پرکھے گا۔
” اس کامطلب ہے کہ نیکی عین فطرت ہے اور برائی شیطانیت کیوں ہے کہ وہ اسے نیکی سے غافل کر دیتی ہے ۔“ میں نے کہا تو وہ تیزی سے بولے 
” خود اپنے آپ پر نگاہ رکھنا ہی نیکی ہے اور یہی عین فطرت ہے۔فطرت کا سیدھا راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے ۔“
” تو یہ ساری کشمکش کیوں؟ رَبّ تعالی چاہتے تو سیدھے طرح انسان کو اسی کام پر لگا دیتے ۔
“میں نے محض ان سے سیکھنے کی غرض سے ایک نئی بات کہہ دی تو وہ ذرا سا مسکرائے اور بولے۔
” تمہیں پھر ایک چھوٹی سے کہانی سننی پڑے گی، اوروہ کہانی تجھے پھر کسی وقت سنائیں گے۔اس وقت تو صرف ایک بات سمجھ لے کہ نیکی عین فطرت ہے، اورانسان کی یہ کشمکش برائی پر غالب آنا ہے ،یہاں تک کہ شیطانیت کو مطیع کر لینا ہی اس کا مقصد ہے۔ اچھائی کو سرفرازی اور برائی کو سر نگوں کرنا ہی انسانیت ہے۔
یہی کشمکش انسان کا کردار بناتی ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وجود میں کیا ہے۔ نیکی کی خوشبو، منافقت کی سڑاند یا برائی کا اندھیرا۔“
” تو اس کا مطلب جو …“میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولے
” مطلب جو بھی ہے ، اس مٹی کے پیالے میں جو کچھ ڈالنا ہے تو نے ڈالنا ہے ، اور اس میں سے باہر وہی کچھ آنا ہے جو تو نے ڈالا ہے ، ذائقہ بھی تو نے چکھنا ہے ، تیری ہی صوابدید ہے کہ تو کیا چاہتا ہے ۔
اب تو جا اور میلے کی تیاری کر اور اپنے ساتھی کو گھر لے آ، وہ بے چاری بھی تو میلہ دیکھے نا۔“ یہ کہہ کر انہوں نے پاس پڑی ہوئی لکڑیاں اٹھائیں، انہیں سلگتی ہوئی لکڑیوں پر رکھ دیا اور اٹھ کر ایک طرف چل دیا۔ میں سمجھ گیا اب مزید باتیں نہیں ہوں گئیں۔ میں نے اٹھ کہ اس کھلے میدان کو دیکھا۔ چندلمحے یونہی گزر گئے۔ میں کار میں بیٹھا اور واپس اپنے گھر آ گیا۔
مجھے گھرآئے کچھ وقت گذرا تھا کہ چھاکے کا فون آ گیا۔
” یار تانی ضد کر رہی ہے کہ وہ ہسپتال میں نہیں رہنا چاہتی، واپس آنا چاہتی ہے ۔ کیاکروں؟“
” ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟“ میں نے پوچھا 
” میں نے بات کی ہے ، ان کا تو یہی کہنا ہے کہ اب بس پٹی بدلنا ہے ، اس کی دیکھ بھال ہو جائے تو آپ لوگ جا سکتے ہو۔“ وہ اطمینان سے بولا
” اسے لے آؤ۔
یہاں وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گی۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اسی وقت میں نے میلے کے منتظم کو فون کیا اور پوچھا
” کب دے رہے ہیں میلے کی تاریخ؟“
” وہی ، جس تاریخ پر ہر سال میلہ ہوتا ہے ۔“ اس نے نرمی سے کہا 
” ٹھیک ہے ، پھر تو چند دن رہ گئے ہیں۔ علاقے میں کرو اعلان، اس بار جتنے بھی انعام ہوں گے میری طرف سے ہوں گے۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو میں نے فون بند کر دیا۔
                                      #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط