جسپال کی فلائیٹ چندی گڑھ کے بین الاقوامی ائیر پورٹ پر اُتری تو اس کے حواس پوری طرح جاگ گئے۔ دن کے دس بج چکے تھے ۔اسے احساس تھا کہ ائیر پورٹ سے نکلتے ہوئے اسے گیارہ بج جائیں گے ۔اس وقت اگرچہ اس کے ”گیس“ نہیں تھے لیکن پگڑی باندھی ہوئی تھی اورسکھوں کی نئی نسل کی طرح اس نے بس نشانی ہی کے طور پر ہلکی ہلکی ڈاڑھی اور مونچھیں رکھی ہوئیں تھیں ، یوں جیسے چند دن کا شیو بڑھا ہوا ہو۔
سامان کے نام پر اس کے پاس ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ امیگریشن سے فراغت کے بعد وہ باہر آیا تو ایک نوجوان سکھ اس کی جانب بڑھا۔
” جسپال سنگھ ڈھلوں جی ، آپ کے سواگت کے لئے جی،میں گرمیت سنگھ،۔ ست سری اکال۔“ اس نے ہاتھ جوڑ کر اسے خوش آمدید کہا۔ جسپال نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور اسی طرح ہاتھ جوڑ کر جواب دیتے ہوئے کہا
” ست سری اکال جی ۔
(جاری ہے)
“ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ بڑھایا تو گرمیت نے جلدی سے ایک فون سیٹ نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا
” لو جی کر لیں بات۔“
جسپال نے فون پکڑا اور جسمیندر کا نمبر پش کیا۔ دوسری بیل پر اس نے فون رسیو کر لیا۔
” ٹھیک ہے جسپال، اس کے ساتھ چلے جاؤ۔ اپنا ہی لڑکا ہے ۔“
تصدیق ہوجانے کے بعد اس نے اپنا سامان اس کے حوالے کر دیا۔ کچھ دیر بعدایک فوروہیل جیپ میں وہ ائرپورٹ سے نکل رہے تھے۔
جسپال نے بہ مشکل ایک ہفتہ کینیڈا میں گذارا تھا۔جاتے ہی اس کی ملاقات جسمیندر سے ہوئی ۔ وہ دو دن اس کے ساتھ رہا تھا۔ ان میں بہت ساری باتیں ہوئیں ۔ بہت سارے منصوبے ان دونوں کے درمیان زیر بحث آئے ۔ وہ اوگی پنڈ ہی جانا چاہتا تھا کہ دو دن پہلے اچانک جسمیندر اس سے ملا
” جسپال اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اوگی پنڈجانے سے پہلے تم چندی گڑھ جاؤ، تو کیا تم چلے جاؤ گے؟“
” معاملہ کیا ہے ؟“ اس نے پوچھا
” یہ تمہیں وہاں جا کر تفصیل سے معلوم ہو جائے گا۔
یہ مہم اگر کامیاب ہو گئی تو سمجھو تم نے خالصتان تحریک کی بہت بڑی خدمت کر دی ۔ اور میرے ساتھ تمہیں اس کا کتنا فائدہ ہوگا، یہ وقت بتائے گا ۔“
” کل کس نے دیکھا ہے میری جان ، تم آ ج کی بات کرو، آج ہی سب کچھ ہے ۔ فائدہ تیرا ہو یا میرا، ایک ہی بات ہے ، ٹھیک ہے ، میں چلا جاتا ہوں ۔“ جسپال ایک دم سے مان گیا۔ اسی وقت ان میں سب طے ہوگیا۔ ہفتے کے اختتام پر وہ بھارت آ گیا۔
ان کے سفر کا اختتام سیکٹر آٹھ کے علاقے میں گولف روڈ کی طرف سے اندر کی جانب ایک دومنزلہ سفید بنگلے کے سامنے ہوا ۔ یہ چندی گڑھ کا وہ علاقہ تھا، جس کے مغرب کی جانب سکھنا گھیل تھی۔ فضا میں آبی علاقے کا مخصوص احساس پوری طرح موجود تھا۔ یہاں زیادہ تر نئے طرز کے گھر اور عمارتیں تھیں ۔ دیکھ بھال کی وجہ سے وہ علاقہ صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا۔
اس بلڈنگ کے ارد گرد اچھا خاصا سبزہ تھا۔بڑا سا گیٹ پار کرنے کے بعد وہ پورچ میں پہنچے۔سامنے بڑا ساداخلی دروازہ تھا ۔
دروازہ گرمیت نے چابی سے کھولا اور اند رداخل ہو گیا۔ تبھی اس کی نگاہ ڈرائینگ روم میں موجود ایک لڑکی پر پڑی۔ وہ صوفے پر ٹیٹرھے میڑھے سے انداز میں لیٹی ہوئی تھی۔ انتہائی مختصر ساشارٹس، ایک دھجی نماٹی شرٹ سے آدھا ادھورا بدن ڈھکا ہوا تھا، الجھے ہوئے لمبے بال ، اجڑا ہوا میک اپ سے بے نیازچہرہ ، جیسے کئی دنوں سے دھویا ہی نہ گیا ہو ،اگرچہ گورے بدن میں گلابی پن تھا ، لیکن اس کی حالت سے لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہے۔
اس کی بڑی بڑی مخمور نگاہیں جسپال پر ٹکی ہوئیں تھیں۔پہلی نگاہ میں جسپال کو اس کا چہرہ اجنبی نہیں لگا ، بلکہ یو ں محسوس ہوا جیسے اِس لڑکی کو پہلے اُس نے کہیں دیکھا ہوا ہو۔ جسپال کی نگاہ اس لڑکی سے ہٹ کر میز پر پڑی تو اس لڑکی کے مدہوش ہونے کی وجہ سمجھ میں آگئی ۔ مہنگے برانڈ کی شراب کی آدھی سے زیادہ خالی بوتل کے ساتھ گلاس رکھا ہوا تھا۔
جسپال کی طرف دیکھ کر وہ لڑکی ذرا سا مسکرائی ، پھر ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی
” میرے اس اُجڑے ہوئے گھر میں خوش آمدید ۔ مجھے پتہ ہے تمہیں شاید یہ سب اچھا نہ لگا ہو ، لیکن مجبوری ہے ، میں ایسی ہی ہوں، میں نیہا ہوں، نیہا اگروال، اپنے گھر میں تجھے ویلکم کہتی ہوں ، بیٹھو۔“
جسپال نے اس کا ہاتھ تھام لیا ، پھر اگلے لمحے اس کا ٹھنڈا ہاتھ چھوڑ کر ساتھ پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔
اس دوران گرمیت اس کا سامان رکھ کر واپس آ گیا۔
” بھائی جی ، کیا پینا پسند کریں گے ، ٹھنڈا ، چائے کافی ، کچھ بھی جو بولیں تو…“اس نے آتے پوچھا اور بوتل کی جانب بھی اشارہ کر دیا۔ جسے نظر انداز کرتے ہوئے اس نے کہا
” چائے پلا دو۔“
” جی ٹھیک ہے بائی جی ،“ یہ کہہ کر وہ جلدی سے پلٹ گیا۔ جسپال یہ سوچے چلا جا رہا تھا کہ اس لڑکی کا چہرہ اور نام اسے جانا پہچانا کیوں لگ رہا ہے ۔
وہ یہی سوچ رہا تھا کہ نیہا بولی
” تم اسی طرح شرمیلے ہو یا اداکاری کر رہے ہو؟“
” مجھے کیسا ہونا چاہئے تھا؟“ جسپال نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا تو وہ ایک دم سے قہقہہ لگا کو بولی
” تجھے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ جیسے تم میری مدد نہیں کر پاؤ گے ، لیکن دل نے کہا کہ نہیں تم ضرور میری مدد کرو گے ۔“
” میں نہیں جانتا کہ تم کیا چاہتی ہو ، اپنا مسئلہ بتاؤ، شاید تمہاری مدد کر سکوں ، کیونکہ میں یہاں آیا ہی اسی لئے ہوں۔
“ اس نے صاف انداز میں کہا
” اتنی جلدی بھی کیا ہے ، ابھی آئے ہو ، کھانا کھاؤ ، آرام کرو ، پھر …“ اس نے خمار بھرے لہجے میں کہنا چاہا تو جسپال نے کہا
” اب ہم کون سا کہیں مصروف ہیں، تم بتاؤ ، میں سن رہا ہوں۔“
” نہیں ، میری بات چند لفظوں میں تجھے سمجھ نہیں آئے گی، ایک کہانی ہے ، جو تمہیں سننا ہوگی ، ممکن ہے وہ تجھے انتہائی بور لگے ، اس میں تمہارے لئے کوئی دلچسپی نہ ہو، لیکن ۔
! وہ کہانی سن کر ہی تم میری بات کو سمجھ پاؤ گے۔تم بھی یہیں ہو اور میں بھی یہیں۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکی، پھر چونک کر بولی،” اگر تمہیں برا نہ لگے تو؟“
” نہیں مجھے برا نہیں لگے گا۔“ جسپال نے سکون سے کہا تو وہ مسکرا دی ۔ پھر ایک بیڈ روم کی طرف اشارہ کرکے بولی
” جاؤ ، جا کر ایزی ہو جاؤ ، پھر خوب آرام کرو۔ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔
“ اس نے کہا اور بوتل کھول کر ایک چھوٹا پیگ بنایا اور گلاس تھام کر بیٹھ گئی ۔ جسپال اٹھا اور بیڈ روم میں چلا گیا۔
جسپال کی آنکھ کھلی تو شام ڈھل رہی تھی۔ وہ بے خبر سویا تھا۔ وہ اچھی طرح فریش ہوا، اس نے جین کے ساتھ سفید شرٹ پہنی اور ڈرائینگ روم میں آگیا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ کھڑکی میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ اتری ہوئی رات کے اندھیرے کو شہر کی روشنیاں دور کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
فضا میں نمی پھیلی ہوئی تھی ، جس کا احساس اسے گہری سانس لینے سے ہوا۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا،پھر اپنے پیچھے آہٹ پاکر مڑا تو سامنے نیہا کھڑی تھی۔ وہ کافی حد تک فریش لگ رہی تھی ، اس کے سلجھے ہوئے گیسو ، تروتازہ چہرہ اور ڈھنگ کی شرٹ کے ساتھ ڈریس پتلون بتا رہی تھی کہ وہ اس وقت ہوش میں ہے ۔
” تمیں تو یہاں سے کوئی منظر دکھائی نہیں دے رہا ہوگا نا ؟“ اس نے کھڑکی کے باہر دیکھتے ہوئے کہا
” بالکل، یہاں اس کھڑکی سے پہلی دفعہ باہر جھانک کر دیکھا ہے، لیکن سوائے اندھیرے کے باہر کچھ نہیں ہے ۔
“ اس نے جواب دیا
”کیسا لگتا ہے جب کئی سارے منظر آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں، یوں جیسے پلکوں کے ساتھ چپک کر رہ گئے ہوں، ان سے جان بھی چھڑانا چاہو تو نہیں چھڑائی جا سکتی۔“ وہ مایوسی بھرے لہجے میں بولی اور پلٹ کر صوفے پر جا بیٹھی۔ اس نے نیہا کی بات کا جواب نہ دیا تو وہ بولی،” کھانا کھاؤ گے یا کہیں باہر چلنا پسند کرو گے ؟؟“
” ابھی تو کھانے کو میرا دل نہیں چاہ رہا ہے ، جب بھوک لگی تو بتا دوں گا ، ویسے اگر تم پسند کرو تو ہم باتیں نہ کر لیں۔
“ جسپال نے کہا تو وہ مسکرا دی ، پھر اپنے بیڈ روم کی طرف اشارہ کرکے اس طرف بڑھ گئی۔وہ دونوں بیڈ پر بیٹھ گئے ۔ نیہا اگروال جیسے کہیں کھو گئی۔ پھر کہتی چلی گئی۔
” یہ تین برس پہلے کی بات ہے جسپال ، جب میں ایک نجی ہسپتال میں نرس کے طور پر کام کرتی تھی۔میری فیملی میں میرا باپ ، میری ماں اور ایک بہن تھی ۔ ہمارے ہاں انتہائی غربت تھی۔
ہمارے گھر کا ہر فرد کام کرتا تھا ، پھر کہیں جا کر روٹی پوری ہوتی تھی۔ باپ ایک کپڑے والی دُکان پر کام کرتا تھا ، بہن ایک سکول میں پڑھاتی تھی، ماں سارا دن گھر میں لکڑی کے کھلونوں پر رنگ کرتی رہتی تھی۔ اس وقت ہم جگتا پورہ کی بستی میں رہتے تھے، آ ج وہاں کچھ ڈیویلپمنٹ ہوئی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک طویل سانس لی، چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی،” میری یہ کہانی اس رات شروع ہوئی جب میں چار سے بارہ بجے کی ڈیوٹی ختم کر کے ہسپتال سے واپس گھر کی طرف آ رہی تھی۔“
یہ کہہ کر اس نے پھرایک طویل لیکن سرد سانس لی ۔
#…#…#