Episode 107 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 107 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

 اس رات ائر پورٹ کی طرف جانے والے راستے پر چھ مہنگی کاروں کا قافلہ بڑی تیزی سے جا رہا تھا۔ ایک سب سے آگے ، دو اس کے پیچھے ، پھر ایک کار جس میں سندیپ اگروال بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے دو کاریں تھیں۔ سندیپ سنگھ اگروال، جسے چندی گڑھ کے انڈر ورلڈ والے سندوکے نام سے جانتے تھے،اپنی کار میں پچھلی نشست پر بڑے کروفر سے بیٹھا ہوا تھا۔باقی کاروں میں اس کے باڈی گارڈ تھے۔
اس وقت وہ تھائی لینڈ جانے کے لئے ائیر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔
 فلائیٹ میں تھوڑا سا ہی وقت رہتا تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کے بغیر جہاز پرواز نہیں کر سکتا ۔ وہ لمبے قد کا جوان تھا، رنگ صاف ، کلین شیو، موٹے نین نقش اور کسرت کے باعث کافی مضبوط جسم کا مالک تھا۔ اس وقت اس کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا۔

(جاری ہے)

کچھ وقت میں وہ ائر پورٹ پہنچ جانے والے تھے کہ اچانک اگلی دو کاریں دھماکے سے اُڑ گئیں۔

تیسری کار تیز رفتاری کے باعث سنبھل نہ سکی اور ان میں جا لگی۔ وہ چوتھی کار میں تھا۔ اس کی کار میں بھی پچھلی کاریں آ لگیں۔ شدید جھٹکے میں وہ اپنا پسٹل نکالنا نہیں بھولا۔ حملہ آوروں کو پوری طرح معلوم تھا کہ وہ کس کار میں ہے اس لئے ایک برسٹ اس کی کار کو لگا۔ اس کی کار بلٹ پروف تھی۔ اسے گولی تونہ لگی لیکن وہ اگلے ہی لمحے دوسری طرف سے نکل گیا۔
دو یا تین لمحوں کے اس وقفے میں وہ فٹ پاتھ پر تھا مگر اس کی کار میں ایک راکٹ لانچر آ لگا۔ ایک دھماکا ہوا اور وہ سڑک کے کنارے جا پڑا۔ ایک شعلہ بلند ہوا جو اونچے الاؤ میں بدل گیا۔ اس کے ہاتھ سے پسٹل نکل کر نجانے کدھر گم ہو گیا تھا۔ اچانک شدید فائرنگ شروع ہو گئی ۔ کسی کو کچھ احساس نہیں تھا کہ کون کسے نشانہ بنا رہا ہے ۔ وہ زخمی ہو چکا تھا۔
اسے قطعاً پتہ نہیں تھا کہ اُس کا جسم کہاں کہاں سے پھٹا ہے۔ سندو کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا سارا بدن خون میں بھیگ رہاہے اور جلن سارے بدن میں ہو رہی ہے۔ 
وہ فٹ پاتھ سے بھی آگے سڑک کنارے پڑا تھا، اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ سکتا۔وہ سر نہیوڑے پڑا تھا کہ ایک گولی نجانے کدھر سے آئی اور اس کی ران میں گھس گئی ۔ اسے لگا جیسے کسی نے آگ اس کے بدن میں پیوست کر دی ہو ۔
یہی وہ لمحہ تھا ، جب اسے احساس ہوا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھ رہا ہے ، وہ اگر یہاں سے ادھر ُادھر نہ ہوا تو یہ لوگ اسے مار دیں گے ۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس قدر بڑا حملہ ہوگا۔ سڑک پر آگ اور خون کا ہنگامہ برپا تھا۔ موت ناچ رہی تھی۔ اس نے اپنی پوری قوت صرف کی اور رینگتے ہوئے سڑک سے نشیب کی جانب بڑھ گیا۔ اور پھر لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتا گیا۔
اس کے پورے بدن میں جلن ہو رہی تھی۔ وہ ہمت کر کے اٹھا اور وہاں سے دور ہوتا چلا گیا۔یہاں تک کہ وہ اس سنسان علاقے میں اُگی گھاس پھوس کی جھاڑیوں میں جا چھپا۔ 
وہ کچھ دیر وہیں پڑا رہا۔ فائرنگ کی آواز ختم ہو گئی تھی ۔ لوگوں کا شور بھی ختم ہو گیا تھا ، لیکن اس کا بدن کمزور پڑتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر ایسے ہی پڑا رہا توکچھ دیر بعد وہ بے ہوش ہو جائے گا اور پھر موت اسے ابدی نیند سلا دے گی ۔
وہ گھسٹتا ہوا ،اس سنسان علاقے میں ایک پگڈنڈی نما راستے پر آ گیا۔ جس سے کچھ فاصلے پر وہ ایک بستی نما کالونی کی روشنیاں دیکھ رہا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ اس بستی تک پہنچ جائے تو زندگی اس کا ساتھ دے سکتی ہے ، ورنہ وہ اسی راستے پر پڑا رہا تو زندگی اس کا ساتھ چھوڑ جائے گی ۔ زندگی میں کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے نا کہ شدید خواہش ہونے کے باوجود بندے کی دسترس میں کچھ نہیں رہتا۔
 
 نیہااس وقت سیکٹر اڑتیس کے بس سٹاپ سے اتری ۔ بس سٹاپ سے کچھ فاصلے پر لگتا تھا جیسے بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہو۔ وہاں بہت سارے لوگ جمع تھے اور ٹوٹی پھوٹی کاریں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک نگاہ انہیں دیکھا اور اپنے گھر کی جانب تیز تیز قدموں سے چل پڑی ۔ وہ روزانہ ہی ادھر سے گذرتی تھی ۔ اگرچہ جگتا پورہ کو جانے والا راستہ ذرا آگے تھا،لیکن جس راستے پر یہ جارہی تھی، یہ راستہ کسی حد تک سنسان ہونے کے ساتھ شارٹ کٹ تھا، دوسرا اس کا دیکھابھالا تھا اور بس سٹاپ کے سامنے تھا۔
وہ بڑھتی جا رہی تھی کہ اچانک اس کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جو اوندھے منہ پڑا ہوا تھا۔ اس میں ذرا بھی حرکت نہیں تھی۔ وہ ٹھٹھک گئی ۔ اس کے من میں خوف اتر آیا۔ وہ اس سے پہلو بچا کر نکل جانا چاہتی تھی کہ اس شخص نے حرکت کی اور پکارا
” پلیز۔! مجھے بچا لو …“ 
اس کے بڑھتے ہوئے قدم جم کررہ گئے۔ دھیمی سی روشنی میں اس نے دیکھا، وہ شخص خون میں لت پت پڑاتھا۔
تکلیف کی شدت کے باعث اس کا چہرہ مسخ ہو رہا تھا۔ ایک نرس ہونے کے ناتے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ شدید زخمی ہے اور اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ وہ چند لمحے کھڑی سوچتی رہی۔ اسے لگا یہ کوئی زخمی ہے اور اسی حادثے سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے ۔ وہ بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ اس کے پاس بیٹھ گئی اور دھیرے سے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا
” میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟“
” کچھ بھی … جو تمہاری… سمجھ میں آئے … مجھے بچا لو پلیز۔
” میں تمہیں کسی ہسپتال لے جاؤں؟ ۔“ نیہا نے پوچھا تو وہ تیزی سے بولا
” نہیں، میرے دشمن… مجھے تلا ش… کر رہے ہوں گے۔ کسی ایسی جگہ … جہاں میں …کم از کم یہ رات … گذار لوں اور… مجھے گولی … لگی ہے وہ … نکل جائے ۔“ 
اس شخص کے یوں کہنے پر نیہا کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔ کچھ دیر پہلے سڑک پر ہونے والا حادثہ بہرحال ویسا نہیں تھا۔
جو اس نے سوچا تھا ۔ گولی لگنا کچھ اور ہی بتا رہا تھا۔ نیہا کا گھر کچھ ہی فاصلے پر تھا،ایک دم سے اسے خیال آیا تو اس نے پوچھا
” دیکھو، میں تمہاری کیسے مدد کر سکتی ہو، پولیس اگر مجھ تک …“ نیہا نے کہنا چاہا 
” صرف ایک رات … مجھے کچھ وقت کے لئے …چھپا لو ۔“ وہ کراہتے ہوئے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
” دیکھو، میرا گھر یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے ۔
اگر تم میرے ساتھ وہاں تک جا سکو تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔“ اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا
” مجھے سہارا دو۔“ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو نیہا نے اسے سہارا دے کر اٹھا۔خون سے اس کے کپڑے لت پت ہو چکے تھے ۔ سندو سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ ران میں لگی ہوئی گولی نے اس کے پورے بدن میں ٹیسیں بھر دی تھیں۔ وہ چند قدم چلنے کے بعد کراہتے ہوئے لڑکھڑا کر گر پڑا۔
 
” اگر تم میرے گھر تک پہنچ گئے تو میں تمہاری گولی بھی نکال دوں گی۔ میں نرس ہوں ۔“ اس نے بتایا تو سندو کو لگا جیسے اس کی زندگی بچ جائے گی ۔ وہ پوری قوت سے اٹھا اور اس کے سہارے چلنے لگا۔
اس بستی نما کالونی میں چھوٹے بڑے کئی گھر تھے ،لیکن سارے ہی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ رات کے تقریباً دو بجنے والے تھے۔ ٹیڑھی میڑھی گلیاں اور راستے سنسان ہو گئے ہوئے تھے۔
یہ اتفاق ہی تھا کہ انہیں راستے میں کوئی نہیں ملا۔وہ اسے لے اپنے گھر میں آ گئی ۔
” اے یہ کون ہے ، کہاں سے اٹھا لائی ہے تو اسے ؟“ اماں نے دروازہ کھول کر خون سے لت پت ایک اجنبی کے ساتھ اسے دیکھ کر نیند میں بھری آواز سے پوچھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، سندو نے جیب میں ہاتھ ڈال کر جتنے بھی بڑے نوٹ اس کے ہاتھ میں آئے اس کی ماں کی طرف بڑھا دئیے۔
ماں نے حیران نظروں سے وہ نوٹ پکڑے اور خاموش ہو گئی۔ اس کا باپ ٹھّرا پی کر مدہوش پڑا تھا۔
” اماں جلدی سے پانی گرم کر دے۔“ نیہا نے کہا اور اسے اندر والے کمرے میں لے جا کر زمین پر لٹا دیا۔ اس نے ایمرجنسی کے لئے اپنے گھر میں کچھ میڈیسن رکھی ہوئیں تھی۔ وہ سب اٹھا لائی ۔ پھر اس نے آہستہ آہستہ سندو کے سارے کپڑے اتار دئیے۔ صرف ایک جانگیہ اس کے بدن پر رہ گیا۔ نیہا جب اس کے کپڑے اتار رہی تھی تو سندو کے گلے میں بھاری سونے کی چین تھی ، وہ اتاری ، بریسلیٹ الگ کیا، سونے کی چین والی گھڑی، انگوٹھیاں الگ کیں ۔ اس نے اتنا سونا کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے وہ سنبھالا اور اپنی ماں کو خبر نہ ہونے دی ۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط