Episode 109 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 109 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” ٹھیک ہے میں کہہ دیتی ہوں۔“
اس نے اپنی بہن کو فون کرکے بتا دیا کہ اسے دوہری ڈیوٹی کرنا ہوگی، اس لئے وہ کل دوپہر ہی کوآسکے گی۔ سندو اسے اپنے ساتھ لے گیا۔
وہ ایک عالی شان گھر تھا۔ پورچ میں کافی ساری گاڑیاں کھڑی ہوئیں تھیں۔ وہ اس کے ساتھ سہمی ہوئی اندرڈارئنگ روم میں چلی گئی۔ وہاں وہ عورتیں کھڑی تھیں۔ سندو نے نیہا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
” اسے لے جاؤ اور فریش کر کے لاؤ۔
وہ عورتیں ایسی تھیں ، جیسے پرانے وقتوں میں بادشاہوں کی مشاطہ ہوا کرتی تھیں۔ وہ اسے ایک بڑے باتھ روم میں لے گئیں۔تقریباً ایک گھنٹے بعد جب وہ بدن پر تولیہ لپیٹے وارڈ روب کے سامنے آئی تو ایک مشاطہ نے کہا
” یہ سارے ڈریس آپ کے لئے ہیں، جو بھی پسند کریں، ہم وہی نکال دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

نیہا نے ہلکے کاسنی رنگ کا ایک ڈریس پسند کیا۔
کچھ دیر بعد وہ جب آئینے کے سامنے آئی تو خود کو بھی نہ پہچان پائی۔ ہلکے سے میک اپ کے ساتھ اس کا حسن اپنا آپ منوا رہا تھا۔
 ملگجی روشنی میں بنگلے کے عقبی لان میں سندو کے سامنے والی کرسی پر نیہا بیٹھی ہوئی تھی۔ درمیان میں ایک میز تھی جس پر شراب کی بوتل کے ساتھ لوازمات دھرے ہوئے تھے۔ سندو نے دو چھوٹے پیگ بنائے اور ایک اس کی طرف بڑھا کر بولا
” نیہا، تمہارے نام ، جس نے مجھے ایک نئی زندگی دی۔
نیہا نے وہ جام پکڑا اور اپنے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا،
” اتنا عرصہ کہاں رہے ؟“
”تمہیں شاید یہ بہت عرصہ لگا ہو ، لیکن میرے لئے بہت مشکل وقت تھا۔ ایک ماہ تک تو میں چھپ کر اپنا علاج کرواتا رہا۔ دراصل میں جنہیں اپنا دوست سمجھتاتھا، وہی میرے دشمن نکلے۔“ سندو نے گہرے دکھ سے کہا اور اٹھ گیا۔ نیہا بھی اس کے ساتھ اٹھ گئی ۔
وہ دونوں چلتے لان کے سرے پر چلے گئے ، جہاں کافی حد تک اندھیرا تھا
” کیوں وہ کیوں دشمن ہو گئے؟“ اس نے پوچھا
” تم شاید یہ بات نہ سمجھ سکو، یہ ایک لمبی کہانی ہے “یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔”انسان ایک دوسرے کا دوست یا دشمن سوچ ہی کی وجہ سے بنتا ہے ۔ کچھ نظریات ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ یا تو محبت پلتی ہے یا پھر منافقت۔
جس نظریے کی بنیاد، جیسے روئیے پر رکھی جائے گی، فطری طور پر انسانی سوچ میں وہی رویہ ان نظریات کے ساتھ پروان چڑھے گا“ یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہوا چند لمحے بعد اس نے خوشگوار لہجے میں کہا،” خیر تم ان باتوں کو چھوڑو،میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں، تم یہ پیگ ختم کرو ۔“ سندو نے کہا اور ہونٹوں سے لگا کر گلاس خالی کر دیا۔ ایسا ہی نیہا نے کیا ۔
” تم اپنے بارے میں یہی بتاؤں گے نا کہ تم ایک مجرم ہو ۔“ نیہا نے کہا
” میں مجرم ہوں یا نہیں ہوں، بحث اس سے نہیں ، لیکن تم ایک غریب نرس چاہے ہو ، لیکن میری مسیحا ہو ۔ میرا کوئی پتہ نہیں، میں کب اور کس وقت مارا جاؤں ،لیکن میری محسن، میں تمہیں تو غربت سے نکال جاؤں۔“ اس نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا اور میز کے پاس جا کر بوتل سے دو پیگ بنا دئیے۔
پھر دونوں پیگ لے کر واپس نیہا کے پاس آ گیا
” کیا کرو گے میرے لئے ۔“ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
” دو راستے ہیں ، ان میں سے ایک تم نے چننا ہے ،جو تم چاہو ، یا پھر تم بتا دینا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
” کیا، کون سے راستے ؟“ نیہا نے پوچھا
” جتنی دولت چاہو، مجھ سے لے لو، اور اپنی دنیا جس طرح چاہو بنالو۔ اور دوسرا یہ کہ میرے ساتھ رہو،“ اس نے کہا اور نیہا کی آنکھوں میں دیکھا
” تم ایسا کیوں چاہتے ہو؟“ اس نے پوچھا
” تم چاہتی تو اس رات مجھے مار سکتی تھی۔
اس رات اگرمیرے بہت سارے دشمن بن گئے تھے تو ایک اچھا انسان بھی مل گیا ، تمہاری صورت میں ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے ، بلکہ اس سے بڑھ کر کہوں گا کہ عقیدت ہے تم سے ۔ میری صرف ایک خواہش ہے کہ تم ایک پر سکون اور خوشیوں بھری زندگی گذارو، تمہارے یہ لفظ مجھے نہیں بھول رہے کہ،کاہے کا ڈر ، پیسہ ہمارے پاس نہیں ، جو کوئی چھین لے گا ، عزت ہے نہیں ، جو لوٹ لے گا۔
اور میرا یہ ماحول ایسا ہی ہے، جس میں زندگی سسکتی ہے ، ہم ساری عمر زندگی سے لڑتے ہیں۔“
”سندو ،جیسے تم کہو۔“ نیہا نے اچانک کہا اور اس کے گلے لگ کر شدت سے رونے لگی ۔وہ اسے تھپکتا رہا۔ کافی دیر بعد اس نے نیہا کو الگ کیا اور بولا
” اب نہیں رونا۔ واہگرو سب ٹھیک کر دے گا۔آؤ کھانا کھاتے ہیں ، پھر ساری رات پڑی ہے باتوں کے لئے۔“
اگلے دن نیہا کی آنکھ کھلی تو دن چڑھ آیا تھا۔
اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ خواب کی سی کیفیت میں ہے ۔ اگلے چند دنوں میں اس کی زندگی ہی بدل گئی ۔ اس نے ایک بڑی رقم دے کر اپنے والدین کو سمجھا دیا کہ وہ اب جو وہ نوکری کر رہی ہے ، اس میں وقت کا کوئی تعین نہیں۔ والدین بھی سمجھ گئے کہ چڑیا اب گھونسلے سے اُڑ گئی ہے۔
 نیہا کو سندو کے ساتھ رہتے ہوئے ایک سال سے بھی زیادہ ہو گیا۔ اس دوران نجانے وہ کن ملکوں میں گئی اور کیا کچھ دیکھتی رہی ۔
سندو بنیادی طورپر بہت اچھا انسان تھا۔ حالات اور خاص طور پر بھارت میں سکھوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے رد عمل میں سندو جیسے کئی لوگ پیدا ہو چکے ہیں ۔ بظاہر اس کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس تھا ،لیکن اصل میں وہ جرائم کی دنیا میں بہت آگے تک نکل چکا تھا۔ اس کی اصل طاقت ببر خالصہ یا سکھ لیبریشن فرنٹ جیسی ایک سکھ تنظیم تھی ، جو سامنے نہیں تھی ، لیکن سکھوں کے اتحاد کے لئے پوری طرح کام کر رہی تھی۔
وہ ایک کاروباری نیٹ ورک تھا، جس کے سائے میں وہ خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرتے چلے جا رہے تھے۔ مختلف ملکوں اور حکومتی ایوانوں میں رسائی کے باعث وہ بہت مضبوط اور طاقت ور تھے۔
نیہا کے ذہن میں بھی کبھی نہیں تھا کہ وہ فلمی ہیروین بنے گی۔ ایک دن ایسے ہی مذاق میں بات چلی۔ ان کے ایک مشترکہ فلم پروڈیوسردوست نے کہا کہ نیہا تو فلمی ہیروین لگتی ہے ، کیوں نا اسے لے کر فلم بنائی جائے۔
اسی دن طے ہو گیا کہ وہ بھارت کی پنجابی فلم میں ہیروین ہوگی۔ اس دن سے پہلے اس کا نام کچھ اور تھا، نیہا اگروال اسی دن رکھا گیا تھا۔
نیہا کی پہلی فلم ہی ہٹ ہوگئی۔ اگلے دو برس میں وہ بھارتی پنجابی فلموں کی مقبول اور مصروف ہیروین بن گئی۔ اس دوران سندو سے اس کا ساتھ ویسے ہی رہا ۔ اور سندو نے اپنی تنظیم کے لئے اس سے بہت سارا کام لیا۔
ایک عام لڑکی شاید وہ کچھ نہ کر سکتی، جو نیہا نے کیا۔ سندو اور نیہا نے شادی تو نہیں کی لیکن ایک انجانا اٹوٹ رشتہ ان میں موجود تھا۔ سندو کا جو بھی مقصد تھا ، وہی اب نیہا کا تھا۔ ان کے لئے دولت کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ یوں زندگی کے سفر پر اپنا مقصد لئے چلتے چلے جا رہے تھے۔ 
مختلف سکھ تنظیموں کے پانچ لڑکے سندو کی سرپرستی میں پنجاب کے ایک گرودوارے میں مذہبی تعلیم کے ساتھ تربیت حاصل کر رہے تھے۔
ان کا تعلق بیرون ملک سے تھا۔ ایک سکھ گیانی ان کی تمام تر دیکھ بھال کر رہا تھا۔ سکھ پنتھ میں پانچ پیاروں کی بڑی اہمیت ہے ۔ اسی نسبت سے ان پانچ لڑکوں کو ایک بڑے مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا تھا۔ یہاں سے بنیادی مذہبی تعلیم لینے کے بعد انہیں کینیڈا لے جایا جانا تھا ۔ وہاں انہیں جدید علوم کی تربیت دی جانی تھی ۔ وہ پانچوں لڑکے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی جان وار دینے کا حلف دے چکے تھے۔
چند دن بعد انہوں نے کینیڈا چلے جانا تھا۔ سندو ان کی روانگی کے انتظامات میں لگا ہوا تھا کہ اچانک سندو سمیت وہ پانچوں لڑکے غائب ہوگئے۔ نیہا اور سندو کے ساتھیوں نے جب ان کی تلا ش شروع کی تو انہیں بھی قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ چند ہی دنوں میں اس کے بہت سارے ساتھی مارے گئے ، خطرہ کچھ زیادہ ہی بڑھا تو نیہا سمیت اس کی گینگ کے سارے لوگ زیر زمین چلے گئے ۔
” وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے سندو کا سب کچھ تباہ کیا، کچھ پتہ چلا۔“ جسپال نے پوچھا تو نیہا بیڈ پر پھیلتے ہوئے بولی 
” پہلے پہل تو بالکل ہی پتہ نہ چلا کہ وہ کون لوگ تھے ، لیکن پھر آہستہ آہتہ معلوم ہو گیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی’ را‘ کے لوگ تھے۔ ان کی مدد سنگھ پریوار کے مقامی لوگوں نے کی ۔ “
” ان لڑکوں کی ایسی کیا تربیت ہو رہی تھی کہ’ را ‘والوں کو اتنا بڑا آپریشن کرنا پڑا۔
“ جسپال نے الجھتے ہوئے پوچھا
”ان پانچ لڑکوں کو اس لئے تیار کیا جا رہا تھا کہ بھارت میں ان سیاست دانوں کو ختم کرنا ہے ، جو کسی نہ کسی صورت میں سکھ نسل کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ آنے والے الیکشن میں سکھوں کی تمام حریت پسند تنظیمیں اپنا امیدوار کھڑا کرنے والی تھیں۔یہ طے ہو گیا تھا۔ چونکہ پنجاب میں مسلمان بھی ہیں ، ان سے سیاسی سطح پر بات ہو رہی تھی ۔
اور یہ سب سندو کی سرپرستی میں ہو رہا تھا۔“ نیہا نے ایک طویل سانس لے کر کہا 
” وہ حملہ ، جس میں تم اس سے ملی تھی ، وہ کس نے کیا تھا، اس بارے کبھی تمہیں پتہ چلا؟“جسپال نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
” بنیادی طور پر وہ بھی ”را “ہی کا تھا، لیکن سندو کے بندے توڑ کر ، وہ ا س سے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔“
” اب تم کیا چاہتی ہو؟“ جسپال نے پوچھا
” سندو اور ان پانچ لڑکوں کی واپسی۔
“ اس نے سکون سے کہا
” دیکھو ، زندگی اور موت تو رَبّ کے ہاتھ میں ہیں، کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں ، اور پتہ ہے وہ کہاں ہیں؟“
” مجھے ان کے زندہ ہونے کا پورا یقین ہے ، کیونکہ وہ ”را “والوں کی کسی فائل میں نہیں۔ ” را“ والوں نے انہیں پکڑا ضرور ہے لیکن اب وہ کہاں ہیں اس بارے کسی کو معلوم نہیں۔” را“ کے کرتا دھرتا کو بھی نہیں ۔
“ اس نے پورے یقین سے کہا تو جسپال خاموش ہو گیا۔ اس کا ذہن تیزی سے سوچ رہاتھا ۔ 
” نیہا۔! اب میں سمجھا ہوں کہ تمہارا چہرہ جانا پہچانا کیوں لگا۔ تمہیں فلموں میں دیکھا ہوگا۔ اب فلمی مصروفیت…“ جسپال نے پوچھا تو وہ بات قطع کرتے ہوئے بولی
” بالکل بھی نہیں ، میں ان کے لئے گم ہو چکی ہوں۔ ابھی کچھ فلمیں ادھوری ہیں، لیکن کوئی بات نہیں، وہ ہو جائیں گی اگر سندو مل گیا تو۔“ وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولی 
” ریلکس نیہا۔! رَبّ بھلا کرے گا، آؤ اب کھانا کھاتے ہیں۔ پھر سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے ۔“ جسپال نے کہا تو وہ اٹھ گئی۔
                                   #…#…# 

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط