Episode 111 - Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 111 - قلندر ذات (حصہ دوم) - امجد جاوید

” یہ ٹھیک ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔ میں کمرے سے باہر آ گیا۔ سارہ اپنے بیٹے مراد کے ساتھ اپنے کمرے میں تھی۔ میں نے وہاں موجود ملازم سے کہا کہ وہ ہمارا کھانا چھت پر لگا دے ۔
 میں ڈرائینگ روم میں ہی تھاکہ تانی آف وائٹ کلر کے سوٹ پہنے وہاں آ گئی۔
” آؤ اوپر چلتے ہیں چھت پر ۔ وہیں کھا نا کھائیں گے ۔“
” مجھے سے شاید سیڑھیاں …“ اس نے کہا ہی تھا کہ میں نے اسے اپنے بازووں پر اٹھا لیا۔
اس کا چہرہ میرے چہرے کے قریب تھا۔ میں نے دیکھا اس کے ہونٹوں پر ایک دم سے مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔ اس نے اپنے بازو میری گردن کے گرد حمائل کر دئیے ۔ میں اسے بازووں میں بھر کر سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔۔ وہ مسلسل میری طرف دیکھ رہی تھی۔ ملازم نے چار پائی نکال کر بستر لگا دیا تھا۔

(جاری ہے)

چھت پر لا کر میں نے اسے بستر پر بٹھا دیا اور خود سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر میلے کی روداد سنانے لگا۔

وہ سنتی رہی ۔ کھانا بھی کھا لیا۔ اس دوران اس کا موڈ خاصا خوشگوار ہو گیا۔ چائے کے مگ دے کر جب ملازم چلا گیا تو میں نے تانی سے پوچھا
” سچ بتانا تانی ، کیوں افسردہ تھی تم ۔ کسی نے کچھ کہا یاکسی کی کوئی بات بری لگی یا…“
” نہیں، نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے ، ایسا سوچنا بھی مت ، مجھے یہاں سے پیار ہی اتنا ملا ہے کہ میں ساری زندگی کا پیار جمع کرلوں تو بھی اس کے برابر نہیں ہے ۔
ایسا کچھ نہیں ہے جمال۔“
” تو پھر تم اداس کیوں ہو ؟“ میں نے پوچھا تو ایک دم سے مضطرب ہو گئی، اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پھر بالوں میں انگلیاں پھیر کر زور سے آنکھیں بند کیں اور ایک طویل سانس لے کر بولی
” جمال۔! مجھے ڈر لگتا ہے کہ تم لوگ مجھ سے نفرت نہ کرو، مجھے خود سے الگ نہ سمجھو۔ پلیز “
” یار ایسی کیا بات ہو گئی ہے ۔
“ میں نے اس کا جذباتی پن دیکھ کر پوچھا ، پھر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کا سر سہلایا 
” جمال ۔ ! میں مسلمان نہیں بلکہ مسیحی ہوں۔“
اس نے ڈرتے ہوئے کہا تو اس انکشاف پر میں ایک دم چونکا تو ضرور لیکن خود پر قابو رکھتے ہوئے پوچھا
” تو پھر ، اس میں اداسی کی وجہ ؟“
” جمال ، میری ساری زندگی نفرتوں میں گذری ہے، کچھ اپنوں سے ،کچھ بیگانوں سے ۔
روہی میں مجھے عزت ملی ، احترام ملا، مجھے اعتماد ملا۔ اپنے ہونے کا احساس ہوا ،لیکن محبت نہیں ملی ۔ میں جب سے نور نگر آئی ہوں، میں نے اتنا پیار پایا ہے کہ میں بتا نہیں سکتی ۔ خاص طور پر اماں سے ۔ میں سمجھتی ہوں اماں ہی ایک ایسی ذات ہے جس نے سب کو پرو کر رکھ دیا ہے۔ آج ہم یہاں ہیں تو یقین جانو اماں کی وجہ سے۔“ اس نے بے حد جذباتی لہجے میں کہا
” یہ تم کیسے کہہ رہی ہو ؟“ میں نے پوچھا 
” میں جانتی ہوں کہ سوہنی تم سے بے حد محبت کرتی ہے، اتنی محبت کہ تم بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے ہو ۔
اس کی محبت کے سامنے تو مجھے اپنی محبت بہت کم لگی ہے ۔ باپ سے نفرت اپنی جگہ ، لیکن پھر بھی وہ تم سے محبت کرتی چلی جا رہی ہے ۔ عورت سب کچھ برداشت کر لیتی ہے ، لیکن محبت میں شراکت برداشت نہیں کرتی۔ سوہنی یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ میں تم سے شدید محبت کرتی ہوں، اور اسی وجہ سے یہاں ہوں، اس نے نہ صرف برداشت کیا ، بلکہ تم سے محبت ہونے کے ناطے مجھے پیار اور احترام دیا۔
ایسا کیوں ہوا ، صرف اماں کی وجہ سے ۔“
” اماں کی وجہ سے ، میں سمجھا نہیں؟“ میں نے پوچھا تو وہ بولی
”سوہنی طوائف کی بیٹی تھی ،اس نے اس ماحول میں آنکھ کھولی، بچپن سے جوانی تک تربیت حاصل کی۔ مگر کہاں گئی وہ تربیت ، وہ ماحول، اماں کے پاس آئی ، اس کے پاس رہی اور آج وہ کیا ہے ، شاید تم اور میں نہیں سوچ سکتے ۔ مجھے کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ میں مسیحی ہوں، لیکن اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ پرستش کے لئے کوئی اور طاقت ہے۔
” مطلب کیسے ۔ تم کھل کر بتاؤ ۔“ مجھے خود تجسس ہونے لگا تھا۔ وہ مجھے ایک نئی سوہنی سے متعارف کروا رہی تھی۔
” اماں تو عبادت کرتی ہے ، لیکن سوہنی دوہری عبادت کر رہی ہے ۔“ اس نے کہا
” دوہری عبادت۔ کیا مطلب؟“
”مثلاً ، اماں نماز پڑھتی ہے، سوہنی بھی پڑھتی ہے ۔ جتنا اماں جاگتی ہے ، اتنا وہ بھی جاگتی ہے، لیکن سوہنی اماں کی خدمت کرتی ہے۔
وضو سے لے کر جائے نماز بچھا دینے تک کے چھوٹے چھوٹے کام۔ سوہنی کے اندر کی طوائف نجانے کب کی مر چکی ہے ۔ وہاں تو ایک عبادت گذار بندی موجود ہے۔“ اس نے بڑے جذباتی لہجے میں بتایا تو میں چند لمحے خاموش رہا پھر تانی کی طرف دیکھ کر کہا
” تانی ، میری اماں ہے ہی ایسی ۔ سچ پوچھو تو مجھے خود نہیں معلوم کہ میری اماں کیا ہے، بس مجھے تو اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ میری ماں ہے اور میری ساری طاقت اس کی دُعا ہے ۔
خیر ، تمہارے بارے میں کبھی تجسس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ کیا تم اپنے بارے میں مجھے بتاؤ گی۔“
” کیوں نہیں ، میں تو بتانا چاہتی تھی ،لیکن نفرت…“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا تو وہ کہتی چلی گئی 
” میرا باپ اندریاس گوجرانولا کا رہنے والا تھا۔ اس نے پادری بننے کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایک برطانیہ کی شہریت رکھنے والی پاکستانی نژاد عورت سے شادی کر لی جو میری ماں تھی۔
میں برطانیہ میں پیدا ہوئی تھی، اور میری شہریت وہیں کی ہے ۔ میرا ایک بھائی ہے جو کبھی پاکستان میں ہوتا ہے اور کبھی بر طانیہ، وہ بزنس کرتا ہے ، اور یہاں کی مسیحی برادری میں اس کابہت اثر رسوخ ہے ۔ میں زیادہ عرصہ برطانیہ میں رہی ہوں ۔میرے نہ چاہنے کے باوجود بھی مجھے ”نن “بننے کی تعلیم دی جانے لگی تھی۔ مجھے تو پہلے ہی سب پسند نہیں تھا اوپر سے ایک نوجوان پادری میرے جسم کے حصول میں لگ گیا۔
دراصل مجھے ”نن “نہیں بنایا جا رہا تھا ، بلکہ ایک ایجنٹ بنانے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اسی دوران میرے باپ نے میری ماں کو قتل کر دیا۔ وہ پکڑا نہیں گیا، بلکہ وہاں سے فرار ہو گیا اور پھر اس کے بعد ہم نے اس کی صورت نہیں دیکھی۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی ۔
” پھر کیا ہوا ؟‘ میں نے پوچھا
” پھر کیا ہونا تھا، ہماری بلکہ میری بد قسمتی کا آغاز ہو گیا۔
مجھے لوٹ کا مال تصور کر لیا گیا۔ سب سے پہلے اس نوجوان پادری نے مجھے اپنی رکھیل بنائے رکھا۔ جب وہ مجھ سے اکتا گیا تو بڑے کردار کے الزام کے ساتھ مجھے ”نن“ تو نہ بننا پڑا، بلکہ مجھے ایجنٹ بننے کی تربیت دی جانے لگی ۔ میری شکل صورت دیکھ کر لوگوں کو ورغلانے کی تربیت دی جانے لگی ۔ دوسرے لفظوں میں مجھے تربیت یافتہ طوائف بنا دیا گیا۔“ اس نے انتہائی دکھ سے بتایا
” روہی کیسے پہنچی؟“
” مجھے پاکستان میں چھوڑا گیا اور یہاں کے کئی سیاست دانوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔
اور میں کرتی رہی ۔ میں چند سیاست دانوں کے بارے میں تو پوری تفصیل سے بتا سکتی ہو ۔ کون ، کیا ہے ؟ اسی دوران مجھے ایک ابھرتے ہوئے سیاست دان کا ٹاسک دیا گیا۔ظفر سیال تھا نام اس کا ، میں اس کے قریب ہوئی لیکن وہ میرے ہتھے نہ چڑھ سکا۔ اس کا کردار بہت مضبوط تھا۔ مجھے اس کو قتل کر دینے کا کہا گیا۔ میں نے اسے قتل نہیں کیا بلکہ اسے ساری صورت حال بتا دی۔
وہ روہی کا پرودردہ تھا۔ اس نے مجھے وہاں بھیج دیا۔ مہر خدا بخش نے مجھے بہت عزت دی۔ میں نے جو سیکھا تھا ، سب وہاں سکھا دیا، جیسے تم نے نشانہ بازی کا تحفہ وہاں دیا۔“
” دیکھو ۔! یہ راز تمہارے اور میرے درمیان ہی رہے گا۔ تم کیا تھی اور کیا ہو ، یہ کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ تمہیں یہاں عزت ہی ملے گی ۔“ میں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
پھر اسے الگ کر کے اس کو آنکھوں ہی آنکھوں میں یقین دلایا۔ وہ ایک دم سے رُو پڑی ، پھر بولی
” جمال ۔! کس قدر ذلیل ہوتی ہے یہ عورت جب اسے لوٹ کا مال سمجھ لیا جائے۔“
” لیکن اب نہیں ہو ۔ یہاں رہو ، ہمارے ساتھ فیملی ممبر بن کر ، باقی سب بھول جاؤ ۔“ میں نے کہا تو اس نے آنسو پونچھ لیے۔ پھر اس کے بعد ہم دیر تک بیٹھے روہی کو یاد کرتے رہے ۔
                              #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 2 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

آخری قسط