وہ میلے کے آخری دن کی دوپہر تھی۔ میں اپنے گھر ہی میں تھا ۔ اس تیسرے دن کی شام میرا ارادہ تھا کہ میں میلے میں جاؤں۔ دو دن تک کسی کی طرف سے کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا ۔ لوگ امن اور سکون کے ساتھ میلے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اگرچہ عوام کو یہی احساس تھا کہ میلے کی آخری رات وہی رقص وسرود کی محفل جمے گی ، لیکن کوئی بھی طوائف وہاں کسی کے ہاں نہیں پہنچی تھی ۔
اب اس علاقے میں کوئی ایسا بندہ نہیں رہا تھا کہ ان کی میزبانی کر سکے ۔ ممکن تھا کہ اپنے طور پر وہاں کوئی آ جائے، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
شام کا سورج مغرب میں غروب ہونے جا رہا تھا ۔ افق پر نارنجی رنگ پھیل گیا تھا۔ میں گھر سے نکلا اورمیلے والے میدان کی جانب نکل گیا۔ میری خواہش تھی کہ میں کچھ دیر درویش کے پاس بیٹھوں گا اور میلے کو دیکھ کر آ جاؤں گا۔
(جاری ہے)
جب تک میں میلے کے میدان میں پہنچا، سورج غروب ہو گیا تھا۔
میں نے کار برگد کے درخت کے پاس روکی۔ وہاں نہ درویش تھا اور نہ ہی اس کی گدڑی۔ درخت کی جڑ میں چند اینٹیں اور راکھ پڑی تھی ۔ یہ دیکھ کر مجھے عشق کے بارے میں کسی کی تعریف یاد آگئی ۔ اس نے کہا تھا کہ ، بس ٹوٹی ہوئی رسیّاں اور تھوڑی سے راکھ، یہی عشق ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ یہاں سے کہیں دوسری جگہ کوچ کر گیا ہے ۔
میں کچھ دیر یونہی کھڑا رہا۔ جیسے اس کے ہونے کا احساس کر رہا ہوں ۔ پھر چھاکے کو فون کیا
” کدھر ہو تم سب لوگ؟“
” اچھا ہوا تمہارا فون آ گیا یار، میں ابھی تمہیں فون کرنے لگا تھا ۔“ اس نے تیزی سے کہا
” خیریت تو ہے نا،؟“ میں نے تشویش سے پوچھا
” فی الحال تو خیریت ہے۔“ اس نے جواب دیا
” تو پھر بات کیا ہے َ؟“ میں نے پوچھا
” بات ہی ہے کہ ہمیں تو یہ یقین تھا کہ کوئی طوائف وغیرہ نہیں آئے گی تو ہمیں معلوم ہو جائے گا ۔
لیکن یہاں توکافی ساری لڑکیاں پوری تیاری سے آگئیں ہیں ، سینکڑوں لوگوں کا مجمع ہے ۔“ اس نے تیزی سے کہا
” تو پھر کیا ہوا ، ناچنے دیں انہیں ۔ آخرکسی کے پاس تو آئی ہونگی نا ؟“ میں نے سکون سے کہا
” یہی تو پتہ نہیں چل رہا ، میں نے معلوم کیا ان منتظمین سے لیکن کسی کو نہیں معلوم، باقی مجھے ان کے ناچنے سے نہیں کوئی تکلیف ، میرے خیال میں کوئی شر پیدا نہ ہو جائے ۔
“ اس کے لہجے میں بھی تشویش تھی۔میں نے چند لمحے سوچ کر کہا
” اچھا، تم بتاؤ کہاں ہو ، میں آتا ہوں ۔“
وہ مجھے بتانے لگا۔ میں نے لوکیشن سمجھی اور فون بند کر کے جیب میں ڈال لیا۔ اس وقت میں کار کی جانب بڑھا ہی تھا کہ اچانک میری گردن پر پسٹل کی نال آ لگی۔ میں ایک دم سے ٹھٹھک گیا۔
” مڑ کر مت دیکھنا، چلو کار میں بیٹھو۔“
خطرے کا الارم بج گیا تھا ۔
دشمن نے اچانک وار کر دیا تھا۔وہ چاہتے تو مجھے اسی وقت گولی مار دیتے۔لیکن ایسا انہوں نے نہیں کیا تھا۔ بلا شبہ وہ مجھے زندہ پکڑنا چاہتے تھے۔ مجھے ایسے ہی موقع کی تربیت تھی ۔میلے سے چھن کر آنے والی ملگجی روشنی سے مکمل اندھیرا نہیں تھا۔ میں نے ایک دم سے جھکائی دی اور پلٹ گیا۔ میرے سامنے ایک اجنبی تھا ۔ اس نے فائر کردیا۔ گولی نجانے کدھر گئی لیکن تب تک ایک اور شخص اس کی مدد کو آ گیا ۔
لیکن اس لمحے میں حیران رہ گیا، جب اس نے اس اجنبی کو قابو کرنے کی کو شش کی ۔ اسی وقت نجانے کس طرف سے ایک راکٹ لانچر آیا اور میری کار کے پرخچے اڑ گئے۔ دھماکا بہت زور دار تھا۔ میں نے اس لمحے کو غنیمت جانا اور ایک طرف بھاگ نکلا۔ میں نے محسوس کیا میرے پیچھے کئی سارے لوگ ہیں ۔ دھماکے سے وہاں بھگدڑ مچ چکی تھی۔ اچانک میرے ارد گرد فائرنگ ہونے لگی ۔
میں ایک دم سے رُک گیا۔ میں نے دیکھا میرے ارد گرد سات آٹھ لوگ تھے ۔ میں کب تک بھاگتا، مجھے ان کا مقابلہ کرنا ہی تھا۔ میں ان کی طرف دیکھنے لگا تو وہ ایک دم سے آہستہ ہو کر میری جانب بڑھنے لگے ۔ میرے ارد گرد گھیرا تنگ ہوا تو ایک دم وہ رک گئے ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا،پھر ایک موٹے سے شخص نے انگریزی میں دہاڑتے ہوئے کہا
” یہ ہمارا شکار ہے ، اگر تم لوگ اب ذرا بھی آگے بڑھے تو میں …“ لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے۔
ایک فائر ہوا تو وہ ڈکارتا ہو اگر گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ ایک دوسرے پر فائرنگ کرنے لگے۔ کیا وہ ایک دوسرے کے مخالف تھے اور سبھی مجھے پکڑنا چاہتے تھے ؟ وہ کون تھے جو مجھے اغوا کرنا چاہتے ہیں ؟ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ فضا میں ہیلی کاپٹر موجود ہے۔ وہ یہاں کیوں ؟ یہ سوچنے کا وقت نہیں تھا، میں ایک دم سے بھاگ نکلا تھا ، میری کوشش تھی میں چھاکے وغیرہ کی طرف چلا جاؤں ، مگر مجھے راستہ نہیں مل رہا تھا۔
اچانک ہیلی کاپٹر کی آواز تیز ہونا شروع ہوگئی ۔ میں نے روشنی کی جانب دیکھا، تیز روشنی سے میری آنکھیں چندھیا گئیں۔اس کے ساتھ ہی تیز روشنی کا ہالہ میرے ارد گرد ہوگیا۔ میں جدھر بھی جاتا ، وہ ہالہ مجھے گھیرے ہوئے تھا جیسے وہ روشنی مجھ پر فوکس ہو گی ہو ۔ اچانک میرے سامنے ایک بڑا سا جال آ گیا۔ میں اس سے بچنا چاہتا تھا ، مگر نہیں بچ سکا۔ میں اس جال میں پھنس گیا۔
اگلے ہی لمحے میں فضا میں اُٹھتا چلا گیا۔ میلہ اور میلے کی روشنیاں کہیں بہت پیچھے رہ گئیں تھیں۔ تیز ہوا سے میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ہر طرف اندھیرا تھا۔ میں جال میں پھنسا جھول رہا تھا۔ مجھے یہ خبر نہیں تھی کہ میں کہاں جا رہا ہوں، اور مجھے اغوا کرنے والے کون ہیں؟
(بقیہ واقعات تیسرے حصہ میں ملالحظہ فرمائیں۔)