جسپال سنگھ اور رونیت کور کے سامنے گرباج سنگھ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ ان تینوں کے درمیان خاموشی تھی۔ گرباج سنگھ پر تشدد کے واضح نشان موجود تھے۔ جسپال نے اس کی حالت دیکھی اور پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔
”گرباج ۔! اگر تم چاہو تو ہم تمہارے ساتھ ایک ڈیل کر سکتے ہیں۔“
”حقیقت یہ ہے کہ میں تم لوگوں کا قیدی ہوں، میری پوزیشن ہی نہیں ہے کہ میں تم لوگوں سے ڈیل کر سکوں۔
ویسے اگر تم کوئی بات منوانا چاہتے ہو تو بولو۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں بے بسی سے کہا۔
”دیکھو۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرنا، ہمیں صرف سندو سے مطلب ہے، وہ مل جائے تو اس کے عوض تم نے جو سندو کی دولت اکٹھی کی ہے ،ہم وہ تمہیں دے دیں گے اور اپنی حفاظت میں تجھے کینیڈا روانہ کر دیں گے۔
(جاری ہے)
“ جسپال نے تحمل سے کہا۔
”میں پھر وہی کہوں گا کہ وہ یہاں نہیں ہے ، وہ ایک ایسی جگہ پر ہے۔
جہاں وہ کسی کی قید میں ہے ۔وہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے ، میں نہیں جانتا، میں اسے اپنی مرضی سے یہاں نہیں لا سکتا ۔“ گرباج نے احتجاجاً کہا۔
”تو پھر تم ہمیں اس کا پتہ بتا دو، ہم اسے خود لے آئیں گے ۔ تجھے تب تک ہمارے پاس رہناہوگا۔“ رونیت نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ اس وقت بھارت میں نہیں ہے۔ وہ ایک ایسی جگہ پر ہے جہاں جانے کے فقط دو راستے ہیں۔
ایک فضائی اور دوسرا سمندر میں سے ہے۔“ اس نے کہا تو جسپال نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
”فضائی مطلب؟ اور سمندر…؟“
”فضائی مطلب وہاں پر کوئی ائر پورٹ نہیں ہے ۔ وہ ایک جزیرہ ہے۔ ہیلی کاپٹر سے جایا جا سکتا ہے یا پھر سمندرسے اس کے ساحل تک ۔ آگے بہت دشوار گزار راستہ ہے اور …“ گرباج نے کہناچاہا۔
”مطلب سندو کو ہیلی کاپٹر کے ساتھ اٹھایا اور جزیرے پر لے گئے۔ کیا تم اس کی لوکیشن بتا سکتے ہو؟“ جسپال نے تیزی سے پوچھا۔
”اگر تم کہتے ہو تو بتا دیتا ہوں۔ تب تک مجھے یہاں رہناہوگا، کیوں نا میں ان لوگوں سے بات کر لوں ، اگر کوئی صورت نکل آئے ؟“ گرباج نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ، کرو رابطہ ۔“ جسپال نے کہا اور اس کا فون میز پر رکھ دیا ، جسے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک آگئی۔
اس نے تیزی سے نمبر تلاش کیے اور پھر پش کرکے رابطے کا انتظار کرنے لگا۔ جسپال نے فون پکڑ کر اس کا اسپیکر آن کردیا اور اسے میز پر رکھ دیا۔ جس سے آواز ابھری
”ہاں گرباج، تم کینیڈا کے لیے نکلے نہیں ہو ؟“
”شاید اب میں نہ جا سکوں ، میں پکڑا گیاہوں۔“ اس نے افسردگی سے کہا۔
”وہاٹ نان سینس ، یہ کیسے ممکن ہے، اتنا فول پروف پلان اور تم پکڑے گئے۔
وہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں؟“ دوسری طرف سے کہا گیا
”لگتا تو ایسے ہی ہے کہ جیسے وہ آسمانی مخلوق ہیں۔ مجھے انہوں نے پکڑ لیا۔“ گرباج نے کہا۔
”کیا کہتے ہیں وہ ؟“ دوسری طرف سے تحمل بھرے لہجے میں پوچھا گیا
”یہی کہ سندو کو چھو ڑ دیا جائے۔ اس کے عوض وہ مجھے…“ گرباج نے کہنا چاہا مگر اس کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ فون سے آواز ابھری
”یہ تم ڈرامہ کر کے ہمارے ساتھ کوئی گیم تو نہیں کر رہے ہو ؟“
”بہت افسوس ہے باس ، مجھ پر تمہیں اعتماد ہی نہیں۔
“ گرباج نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”بات اعتماد کی نہیں، حقائق کی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سندو اس وقت جزیرے سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہے۔ وہ ایک سر پھرے پاکستانی کے ساتھ موت کے منہ میں جا رہا ہے ۔ ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے، اب چاہے وہ جزیرے سے نکل بھی گیا تو ہم اسے مار دیں گے ۔“ فون سے کہا گیا
”اور یہ لوگ مجھے مار دیں گے ۔“ وہ بولا۔
”مر جاؤ اور انہیں اگر ہمارا راستہ دکھایا تو ہم ان کے ساتھ تجھے بھی مار دیں گے ۔“ دوسری طرف سے سفاکانہ لہجے میں کہا گیا۔اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔ جسپال نے وہ فون اٹھایا اور کوئی بات کیے بنا وہاں سے اٹھ گیا ۔
اس نے باہر نکلتے ہی کسی نامعلوم جزیرے پر موجود کسی باس کا نمبر روہی والوں کو دے دیا تاکہ اس کی لوکیشن کے بارے میں معلوم ہو سکے۔
”اب کیاخیال ہے جسپال ۔ ؟“ رونیت نے پوچھا۔
”خیال کیا، ہم اس کی لوکیشن دیکھ کر اس جزیرے پر جا رہے ہیں۔“ جسپال نے حتمی لہجے میں کہا۔
”لوکیشن کا تو گرباج کو بھی نہیں معلوم ؟“ وہ بولی۔
”پتہ کرتے ہیں نا ۔“ جسپال نے کہاہی تھا کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا ہو ا فون بج اٹھا۔ اسکرین پر کوئی نمبر نہیں تھا۔ اس نے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے اسی باس کی طنزیہ آواز ابھری
”میری کھوج سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
میں اگر جزیرے میں بیٹھاہوں نا تواسے اپنا مضبوط قلعہ بنا کر ، اب میں سمجھ گیا ہوں کہ گرباج کو تم لوگوں نے کیسے ٹریس کیا ہوگا۔ عقل مندی اسی میں ہے کہ خاموشی سے سندو کو بھول جاؤ ۔“
”کیوں چھوڑ دیں سندو کا خیال اور کیوں بھول جائیں اُسے ہم۔“ جسپال نے کہا۔
”پہلے اس کے بچ جانے کی امید تھی میں اسے بہت بڑی آزادی دینے والا تھا لیکن وہ احمق نکلا، اس نے اپنی موت خود چن لی ہے۔
وہ اب مر جائے گا۔“
”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم تم تک نہیں پہنچ پائیں گے؟“ جسپال نے غصے میں کہا
”آؤ ، سو دفعہ آؤ، مجھ تک پہنچو اگر ہمت ہے تو لیکن میری کھوج تم لوگوں کو بہت مہنگی پڑے گی۔ میں صرف ایک دفعہ سمجھاتا ہوں، دوسری بار صرف موت ملتی ہے۔“
اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔ جسپال اور رونیت ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
ء…ء…ء