Episode 4 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 4 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

”آہستہ چلو ، اور بہت دھیان سے ۔“
”یار ساحل پر پہنچ جائیں،پھر …“ 
”وہاں تمہاری پھوپی بیٹھی ہوئی ہے روٹیاں پکا کے، اوئے ،یہ درختوں سے اتر سکتے ہیں تو ہمارے استقبال کے لیے وہاں بھی لوگ ہو سکتے ہیں، اس سے پہلے راستے میں بھی کوئی مل سکتا ہے ۔“ میں نے سختی سے کہا تو ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا اور بولا۔
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے ، ساحل پر تو ہم سامنے ہوں گے ، جنگل سے فائر کرنا آسان ہو سکتا ہے ، اور پھر کون سا وہاں کوئی کشتی ہمارے انتظار میں ہوگی ۔
”کشتی بھی مل جائے گی، لیکن آہستہ چلو ۔“ میں نے کہا اور قدم بڑھاتا چلا گیا۔ سندو بھی پر سکون انداز میں چلتا چلا گیا۔
اس وقت سورج غرب ہونے کو تھا ، جب ہم جنگل کے سرے پر پہنچ گئے۔ وہاں سے آگے بھوری مائل سفید ریت تھی۔

(جاری ہے)

کافی آگے جا کر نیلگوں سمندر تھا ۔ تاحد نگاہ پانی، جس پر ڈوبتے ہوئے سورج کی شعاعیں اداس کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

 
انسان بھی بڑا عجیب ہے، سمجھتا ہے منظر اس کے اندر کو بدل دیتے ہیں، حالانکہ وہ خود اپنے ا ندر کی اداسی کو خود محسوس کرکے اسے خود پر طاری کر لیتا ہے۔ چاہے تو اگلے ہی لمحے اپنے اندر پڑے کسی انہونے جذبے کو طاری کرے اداسی کو ختم کر سکتا ہے ۔ 
”کتنا حسین منظر ہے یار۔ ایسی کئی جگہوں پر عیاشی کے نجانے کتنے منظر میری یادوں میں محفوظ ہیں۔
“ سندو نے کہا تو میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اپنے اندر کو بدل لیا۔ میں ایک دم سے خوشگوار ہو گیا۔ میں نے سندو کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
دیکھو۔ رات گزارنے کے لیے، ہمیں اس جاتی ہوئی روشنی کا فائدہ لے کر کوئی مچان بنا لینی چاہئے ۔“ 
میرے یوں کہنے پر مجھے لگا کہ میں نے اسے یادوں سے نکال دیا ہے۔ وہ سر جھٹک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
”ہاں ۔ میں سمجھ رہا ہوں ، ہمیں ایسا ہی کچھ کرنا ہوگا۔ میری پھوپھی تو آ نے والی نہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگا دیا۔ پھر چند لمحوں بعد بولا۔”یار ۔ روٹی کیا یاد آئی، بھوک محسوس ہو نے لگی ہے ۔“
”اپنے آپ کو تیار کر لے ، ممکن ہے ہمیں ایک دو دن بھوکا رہنا پڑے ۔“ میں نے کہا۔
”نہیں کل صبح تک ، دن کے وقت میں جنگلی پھل تلاش کر لوں گا اور اگر کوئی شہد کا چھتا…“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک طرف دیکھتے ہوئے رُک گیا ۔
میں نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔
وہاں تھوڑے فاصلے پر ایک تالاب تھا۔ جہاں کچھ ہرن پانی پی رہے تھے۔ 
”روٹی نہ سہی لیکن پیٹ بھرنے کا سامان تو ہو سکتا ہے ۔ یہ ہرن …“ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔”تم کھا لوگے؟“
”بھوک کے لیے کیا نہیں ہو سکتا۔“ یہ کہہ کر اس نے میری جانب دیکھا ۔ ہم دونوں دبے پاؤںآ گے بڑھ گئے۔
سندو ایک طرف چلا گیا۔ اس نے وہاں جا کر فائر کر دیا۔ وہ ہرن انتہائی تیزی سے میری جانب بڑھے ۔ میں چھپا ہوا تھا۔ ایک ہرن میرے قابو آ گیا۔ باقی نکل گئے۔سندو ہنستا ہوا میرے پاس آ گیا۔
”دیکھو ، اسے بناؤں گا میں۔ تم لکڑیاں اکٹھی کرو اور آگ جلاؤ، میں اتنے میں…“ لفظ میرے منہ ہی میں رہ گئے ۔ سندو نے ایک طرف اشارہ کیا، تو میں نے اس جانب دیکھا۔
ساحل کی طرف کافی فاصلے پر ایک جیپ آ کر رکی ہوئی تھی۔ وہ بند جیپ تھی ، جسے سفاری یا جنگل کے لیے بنایا گیا ہو ۔وہ رکی رہنے کے بعد ایک دم سے یوں مڑی کہ اس کا رخ سیدھا ہماری جانب تھا۔ اگلے ہی لمحے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔وہ فون ہماری نشاندہی کر رہا تھا۔ جو میں نے اس سیکورٹی والے کی جیب سے لیا تھا۔ میں نے تو یہ سوچ کر فون لیاتھا کہ اس سے باس کے ساتھ بات کروں گا ، جب بھی اس نے رابطہ کیا لیکن وہی فون اب ہمارے لیے پھندا بن جانے والا تھا۔
میں نے جیب سے فون نکالا اور سندو سے کہا۔
”سندو جلدی سے کوئی کپڑا دو یا…“
یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی قمیص پھاڑ دی ۔ کپڑے کی ایک دھجی میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے تیزی سے مضبوطی کے ساتھ وہ فون اس میں باندھا اور پکڑے ہوئے ہرن کے گلے میں باندھ دیا۔ میں نے اچھی طرح تسلی کرنے کے بعد کہ وہ کہیں گر نہ جائے اس ہرن کو چھوڑ دیا۔ وہ ہرن قلانچیں بھرتا ہوا جنگل کی طرف چلا گیا۔
”آؤ درخت پر ۔“ میں نے کہا اور قریب کھڑے ایک بڑے درخت پر چڑھنے لگے۔ میرے پاس دو گنیں تھیں ۔ کچھ دیر بعد میں نے ایک ٹہنی پر اپنے آپ کو جما لیا۔ وہ جیپ جنگل کے اندر چلی گئی تھی۔
”نہ مچان ہی بنی اور نہ ہی کھانے کا بندوبست ہوا ۔ لگتا ہے یہ رات یونہی گزارنی پڑے گی۔“ سندو نے کہا تو میرا قہقہہ نکل گیا۔ ”اچھا ہوا وہ ہرن ہمارے کام آ گیا ، ورنہ وہ جان سے جاتا اور ہمارے پاس آگ جلانے کوماچس نہیں تھی اور نہ ہی چقمق۔
“میں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تو چند لمحوں بعد بولا۔”ایسے ہی موقعے کے لیے کہتے ہیں ہاتھ نہ پہنچے تھو کوڑی یا وہ کیا کہتے ہیں…“ سندو نے جل کرکہا پھر وہ خود ہی ہنسنے لگا۔ 
 ”اب تو ساری رات اس درخت پر گزارنا پڑے گی۔“ میں نے کہا تو ہماری باتیں شروع ہوگئیں۔
وہ پوری رات ہم سو نہیں سکے ۔شاید ہماری آنکھ لگ جاتی لیکن ایک تو یہ ڈر تھا کہ نیند میں ہم درخت سے نیچے گر سکتے ہیں اور دوسرا رات بھر کئی جیپیں وہیں ساحل پر گھومتی رہیں۔
ممکن ہے وہ ایک یا دو ہی ہوں اور بار بار چکر لگا رہی ہوں ۔ وہ رات جس طرح درخت پر کٹی، اس کی اذیت میں ہی جانتا ہوں۔
اس وقت دن کی نیلگو ں روشنی ہر طرف چھائی ہوئی تھی، جب ساحل سے کچھ فاصلے پر ایک اسٹیمر آن رکا۔ کچھ دیر تک مجھے یہی لگا کہ یہ میرے لاشعور کا کرشمہ ہے جومجھے دھوکا دے رہا۔ جس طرح صحرا میں سراب دکھائی دیتا ہے اس طرح شاید جنگل کی اس صورت حال میں یہی کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہو، مگر جب سندو نے بھی تصدیق کی تو مجھے یقین ہو گیا ۔
 مگر یہ اسٹیمر کس کا ہو ؟ کیا انہوں نے ہمیں پکڑنے یا مارنے کے لیے کوئی نفری منگوا لی ہے ؟ یا پھر یہ کوئی دوسرے لوگ ہیں؟ اس سے پہلے کہ ہم اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرتے، میری نگاہ ان چار جیپوں پر پڑی جو کچھ فاصلے پر دائیں جانب ساحل پر کھڑی تھیں۔ ان میں سے کئی سارے لوگ نکلے اور کچھ ہی دیر میں انہوں نے پوزیشنیں لے لیں۔ جیسے آنے والے ان کے دشمن ہوں۔
 صورت حال کافی دلچسپ ہو گئی تھی۔ آنے والے نجانے کون تھے اور ان کا سامنا کرنے والے یقیناً باس کے لوگ تھے ۔ جو کل سے اس ساحل پر گھوم رہے تھے ۔اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ دشمن ہیں یا دوست ، ہمیں اس صورت حال میں کیا کرنا ہوگا؟ اس کے لیے ہمیں ابھی رُکنا تھا۔ میں نے سندو کو ساتھ لیا اور درخت سے نیچے اُتر آیا۔ہم ایک ایسی جگہ پر آ ن چھپے، جہاں سے سامنے کا منظر بالکل واضح تھا۔
 
کافی وقت گذر گیا۔ سورج کی روشنی پھیل رہی تھی ۔ تبھی اسٹیمر سے انگریزی میں اعلان کیا گیا۔
”ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا راستہ روکنے کے لیے تم لوگ آ گئے ہو ، ہماری تم لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے ، ہم جنگل میں بالکل داخل نہیں ہوں گے اگر تم لوگ ہمارے دو آ دمی سندو اور جمال واپس کر دو۔ ہم واپس چلے جائیں گے۔ ہمیں اس کے علاوہ کوئی غرض نہیں۔
“ 
 ہم دونوں ہی اپنا نام سن کر اچھل پڑے تھے۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ اعلان جسپال کر رہا ہے ۔ ممکن ہے وہ ہم تک اپنی آواز پہنچانا چاہ رہا ہو ۔
”لے بھئی سندو ، اپنے دوست پہنچ گئے۔“ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”یہ جو اسٹیمر پر آئے ہیں، تمہیں کیسے پتہ وہ ہمارے دوست ہیں؟“ اس نے حیرت سے پوچھا، پھر خود ہی بولا۔”کوئی بھی ہوں یا ر ، یہاں سے تو نکلیں گے۔
”سمجھو، اب نکل گئے۔“ میں نے اعتماد سے کہا ۔
 اس نے دوبارہ پھر اعلان کیا۔ اس کا اعلان ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ساحل کی طرف سے فائر ہونے لگے ، کئی گنیں سیدھی ہو چکی تھیں۔ یہ اسٹیمر والوں کو پیغام تھا کہ موت ان کے استقبال کے لیے موجود ہے۔ 
”جمال! یہاں پیچھے سے ہم نہ فائر کر دیں، سینڈوچ بنا دیں سالوں کو ؟“ وہ نفرت سے بولا۔
مجھے لگا اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔
”صبر کرو ، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔“ میں نے کہا اور غور سے اس سارے ماحول کو دیکھنے لگا۔ ساحل کی طرف سے فائرنگ ہونے لگی تھی۔ لیکن اسٹیمر کی طرف سے خاموشی تھی اور وہ ابھی تک ساحل کے قریب نہیں آیا تھا۔ جیپوں کی آڑ میں کچھ لوگ کھڑے تھے اور ان کا رُخ سمندر کی جانب تھا،ان لوگوں کی پشت ہماری طرف تھی۔
آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گذر گیا۔ اکا دُکا فائرنگ ہوتی رہی۔ اس دوران میں نے تینوں گنوں کو لوڈ کر کے اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ میں نشانہ لوں اور ایک ہی گولی میں ایک بندہ نہ پھڑکے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ میرے پاس بلٹ زیادہ تھیں اور وہ بندے بہت کم ۔
وہ لوگ شاید اُکتا گئے تھے ۔ اس لیے انہوں نے اسٹیمر کی طرف مسلسل فائرنگ شروع کر دی ۔
میں سمجھ گیا تھا، وہ ان کی فائرنگ کی رینج میں نہیں تھا، ورنہ وہ اب تک اسٹیمر کو نقصان پہنچا چکے ہوتے، اسٹیمر والوں نے عقل مندی کی تھی کہ اب تک فائر نہیں کیا تھا ، وہ اپنا اسلحہ ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ اب جو کچھ کرنا تھا ہمیں ہی کرنا تھا۔ میں نے ایک گن سندو کو دے کر کہا۔
”دیکھ ۔!تو نے ہر فائر ایک نئی جگہ سے کرنا ہے، یہ اتنی تیزی سے ہو کہ وہ یہی سمجھیں کہ ہم دو نوں فائرنگ کر رہے ہیں۔“
”میں سمجھ گیا، لیکن تم ؟“ اس نے سر ہلاتے ہوئے پوچھا تو میں نے کہا۔
”تم صرف یہ دیکھنا کہ وہ گرتے کیسے ہیں۔“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط