Episode 6 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 6 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

جوہو کے علاقے میں موجود اشوک نگر کالونی میں ایک پرانے بنگلے میں ہم سب آن ٹھہرے تھے۔ وہاں میں، جسپال ، سندو ، رونیت کور اور ہرپال سنگھ تھے۔ ہم سب وہاں سے نکل سکتے تھے لیکن ایک تو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ میں کیسے جا سکتا ہوں۔ دوسرا ابھی آزاد اور جزیرے والا معاملہ ختم ہوا نہیں لگتا تھا۔ سب سے پہلے سندو نے وہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا تھا۔پھر سبھی نے چند دن وہیں رُک جانے کا فیصلہ کر لیا۔

میں ایک کمرے میں تھا۔ خوب آرام کر لینے کے بعد شام کے وقت جاگا تو بنگلے کے لان میں چند لوگ بیٹھے ہوئے دکھائی دئیے۔ میرے سامنے صوفے پر جین اور ٹی شرٹ پڑی ہوئی تھی ۔ میرے سائز کے جوتے نیچے دھرے ہوئے تھے ۔ میں نہا کر فریش ہوا اور کپڑے پہن کر نیچے ڈرائینگ روم میں چلا گیا۔ جسپال ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور سندو ایک نوجوان سے باتیں کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

ان کی باتوں سے یہی اندازہوا کہ وہ اسی کے لوگ تھے، جو گینگ ختم ہو نے کے بعد ڈر کر ممبئی بھاگ آئے تھے۔ یہ سب کچھ اس کے مقامی دوست نے کیا تھا۔ وہ کون تھا ہمیں اس سے غرض نہیں تھی۔ سندو نے مہنگی شراب کی بوتل آدھی سے زیادہ چڑھائی ہوئی تھی۔وہ پوری طرح مخمور تھا۔ تبھی وہاں کے ملازم نے کھانا لگا دینے کا کہا۔ رونیت اور ہرپال پہلے ہی وہیں موجود تھے ۔
کھانے پر خاصا اہتمام کیا گیا تھا۔ کھانے کے دوران سندو پوری طرح سے خمار آلود تھا۔ تبھی میں نے پوچھا۔
”سندو ، کیا تو نے یہ پتہ کیا ہے کہ یہ جزیرہ اب تک لوگوں کی، یا حکومت کی نظر میں کیوں نہیں آیا تھا ، کیا کسی کو بھی نہیں پتہ تھا اس کا ۔“
”یار ہم نے وہی دیکھا، جو اس نے ہمیں دکھایا، ایسے کئی جزیرے ہیں ، جو کچھ لوگوں کی اپنی ذاتی ملکیت میں بھی ہیں۔
ہمیں یہی باور کرایا گیا کہ ہم دنیا کے پتہ نہیں کون سے خطے میں ہیں، تاکہ ہماری ہمت ہی نہ پڑ سکے وہاں سے بھاگ جانے کی ۔“ اس نے بڑی پتّے کی بات کی تھی۔
”اور وہاں پڑے لوگ شاید اب بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے۔“ رونیت کورنے سمجھتے ہوئے کہا۔
”ممکن ہے ، انہیں جانے دیا گیا ہو یا پھر وہ مار دئیے گئے ہوں، اب اس کی کوئی کھوج کرے گا تو پتہ چلے گا۔
“ اس نے چڑھی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔
”یار وہ اتنا طاقت ور آدمی ہے کہ مجھے پاکستان سے اٹھا کر اس جزیرے تک پہنچایا اور کسی سرحد یا حکومت کا کوئی ردعمل نہیں ہوا۔“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”اس کے طاقت ور ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا، لیکن وہ جو بھی تھا یاہے ، بڑے جرائم پیشہ لوگوں میں سے ایک تھا۔ یہ لوگ بہت بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کرتے ہیں۔
یہ اس کی قسمت خراب تھی یا ہماری خوش قسمتی کہ ہم اس کے چنگل سے نکل آئے ۔ ورنہ وہاں سے نکلنے کا کوئی چانس لگتا نہیں تھا۔“ سندو نے یوں کہا جیسے اسے بیتے ہوئے دن یاد آگئے ہوں۔
”کون ہو سکتا ہے وہ شخص؟“ میں نے بالآخر وہ سوال کیا جس کے لیے میں نے اتنی تمہید باندھی تھی۔
”مجھے تھوڑا بہت شک تو ہے کہ وہ کون ہو سکتا ہے ، وہاں پر دوسرے لوگوں کے اندازے تھے، اب ایک دو دن میں کنفرم ہو جائے گا ، میں یہا ں رُکا بھی اسی لیے ہوں ، میں اسے چھوڑوں گا نہیں، جس نے میرا سارا سیٹ اپ تباہ کر کے رکھ دیا۔
وہ سالا گرباج ، اسے بھی یہاں لایا جا رہا ہے ،بائی روڈ، پتہ چل جائے گا۔ بس ایک دو دن میں، میرا مال ہڑپ کرجانے والا تھا نا ، میں سکھاتا ہوں سالے کو سبق۔“ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ 
 مجھے لگا اسے کافی چڑھ گئی تھی ۔ میں اسے ٹو کنا نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ نشے میں باتیں کرتا رہا۔ میں اور جسپال نے ڈٹ کر کھانا کھایا اور وہاں سے اٹھ گئے ۔
رونیت کور پہلے ہی اٹھ گئی تھی۔ جبکہ ہرپال اس کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گیا۔ ہمیں ایک دوسرے سے بہت ساری باتیں کرنا تھیں۔ ہم دوسری منزل کے ایک ایسے کمرے میں آگئے جہاں بنگلے کا لان دکھائی دے رہاتھا۔
”یار جمال ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی ، یہ رونیت کافی ماہر ہے، اس نے بہت کچھ ہیک کیا ، لیکن جزیرے کے نمبر سے کچھ معلوم نہ کر سکی، اس نے بتایا تھا کہ جزیرے پر کوئی خاص لہروں کی سیکورٹی ہے، لیکن روہی والوں سے کچھ نہ چھپ سکا، یہ کیسے ؟“ جسپال نے پوچھا۔
”یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔“ میں نے جواب دیا
”یہ بات مذاق میں مت لو ، ایسا کچھ ہے کہ ہم روہی والوں سے چھپ نہیں سکتے؟“ اس نے کہا۔ 
”کیا تم ان سے چھپنا چاہتے ہو؟“میں نے پوچھا۔
”اوئے نہیں اوئے، میں یہ پتہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس کا پتہ ہونا چاہئے۔ تاکہ …“اس نے کہنا چاہا تو میں نے کہا۔
”تم اپنا سر مت کھپاؤ ، سمجھ لو کہ ایسا ہے ، کیسے ہے ، اسے چھوڑو، اگر ایسا ہے تو بہت اچھا ہے ۔
“ میں نے کہا۔
”ایک دوسری بات ، اب جزیرہ تو گولائی میں تھا،ہمیں تو نہیں پتہ تھا کہ تم کہاں ہو۔ ہم نے ایک چکر لگایا، دوسرے چکر پر روہی کی طرف سے تمہاری لوکیشن بتا دی گئی کہ تم کہاں پر ہو، اسی وجہ سے ہم ایک خاص جگہ پر رک گئے ، اور وہیں پر تم تھے ، یہ کیسے ؟“ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا تو میں نے کہا۔
”دیکھو، مجھے اس کا جواب معلوم نہیں ہے ، یا تو روہی فون کر کے پوچھ لو یا پھر جب ہم وہاں گئے تو پتہ کر لیں گے۔
اب بتاؤ پروگرام کیا ہے ؟“ میں نے پر سکون ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔ 
”یار ، بڑا دل کرتا ہے ہر پریت کو دیکھنے کے لیے ، میں نے تو سوچا تھا کہ چندی گڑھ سے سیدھا اوگی پنڈ جاؤں گا، مگر یہاں تو ایک نیا ہی پھڈا ہو گیا ہے ، پتہ نہیں کب مل سکوں گا ہر پریت کور سے۔“ اس نے جذباتی لہجے میں کہا تو میں ہنس دیا
”کل شام تک کی بات ہے ، اگر اس آزاد کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے تو ٹھیک ، ورنہ ہم یہاں سے نکل چلیں گے۔
اس بار تو میں بھی اُوگی پنڈجاؤں گا۔ جہاں کچھ عرصہ میرا باپ رہا تھا۔“ میں نے بھی کافی حد تک جذباتی ہوتے ہوئے کہا تو کچھ دیر تک ہم میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ پھر رات گئے تک ہم باتیں کرتے رہنے کے بعد سونے کے لیے لیٹ گئے۔
مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔میں میلے والے میدان سے لیکر یہاں ممبئی آجانے تک الجھا ہوا تھا۔اس میں بہت ساری باتیں ایسی تھیں جو مجھے سوچنے پر مجبور کر رہیں تھیں۔
میں جب جال میں پھنسا ہوا تھا، اس دوران جو مشاہدہ مجھے ہوا، وہ کسی مقصد سے خالی نہیں تھا ، اس کا یقین مجھے اسی وقت ہو گیا تھا جب آزاد نے اپنی بات کی تھی۔ مجھے ابلیسی حربے سمجھنے میں ایک لمحہ بھی دقت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے باقی مشاہدے کی بھی سمجھ آرہی تھی۔ جزیرے سے نکلنے کا میرا اپنا فیصلہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے ارادہ کر لیا تو یہاں سے نکل بھی جاؤں گا ،چاہے راستے میں جو بھی رکاوٹ آئی ۔
میرا یقین ہی میرے کام آیا ۔ میں عام حالات میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں ایسا کر گذروں گا ، جو میں نے کر دیا۔اس وقت میرے سامنے ایک ہی سوال تھا، کیا میرایہاںآ نا کسی مقصد کے لیے ہے ؟کیا مجھے اس پر سوچنا چاہئے یا پھر خود کو حالات پر چھوڑ دینا چاہئے ؟ میں بے چین ہو گیا۔ میں اٹھ کر باہر آگیا اور پھر چلتا ہوا اوپر چھت پر آ گیا۔ نم دار ہوا میرے چہرے سے ٹکرائی تو ذرا سکون محسوس ہوا ۔
مجھے لگا جیسے میری بے چینی مجھے سوچنے پر مجبور کر رہی ہے اور کوئی ہے جو میرے اندر سے مجھے بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ بڑی ساری چھت پر میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔چند لمحے بعد مجھے لگا جیسے میں مراقبے میں ہوں۔ میرے اندر سے اٹھنے والی آوازیں خاموش ہو گئیں ۔ پھر کوئی کہنے لگا
انسان کے لیے علم سب سے اہم شے ہے۔ اسی باعث اسے اشرف المخلوق کا درجہ نصیب ہوا ۔
کیونکہ یہ علم ہی شعور پیدا کرتا ہے۔شعور کے ساتھ ہی انسان میں جذبہ پیدا ہوتا ہے جو اس کا ارادہ بنتا ہے۔یہی ارادہ جب پختہ ہوکر یقین میں بدلتا ہے تو پھر وہ عمل کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس سے انسان کی پہچان ہو تی ہے کہ وہ کیاہے ؟علم سے عمل تک کا سفر ، سوچ کے ذریعے طے ہوتا ہے۔وہ کون سی شے ہے جو علم سے عمل تک کا سفر طے کرواتی ہے؟ خوف، لگن، شوق، محبت ، عشق ، جنون ان میں سے جو بھی ہو ، ویسا ہی عمل ہوگا۔
کوئی بھی سوچ انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ یہ انسان ہی کی عظمت ہے کہ اس میں سوچ اٹھتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس میں سوچ پہلے کہیں پڑی ہوئی ہے جو اپنا اظہار کرتی ہے۔
انسانی سوچ کے دو پہلو ہیں۔ ایک وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ وہ کیا ہے ؟ وہ سامنے جو کچھ دیکھتا ہے وہ کیا ہے ؟ وہ کیسے بنا؟ اس کے بنانے والا کون ہے؟ دوسری سوچ کا پہلو یہ ہے کہ وہ یہاں کیوں ہے؟ گویا وہ حال میں رہ کر ماضی اور مستقبل دونوں کے بارے میں سوچتا ہے ۔
دراصل یہی انسان کی عظمت ہے کہ وہ سوچتا ہے ۔ یہی سوچ اسے اپنے رَبّ سے ملاتی ہے اور کائنات کی گتھیاں کھول کر اسے تسخیر کرتا چلا جا رہا ہے۔ 
انسانی سوچ جو اس کے اندر سے ابھرتی ہے دراصل اس کے خالق کا عطیہ ہے۔ جس سے انسان اپنی عظمتوں کو بھی چھو سکتا ہے اور پستیوں میں بھی گر سکتا ہے۔
خود انسان کو اس کا اپنا احساس دلانے والی قوت اس کے اندر ہی پڑی ہے۔
یعنی یہی سوچ، یہ سوچ صرف انسان ہی میں آ سکتی ہے۔ سوچ ، شعور اور شخصیت بھی ایک سفر ہے۔جو انسان کے اپنے ہی اندر پڑا ہوا ہے۔ یہی عطیہ خدا وندی ہے اور یہی کن فیکون کا راز بھی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ خالق اور مخلوق کا تعلق کوئی الگ نہیں کر سکتا۔ یہی سوچ ہے جو انسان کو اس کے اپنے مقامات، اس کی اپنی ہی صورت میں دکھائے جاتے ہیں۔کیونکہ خود انسان میں نئے نئے مقامات پڑے ہیں ۔
اسی صورت سے ان مقامات کا ظہور ہے۔ ظاہری مراتب کی حفاظت کے ساتھ مقام بھی اسی میں عیاں ہو جاتے ہیں۔ انسان اپنے مقام کا تعین خود کرتا ہے اور جب تک وہ ماضی اور مستقبل میں برابر دیکھتا ہے، وہ مقام انسانیت پر فائز رہتاہے ، صرف ایک طرف دیکھنا ، انسانیت کے زمرے میں گناہ ہے۔
یہی ذرّہ خاک،جب سوچتا ہے تو آسمانوں سے بھی ماورا ہو جاتا ہے، آسمانوں کا راز داں بن جاتا ہے ،یہی وہ سوچ ہے جو کائنات کی تسخیر کے لیے روبہ عمل ہے۔
جب وہ اپنے مستقبل کو اپنے ماضی سے جوڑتا ہے تبھی وہ راز داں بنتا ہے۔ اس سارے معاملے کی وضاحت صرف ڈی این اے جیسے ذرے سے ہو سکتی ہے، پورا ماضی اس کے اندر پڑا ہوا ہے، اور مستقبل بھی۔کن فیکون کا راز داں ہونے اور اپنے اصل مقصد کو پہچاننے کے لیے ماضی اور مستقبل میں برابر جھانکنا ہوگا۔ کیونکہ یہی رَبّ تعالی کی منشاء ہے۔ کیونکہ کن فیکون ہو رہی ہے، یہ لامحدود ہے، اور لا محدود قوتیں ہی انسان کو نوازی گئی ہیں۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے خالق کے بارے میں سوچتاہے اور یہ بھی فطرت ہے کہ اگلی کئی صدیوں کے منصوبے بنا کر روبہ عمل ہے۔ جو اس کو برابر رکھتا، وہ اپنے مقام کا تعین کر سکتا ہے اور کائنات اس کی ہر طرح سے مدد گار ہو جاتی ہے ۔انسان اپنے اندر پڑی صلاحیتیں یوں دیکھ سکتا ہے جیسے ہر طرح کے سامان سے بھرے ہوئے تاریک کمرے کو روشن کر دیا جائے۔ پھر جس وقت جس شے کی ضرورت ہو وہاں سے لے سکتا ہے۔ یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط