Episode 10 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 10 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

جسپال کے کمرے میں ہر پریت بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے جو بھی اور جیسی بھی تھی،اپنی روداد سنا دی تو ہرپریت نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”تو اس لیے تو نے کیس کٹا دئیے؟“
”لیکن میرے اند ر جو سکھ ہے ،وہ تو ویسا ہی ہے نا؟“ جسپال نے جذباتی انداز میں کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تو اب بھی یہاں نہیں رہے گا، چلا جائے گا، میرا انتظار تو جیسے تھا ، ویسا ہی رہے گا۔
“ ہرپریت نے اپنی سوچ کے مطابق نتیجہ نکالتے ہوئے کہا۔
”یہ تیرے سامنے ہے ، میں اب اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔“ جسپال نے فیصلہ کن لہجے میں کہا 
”تو پھر میں بھی سکھنی ہوں، میرا فیصلہ بھی سن لے، میں تیرا انتظار کروں گی، اور تیرے انتظار میں چاہے مجھے موت آ جائے۔

(جاری ہے)

“ اس نے بھی حتمی انداز میں کہہ دیا

”تو پھر ،غصہ کس بات کا ، آؤ ، جو ذرا سا وقت ہمیں ملا ہے ، اسے خوشی خوشی گزار دیں۔
پھر پتہ نہیں یہ لمحات دوبارہ ملیں گے بھی یا نہیں۔“ جسپال نے اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ چند لمحے رکی رہی پھر اس کے سینے سے جا لگی۔ نجانے کب کے رُکے آنسو تھے جو بہہ نکلے یا پھر آنے والے وقت کے احساس سے وہ رُو دی تھی۔ جو بھی تھا ، وہ جی بھر کے روئی تھی۔ جب جی ہلکا ہو گیا تو اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی۔
”تو ٹھیک کہتا ہے جسپال ، محبت قربانی مانگتی ہے اور میں قربانی دینے کو تیار ہوں۔
”چل اب یہ جذباتی باتیں ختم کر اور تیار ہو جا، جالندھر چلتے ہیں ، کچھ شاپنگ کریں گے، کچھ کھائیں پیئں گے پھر واپس آ جاتے ہیں۔“ جسپال نے کہا۔
”مجھے کوئی شاپنگ نہیں کرنی، کھانے پینے کو یہاں بہت کچھ ہے۔ ہمیں پہلے دلبیر سنگھ سے ملنا ہے ، پھر اس کے بعد ایڈووکیٹ گل سے ۔ یہاں کی تمہاری جائیداد کے بارے میں ابھی کچھ مسئلے ہیں ، وہ حل ہونے والے ہیں۔
“ ہر پریت نے اسے کہا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا
”تیرے ساتھ جانا ہے تو جدھر لے جا۔“ جسپال نے شوخی سے کہا۔
”وہ جمال کو ساتھ…“ ہرپریت نے کہنا چاہا تو جسپال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
”اُو چھوڑ اُسے ، اُسے سونے کی بیماری ہے ، اسے سونے دے، ہم تب تک آ جائیں گے۔“
”ٹھیک ہے ۔“ وہ ایک دم سے مان گئی اور نکودر جانے کے لیے تیار ہوگئی۔
انہوں نے جاتے ہوئے دلبیر سنگھ سے ملتے ہوئے جانا تھا۔
                                          ء…ء…ء

سورج ڈوب چکاتھا۔ کچھ دیر پہلے انوجیت میرے پاس سے اٹھ کر گیا تھا۔ میں کمرے میں پڑا تھا ، پھر ہوا خوری کے لیے اوپر چھت پر چلا گیا۔ مغرب کی جانب اوگی پنڈ پھیلا ہوا تھا، جو قصبے کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ میں کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرتا رہا پھر ایک کرسی پر بیٹھ کر روہی کی مدد سے پریم ناتھ سے رابطہ کرنے کو کہا لیکن اس سے پہلے میں نے نورنگر کے بارے میں تسلی کر لی ۔
وہاں بالکل سکون تھا۔ پریم ناتھ جیسے میرے ہی انتظار میں تھا۔
”جو ہونا تھاسو ہو گیا، ہم تم سے اب بھی دوستی چاہتے ہیں۔“ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔
”کیا تمہارے بڑوں کا یہی فیصلہ ہے ۔“ میں نے پوچھا تو وہ بولا۔
”ظاہر ہے ، یہ فیصلہ ہوا تو میں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں۔“
”اب اپنے بڑے کے بارے میں تم مجھے بتاؤ گے یا میں اسے خود تلاش کرلوں۔
“ میں نے پوچھا۔
”اسے تو ہم نے بھی نہیں دیکھا، اگر تم تلاش کر سکو تو شوق سے؟“ اس نے جواب دیا
”یہ بات تم خود کہہ رہے ہو یا پھر اپنے بڑوں کی مرضی سے۔“ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے میں نے قہقہہ لگا دیا۔ 
”تم انہیں تلاش نہیں کر سکتے ، اس لیے بات مذاق میں ٹال رہے ہو۔“اس نے طنز کیا
”تمہارا وہ مہرہ آزاد، اس نے بھی مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا، کہاں ہے وہ، تاکہ وہ میرے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو نبھائے ۔
“ میں نے پوچھا۔
”افسوس ، وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا، خیر تم اگر ہمارے ساتھ دوستی کرتے ہو تو بات آ گے بڑھائیں؟“ اس نے پوچھا۔
”تم لوگوں کی وجہ سے میرا اب تک دس ملین ڈالر سے زیادہ خرچ ہو چکا ہے ،پہلے وہ دو ، پھر بات کرتے ہیں۔“ میں نے کہا تو وہ اگلے ہی لمحے بولا۔
”بولو، کہاں دینے ہیں۔“
”کہاں دے سکتے ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”پاکستان اوربھارت میں کہیں بھی ۔“ اس نے کہا۔
”تو ٹھیک ہے ، ممبئی کے جوہو میں اشوک نگر کی اسٹریٹ تھری پر جو بنک ہے، اس میں رقم ڈال دو، کل دس بجے تک ۔ اکاؤنٹ نمبر تم تک پہنچ جائے گا، باقی باتیں پھر کرتے ہیں۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔روہی والے بھی ہمارے درمیان ہونے والی باتیں سن چکے تھے۔ 
جس وقت میں بات کر رہاتھا، اس دوران جسپال کو رونیت کور کا فون آیا۔
وہ مجھ سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔ وہ اس وقت نکودر میں ایڈووکیٹ گل کے پاس تھا ۔ اس کے بتانے پر میں نے رونیت کور کو فون کیا۔ 
”تم نے جس کمپنی کے بارے میں کہا تھا، میں نے اسے ہینک کرکے اس کے بارے میں ساری معلومات لے لیں ہیں۔ اس کے بارے میں ساری تفصیلات میں نے میل کر دی ہیں۔“ اس نے تیزی سے بتایا تو میں نے پوچھا۔
”رونیت ، تم نے کبھی گاؤں کی زندگی دیکھی ہے ، مطلب کبھی وقت گذارا ہے گاؤں میں؟“
”مجھے نہیں یاد کہ میں نے گاؤں میں کہیں ایک آدھ دن سے زیادہ وقت گذارا ہو۔
“ اس نے حیرت بھرے انداز میں بتایا
”ٹھیک ہے ، میں تفصیلات دیکھ کر بتاتا ہوں کہ تمہیں یہاں گاؤں میں آنا ہوگا یا پھر میں ممبئی آ جاؤں، کیسا ہے ؟“ میں نے پوچھا۔
”تم ہی یہاں آ جاؤ،یہاں موسم زیادہ اچھا ہے، انجوائے کرنے کا موقعہ زیادہ ملے گا۔“ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو میں سمجھ گیا وہ کیا چاہتی ہے ۔ کچھ دیر اس کے ساتھ مزید بات کرکے میں نے فون بند کر دیا۔
مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اگلے دن کے بعد کیا کرنا ہوگا۔ نجانے کیوں مجھے احساس ہو رہاتھا کہ مجھے اب اپنے لیے زندگی نہیں گزارنی ۔
 میں چھت سے نیچے آیا تو جُوتی دروازے میں کھڑی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو بولی۔
”بڑی بی بی ، آپ کو کھانے کی میز پر بلا رہی ہیں۔ “
”باقی لوگ ؟“ میں نے پوچھا۔
”ان میں کوئی بھی نہیں ہیں، وہ اکیلی بیٹھی ہیں۔
“ اس نے بتایا تو میں بجائے کمرے میں جانے کے اس کے ساتھ ہی چل دیا۔ راستے میں اس نے مجھے بتایا کہ انوجیت رات دیر سے آئے گا اور وہ دونوں ابھی نکودر سے ہی نہیں نکلے ۔ انہیں بھی دیر ہو جائے گی ۔ میں جب کھانے کی میز پر پہنچا تو کلجیت کور اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔
”آ جا پتر ، کھانا کھائیں۔ ان میں تو آج کوئی بھی نہیں۔“ انہوں نے کہا تو میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہر سکھ اپنے آپ کو سوا لاکھ کہتا ہے ۔ آپ مجھے دو لاکھ سمجھ لو ، آپ دو لاکھ کے ساتھ پرشادے شکھ رہے ہو ۔ “ میرے یوں کہنے پر وہ کھلکھلا کر ہنس دیں۔کھانا مزے کاتھا۔ اس دوران کلجیت کور سے باتیں بھی چلتی رہیں۔ وہ ایک دردمند دل رکھنے والی تحمل مزاج خاتون تھیں۔
 کھانے کے بعد میں دوبارہ کمرے میںآ گیا۔ اس وقت میں نے رونیت کور کی تفصیلات دیکھ لی تھیں ،جب جوتی میری سائیڈ ٹیبل پر چائے رکھ گئی۔
ان تفصیلات میں کچھ نہیں تھا، سوائے ایک ایسی کمپنی کہ جو عام کاروباری ہوتی ہے۔میں چائے پیتے ہوئے سوچتا رہا،میں ان لوگوں کی تلاش میں وقت ضائع کر رہا ہوں یا اس میں سے کچھ نکلے گا۔ بہت دیر سوچتے رہنے کے بعدمجھے کچھ سمجھ میں نہیںآ یا۔میں نے سب سمیٹ کر ایک طرف رکھا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
اگلی صبح میں جلدی بیدار ہو گیا۔ میں فریش ہوکر چھت پر گیا تو جسپال پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔
”ہم رات دیر سے آئے تھے ، تم اس وقت سو گئے تھے۔“ اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کر رہا ،ورنہ کیا کچھ ہو گیا ہے اس کا تمہیں پتہ ہی نہیں۔“میں نے ہنستے ہوئے اسے کہا تو اس نے پوچھا۔
”کیا ہو گیا ، ذرا میں بھی تو سنوں۔“تب میں نے اس اختصار سے سارے واقعات بتا دئیے۔ وہ سنجیدگی سے سنتا رہا۔پھر ذرا دیر سوچتے ہوئے بولا،”تمہارے خیال میں اب یہاں ڈیڈ لاک ہے ، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔
”وہ کیسے ؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
”دیکھو۔ باقی ملکوں کا تو مجھے پتہ نہیں ۔ لیکن ان ممالک میں سیاست دان وہ لوگ ہیں، پانی جن کے پُلوں کے نیچے سے ہو کر گزرتا ہے ۔ مطلب ، ان کے سہارے کے بغیر یا ان کی معلومات میں ہوتا ہے کہ ان کے علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔ تبھی ایسے گینگ پرورش پاتے ہیں۔ وہ ان سے پورا پورا مفاد لیتے ہیں۔“
”مگر ہم تو کسی سیاست دان کا سہارا نہیں لے رہے ؟“ میں نے جواباً کہا۔
”ہم کون سا گینگ بنا کر باقاعدہ کوئی کام کررہے ہیں اور پھر تم میری بات نہیں سمجھے، بڑے سیاست دان اپنا گروہ رکھتے ہیں اور کئی گروہ اتنے طاقت ور ہیں کہ وہ خود اپنے سیاست دان تخلیق کرتے ہیں تاکہ ان کی طاقت کا سکہ جما رہے اور وہ جو چاہئیں سو کریں۔“ اس نے پرزور انداز میں کہا
”میں اب بھی نہیں سمجھا کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ میں نے الجھتے ہوئے کہا۔
”دیکھو یہ جو آٹھ بندے ضائع ہوئے ہیں، یہ کوئی عام کیڑے مکوڑے تو تھے نہیں، اگر کل تم نے نیوز سنی ہوتیں تو تمہیں کسی حد تک پتہ چل گیا ہوتا کہ کون لوگ ردعمل دکھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں کوئی تکلیف ہوئی ہوگی تو وہ ردعمل دکھا رہے ہوں گے ، وہیں سے آگے راستہ نکلتا ہے ۔“ جسپال نے بڑے پتّے کی بات کہی تھی۔
”ان کے ساتھ تنظیمیں بھی احتجاج کر رہی ہوں گی، مطلب نیوز پیپر دیکھے جائیں ، ان میں ان لوگوں کی تصویریں بھی ہوں گی۔
“ میں نے کہا۔
”جمال ۔! میں نے اب تک یہی سمجھا ہے، کوئی بھی طاقت،چاہے وہ چھوٹی ہے یا بڑی، اس کی کہیں نہ کہیں دلچسپی ضرور ہوتی ہے ، یہ سامنے کی بات ہے۔ وہ اس دلچسپی کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ جتنی بڑی طاقت ہوگی وہ اتنی بڑی دلچسپی رکھے گی۔ “اس نے گہری سنجیدگی سے کہا تو میں نے پوچھا۔
”تم اس کی کوئی مثال دے سکتے ہو؟“
”کیوں نہیں، مثال کے طور پر ایک اسلحہ ڈیلر ،یہ چاہے گا کہ اس کا اسلحہ بکے، ظاہر ہے جہاں لڑائی ہوگی وہیں بکے گا،منشیات فروش ان جگہوں پر قبضہ کرے گا جہاں منشیات بنتی ہے یا بکتی ہے ۔
کوئی تیل کی دولت پر قبضہ جمانا چاہتا ہے ، اس کے لیے چاہئے جتنے لوگ مر جائیں ۔ایک سیاست دان کو عہدہ چاہئے ، وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اس طرح ایک طویل فہرست ہے۔ کہیں پر مفاد ایک ہو جاتا ہے اور کہیں پر یہ لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں۔یہی جنگ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔ “ اس نے انتہائی دکھ سے کہا۔
”تمہارے خیال میں انسانی فلاح کے لیے کوئی بھی کچھ نہیں کر رہا ہے ؟“ میں نے پوچھا۔
”ایساہے، تبھی یہ دنیا بچی ہوئی ہے ، رَبّ کا اپنا ایک نظام ہے ، وہ تو چلنا ہے ، انسان چاہے جو مرضی کرتا رہے۔ سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ وسائل پر قبضے کی اس جنگ میں رَبّ کا نام لے کر بھی انسانیت کو گمراہ کیا جاتا ہے۔“ اس نے درد مندی سے کہا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط