”یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو ، یہ شیطانی قوتیں ہیں نا ،“ میں نے کہا تو وہ سوچتا ہوا بولا۔
”اب دیکھو ، پاک بھارت تو رہے ایک طرف ، تھائی لینڈ کا ایک شہر ہے پتایا، جس کا نام تم نے سنا ہوگا ، اس ملک میں بڑا امن تھا، جس طرح بھی انہوں نے ترقی کی، یہ الگ بحث ہے لیکن، جیسے ہی وہاں پر جی ایٹ کا اجلاس ہونے کی تیاریاں ہوئیں، معاملات ہی کچھ دوسرے ہو گئے، جی ایٹ کا اجلاس نہیں ہو ا، لیکن تب سے ملک کے حالات خراب ہونے لگے ۔
مجھے ان کے حالات میں دلچسپی نہیں، فقط یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ایسی کون سی قوت ہے جو وہاں امن نہیں چاہتی؟ اور وہ دلچسپی کیا ہے جس کے لیے امن تباہ کر کے رکھ دیا گیا ہے؟“
”ہاں، یہی خفیہ طاقتیں اپنا ایجنڈا اس دنیا پر نافذ کرنا چاہتی ہیں، اور اس کے ردعمل میں بھی لوگ اپنا کام کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
خیر ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو …“یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔
کیونکہ ایسے میں ہر پریت ایک ٹرے میں چائے کے مگ رکھے وہیں آ گئی۔
”یہ صبح صبح یہاں کیامیٹنگ چل رہی ہے ؟“ اس نے مگ ہمیں تھماتے ہوئے پوچھا۔
”میں جسپال سے پوچھ رہاتھا کہ تم ہر پریت سے شادی کب کر رہے ہو ؟“ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا ۔ اس پر ہر پریت نے کوئی تبصرہ نہیں کیا تو ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی ۔ چائے پینے کے دوران یونہی وہ نکودر جانے اور وہاں کے احوال کے بارے میں بتاتے رہے۔
پھر ہر پریت مگ لے کر نیچے چلی گئی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ جسپال اُس کے بارے میں بات کرے لیکن اس نے نیچے جا کر اخبار دیکھنے کو کہا تو میں اس کے ساتھ نیچے چلا گیا۔
وہ لیپ ٹاپ کھول کر مختلف اخبار پڑھتے ہوئے ردعمل نوٹ کرتا رہا۔ اس دوران میں نہا کر فریش ہو گیا تھا۔ ناشتے کی میز پر جانے سے پہلے اس نے بھارت اور پاکستان میں سے ایک ایک سیاست دان کا نام میرے سامنے رکھ دیا۔
”یہ ہیں وہ لوگ جنہیں سب سے زیادہ تکلیف ہوئی ہے۔میرا یقین کرو، ان میں سے بہت کچھ نکلے گا۔“ اس نے پورے یقین سے کہا۔
بھارت میں اس نے جس سیاست دان کا نام لیا تھا وہ ممبئی ہی کا رہنے والا تھا۔رامیش پانڈے اس کانام تھا اور رُکن پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت میں بھی تھا۔پاکستان میں ملک فرحان سیال تھا،جو ان دنوں اپوزیشن میں تھا اور بہت خاموش تھا۔
وہ بیان نہیں دیتا تھا اور نہ ہی وہ میڈیا کے سامنے اتنا آتا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ لوگ صاف ہوئے اس نے بھرپور قسم کی احتجاجی بیان بازی کی تھی۔بات میری سمجھ میںآ رہی تھے۔ میں ان دونوں کے بارے سوچتا ہوا ناشتے کی میز تک جا پہنچا ۔ اس دن انوجیت کے ساتھ خوب باتیں ہوئیں۔ وہ زیادہ تر مقامی سیاست کے بارے میں ہی بات کرتا رہا۔ اصل میں وہ جس سکھ تنظیم کے ساتھ جڑا ہوا تھا،اس کا اپنا طریقہ کار تھا۔
بہرحال خوشگوار ماحول میں ناشتہ ختم کیا گیا۔
میں ، جسپال ، ہر پریت اور انوجیت وہیں ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر باتوں کے بعد یہ طے ہوا کہ مجھے اوگی پنڈ دکھایا جائے ۔ ہم چاروں ہی نکل پڑے تھے۔ وہ پرانا کنواں دیکھا، جہاں ہیرا سنگھ کی لالو قلندر سے ملاقات ہوئی تھی۔ اب وہاں بس برگد کا درخت تھا ۔ کنواں ختم ہو چکا تھا۔وہاں کافی وقت گذارنے کے بعد ہم گاؤں کی جانب چلے گئے۔
”لمّیاں دی پتی “میں پرانے گھر دیکھے۔ چوپال اور وہ جگہ جہاں کبھی مسجد ہواکرتی تھی۔ وہاں اب مسجد نہیں تھی۔ دل کافی دُکھا ۔ میں اسی کیفیت میں تھا کہ روہی سے فون آ گیا۔
مجھے یاد تھا کہ اس وقت ممبئی میں پریم ناتھ میرے فون کے انتظار میں ہوگا۔ مجھے صورت حال بتا دی گئی ۔ وہ پوری فیلڈنگ کے ساتھ تھا۔فون اس سے ملایا جا چکا تھا۔
”اکاؤنٹ نمبر دیں ۔
“ بلا کسی تمہید کے کہا گیا۔
”اب مجھے تمہاری رقم نہیں چاہئے۔کیونکہ تمہاری نیّت کچھ اور ہے ۔“ میں نے کہا تو وہ ہنس دیا
”لگتا ہے کچا کھلاڑی ہے تُو، ہمت ہے تو چھین لے مجھ سے رقم ، میں تمہیں اب بل سے نکال کر ہی رہوں گا۔“ اس نے انتہائی طنزیہ انداز میں کہا
”میں تیرے باپ کو بل سے نکالنے کے چکر میں ہوں، دیکھتے ہیں کب تک چھپتا ہے ۔
“ میں نے کہا۔
”بہت بھولے ہو تم ، بلکہ بے وقوف ،پہلے مجھ سے تو نپٹ لو ، پھر خواب دیکھنا۔رقم تو مجھ سے لے نہیں سکے ۔“ اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔
”میں صرف یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم دوستی کرنا چاہتے ہو یا دشمنی، اتنالاؤ لشکر لا کر تم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تم لوگ دوستی نہیں کرنا چاہتے ، صرف مجھے سامنے لانا چاہتے ہو۔“ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
”تو پھر آ جاؤ نا سامنے ،کس نے روکا ہے ۔“ وہ پھر طنزیہ انداز میں بولا
”ٹھیک ہے ، انتظار کرو۔“ میں نے کہا، تب فون بند ہو گیا،روہی کا فون چل رہا تھا۔ انہوں نے مجھے وہاں کی صورت حال بتا دی ۔ میں نے اسی لمحے ممبئی جانے کا فیصلہ کر لیا۔
ہم مزید کچھ دیر اُوگی پنڈ گھومتے رہے۔پھر واپس گھر آگئے ۔ وہیںآ کر میں نے جسپال کو بتایا کہ ابھی کچھ دیر بعد اُوگی سے نکل رہا ہوں۔
”یہ اچانک فیصلہ ؟“ اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اختصار سے بتادیا
”مجھے بہرحال جانا ہوگا۔“ میں نے کہا۔
”نہیں میرا نہیں خیال کہ تمہارا یہ فیصلہ درست ہے ،ہم اس میں الجھ کر رہ جائیں گے ۔ ہم نے جو راستہ طے کیاہے، ہمیں اسی پر چلنا ہوگا۔“اس نے سوچ بھرے لہجے میں کہا
”تو پھر یہ ممبئی، …“ میں نے کہناچاہا تو وہ بولا۔
”جب سانپ کی گردن پکڑ لی جائے تو پھر وہ سارے کا سارا ہاتھ میں آجاتا ہے ، تب اُس کا ڈنگ نکالنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ہمیں صرف وہاں تک پہنچنا ہے ، جو یہ سارا نظام چلا رہا ہے اور یہ ہمیں رامیش پانڈے ہی بتائے گا۔“
”تب پھر مجھے ممبئی جانا ہوگا۔ میں نکلتا ہوں۔“ میں نے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”صرف تم نہیں، میں بھی۔ آج ہی دونوں نکلیں گے ۔ میری ہر پریت سے بات ہو چکی ہے ، ڈونٹ وری۔“
”تو چلو، پھر نکلیں۔“ میں نے کہا تواس نے ہاں میں گردن ہلا دی۔
ء…ء…ء