Episode 12 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 12 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

کوئی سکھ امرتسر پہنچے اور وہ ماتھا ٹیکنے دربار صاحب نہ جائے ، یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ اس وقت شام ہو چکی تھی جب ہم امرتسر پہنچے۔ سندو ابھی تک ممبئی میں تھا اور ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ میری اس سے بات ہوئی تو میں نے اسے واپس ممبئی آنے کا کہہ دیا۔ میری دلی خواہش تھی کہ میں رتن دیپ سنگھ سے ملوں، اس سے بھی زیادہ میں بانیتا کور دیکھنا چاہتا تھا۔
میرا امرتسر میں اس کے ساتھ گذرا ہوا وقت بڑا یادگار تھا۔ کئی یاد گار لمحے ابھی تک تشنہ، اپنی اپنی جگہ پرمیرے اور بانیتا کور کے انتظار میں تھے۔ مجھے ان کا فون نمبر یاد نہیں تھا کہ انہیں کال کر لیتا۔ہاں علاقہ ضرور یاد تھا۔ مجھے پورا یقین تھاکہ میں وہاں تک پہنچ سکتا ہوں۔ میں نے راستے میں جب جسپال سے ذکر کیا تو وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

(جاری ہے)


”یار میں بھی اسے دیکھنا چاہتا ہوں، جیسا تم نے اس کے بارے میں بتایا ہے نا ، وہ دیکھنے کی چیز ہوگی ۔
سو رستے ہی میں ہمارا پروگرام بن گیا کہ رتن دیپ سنگھ سے ضرور ملا جائے ۔ لیکن پہلے وہ ہر مندر صاحب جانا چاہتا تھا۔وہیں سے ہم نے ٹیکسی والے کو چھوڑ دیا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ہم ہر مندر صاحب سے نکلے اور ایک ٹیکسی میں اس علاقے میں جا نکلے ۔ ہم نے اس ٹیکسی والے کو بھی فارغ کیا اور پیدل ہی چل پڑے۔ شام ڈھل کر رات میں بدل چکی تھی جب ہم رتن دیپ سنگھ کی حویلی جا پہنچے۔
رتن دیپ سنگھ کو میں بہت اچھی طرح یاد تھا۔ میں جب وہاں پر تھا تو اس وقت میرے ”کیس“ تھے اور میں دلجیت سنگھ تھا۔ اس لیے وہاں کے لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا، لیکن جیسے ہی رتن دیپ سنگھ کو میرے بار ے میں پتہ چلا تو وہ مجھے لینے پورچ تک خود آیا ۔ وہ مجھے یوں ملا جیسے مجھے دوبارہ اُسے ملنے کی امید نہ ہو ۔
”اُوہ یار بڑی خوشی ہوئی ہے تم سے دوبارہ مل کے ۔
“ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ اس کا ملنا مجھے بتا رہا تھا کہ وہ کتنے خلوص سے مل رہا ہے۔ مجھ سے الگ ہوا تو میں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ جسپال سنگھ ہے ، میرا دوست۔“
”اُوہ تمہارا دوست ہے تو ہمارا بھی ہے نا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے جسپال کو بھی گلے لگا لیا۔
کچھ دیر بعد ہم ڈرائینگ روم میں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ اس کی بیوی ہمیںآ کر مل گئی تھی۔
اس کے دونوں بیٹے گھر پر نہیں تھے۔ مجھے بانیتا کور سے ملنے کی بے چینی ہو رہی تھی ۔ ایسے میں ایک ملازمہ نے بتایا کہ ہمارے لیے کھانا لگا دیا گیا ہے ۔
”لو بھئی ، تم لوگ کھاؤ کھانا، پھر کرو آرام ، صبح باتیں ہوں گی ۔“ رتن دیپ سنگھ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”نہیں ، ہم صبح تک نہیں رہیں گے ، ہمیں آج ہی ممبئی کے لیے نکلنا ہے ، یہ تو بس امرتسر آیا تو آپ سے ملے بنا جانے کو دل نہیں کیا۔
“ میں نے مسکراتے ہوئے بتایا تو وہ کھڑے کھڑے بولا۔
”یار جب تمہارا دل نہیں کیا جانے کو تو ہم تمہیں یوں تھوڑی جانے دیں گے ۔یہ تو کوئی بات نہ ہوئی نا ، کوئی دکھ سکھ کی باتیں کرتے ہیں۔ اگر ابھی جانا بہت ضروری ہے تو میں تمہیں روک نہیں سکتا ،لیکن اگر کل تک رُک سکتے ہو تو رُک جاؤ۔کچھ دیر ہی سہی َ“ یہ کہہ کر وہ میری طرف سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا۔
”ٹھیک ہے ہم کل دوپہر سے پہلے نکل جائیں گے ، ویسے بھی ابھی ٹکٹ لینے تھے۔“ میں نے کہا تو وہ خوش ہو گیا۔ پھر چلتے ہوئے بولا۔
”کھانا کھا کر اوپر ، آ جانا میرے پاس ۔“ یہ کہہ کر وہ ڈرائینگ روم سے نکل گیا اور ہم کھانے کی میز کی جانب بڑھے۔ کافی پر تکلف کھانا تھا، سیر ہو کر کھایا۔ ہم اس وقت اوپر جانے کے لیے کھڑے ہی ہوئے تھے، کہ ایک دم سے بانیتا کور میرے سامنے آ ئی اور آتے ہی میرے گلے لگ گئی۔
اس کا چہرہ مجھ سے دوتین انچ کے فاصلے پر تھا ۔ اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خوشی بھرے لہجے میں کہا
”اب بتاؤ، وہ کِس جو ابھی تک ہم دونوں کے درمیان لٹک رہی ہے ، اسے اُتار لوں۔“
”تیری مرضی ہے بنّتو، میں تو اُس وقت بھی تیری دسترس میں تھا۔“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو اس کی گرفت ایک دم سے ڈھیلی ہوگئی، پھر وہ مجھ سے الگ ہوتے ہوئے بولی۔
”مطلب ، تیری مرضی نہیں ہے، چل اس وقت ہی تجھے تم سے چھینوں گی ، جب تمہاری مرضی ہوئی ۔“ یہ کہہ کر اس نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا،”یہ تو اچانک ٹپک کہاں سے پڑا ہے ؟“
”چل اوپر بابا کے پاس وہیں بتاتا ہوں ، اور ہاں یہ میرا دوست جسپال سنگھ۔“ میں نے کہا تو وہ ایک دم سے خوش ہوتے ہوئے بولی۔ 
”وہی جسپال؟“ یہ کہہ کر اس نے جسپال سے زور دار انداز میں ہاتھ ملایا، پھر ہم دونوں کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کی طرف چل دی۔
رتن دیپ سنگھ اکیلا ہی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے اپنے بارے میں اختصار سے بتایا کہ کس طرح مجھے اغوا کر لیا گیا تھا، اور اب میں اسے تلاش کرنے کے چکر میں ہوں۔ساری بات سن کر اس نے کہا۔
”اپنے فون میں ایک نمبر محفوظ کر لے ، زور دار سنگھ نام ہے اُس کا ، اس کے بڑھاپے پر مت جانا، جگر ی یار ہے میرا، ممبئی کے انڈرورلڈ کی پوری جانکاری ہے اس کے پاس ۔
خود متحرک نہیں ہے ، لیکن یہ سب سکھ کمیونٹی یا سکھ دھرم کے لیے کرتا ہے ۔صرف اپنے لوگوں کو تحفظ دینے کے لئے۔ورنہ اس کا انڈر ورلڈ سے کوئی لینا دینا نہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے نمبر بتایا ، جسے میں نے محفوظ کر لیا، تبھی اس نے زور دار سنگھ کو کال ملا کر میرے بارے میں بتا دیا کہ میں کسی بھی وقت دو چار دن میں اس سے ملوں گا۔ اس کے بعد ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔
وہ میرے جانے کے بعد ہونے والی باتیں کرتا رہا۔ اصل دلجیت سنگھ واپس لوٹ آیا تھا۔ اس کے والدین بہت یاد کرتے تھے مجھے ۔ لیکن میرے پاس وقت نہیں تھا کہ ان سے مل سکتا۔ دلجیت سنگھ اب رتن سنگھ ہی کیلئے کام کرتا تھا۔ وہ جسپال کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔ اس کا خیال تھا کہ جالندھر میں بہت کام ہو سکتا ہے ، اگر جسپال ادھر رہے تو۔
”لیکن بابا،مجھے نہیں لگتا کہ یہ پنچھی پنجرے میں رہ کر کام کرنے والے ہیں۔
“ پہلی بار بانیتا کور اس گفتگو میں بولی تھی، جو اب تک بالکل خاموش تھی۔
”ہاں ، لگتا تو ایسے ہی ہے۔“ رتن سنگھ نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور پھر ہماری طرف دیکھا 
”بابا ! اگر آپ کی اجازت ہو تو میں جمال کے ساتھ ممبئی چلی جاؤں،تھوڑی ہوا بدل جائے گی۔“ اس نے یوں کہا جیسے ہم کسی تفریحی ٹور پر جا رہے ہوں۔ اس پر جسپال نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
”دیکھ پتر۔! تو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ یہ وہاں کیا کرنے جا رہے ہیں۔آگے تیری مرضی۔“ رتن دیپ سنگھ نے عام سے انداز میں کہا۔
”یہاں بھی تو وہی کچھ ہے نا بابا، یہ سب میرے لیے کون سا نئی چیزیں ہیں۔“ اس نے ضدی لہجے میں کہا
”بہت فرق ہے ، یہاں اور وہاں میں، سارے بھارت اور بھارت سے باہر جتنا کرائم ہے، سمجھو وہیں سے پھوٹتا ہے ۔
دِلّی میں اتنا کچھ نہیں ہوتا ، جتنا ممبئی سے بنایا ہوا کھیل پورے بھارت میں کھیلا جاتا ہے۔ وہاں بھائی گیری ایک دھندہ ہی نہیں، روایت بھی ہے ۔ ایک الگ سی زندگی ہے وہاں پر ،یہاں سے مختلف ماحول ہے وہاں،“ رتن سنگھ نے کہا۔ 
”تو آپ مجھے ڈرا رہے ہیں؟“ وہ بولی۔ 
”نہیں ، تمہاری بات کا جواب دے رہا ہوں۔“ اس نے عام سے انداز میں کہا
”پھر تو جاؤں گی، وہاں سے کچھ سیکھ کر ہی آؤں گی، باقی واہ گرو کی مرضی۔
“ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا 
”میں جانتا ہوں کہ تو بہادر ہے ، وہاں سب …“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولی۔
”تم اگر ساتھ نہ لے جانا چاہو تو الگ بات ہے ۔“ اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں ، میں تجھے ساتھ نہیں لے جانا چاہتا۔“ میں نے کہا تو اس نے چونک کر میری طرف دیکھا، اس کے چہرے پر غصہ پھیل گیا ۔ وہ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
”اوکے بابا، اب ہم چلتے ہیں۔ ابھی اِن کی ٹکٹیں بھی لانی ہیں۔“ اس نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔ ہم ذرا دیر وہاں رہے اور رتن دیپ سنگھ کی اجازت سے نیچے ڈرائنگ روم میں آگئے ۔ 
وہ پورچ میں گاڑی لیے کھڑی تھی۔ میں اس کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور جسپال پیچھے۔ وہ ہمیں لیتے ہوئی نکل گئی۔ سارے راستے وہ خاموش رہی ۔ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے ناراض ہے ، سو میں بھی خاموش ہی رہا۔
دربار صاحب کے پاس ہی ایک ٹریول ایجنٹ سے دو ٹکٹ لے کر ہم واپس آگئے ۔ صبح دس بجے کے قریب فلائیٹ تھی۔ ہم کار میں آ کر بیٹھ گئے۔ 
 ”ناراض ہو۔“ میں نے اسٹیرنگ پکڑے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں تو۔“ اس نے مختصر انداز میں جواب دیا۔
”چل میں نتجھے آئس کریم کھلاتا ہوں۔“ میں نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”میں بچی نہیں ہوں۔
“ اس نے روکھے لہجے میں جواب دیتے ہوئے میرا ہاتھ ہٹا دیا۔ پھر ہم میں کوئی بات نہیں ہوئی۔یہاں تک کہ حویلی آگئے۔ اس نے ڈرائینگ روم ہی سے ہمیں الوداع کہا اور اندر کی جانب چلی گئی ۔ ملازمین نے ہمیں کمرہ دکھایا ۔
صبح ناشتے کی میز پر رتن دیپ سنگھ، اس کی بیوی اور بیٹے موجود تھے۔خوشگوار ماحول میں ناشتہ کر کے ہم کافی دیر باتیں کرتے رہے۔
پھر ہم اجازت لے کر چل دئیے۔ان کا ایک ملازم ہمیں ائر پورٹ چھوڑنے چل دیا۔ مجھے بانیتا کور کے روٹھ جانے کا بہت افسوس تھا لیکن اس کی ضد بھی تو ٹھیک نہیں تھی۔ جس وقت جہاز اُڑا، اس وقت میں نے اُسے بھی ذہن سے نکال دیا۔ 
دوپہر کے وقت ممبئی ائر پورٹ پر ہم اُترے۔ ہمیں وہاں کسی نے لینے تو آنا نہیں تھا۔ ہم ائر پورٹ سے باہر نکلے اور جوہو جانے کے لیے ٹیکسی لی اور چل پڑے۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم بنگلے سے ذرا دور اتر گئے۔جسپال نے ٹیکسی والے کو فارغ کیا۔ ہمیں بنگلے کا پوری طرح آئیڈیا تھا، بس یونہی احتیاطاً پیدل چل نکلے۔
سندو ، ابھیت، ہرپال اور رونیت کور ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں وہاں بیٹھے کوئی تین یا چار منٹ ہوئے ہوں گے کہ باہر سے پوچھا گیا۔
”جمال صاحب سے ملنے کے لئے بانیتا کور گیٹ پر آئی ہیں ۔
”اوہ۔!“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا 
”یار، لگتا ہے تیرے پیار میں تڑپ رہی تھی ، جو تیرے پیچھے پیچھے آ گئی۔“جسپال زور سے ہنستے ہوئے بولا۔
سبھی میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے اسے اندر آ جانے کے لیے کہا اور اس کے آنے تک مختصر تعارف کروا دیا۔سبھی دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے۔ نیلی جینز پر گلابی شرٹ، کھلے بال، ہونٹوں پر میرون لپ اسٹک، سیاہ گاگلز اور کاندھے پر چھوٹا سا بیگ۔
”تمہارا پیچھے پیچھے آنا بہت اچھا لگا۔“ جسپال نے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ 
”میں آگے آگے آئی ہوں، دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا تم دونوں کا، آخرائر پورٹ سے یہاں بھی تو آنا تھا۔“یہ کہتے ہوئے وہ سب سے ہاتھ ملانے لگی۔ جسپال نے اس کا بیگ پکڑ لیا ۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس وقت مجھے اس پر بہت پیار آرہاتھا۔
                                   ء…ء…ء

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط