Episode 13 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 13 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

دوپہر کے کھانے کے بعد سبھی اوپر والے کمرے میں ایک میز کے گردبیٹھ گئے۔ظاہرہے ہم وہاں تفریح کرنے نہیں آئے تھے۔ میں نے اپنی ساری کارروائی انہیں بتا دی ،لیکن ذرا سی تبدیلی کے ساتھ۔ میں روہی اور اس کی مدد کو گول کر گیا تھا۔ وہ سبھی خوش تھے ۔ انہیں گرباج سے کوئی مدد نہیں ملی تھی۔ گرباج کو یہ معلوم تھا کہ وہ ابھی تک چندی گڑھ ہی میں ہے، اسے یہی بتایا گیا تھا ۔
جس فون سے اس کا رابطہ تھا ، وہ بند تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا تھا۔اس لیے انہوں نے میرے ہی پلان پر عمل کرنے کو کہا۔
”پلان یہ میری جان کہ ہم رامیش پانڈے ہی کو پکڑیں گے اور اسی سے آگے ہمیں معلومات ملیں گی۔ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔“ میں نے پوری سنجیدگی سے کہا۔
”لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ اس سے آگے کے سارے لوگ الرٹ ہو جائیں گے اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

(جاری ہے)

“ سندو نے اپنی رائے دی۔بات اس کی معقول تھی۔
”کیوں نہ اسے پکڑا جائے ، جس سے رقم کی بات ہوئی تھی۔ “ رونیت کور نے کہا۔
”اس سے کیا ہوگا؟“ ابھیت نے پوچھا۔
”وہ گینگ سامنے آئے گا، توہم بھی اُن کے سامنے آ جائیں گے۔ ان کے تحفظ کے لیے کون کون سامنے آتا ہے، اس سے…“ رونیت نے کہنا چاہا مگر سندو بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”یہ بہت لمبی لڑائی ہے ، وہ ہمیں الجھا کر رکھ دیں گے۔
یہاں کے انڈر ورلڈ میں کون کب کس کا دشمن بن جائے ، کچھ بھی پتہ نہیں چلتا، اور نہ ہی ہمیں یہاں کے بارے میں پوری طرح علم ہے، کس جگہ سانپ ہے اور کس جگہ شیر۔“
”تو کیا تم لوگ یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے ، کہیں سے تو شروعات کرنی ہے نا۔“ رونیت نے کہا۔
”لیکن ہمارا مقصد تو اس بندے تک پہنچنا ہے جو یہ سارا کھیل کھیل رہا ہے ۔
“ سندو نے جواباً کہا۔
”انہیں اپنے پیچھے لگانا ہوگا۔“ ایک دم سے بانیتا کور نے گہری سنجیدگی سے کہا، سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے تو وہ اسی لہجے میں بولی۔
”ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک رامیش پانڈے، اسے چھیڑا تو حکومتی ایجنسیاں ہمارے پیچھے لگ جائیں گئی۔ اس لیے معاملہ ذرا مشکل ہو جائے گا۔ اس پریم ناتھ کو پکڑیں اور اپنے ہونے کا ثبوت دیں۔
ایک ہلچل تو مچے گی، وہ ہمیں پکڑنے کے لیے متحرک ہوں گے تو ہی بلی تھیلے سے باہر آئے گی۔ آگے جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔“
”ڈن ہو گیا۔“ سندو نے ایک دم سے کہا، پھر رونیت کورکی طرف دیکھ کر بولا”تم ادھر رہو گی ، اور ہمیں گائیڈکرو گی ۔تم نے سارا کچھ کر لیا ہوگا۔“ 
”ہو گیا، شام تک سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“ اس نے اپنے انداز میں کہا تو ہم سب اٹھ گئے۔
بانیتا کور نے شلوار قمیص پہنی اور پوری طرح تیار ہو کر میرے ساتھ کار میں آبیٹھی۔ اگرچہ میں جانی بھائی کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اسے پریم ناتھ کے بارے میں بتا دیا تھا۔ لیکن میں پہلے زوردار سنگھ سے ملنا چاہتا تھا۔ فون پر بانیتا کور ہی نے اس سے بات کی تھی۔ وہ دادر کے علاقے میں رہتا تھا۔ اس کی بتائی ہوئی ایک خاص جگہ پر جا کر ہم نے رابطہ کیا۔
پھر وہ ہمیں فون پر گائیڈ کرنے لگا۔ تقریباً پندرہ منٹ کے بعد اس تک پہنچ گئے۔
وہ اپنے بڑے سارے گھر کے لان میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اتنا بوڑھا بھی نہیں تھا، جیسا میں نے تصور کر لیا تھا۔ وہ ہمیں اٹھ کر ملا ۔ اسے بانیتا کور کے مل جانے پر بڑی خوشی ہو رہی تھی۔ ہم بیٹھ گئے تو وہ بولا۔
”رتن نے مجھے بتا دیا تھا کہ تم بھی ممبئی آ گئی ہو۔
سچ پوچھو نا تم اُس کا بیٹا ہو۔ باقی تو سب پیسے کے پیچھے بنئیے ہو گئے ہیں۔“ اس نے کافی حد تک دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ اتنے میں اندر سے ملازمین کھانے پینے کو بہت کچھ لے آئے ، جو بہرحال پنجابیوں کی روایت تھی۔ تبھی اس نے مجھ سے پوچھا۔
”ہاں پتر ، تو بتا، کون بندہ چاہئے تمہیں؟“
”پریم ناتھ ہے کوئی۔“ یہ کہہ کر میں اس کی امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی کا نام بتا دیا ۔
اسے سنتے ہی وہ بولا۔
”ارے ہاں، یاد آیا ، آج سے چند برس پہلے وہ ایک چھوٹا موٹاگینگ چلاتا تھا۔ پچھلے دو برس سے اس کی اُڑان بہت اونچی ہوگئی ہے۔ منشیات بیچتے بیچتے وہ اب اسلحے کا کاروبار کر رہا ہے۔ اب مضبوط گینگ ہے اس کا۔“
”وہ ملے گا کہاں ؟ اسے پکڑنا ہے ۔“ بانیتا کور نے کہا۔
”اس کے آفس میں تو ذرا مشکل ہوگا، گھر سے لے کر اس کے آفس کے درمیان اسے اٹھایا جا سکتا ہے۔
ہاں یہ معلومات مل سکتی ہیں کہ کب اس پر ہاتھ ڈالا جائے ۔“ اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔
”لیکن اگر اس کے گھر پر …“ میں نے پوچھا۔
”ممکن ہے ، تم ذرا سکون سے بیٹھو، ڈنر کرتے ہیں، تب تک پتہ چل جائے گا سب ۔“ یہ کہہ کر ا س نے فون نکالا اور کال ملا کر کسی سے باتیں کرنے لگا۔ چند منٹ بعد اس نے فون واپس جیب میں رکھ لیا۔ اس کے بعد رتن دیپ سنگھ کی باتیں ہی ہونے لگیں۔
اس دوران رامیش پانڈے کا بھی ذکر میں نے کر دیا۔ تب اس نے کہا۔
”اس پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس لیے سو بار سوچنا ہوگا کہ بھارت کی ساری ایجنسیاں تم لوگوں کے پیچھے لگ جائیں گی۔ اس سے کام ذرا مشکل ہو جاتا ہے، بہرحال دیکھتے ہیں، کیا ہو تا ہے۔“ اس نے عام سے لہجے میں یوں کہا جیسے یہ کام مشکل تو ہے ناممکن نہیں۔ مجھے اس کا انداز بہت اچھا لگ رہا تھا۔
وہ سامنے بیٹھے بندے کو ڈرا نہیں رہا تھا ، اس کی باتوں سے مزید حوصلہ ملتا تھا۔
دس بجے کے قریب جب ہم زور دار سنگھ کے پاس سے اٹھے تو پورا پلان لے کر ہی اٹھے۔ ایک خاص جگہ پر جانی بھائی کے لوگ اسلحہ سمیت پہنچ گئے تھے۔ ہمیں راستوں کا بالکل پتہ نہیں تھا۔اس لیے زور دار سنگھ نے ایک ماہر ڈرائیور ہمارے ساتھ کر دیا۔
دادر کا وہ علاقہ کافی گنجان آباد تھا۔
پریم ناتھ کا گھر ایسی جگہ تھا، جہاں ابھی تک پرانے طرز کی عمارتیں موجود تھیں۔کسی زمانے میں وہ کھلا علاقہ ہو گا۔لیکن ان دنوں ایسے ہی دکھائی دے رہا تھا، جیسے وہ پرانا علاقہ ہو ۔جانی بھائی کے لوگ چار گاڑیوں پر تھے۔انہیں لیڈ کرنے والا نوجوان میں نے اس دن چھت پر دیکھا تھا ، جب میں جانی بھائی سے ملنے گیاتھا۔ وہ مجھے دیکھ کر میرے پاس آ گیا۔
ہم ایک طرف جا کر کھڑے ہو گئے۔
”یہ جانی بھائی کا علاقہ تو نہیں ہے لیکن اپنا لوگ کام کر لے گا۔ آپ لوگ ادھر انتجار کر و، ہم …“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”او نہیں ، میں تم لوگوں کے ساتھ جاؤں گا۔ خیر۔! یہ تو پکا ہے نا کہ اس کا سیکورٹی ہوگا۔ تمہارا کام صرف سیکورٹی کو سنبھالنا ہے ، باقی میں دیکھ لوں گا۔“ یہ سب طے کر کے ہم اپنی اپنی گاڑیوں کی جانب چل دئیے۔
وہ پرانی طرز کا ایک بنگلہ تھا۔ شاید وہ پرانے زمانے کے کسی امیر آدمی نے بنوایا ہوگا۔ اب اس کے پاس تھا۔ اس کی دیواریں اونچی نہیں تھیں۔ لیکن گیٹ پر کچھ سیکورٹی والے تھے۔ وہ نوجوان گیٹ پر گیا اور اس نے وہاں کوئی بات کی۔ اس وقت تک چاردیواری پر لگی تاروں کو چیک کر لیا گیاتھا۔ سیکورٹی والے نے فون پر اندر بات کی ، پھر اجازت ملنے پر انہوں نے ہم تینوں کو چیک کیا اور اندر جانے کی اجازت دے دی۔
بانیتا کورڈرائیور کے ساتھ گاڑی ہی میں باہر گیٹ پر تھی۔
 ہم پورچ کے قریب پہنچے تو سامنے سے چند لوگ باہر آگئے ۔ ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا۔ انہی کے درمیان ایک سوٹ پہنے ہوئے ادھیڑ عمر آدمی نے آ کر ہتک آمیز لہجے میں پوچھا۔
”کیوں ملنا ہے پریم ناتھ جی سے ، اپانٹمنٹ لی ہے یا ایسے ہی منہ اٹھا کر چلے آئے ہو ؟“
”انہوں نے ایک دفعہ کہا تھاکہ میں جب چاہے ان سے مل لوں،ہم نے ان سے نوکری …“نوجوان نے لجالت سے کہا۔
”اچھا یہیں رُک ، میں پوچھتا ہوں۔“ اس نے اسی طرح ہتک آمیز لہجے میں کہا اور واپس مڑ گیا۔
نوجوان نے بہت پتّے کی بات کی تھی ۔ ایسے کرائم گینگ والوں کو ہر دم نئے لڑکوں کی ضرورت رہتی ہے ۔لڑکے بھی مختلف انداز میں ان گینگ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جن کا انڈر ورلڈ میں نام بول رہا ہوتا ہے۔ یہی نئی بھرتی ان کی طاقت ہوتی ہے۔
گینگ والے جیسا چاہیں انہیں استعمال کرتے ہیں۔ توقع کے مطابق ذرا سی دیر میں وہ ادھیڑ عمر باہر آ گیا۔ اس نے آتے ہی اسی ہتک آ میز لہجے میں کہا۔
”اِدھر کھڑے ہو جاؤ، ابھی صاحب نے کہیں جانا ہے ، تمہاری بات ہو جائے گی۔“
ہم اس وقت پورچ کے پاس تھے۔ سامنے دروازہ تھا، جس سے پریم ناتھ نے آنا تھا۔ چار قدم اور تین سیڑھیاں ہماری راہ میں تھیں۔
میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں اس نوجوان کی طرف دیکھا اوراس طرح ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے کہ وہ دروازہ ہمارے بالکل سامنے تھا۔ اس وقت تک میں بھانپ چکا تھا کہ میں نے کیا کرنا ہے اور وہ اس نوجوان کے ساتھ کیا کریں گے۔ گیٹ کے پاس بانیتا انتظار میں تھی۔ وہ چند منٹ بہت جان لیوا تھے۔ اتنے میں ایک سیاہ چمچماتی ہوئی کار پورچ کی طرف آئی ، اسی لمحے اندر کا دروازہ کھلا اور ایک کالے رنگ کا پتلا سا شخص باہر آنے کے لیے دروازے ہی میں تھا۔
اس کا سر گنجا تھا، سفید کوٹ پینٹ اور سنہری کمانی دار عینک لگائے ہوئے تھا۔ اس نے ہماری طرف دیکھا اسے دیکھتے ہی گن مین الرٹ ہوگئے ۔میں نے اپنے ہی پیروں پر چھلانگ لگائی ، ایک گن والا میری نگاہ میں تھا ، اس کی گن چھینتا ہوا پریم ناتھ پر جا پڑا۔ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اتنا بڑا حوصلہ کرے گا۔ میں نے بائیں بازو سے اس کی گردن دبوچ لی اور اسے دھکیل کر پیچھے کمرے میں لے گیا۔سیکورٹی والوں کی ساری توجہ میری طرف تھی۔اسی لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان ایک دم سے پیچھے ہٹا۔اس نے ایک گن مین کی گن چھین کر ان پر تان لی۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط