Episode 15 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 15 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

”یار یہ معاملہ مجھ پر چھوڑو، تم ادھر ممبئی میں رہو۔ہم دیکھتے ہیں اُسے۔“ اس نے یوں کہا جیسے وہ کچھ کرنا چاہتا ہو ۔ ممکن ہے یہاں پر وہ اپنے آپ کو ایک فالتو شے تصور کر رہا ہو۔ وہ یہاں رہ کر سوائے خالی دعوؤں کے اور کچھ نہیں کر سکا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کے اندر کا مرد یہ برداشت نہ کر رہا ہو وہ ناکارہ ہو چکا ہے ۔ وہ خود کو ثابت کرنا چاہتا ہو کہ اب بھی وہ سندو ہی ہے۔
میں نے چند لمحے سوچا اور مسکراتے ہوئے کہا
”ٹھیک ہے اپنی ٹیم بنا لو اور نکل جاؤ۔“ 
 وہ ایک دم جوش سے بھر گیا۔
”تم اور بانیتا ادھر رہو ، باقی ہم سب جاتے ہیں ۔ ‘ ‘ اس نے کہا تو مجھے یاد آیا ، تبھی میں نے پوچھا۔
”وہ گرباج نے کچھ بتایا یا ابھی تک بے ہوش ہی پڑاہے؟“
”نہیں وہ ہے تو ہوش میں، لیکن کچھ بتا نہیں پا رہا مجھے لگتا ہے ، اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

(جاری ہے)

“ ابھیت نے بتاتے ہوئے اپنی رائے دی۔ 
”چل اسے تو دیکھتے ہیں، اگر ناکارہ ہے تو پھینک دیتے ہیں اسے۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے سندو کی طرف دیکھا اور بولا۔ ،”تب تک سندو تم اپنے دوست کو تلاش کر لو جو مدد کر سکتا ہے یا پھر کوئی دوسرا تلاش کرناہوگا؟“
”اوکے ۔“ سندو نے کہا تو میں، ابھیت اور جسپال کے ساتھ نیچے تہ خانے کی طرف چل دیئے۔
 
گرباج فرش پر دہرا ہوا پڑا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ گیا۔ اس کے اٹھنے کی کیفیت کو دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ اس پر بہت تشدد ہو چکا ہے۔ میں اس کے پاس جا کر فرش پر بیٹھا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ چند منٹ میری طرف دیکھتا رہا ، پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
”تم لوگ مجھے مار کیوں نہیں دیتے ہو؟“
”اس لیے کہ تمہیں مار کر ہمیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں، بلکہ جو تمہیں معلوم ہے وہ بتا دو۔
“ میں نے اس کے چہرے پر لگے زخم پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔
”مجھے نہیں معلوم کہ تم لوگ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو ، جو مجھے پتہ تھا وہ میں نے سب بتا دیا۔ “ اس نے رو دینے والے انداز میں کہا 
”لیکن ہمارے مطلب کی تم نے ایک بھی بات نہیں بتائی۔“ میں نے تحمل سے کہا۔
”میں کیسے اور کیا بتاؤں کہ تمہیں میری بات پر یقین آ جائے، میں شروع سے بتا سکتا ہوں کہ میں کیسے اس گیم میں آیا، اس میں سے تم جو چاہو پوچھ لو۔
“ وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولا۔
”یہ پھر ایک نئی کہانی سنائے گا۔“ جسپال نے کہا۔
”نہیں میں پوری بات بتاؤں گا ، جو بالکل سچ ہوگی۔“ اس نے تیزی سے کہا۔ 
”چل ٹھیک ہے سنا۔“ میں نے کہا اور فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ وہ کہنے لگا
”میں کینیڈا میں رئیل اسٹیٹ کا چھو ٹاموٹا کا م کرتا تھا، لیکن میری ہر دم یہی کوشش ہوتی تھی کہ راتوں رات امیر بن جاؤں۔
اس لیے میں ہر طرح کا دھندہ بھی کر لیتا تھا۔ ایسے ہی ایک دن میرے دوست نے مجھے ایک ادھیڑ عمر شخص سے ملوایا کہ اسے بھارت میں کسی کام کے لیے کچھ بندے چاہئیں۔ میں اسے ٹو رنٹو ہی میں ملا تھا۔“
”کام کیا تھا؟“ میں نے پوچھا۔
”وہی بتا رہا ہوں نا ،“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے رکا پھر کہتا چلا گیا،”اس نے سندیپ اگروال یعنی سندو کو اغوا کرانے میں مدد دینے اور اس کی گرل فرینڈ نیہا اگروال کو اپنی محبت کے جال میں پھنسانے کا کام دیا۔
دونوں کام زبر دست تھے۔ یہ کام مجھے میری شکل صورت دیکھ کر نہیں بلکہ انڈین اور پنجابی ہونے کی وجہ سے ملا۔ اس میں ڈالروں کی بہتات کے علاوہ ایک فلم ایکٹرس کے ساتھ وقت گذارنے کا چانس بھی تھا۔ میں نے فوراً ہاں کر دی۔ ہمارے ساتھ سات آٹھ مزید لوگ تھے۔ انہیں ایسے ہی مختلف لوگوں کے اغوا میں مدد دینا تھی۔ اغوا کرنے والے کون لوگ تھے، یہ ہمیں نہیں بتایا گیا۔
میں چند دن کے بعد ہی بھارت آ گیا۔“
”یہاں آکر تو نے جو کچھ کیا، سندو کو اغوا کرا دیا۔ “ جسپال نے تیزی سے کہا۔
”میں نے پوری محنت کی تھی اور ان کا جو کام تھا وہ پورا کر دیا۔ میں نے بڑا محتاط پلان بنایا تھا۔صرف میں نے لالچ یہ کیا کہ سندو کی دولت سمیٹنا چاہی۔ وہ بھی میں نے سمیٹ لی تھی ۔ اب صرف نیہا کو قتل کر دینا تھا کہ ساری کہانی وہیں دب جائے اور جسپال نے مجھے پکڑلیا۔
“ 
”تم نے آزاد سے بات کی تھی، کیا یہ وہی شخص تھا ،جس نے تم سے کینیڈا میں ڈیل کی تھی؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں ، وہ کوئی دوسرا شخص تھا۔ لیکن بھارت میں آ کر اسی سے رابطے میں تھے۔اس دوران ہی مجھے معلوم ہوا کہ وہ سب لوگوں کو ایک جزیرے پر اکٹھا کر رہا ہے ۔ اب اس کانمبر بند ہے۔“ اس نے روہانسا ہو کر کہا۔
”اچھا چلو ٹھیک ہے، اب اگر ہم تمہیں چھوڑ دیں تو پھر تم کیا کرو گے ؟ ظاہر ہے ہمارے کام تو نہیں آؤ گے۔
“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
”میں ہمیشہ کے لیے اس زندگی سے توبہ کر لوں گا اور واپس کینیڈا چلا جاؤں گا۔ میں نے بہت سزا پا لی۔ “ اس نے منّت بھرے لہجے میں کہا۔
”اوکے ، دیکھتے ہیں ،تمہارے ساتھ کیا کرتے ہیں۔“ میں نے کہا اور اس کے پاس سے اٹھ گیا۔ اوپر ڈرائینگ روم میں آ کر میں نے جسپال سے پوچھا۔
”کیا خیال ہے تمہارا؟“
”مجھے نہیں لگتا کہ وہ اب بھی صحیح بات کر رہا ہے ۔
”اور ابھیت تم کیا کہتے ہو ؟“
”نہیں ، جو اس نے کہنا تھا کہہ دیا ، پتہ نہیں کتنی بار پوچھا ، وہ یہی جواب دے رہا ہے۔ اس پر مزید محنت فضول ہے۔“ اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ 
”ٹھیک ہے اب اسے میں دیکھتا ہوں۔“ میں نے کہا۔ تو سندو نے پوچھا۔
”تمہارے خیال میں کوئی معاملہ ہے ۔“
”پتہ نہیں ، ویسے تو یہ بیکار ہی ہے ، ایک کوشش کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
“ میں نے سوچتے ہوئے کہا تو وہ بولا۔
”ٹھیک ہے دیکھ اسے، ہم تیار ہوتے ہیں۔“ اس نے کہا اور اٹھ گیا۔ میں نے صوفے پر بیٹھی بانیتا کور کی طرف دیکھا۔ وہ یوں بیٹھی تھی جیسے نیند میں ہو ۔ میں نے اس کے پاس جا کر کہا۔ 
”کمرے میں جا کر سو جاؤ ، یہاں کیوں بیٹھی ہو ۔“
”تیرے انتظار میں ، تُو مجھے یہاں سے اٹھا کر کمرے میں لے جا ؤ اور مجھے سلا دو۔
“ اس نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے خمار آلود لہجے میں کہا۔
”چل ۔“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے ایک دم سے کہا اور اسے اپنے بازؤں پر اٹھالیا۔ میرے یوں کرنے پر سبھی نے اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرنے لگے ۔ میں اسے لے کر کمرے میں چلا گیا۔ اسے بیڈ پر لٹایا اور اس کے پہلو میں لیٹ گیا۔ مجھے اس کا وہ اندا ز یاد آ رہا تھا جب وہ مسلح لوگوں کے درمیان پسٹل تان کر کھڑی تھی ۔
مجھے اس پر بہت پیار آیا۔
”بنتو!“ میں نے ہولے سے کہا۔
”ہوں۔“ اس نے نیند بھرے لہجے میں ہنکارا بھرا
”تم اتنی دلیری سے پسٹل تان کر کھڑی ہوگئی، تمہیں ذرا بھی ڈر نہیں لگا کہ سامنے اتنے لوگ اسلحہ تانے کھڑے ہیں۔“ میں نے سرگوشی کے سے انداز میں پوچھا۔
”نہیں لگا۔“ وہ آنکھیں بند کیے بولی۔
”کیوں؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”اس لیے کہ تم اندر تھے، اور باتیں بند کرو اور خاموشی سے میرے ساتھ لیٹے رہو، مزے کی نیند آ رہی ہے۔“ اس نے کہا میں اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ جلد ہی سو گئی لیکن مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں کچھ دیر تک موجودہ حالات پر سوچتا رہا ۔ ایک خیال آتے ہی میں نے جانی بھائی کا نمبر ملا دیا۔
”بول بڑو ۔“ ا س نے چہکتے ہوئے کہا۔
”جانی بھائی کبھی تم نے چیل کو دیکھا ہے ، جسے ہم گدھ کہتے ہیں ؟“ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’ ’ ہاں دیکھا ہے ، بڑا صبر ہوتا ہے اس میں ، جب تک اس کا شکار مر نہیں جاتا ، وہ اس پر نظر رکھتا ہے ، چاہے ، جتنے دن گزر جائیں۔“ اس نے بھی میری بات کو سنجیدگی سے لیا تو میں نے کہا۔
”مجھے دو تین لڑکے ایسے ہی چائیں، بہت صبر والے مگر فل ڈرامہ باز۔“
”ہے نا ، کب چاہئیں۔“ اس نے پوچھا۔
”ابھی بھیج سکتے ہو تو ابھی ، ورنہ کل رات کو ۔“ میں نے کہا تو وہ بولا۔
”میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط