سندو نے اپنی گاڑیوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت رات کا اندھیرا تھا جب وہ لوگ گوا نکلنے کے لیے تیار تھے۔ وہ نکل گئے تو جانی بھائی کی طرف سے دو لڑکے آگئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ چونکہ ہرپال نے وہیں اس بنگلے میں رہنا تھا، اس لیے میں نے اسے ساتھ لیا اور ایک کمرے میں چلا گیا۔ ان تینوں کو گرباج کے بارے اچھی طرح بریف کرنے کے بعد ، انہیں ایک پلان دیا کہ انہوں نے کرنا کیا ہے ۔
وہ سمجھ گئے تو میں وہاں سے نکلا۔ سب تیار تھے۔اس لیے انہوں نے اسی وقت اپنا کام شروع کر دیا۔
ان تینوں نے گرباج کو بے ہوش کیا۔ اسے تہہ خانے سے لا کر کار میں ڈالا اور نکل گئے۔ چرچ روڈ کے پاس ایشور لعل پارک اس وقت سنسان تھا۔ انہوں نے پوری احتیاط سے ادھر ادھر کا جائزہ لے کر تسلی کر کے پارک میں ایک جگہ کا انتخاب کیا ۔
(جاری ہے)
پھر اسے نکال کر ایک بینچ پر ڈال دیا۔
ہر پال انہیں وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ دونوں اس کے قریب بینچ کے پاس یوں لیٹ گئے جیسے رات سے یہیں پڑے ہوئے ہوں۔ شراب کی ایک خالی بوتل قریب ہی رکھ لی۔ بظاہر وہ سوئے ہوئے تھے۔ لیکن ان کی حالت سے لگ رہا تھا کہ انہوں بڑی پی ہوئی ہے۔ اب تک شراب کے خمار میں ہیں۔ممبئی کے پارکوں ، فٹ پاتھوں،اور ایسی جگہوں پر جہاں رات گذاری جا سکے، کئی موالی ، بے روزگار، غریب غربا، رات گذارنے کو پڑے رہتے ہیں۔
انہوں نے بھی کچھ ایسا ہی کرنا تھا۔
کوئی آدھے گھنٹے بعد گرباج کو ہوش آگیا ، وہ اٹھنے کی کوشش میں تھا لیکن نہیں اٹھ سکا۔ اس کے منہ سے زور دار کراہ نکل گئی۔ یہی وہ موقعہ تھا جب وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کا ڈرامہ شروع ہوگیا۔
”اے چھوٹے ، کیا ہے رے ، ایسا آواز کیو ں نکالتا ہے ، کچھ دُکھتا ہے ؟“ اس کی آواز میں یوں خمار تھا جیسے نشے میں ہو ، تبھی دوسرے نے بھی اسی نشیلی آواز میں جواب دیا
”ارے نہیں بڑے ، میں کب بولا؟“
”تو پھر کون بولا؟“ وہ لیٹے لیٹے حیرت سے بولا۔
اس پر گرباج نے ان دونوں کی طرف دیکھا اور اونچی آواز میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کراہ کر کہا۔
”یار میں ہوں۔“
”ہائیں تو کون ؟“ بڑے نے کہا اوراٹھ بیٹھا، چھوٹا بھی اٹھ گیا اور اکتائے ہوئے لہجے میں بولا
”یار یہ کیا مصیبت ہے ، سونے بھی نہیں دیتے یہ لوگ، یہ کدھر سے ٹپکا رے ۔“
بڑے نے آنکھیں ملتے ہوئے گرباج کو دیکھا ، پھر الجھتے ہوئے نشیلی آواز میں اس سے پوچھا۔
”یار جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تو ادھر نہیں تھا، ہم نے ادھر بیٹھ کر بوتل خالی کیا۔ کیا تواس وقت تھا ادھر؟“
”نہیں ، تم میری مدد کرو، مجھے اٹھا دو۔“ گرباج نے منّت بھرے لہجے میں کہا تو چھوٹا بولا۔
”ابے پڑا رہ، اٹھ کے کیا کرے گا ، سو جا۔“
”نہیں ، میں مصیبت میں ہوں ، میری مدد کرو یار ۔“ اس نے پھر اسی لہجے میں کہا۔
”پر ہمیں کیا فائدہ، اپنا تو نشہ ہرن کر دیا نا۔“ چھوٹے نے اکتاہٹ سے کہا تو وہ انہیں لالچ دیتے ہوئے بولا۔
”دیکھو ۔ میری مدد کرو گے نا تو مالا مال کر دوں گا۔“
”دیکھ بڑے کیا ہے اس کے پاس ، وہ تو لے ۔“ چھوٹے نے یوں کہا جیسے وہ لوٹنے کے چکر میں ہو ۔
”دیکھ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے ، مجھے اغوا کیا گیا تھا ، مجھے کسی ٹھکانے لگا دو تومیں تم دونوں کو بہت دوں گا ۔
“ اس نے کہا۔
”کیا لفڑا ہے تیرے ساتھ؟“ بڑے نے پوچھا۔
”یار میں سب بتا دوں گا۔ مجھے کسی محفوظ جگہ لے چلو، میرا یقین کرو، ایک فون کال کروں گا، تو جتنے چاہے گا اتنے پیسے دوں گا۔“ گرباج نے پھر منّت کی تو بڑے نے چند لمحے سوچنے کی ایکٹنگ کی پھر اسے پکڑکر بٹھا دیا۔ اس نے تھوڑی دیر چاروں طرف دیکھتے رہنے کے بعد پوچھا”فون ہے تیرے پاس ؟“
”نہیں تو، اپن کہا ں رکھتا ہے ۔
“
”کوئی محفوظ جگہ ہے ۔“ اس نے پوچھا۔
”ایک کھولی ہے۔“ بڑے نے کہا تو گرباج چونک گیا، تبھی اس نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ کونسی جگہ ہے ؟ میں کہاں ہوں؟“
”تو ممبئی میں جوہو کے ایشور لعل پارک میں ہے، کیسی بات کرتا رے تُو۔“ جیسے ہی بڑے نے کہا تو وہ چونک گیا، اس میں جیسے جان آ گئی ۔
”سچ کہتے ہو میں ممبئی میں ہوں۔
“ اس نے تصدیق کی تو بڑے نے دوبارہ دہرا دیا۔
”تُو مجھے اس کھولی ہی میں لے چل۔ دوپہر سے پہلے چلا جاؤں گا، مالا مال کر دوں گا۔ تُو چل لے چل مجھے ، کتنی دور ہے ؟“ اس نے یوں تیزی سے پوچھا جیسے بے صبرا ہو رہا ہو ۔
”تھوڑا دور ہے۔ ٹیکسی رکشہ تو لینا پڑے گا۔“ بڑے نے کہا تو گرباج نے اپنی جیبیں ٹٹولیں ۔ اسے جیب سے چند نوٹ مل گئے۔ اس نے وہ بڑے کو دے دئیے۔
دونوں نے مل کر گرباج کو اٹھایا اور اسے لے کر پارک کے باہر چل دئیے۔ اس میں جوش بھر گیا تھا۔
دن کی روشنی پھیل رہی تھی،جب وہ اسے گھوکھلے روڈ پر واقع ایک چال میں لے آئے جو سریش کالونی کی بیک سائیڈ پر ایک بڑی عمارت تھی۔ کم آمدنی والوں کے لیے ممبئی میں ایسی کئی عمارتیں ہیں ، جن کے کمرے ڈربہ نما اور اور ان میں انسان پرندوں کی مانند رہتے ہیں۔
دوسری منزل پر ایک کمرہ نما کھولی تھی۔ اس میں انہوں نے گرباج کو لا ڈالا۔ چھوٹا اس کے پاس لیٹ گیا اور بڑا باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک فو ن تھا۔
”دیکھ میں فون ادھر بھائی سے مانگ لے کر آیا، تو کال کر لے ، چائے لائے گا نالڑکا تو فون واپس کرنے کا ہے، اسے پیسہ بھی دینا ہے کال کا۔ “ بڑے نے اسے فون تھماتے ہوئے کہا۔
گرباج نے فون پکڑ کر تیزی سے نمبر ڈائل کئے۔ تھوڑی دیر تک بات کرتا رہا تو اس کا چہرہ تمتمانے لگا۔ فون واپس لوٹانے سے پہلے، اس نے ڈائل کیا ہوا نمبر صاف کرکے فون بڑے کو دے دیا۔
”یہ فون واپس کر دے اور چائے لے آ، پھر نکلتے ہیں۔“ اس کا لہجہ ہی بدلا ہوا تھا۔جسے چھوٹے اور بڑے نے بہت محسوس کیا۔بڑے نے فون واپس لیا تو چھوٹے نے پوچھا۔
”ابے کہاں نکلنا ہے ،تیرے کو لینے کوئی نہیں آئے گا کیا، تو بھی اپنے جیسا پنٹر ہے ؟“
”اُو نہیں یار ، تم تو شک ہی کرتے چلے جا رہے ہو، ہم یہاں سے ایک جگہ جائیں گے ، وہاں میں تم کو پیسہ دوں اور بات ختم۔“ گرباج نے کہا۔
”وہاں جا کر ٹیکسی کا کرایہ بھی ہم کو دینا پڑے، ادھر جا کر بولے گا کہ ہم بھاگ جائیں ،کوئی پیسہ نہیں۔“ چھوٹے نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”نہیں یار ایسا نہیں ہوگا، میرا یقین کرو ۔ “ یہ کہہ کر اس نے بڑے سے کہا،”جا یار اگر چائے ملتی ہے تو ٹھیک، ورنہ وہیں چل کر پیتے ہیں۔“
”چائے تو آئے گی، ادھر چل کے دوبارہ پی لیں گے ۔“ بڑے نے کہا اور باہر نکل گیا۔ بڑے کے واپس آنے سے پہلے ہی لڑکا چائے دے گیا۔ انہوں نے چائے پی اور وہ دوونوں اسے پکڑ کر کھولی سے نکلے اور اسے نیچے لے آئے ۔
اسی طرح وہ سڑک تک آئے ، وہیں سے انہیں ٹیکسی ملی ۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر اس نے ڈرائیور سے کہا۔
”آزاد نگر چلو ۔“
”آزاد نگر ، کہاں پر ؟“ ڈرائیور نے پوچھا۔
”ویرا ڈیسائی روڈ کے ساتھ ہی اندر بلڈنگ میں جانا ہے ۔“ گرباج نے کہا تو ٹیکسی چل دی۔
تقریباً آدھے گھنٹے میں وہ آزاد نگر پہنچ گئے۔ ان دونوں نے اندازہ لگا لیا کہ گرباج نے وہ جگہ نہیں دیکھی ہوئی ۔
کچھ دیر کے بعد وہ ایک بلڈنگ سامنے آ رکے ۔ باہر ہی ایک آدمی کھڑا تھا۔ وہ صورت حال بھانپ کر آگے بڑھا۔ اس نے گرباج کو غور سے دیکھا اور اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا۔
”گرباج سنگھ ؟“
اس پر اس نے اثبات میں سر ہلایا تو اس شخص نے اپنا والٹ نکال کرٹیکسی والے کو فارغ کیا۔ اس دوران وہ دونوں گرباج کو سہارا دئیے کھڑے رہے۔ وہ پلٹا تو انہیں آنے کاا شارہ کرکے آگے بڑھا۔
چاروں لفٹ سے چوتھی منزل تک گئے۔ پھر ایک اپارٹمنٹ میں انہیں لے جایا گیا۔ وہ کافی سجا ہوا تھا۔ ایک لڑکی ان کی منتظر تھی۔ گرباج کو صوفے پر لٹادیا کر دونوں نے کھڑے کھڑے ہی اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”لے بڑو ، ہم نے تجھے ٹھکانے پر چھوڑ دیا، اب ہم جاتے ہیں۔“ چھوٹے نے کہا تو وہ اجنبی شخص بولا۔
”یار تم اتنے اچھے ہو ، ہمارے دوست کو ہم تک پہنچا دیا، ابھی بیٹھو ، چائے وائے پیئو ، پھر چلے جانا۔
“ یہ کہتے ہوئے اس اجنبی شخص نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کر سامنے دھرے صوفے پر بیٹھا دیا
”میں نے ان دونوں کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ انہیں ڈھیر سارے پیسے دوں گا …“ گرباج نے کہنا چاہا تو وہ شخص بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”یار یہ ہمارے محسن ہیں، ابھی چلے جائیں گے ، خوش کر دیں گے انہیں، تم بتاؤ، یہاں کیسے ؟“
”مجھے نہیں معلوم، میں تو چندی گڑھ میں تھا، وہ لوگ کب مجھے یہاں ممبئی میں لے آئے ،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا، یہ تو ان لوگوں نے مجھے بتایا کہ میں ممبئی میں ہوں۔
“ یہ کہہ کر اس نے پارک سے اب تک کی روداد سنا دی ۔ وہ شخص غور سے سنتا رہا۔ اس دوران چائے آ گئی۔ ایسے میں ایک ڈاکٹر اور نرس بھی وہیں آ گئے ۔ انہوں نے کافی دیر تک پوری تسلی کرنے کے بعد کہا۔
”کافی تشدد ہوا ہے ۔ یہ غنیمت ہے کہ کوئی ہڈی فریکچر نہیں ہے ۔میں انہیں فوری طور پر سفر کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ بہت ضروری ہے تو ایک دو دن بعد تک ، اتنے میں یہ کافی سنبھل جائیں گے۔
“
نرس بیگ سے دوائیاں نکال کر رکھ چکی تو ڈاکٹر واپس جانے کے لیے پلٹاتو نرس بھی چلی گئی ۔ اس سے انہیں یوں لگا کہ جیسے گرباج کی آ مد کے ساتھ ہی ڈاکٹر کو بلا لیا گیا تھا۔وہ جاچکے تو اس شخص نے چند بڑے نوٹ نکال کر انہیں دے دئیے ۔ تبھی اس شخص نے کہا۔
”دیکھو، تمہیں ایک دو دن لگ جائیں گے یہاں۔ ابھی تم شاید ہی کینیڈا کا سفر کر سکو۔
میری تو مصروفیت رہتی ہے ، اگر تمہارے یہ دوست تمہاری دیکھ بھال کر سکیں تو اس کے الگ پیسے دے دیں گے۔“
”نہیں ، ہم نے جانا ہے ، ادھر رہنے کا نہیں، ہم تمہارے لفڑے میں نہیں آتے۔“ چھوٹے نے تیزی سے کہا اور اٹھ گیا۔ اس کے ساتھ بڑا بھی اٹھ گیا۔
”ابھی میں مزید پیسے دیتا ہوں ، تم جاکر نئے کپڑے خریدلو، یا میرے یہاں سے لے لو، شام تک تو رہو، کھانا وانا کھاؤ، پھر چلے جانا۔
“
”نہیں تم کوئی لمبے لفڑے والا لگتا ہے ، ہم تیرے لفڑے میں نہیںآ تے، اپن کو جانے کا ہے۔“ بڑے نے کچھ اس انداز سے کہا جیسے وہ بہت ڈر گیا ہو۔وہ دونوں وہاں رہنے کو نہیں مانے۔ گرباج اور اس شخص کو جب یہ یقین ہو گیا کہ یہ عام سے ٹپوری قسم کے شرابی ہیں۔اس لیے انہوں نے ان دونوں کو جانے کی اجازت دے دی۔
وہ دونوں واپس کھولی میں چلے گئے اور یہ ساری روداد انہوں نے مجھے دوپہر کے بعدفون پر وہیں سے دی۔ میں نے انہیں کھولی ہی میں رکنے کا کہہ دیا۔
ء…ء…ء