”پتر!جو تیرے ساتھ بیتی ہے نا ، یہاں کے ہر گھر کے ساتھ وہی بیتی ہے۔ کسی کا باپ ، کسی کا بیٹا، بھائی ، بہن، زندہ جلائے گئے ہیں۔ اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد بھی یہ ملک اب ہمارے لیے اجنبی ہے۔ اب ہر سکھ یہ سوچ رہا ہے کہ ہم سنتالیس میں آزاد ہو گئے تھے لیکن ایسا نہیں چوراسی میں ہمیں یہ پوری طرح جتا دیا کہ ہم اس ملک میں غلام ہیں۔پہلے انگریزوں کے اب ہندوؤں کے ۔
اب یہ نئی بات نہیں ہے۔ یہ رونا تو اب تک چلتا آیا ہے لیکن خوف ناک بات سکھ پنتھ کے لیے یہ ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو کیا دے کر جا رہے ہیں؟غلامی کا خوف ناک احساس؟ شرمناک اتہاس؟“ سردار ویر سنگھ نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا۔
”یہ کہانیاں میں نے بہت سن لیں ، اب آگے کی دیکھیں ، کیا کرنا ہے ہمیں؟ کیا کرنا ہوگا ہمیں؟“ جسپال نے متانت سے پوچھا۔
(جاری ہے)
”خالصتان، یہی ہماری منزل ہے ، اپنی زندگی میں حاصل نہیں کر پائے تو کم از کم اپنی نسلوں کو یہ جد و جہد تو دے کر جا سکتے ہیں۔کسی کامیابی کی کوئی بنیاد تو ہو جس پر ہماری نسلیں فخر کر سکیں۔“سردار ویر سنگھ نے جوش بھرے لہجے میں کہا تو جوگندر سنگھ بولا۔
”ہمارے بندے ٹاڈا کے تحت اندر ہیں، کوئی کہیں پر قتل ہو جاتا ہے، سب سے پہلے ہمارے بندوں سے تفتیش شروع ہوتی ہے۔
کوئی واردات بھی ہو۔“
”دنیا بہت آگے نکل گئی ہے سردار جی ،اب جنگ صرف گولی چلانے سے نہیں جیتی جا سکتی۔لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرناہوگا۔ اس کے لیے بڑے میدان ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ طاقت کے بنا کچھ نہیں ہو سکتا ، مگر جتنے بھی محاذ ہیں ان پر ہمیں لڑنا ہوگا۔ وہ میدان چاہے میڈیا کا ہے ، تعلیم کا ، لوگوں کو شعور دینے کا ہے۔ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ آزادی اُن کا حق ہے۔
“ جسپال نے گہری سنجیدگی سے کہا تو سردار ویر سنگھ بولا۔
”میری تو عمر گذر گئی پتر، اب جو کرنا ہے تمہی لوگوں نے کرنا ہے۔ جو تم لوگوں کی عقل سمجھ میںآ ئے۔“
”تو پھر آپ مجھ پر یقین رکھیں ،باقی واہگرو جانے کیا ہوتا ہے۔“ جسپال نے حتمی لہجے میں کہا۔
”میں چاہتا ہوں ، جتھے کو نیاخون ملے ، ڈر اور خوف سے نکل کر اپنی بات منوانے کی جرات پیدا ہو۔
“ ویر سنگھ نے کہا تو جسپال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”اس وقت جتھے کے معاملات کون دیکھ رہا ہے ؟“
”یہ جوگندر سنگھ۔“ ویر سنگھ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے یہ سرداری رہے اسی کے پاس ، لیکن اس کا کام کئے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ یہ فیصلہ کون کرے گا ، آپ بہتر سمجھتے ہیں۔“ جسپال نے کہا۔
”میں تیری بات سمجھ گیاہوں۔
ایسے ہی ہوگا۔“ ویر سنگھ نے جوش سے کہا۔
”بس تو پھر آپ کل ہی سے دھر م سیوا کے لیے اٹھیں۔ اپنے علاقے میں جتنے بھی گرو دوارے آتے ہیں، ان پر جا کر ماتھا ٹیکیں، ان کے مسائل معلوم کریں۔ باقی کام ہمارا ہے۔ کیوں جوگندر سنگھ۔“ جسپال نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”جیسے کہو بائی جی ، میں حاضر ہوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”آؤ ، پرشادے شکھیں۔
“ ویر سنگھ نے کہا اور اٹھ گیا۔ جسپال نے اپنی سوچ کے مطابق عمل شروع کر دیا تھا۔
رات گئے جب وہ ایک ساتھ واپس آئے تو ڈرائنگ روم میں انوجیت کا پہلا سوال ہی یہی تھا
”اب کیا کرنا ہوگا ؟“
” مجھے جتھے کے ساتھ منسلک دو چار نوجوان ملا دو، سمجھ دار ہوں، دلیر ہوں اور کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہوں۔ پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔
“ جسپال نے جواب دیا تو انو جیت نے کہا۔
”میں کل ہی ایسے نوجوان تلاش کر لوں گا۔میں اب چلتا ہوں۔ صبح مجھے جالندھر جانا ہو گا۔“
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
جسپال اپنے کمرے میں جا کر ایزی ہوا اور ابھی اس نے بیڈ پر بیٹھ کر اپنا لیپ ٹاپ کھولا ہی تھا کہ ہر پریت چھوٹی سے ٹرے میں چائے کے دو مگ رکھے آ گئی۔ اس نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
”جسّی ! آخر تم ان نوجوانوں کا کرنا کیا چاہتے ہو؟“
اس پر جسپال نے اس کا ہاتھ پکڑا اور زور سے اپنی طرف کھینچا، وہ سیدھی اس کے اوپر آ گری۔ اس نے اپنی ناک ہر پریت کی ناک سے رگڑتے ہو ئے کہا۔
” ہر وقت ایسی باتیں ٹھیک نہیں ہو تی ہیں پریتو۔ اب ہم ہیں اور اب ہماری ہی باتیں ہوں گی۔“ یہ کہہ کر اس نے لیپ ٹاپ ایک طرف رکھا اور اس کے سامنے ہو کر بیٹھ گیا۔
وہ دونوں چائے پینے لگے۔ وہ اسے سمجھانے لگا کہ کل اس نے کیا کرنا ہے۔
اگلے دن کا سورج ابھی نہیں نکلا تھا۔ جسپال نے گاڑی نکالی تو ہر پریت بھی اس کے ساتھ آ بیٹھی۔ وہ جالندھر کی جانب چل دئیے۔ جسپال کا سندو سے رابطہ تھا۔وہ اور اس کے ساتھی مختلف جگہوں پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ آدھے گھنٹے بعد وہ ان کے پاس پہنچ گیا۔سندو پوری طرح تیار بیٹھا تھا۔
اسے دیکھتے ہی بولا۔
”یار! میں تیرے کہنے پر یہاں آتو گیا ہوں، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہاں رہنے سے میں بہت جلد حالات پر قابو پا لوں گا۔لیکن یہاں فوری طور پر پیسہ…“ سندو نے کہا تو جسپال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”پیسہ بہت ہے ، آج ہی تمہیں بہت زیادہ رقم مل جائے گی، اس کی فکر چھوڑ، یہ بتا پروفیسر کے قاتلوں کا کچھ پتہ چلا؟“
”میں نے چندی گڑھ میں موجود اپنے سارے ذرائع اس کام پر لگا دئیے ہیں۔
جیسے ہی پتہ چلے گا، اس کے مطابق پلان کر لیں گے۔“ سندو نے کافی حد تک بے بسی سے کہا تو جسپال سوچ میں پڑ گیا۔
”سندو ، کہیں تو حوصلہ تو نہیں چھوڑ گیا۔ وہ جس طرح کہتے ہیں کہ ہاتھی اپنے استھان پر ہی بھلا لگتا ہے ؟چندی گڑھ چھوڑ کے تم خود کو کمزور تو نہیں سمجھ رہے ہو ؟“ جسپال نے پوچھا تو وہ تیزی سے بولا۔
”ا یسا نہیں ہے یار، اُدھر کالے سفید سارے دھندے تھے، مال بھی تھا اور طاقت بھی۔
یہاں تو ماحول سمجھوں گا تو معاملہ چلے گا نا، تھوڑا وقت لگے گا۔“
”چل اٹھ ،تجھے ماحول سمجھاؤں۔“ جسپال نے کہا تو وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
”وہ رونیت کو تو بتا دو۔“
رونیت کور اور پروفیسر کی بیوی اوپری منزل پر تھیں۔ جسپال نے ہرپریت کی طرف دیکھا اور ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ وہ اوپر چلی گئی تو یہ باہر نکل آئے۔ وہ ابھی کار میں بیٹھے نہیں تھے کہ رونیت کور کی کال آگئی۔
”یہ رونیت کی کال …“یہ کہتے ہوئے اس نے فون کان سے لگایا۔ ادھر سے چند لفظوں ہی میں بات ہوئی تھی کہ سندو کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
”جسپال ، پروفیسر کے قاتلوں کا پتہ چل گیاہے ، چل جلدی رونیت کے پاس۔“
وہ دونوں تیزی سے اندر جا کر اوپری منزل پر گئے۔ رونیت کور اپنے لیپ ٹاپ پر جھکی ہوئی تھی۔ اس کے پاس ہی گر لین کور اور ہر پریت کور تھیں۔
ان کے آتے ہی رونیت نے بتایا
”انہیں کسی انڈر ورلڈ کے بندے یا کرائم پیشہ نے قتل نہیں کیا بلکہ قتل”را“کے اُن ایجنٹوں نے کیا ہے ،جو باقاعدہ ملازم نہیں ہیں،مگر ان کے لیے کام کرتے ہیں۔“
”کون ہیں اور وہ کہاں رہتے ہیں؟“ سندو نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ دیکھو، یہ میری ایک صحافی دوست کی ای میل ہے۔“یہ کہہ کر اس نے اپنے لیپ ٹاپ اسکرین کی طرف اشارہ کیا۔
”وہ کل سے میرے رابطے میں ہے۔رات اس نے ڈانس کلب میں کچھ لوگوں کو دیکھا جو بہت زیادہ شراب پی رہے تھے اور بہت زیادہ مستی کر رہے تھے۔ ان کا جھگڑا وہاں کی سیکورٹی سے ہو گیا۔ سیکورٹی والے انہیں باہر نکالنا چاہتے تھے اور یہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اس پر سیکورٹی والوں نے انہیں خوب مارا پیٹا۔ کلب والوں نے پولیس کو بلوایا تاکہ انہیں پولیس کے حوالے کر دیا جائے لیکن پولیس کے آ نے سے پہلے ہی سادہ لباس میں دو لوگ آئے انہوں نے ان شرابیوں کو لے جانا چاہا۔
انتظامیہ نہیں مانی۔وہ انہیں پولیس ہی کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔ پو لیس آئی تو انتظامیہ نے وہ دونوں شرابی ان کے حوالے کر دئیے۔ “اتناکہہ کر وہ سانس لینے کو رُکی تو سندو نے بے صبری سے پوچھا۔
”لیکن اس سے پرو فیسر کے قاتلوں…“
”بتا رہی ہوں نا۔“ رو نیت نے کہا۔
”اوکے اوکے۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔