Episode 31 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 31 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

”لو جی اپنے پرو فیسر صاحب کا بدلہ لے لیاہے۔“سندو نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو اس کی بیوی بولی۔
”انہوں نے دھرم کی سیوا کا کہا تھا،یوں دہشت گردی کرنے کو نہیں کہا تھا۔“
”ماں جی، دھرم کی سیوا آزادی سے ہوتی ہے۔ ہم میں سے جو بھی چندی گڑھ جائے گا، یا انہیں یہاں کی بھنک مل گئی تو انہوں نے ہمیں مارنے کو کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔
“سندو نے کہا۔
”بیٹا ! وہ ”را“ ہے۔ اس کے پیچھے حکومت اور فوج ہے۔ کب تک ؟“ اس نے کہا۔
”جب تک واہ گرو چاہے گا۔“ سندو نے بڑے حوصلے سے کہا۔ بہت دنوں بعد اس کے چہرے پر سرخی آئی تھی۔ وہ خوش دکھائی دے رہا تھا۔ تبھی جسپال نے اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا وہ اسے لمبی رقم دینا چاہتا تھا۔
 سندو اور ابھیت ایک گاڑی میں، جبکہ ہر پریت کور اور رونیت کور جسپال دوسری گاڑی میں آ بیٹھے۔

(جاری ہے)

وہ آگے پیچھے چلتے ہوئے جالندھر شہر کے اس مصروف بازار میں آ گئے جہاں کی جلیبیاں پورے علاقے میں مشہور تھیں۔وہ سبھی اکٹھے ہوکر دُکان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
”یار یہ تو سنا تھا کہ پنجاب کے میلے ٹھیلوں میں جٹ جلیبیاں کھایا کرتے تھے، یوں اس طرح تازہ جلیبیاں کھائیں گے تو کیسا لگے لگا۔“ سندو نے کہا تو اس پر باتیں کرنے لگے جبکہ جسپال کی پوری توجہ بازار کے دونوں اطراف میں تھی۔
اچانک اُسے دائیں طرف سے دو سکوٹر سوار دکھائی دئیے۔ پیچھے بیٹھے ہوئے لڑکے کے پاس ایک بڑا سارا گتّے کاکار ٹن تھا۔ وہ دونوں کار کے پاس آ کر یوں رکے جیسے لڑکھڑا گئے ہوں۔ جب وہ سیدھے ہو کر چلے تو وہ کارٹن وہیں دو گاڑیوں کے درمیان چھوڑ کر آ گے بڑھ گئے تھے۔ جسپال نے دھیمی آواز میں کہا۔
”ابھیت! جاؤ کارٹن سنبھالو۔“ 
یہ سنتے ہی وہ سکون سے آگے بڑھا، کار کی ڈگی کھولی اور کارٹن اس میں رکھ دیا۔
وہ کچھ دیر وہیں کھڑے رہے۔ پھر ابھیت کے ساتھ سندو جا بیٹھا۔
”رونیت آ تجھے اپنا گاؤں دکھاؤں ، کل چھوڑ دوں گی یہاں۔“ ہر پریت نے کہا تو وہ فوراً مان گئی۔
سندو اور ابھیت چلے گئے تو یہ تینوں بھی بازار سے نکلے۔ ہر پریت کی خواہش تھی کہ وہ تھوڑی شاپنگ کر لے ، اسی لیے گاڑی کا رخ مین مارکیٹ کی طرف کر دیا۔
 وہ کافی دیر تک شاپنگ کرتے رہے۔
وہ سٹور سے باہر نکلے تو ان کی گاڑی کے پاس کچھ لوگ کھڑے دیکھ کر ہر پریت نے جسپال سے کہا۔
”جسپال! وہ دیکھو، لگتا ہے کوئی گڑ بڑ ہے۔“
”اب یہاں تو کھڑے نہیں رہ سکتے ، چل دیکھتے ہیں۔“ اس نے کہا اور آ گے بڑھ گیا۔ جسپال انہیں نظر انداز کرتا ہوا اپنی کار کے پاس گیا اور چابی سے دروازہ کھولنے لگا۔ تبھی مختلف عمر کے آٹھ دس لڑکے اس کی طرف بڑھے۔
وہ سارے اس کے ارد گرد کھڑے ہو گئے تو ان میں سے ایک نے پوچھا۔
” جسپال سنگھ تیرا نام ہے اور تو اُوگی میں رہتا ہے جو کینیڈا سے آ یا ہے۔“
” میں جسپال سنگھ بھی ہوں اور اوگی میں بھی رہتا ہوں۔میں ہی کینیڈا سے آ یا، مگر لگتا ہے تم لوگوں کو کسی نے تمیز نہیں سکھائی بات کرنے کی۔“ اس نے دبے دبے غصے میں کہا تو وہی طنزیہ انداز میں بولا۔
”وہی تمیز ہی تو سکھانے آئے ہیں تمہیں۔“
”اوئے سیدھی بات کر اس سے ، اگر مانتا ہے تو ٹھیک ورنہ اسے یہیں…“ ایک دوسرے لڑکے نے کہا۔
”چل تو ہی کہہ دے۔“ پہلے والے نے جسپال کو گھورتے ہوئے کہا۔
”سن اُو جسپال! تو نے یہاں رہنا ہے تو سکون سے رہ، سیاست میں منہ مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیرا ابھی ہم لوگوں سے پالا نہیں پڑا ،بڑی کہانیاں سن لی ہیں تیری دلیری کی۔
اب اگر اوگی میں زندہ رہناہے تو اپنی اس معشوق سے شادی کر اور سکون سے رہ۔“ دوسرے نے حقارت بھرے لہجے میں اسے انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔
”اور اگر میں تیری بات نہ مانوں تو ؟“ جسپال نے غراتے ہوئے کہا تو رونیت کور نے شاپنگ بیگ کار میں پھینکے اس لڑکے کا بازو پکڑ لیا جس نے انگلی اٹھائی تھی۔
”اوئے، اگر تو نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے تو پہلے میرے اس تھپڑ کا جواب دے۔
“یہ کہتے ہوئے اس نے زناٹے کا تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔ہر پریت بھی ماحول کو سمجھ چکی تھی۔اس نے بھی بیگ پھینک دئیے۔ اس نے پہلے کے منہ پر تھپڑ مارا۔ وہ سبھی ایک دم سے حیران ہوئے اور ان تینوں پر پل پڑے۔
انہیں یقیناً یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کن لوگوں سے بھڑ بیٹھے ہیں۔ جو بھی ان کے نزدیک جاتا اس کی چیخ بلند ہو تی۔ جسپال کو اپنا پسٹل نکالنے کا وقت نہیں مل رہا تھا۔
مارکیٹ میں ایک دم سے شور ہو گیا۔ہر پریت اور رونیت کے لڑنے کاانداز ہی مختلف تھا۔ وہ تینوں ایک جُٹ ہو کر لڑ رہے تھے، تین یا چار منٹ میں کئی سارے زمین بوس ہو چکے تھے۔ان لڑکوں کو جب سب کچھ الٹا پڑتا دکھائی دیا تو وہ ایک دم سے بھاگ نکلے۔ جسپال نے ان کے پیچھے بھاگ کر ان دو کو پکڑ لیا، جنہوں نے اس سے انتہائی بد تمیزی سے بات کی تھی۔ اس نے دونوں کو کالر سے پکڑا اور اپنی کار کے پاس لا کر سڑک پر دے مارا۔
پھر اپنا پسٹل نکال کے بولا۔
”بولو۔کس نے بھیجا ہے تم لوگوں کو؟“
” سردار مان سنگھ باجوہ نے۔“ ایک نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا 
”وہ کون ہے ؟“ جسپال نے پوچھا تو ہر پریت نے تیزی سے کہا۔
” ہمارے دشمنوں کے خاندان ہی کا ہے، اس الیکشن میں ایم ایل اے کا امیدوار ہے۔“
”اوہ!“ جسپال فوراً سمجھ گیا۔ یہ رات سردار ویر سنگھ سے ملاقات کا نتیجہ سامنے آ گیا تھا۔
اس نے سڑک پر پڑے دونوں لڑکوں کے ایک ایک بازو پر اپنے پاؤں مارے تو ان کے بازو کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ ان کی تیز چیخ فضا میں بلند ہوئی تو جسپال نے کہا۔
”بتا دینا اپنے اس باجوہ کو ، میں تو کب سے کوئی نیا دشمن تلاش کررہا ہوں۔“
اس نے کہا اور کار میں جا بیٹھا۔ وہ دونوں بھی اس کے ساتھ آ بیٹھیں تواس نے کا بڑھا دی۔ 
                                     ؤ…ؤ…ؤ

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط