بھارت کے وجود میں آنے کے بعد1960ء میں مختلف علاقوں کو ملا کر اسے مہاراشٹرکا نام دے دیا گیا۔پارسی سیاست سے آؤٹ ہو گئے ، ہندو چھا گئے۔ پارسیوں نے ملٹی نیشنل کمپنیاں بنا کر تجارتی حلقوں میں اپنی حکومت بنا لی۔ لیکن انڈر ورلڈ مافیا بھی جڑیں اس حد تک مضبوط کر چکا ہے کہ ان کے بغیر ممبئی چل ہی نہیں سکتا۔
انہوں نے اپنے خام مال کی پیداوار کا بہت خیال رکھا ہوا ہے ۔
ممبئی ، جہاں فلک بوس عمارتوں کا تسلسل ہے ، وہاں دنیاکی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی بھی موجود ہے ۔ سود کی نحوست سے غریب،غریب تر اور دولت مند امیرترین ہوتا چلا جا ریا ہے ۔
ساحلی شہر کے اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی بھی اس ” بھائی گیری “ سے محفوظ نہیں۔ ممبئی اور کراچی میں بہت سی مماثلت ہے۔ دونوں ساحلوں پر مافیاکا قبضہ پوری طرح موجود ہے۔
(جاری ہے)
اسی کے ساتھ ہی تیسرا ساحل دوبئی بھی ہے۔ ممبئی سے دوبئی تک جرائم کی دنیا پھیلی ہوئی ہے اور اس پر اب کون حکومت کر رہا ہے ؟ یہی سمجھنے کی چیز ہے۔
” یہاں کھڑے کیا سوچ رہے ہو؟“ نوین نے کہا تو اس کے ساتھ ہی مجھے اپنی گردن پر گرم ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا ۔
” کچھ نہیں۔“ میں نے پلٹتے ہوئے نوین کور کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر چھوڑ دئیے۔
تبھی اس نے میری آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” مجھ پر اعتماد نہیں کر پا رہے ہو یا تمہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ تم دراصل چاہتے کیا ہو ۔“
” نوین ، یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ “ میں نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
” تو پھر کیا بات ہے ؟“ اس نے میرے قریب ہوتے ہوئے ہولے سے پوچھا۔
” میں سوچ رہا ہوں کہ جو میں چاہتا ہوں، وہ تم کر بھی پاؤ گی یا نہیں، لیکن ایک طرح سے تم پر اعتماد کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ تمہیں کرنل صاحب نے بھیجا ہے ۔
“ میں نے اس کے بال بگاڑتے ہوئے کہا۔
” بھیجا نہیں بلوایا ہے مجھے ، یہ ذہن میں رکھو۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو ہنس دیا
” چل کھانا کھاتے ہیں، پھر باغ ہی میں جاکر باتیں کرتے ہیں۔“ میں نے کہا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے میز تک لے آیا ۔
سہ پہر ہو رہی تھی ، جب ہم دونوں باغ جناح میں داخل ہوئے۔ نوین کور باوجود شراب پینے کے اس قدر نشے میں نہیں تھی ، بلکہ سرور والی کیفیت میں تھی ۔
ہم ہوٹل سے پیدل ہی باغ تک آئے تھے۔ مجھے کھلی فضا میں سانس لینا اچھا لگ رہاتھا۔ ایک لان میں سنگی بینچ پر بیٹھتے ہوئے میں نے کہا۔
” میں نہیں جانتا کہ تمہارے نیٹ ورک کی رسائی کہاں تک ہے ، صرف ممبئی کا ایک علاقہ، پورا ممبئی یا پھر دِلّی تک بھی رسائی ہے۔ کیونکہ میرا دشمن وہ ہے، جس نے اپنے خونیں پنجے بھارت میں گاڑ لیے ہیں اور اس کی نظر پاکستان پر ہے۔
“
” تم ڈیوڈ ریبنز کی بات کر رہے ہو ، وہی جو ویرا ڈیسائی روڈ کے ساتھ بلڈنگ میں…“ اس نے کہا اور جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
” بالکل وہی، وہ تو نہیں رہا، مگر اس کا نیٹ ورک اب بھی ہے ۔“ میں نے کہا۔
” دیکھو ، میں تمہیں ایک بات سمجھاتی ہوں۔ جس طرح کچھ لوگ یہودیوں کو بھارت لانے میں خوش ہیں ، اسی طرح کچھ لوگ مخالف بھی ہیں۔
وہ اسے وہاں نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ یہ زہریلا ناگ ہے ، دودھ پلانے والے کو بھی کاٹ لیتا ہے۔ میں مانتی ہوں، انہوں نے بھارت میں بہت گہرائی تک رسائی لے لی ہے ، مگر یہ ناممکن نہیں ہے ۔ اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ “ اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
” یہ بات نشے میں تو نہیں کہہ رہی ہو ، یا فقط مجھے حوصلہ دے رہی ہو یا پھر تمہیں اس کی سنگینی کا احساس نہیں۔
“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
” ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ان کا مقصد صرف اسلحہ فروخت کرنا ہے ۔“ اس نے سکون سے کہا۔
” نہیں ، صرف اسلحہ فروخت کرنا نہیں ہے اور بہت کچھ ہے ۔“ میں نے تشویش سے کہا۔
” یہ مجھ پر چھوڑ دو۔ رات تک میں تمہیں اس بارے میں بتا دوں گی ، فی الحال اپنی بات کرو۔ تھوڑی پیار بھری باتیں، ایسا سکون ، جسے میں یاد رکھوں۔
“ اس نے خمار آلود لہجے میں کہا۔
” ایسا کیا ہو سکتا ہے ، تم میرے بارے میں جانتی تو ہو ۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دی ۔ اس دوران وہ اپنا سیل فون نکال کر پیغام بھی ٹائپ کرتی رہی ۔ مجھے لگا کہ وہ ڈیوڈ ریبنز کے بارے میں لکھ رہی ہے ۔ یہ پیغام تو منٹوں میں پکڑا جا سکتا تھااور ایسی صورت حال میں جبکہ اس کے قاتلوں کو بڑے پیمانے پر تلا ش کیا جا رہا ہو ۔
کچھ دیر بعد وہ پیغام لکھ چکی تو میں نے اپنی تشویش کے بارے میں کہا تب وہ ہنس دی ۔ پھر اپنا سیل فون مجھے دیتے ہوئے بولی۔
” پڑھ لو ۔“
میں نے سیل فون پکڑا اور پڑھا، مگر پڑھ نہ سکا، وہ اوٹ پٹانگ زبان تھی ۔ اس نے کوڈ ورڈز میں لکھا تھا۔ میں نے اسے سیل فون واپس کر دیا۔ اس نے وہ پیغام بھیج دیا۔ہم وہاں کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔
اس نے مجھے بہت ساری معلومات دیں۔ سورج ڈھل گیا تو ہم اسی طرح پیدل واپس آ گئے۔
ڈنر کے بعد نوتن کور نے ایزی لباس پہنا اور میرے سامنے صوفے پر آ کر بیٹھ گئی ۔ وہ اپنے بارے میں بتاتی رہی اور میں سنتا رہا۔ میں اس کی باتیں اس لیے سنتا رہا کہ اس کی رسائی کے بارے میں معلوم ہو سکے ۔ وہ ممبئی میں ہونے والی اپنی وارداتوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔
بارہ سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہوا تھا کہ اس کے سیل فون پر پیغام آ گیا۔ اس نے دیکھا اور پھر اپنے فون پر ای میل بکس کھول لیا۔ وہ چند لمحے پڑھتی رہی ، پھر بولی۔
” یہ ڈیوڈ ریبنز والا نیٹ ورک بظاہر حکومتی سائے میں ہے ، مطلب بھارتی ایجنسیاں انہیں تحفظ دیتی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان کے لوگ یہاں ہیں جو بہت کم تعداد میں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فعال ہیں۔
وہ کئی دوسرے امور کے لیے ہیں۔ یوں سمجھ لو کہ گنتی کے یہ لوگ ، بھارتی ایجنسیوں کی پشت پر ہیں۔ “
” اگر انہیں ختم کرنا ہوگا تو بھارتی ایجنسیوں ہی سے لڑنا ہوگا۔ وہی ان کا سامنا کریں گی۔“ میں نے کہا۔
” ایسا تو ہے ، اب بولو کیا کر نا ہوگا۔“ اس نے پوچھا تو میں نے چند لمحے سوچ کر کہا۔
” میں بتا دوں گا ۔“
” اوکے‘ اور یہ نام لکھ لو ، جو یہاں اسی شہر اور کراچی میں موجود ہیں، جو ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور نام بھی لکھ لو جو یہودیوں کی بھارت آمد کے مخالف ہیں۔
“
” یہاں کسی پیڈ پر لکھ دو اور سو جاؤ۔ صبح تمہیں جانا بھی ہے۔“ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔
میں اپنے بیڈ پر آ کر لیٹ گیا تھا۔ میری سوچیں بہت پھیل گئی تھیں۔ لیکن سونے سے پہلے میں سوہنی سے رابطہ کرنا نہیں بھولا۔ اسے میں نے بتادیا کہ میں لاہور میں ہوں۔
#…#…#