Episode 37 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 37 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

ڈنر بہت خوشگوار ماحول میں لیا گیا۔ اس کے بعد بانیتا کورنے تینوں کو بتایا۔
” دِلّی کی اَپ ڈیٹ یہ ہے کہ انہیں نہ تو بانیتا کور ملی ہے امرتسر میں، وہ ممبئی ہی سے واپس نہیںآ ئی ۔ نہ ہی رونیت چندی گڑھ میں ملی، آخری بار اسے پروفیسر کے انتم سنسکار پر دیکھا گیا تھا۔ اب ان کا کوئی بندہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ جسپال آخری مرتبہ اوگی اور جالندھر کے درمیان دیکھا گیا ہے کسی لڑکی کے ساتھ۔
وہ چشم دید اوگی گاؤں ہی کا آدمی ہے ۔لہذا اب سارا زور جالندھر میں جسپال کو تلاش کرنے میں لگایا جائے گااور وہ سب اس مقصد کے لیے نکل پڑے ہیں۔“
” ایک منٹ ایک منٹ…“ رونیت نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔
” یار جسپال ، تیرا سیل فون نمبر انہوں نے لیا، اب تک اس کی مدد سے وہ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے تمہیں کال کی ہے ۔

(جاری ہے)

یہ کیا بات ہے؟“ 
” انوجیت نے جو سیل نمبر دیاہے ،وہ نکودر کے ایک ڈیرے پر پڑا ہے۔ اسے کوئی نہیں سنتا۔ یہ اگر وہاں پہنچے تو سوائے سیل فون کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ انو جیت پاگل نہیں ہے ۔“
” واؤ‘کچھ سوچا؟“ بانیتا کورنے پوچھا۔
” یہی کہ آج رات اس بندے کو ختم کرنا ہے ،جس نے میری دبی ہوئی نیم مردہ فائل میں دوبارہ جان ڈالی ہے اور وہ ہے مان سنگھ۔
ابھی کچھ دیر پہلے انوجیت نے مجھے بتایا کہ میری خبر دینے والا وہی ہے۔“
” چل یار کئی دن ہو گئے، کچھ کیا نہیں۔“ سندو نے انگڑائی لے کر کہا تو بانیتا کورہنس دی۔
” مزہ آ گیا یار، مجھے ایسے ہی حوصلے والے بندے چاہئیے تھے۔ چل یہ جسپال کا اک چھوٹا سا کام کریں،پھر تم لوگوں کو ایک بڑے کام پر لگاتی ہوں۔“
” وہ کیا؟“ رونیت نے پوچھا۔
” وہ آ کر بتاتی ہوں، پہلے یہ بیگار بھگت لیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ زور دار اندازمیں ہنس دی۔
 تقریباً رات کے دس بجے کا وقت ہوگا،جب وہ فارم ہاؤس سے نکلے۔ جسپال نے انوجیت سے کہہ کر بندے لگا دئیے تھے۔ بہت محتاط ہوکر وہ وہاں پہنچے تو ایک گھنٹہ گذر چکا تھا۔ مان سنگھ نے اپنی حویلی اوگی پنڈ کے باہر اپنی زمینوں میں بنائی ہوئی تھی۔
حویلی سے کافی دور انہوں نے اپنی فوروہیل جیپ روک دی۔ وہ چاروں ہی تھے۔ جسپال کا رابطہ وہاں کے ایک لڑکے سے تھا،جو ساری خبر دے رہا تھا۔ اس وقت وہاں پر صبح ہونے والی گر دوارہ سیوا ریلی روکنے کی بات ہو رہی تھی۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیسے روکا جائے۔ سیکورٹی والے تھوڑے بندے تھے جن کی پوزیشن کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہو پایا تھا۔
اس نے اچھی طرح پوچھا تھا کہ چھت پر سیکورٹی گارڈ ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس کا جواب اسے یہی ملا تھا کہ ہوتے ہیں مگر اس وقت نہیں ہیں، وہ رات دیر سے چھت پر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں یہ پکّا معلوم ہو گیا تھا کہ وہاں چوکی کا تھانیدار، وہی سی بی آئی کے دو بندے اور اُوگی کے وہ لوگ تھے ، جو اب بھی رویندر سنگھ کے وفا دار تھے اور اب مان سنگھ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔
وہ سوچ رہا تھا کہ رَبّ نے اسے بہت بڑا موقعہ دے دیاہے۔ 
وہ چاروں جیسے ہی حویلی کے گیٹ پر گئے، وہاں سیکورٹی پر لگے ہوئے دو بندوں نے انہیں آگے جانے سے روکا۔ سندو نے بنا کوئی لفظ کہے فائر کر دیا۔ پسٹل پر سائیلنسر لگا ہوا تھا ، ٹھک کی آواز آئی اور سیکورٹی گارڈ گرتا چلاگیا، سندو نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا کہ اس کی چیخ نہ نکلے ۔
اس سے پہلے کہ دوسرے کو سمجھ آ تی، جسپال نے ایسا ہی کیا۔ اس کے سینے میں بھی فائر دے مارا، اس کے گلے سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ ان دونوں کو ایک طرف لگا کر وہ آگے بڑھے ، تب تک رونیت اور بانیتا آگے جا چکی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ مان سنگھ بہت سارے لوگوں کے درمیان سائیڈ والے لان میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ دونوں آگے بڑھیں اور ذرا فاصلے سے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو تاکنے لگیں۔
انہیں یہ سمجھ میں نہیںآ رہا تھا کہ ان میں سے مان سنگھ کون ہے ، لیکن انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ سی بی آئی والے کون ہو سکتے ہیں یا ان میں پولیس والا کون ہے۔ اس لان میں سی بی آئی والے دور ہی سے پہچانے جا رہے تھے۔ ان تینوں نے سفیدسفاری سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ رونیت نے اپنی طرف سے پولیس والے کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ اسی لمحے جسپال وہیں آ پہنچا، اب اس کے پاس وقت نہیں تھا۔
اس نے مان سنگھ کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ دو چار لمحوں کی دیری سے ان دونوں کی چیخ بلند ہوئی۔ تبھی ان چاروں نے پھیل کر فائرنگ شروع کر دی۔ سامنے بھگدڑ مچ چکی تھی لیکن جو بھی ان کی رینج میںآ تا، گولی اس کے لگ جاتی۔ دو منٹ کے دورانیے میں سامنے لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ دور کہیں سیکورٹی والے بے آواز فائرنگ سے نہیں بلکہ چیخ و پکار پر متوجہ ہوئے تھے۔
تبھی بانیتا کورنے کہا۔
” نکلو“ یہ کہہ کر وہ پیچھے پلٹنے لگی ۔ رونیت اس کے کور پر تھی۔ اسی لمحے جسپال لان کی جانب بڑھ گیا۔ وہ تیزی سے ان سفاری سوٹ والوں کے پاس گیا، ان کی جیبیں ٹٹولیں، ان میں سیل فون ملے ، وہ لے کر فوراً ہی پلٹ پڑا۔ سندو اس کے کور پر تھا۔ اسی طرح سندو اور جسپال پیچھے ہٹے۔ ان کی راہ میں کوئی نہیںآ یا۔ شاید اتنی لاشیں دیکھ کر ان کا حوصلہ نہیں پڑا تھا۔
وہ پوری قوت سے بھاگتے ہوئے وہاں تک آئے جہاں ان کی فوروہیل کھڑی تھی۔ جسپال نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور اگلے چند منٹوں میں وہ جالندھر جانے والی سڑک پر تھے۔
وہ شہر کے قریب پہنچنے والے تھے۔ تبھی سی بی آئی والوں کا ایک سیل بج اٹھا۔سندو نے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے کسی نے انگریزی میں تیزی سے پوچھا۔
” ہیلو ، نریش، کیسے ہو تم اور یہ خبر کیا ہے کہ…“
” کون بات کر رہا ہے ۔
“ سندو نے کسی فلم کے ولن کے انداز میں پوچھا۔
” کون ہو تم؟“
” تیرا باپ بات کر ت ہوں، بھڑوی کے۔ جسے تو نے پھون لگایا ہے، اس کا بڑے افسر سے بات کرا ۔“
” کیا مطلب۔!“ دوسری طرف سے حیرانگی میں پوچھا گیا
” ابے بھڑوی کے ، تجھے سمجھ ناہی آوت ہے ، بولا کسی افسر سے بات کرا۔“ اس نے جان بوجھ کر اپنا لہجہ اور آواز بدل کے بات کی تھی
” میں ہی اس کا آفیسر بات کر رہاہوں۔
“ 
” تو پھر سن‘تیرا وہ ملاجم ترنت دنیا چھوڑ گیا ہے ، میں نے اس کے سینے ما گولی اتاری۔ کدھر بھلا بولو۔“
” کیا بکواس کر رہے ہو، کون ہو تم ؟“
” اماں بتایا تو ہے تیرا باپ۔ بولو کہاں گولی لگی ؟“
” تو نے اسے مار دیا ہے لیکن اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔“ دوسری طرف سے کہا گیا تو فون جسپال نے لیتے ہوئے کہا۔
” دیکھ ، تو کوئی بھی ہے ، تجھے ہماری لوکیشن کا پتہ تو چل ہی جائے گا ۔
لیکن جس کے لیے یہ لوگ اس گاؤں میںآ ئے تھے ، اسے پکڑنے کے لیے پرائم منسٹر یا کم از کم چیف منسٹر سے پوچھا ہوتا۔ وہ تو اب پتہ نہیں کہاں ہے ، لیکن اس کا پیغام اپنے سارے لوگوں کو دے دو۔ جس نے بھی اس بندے کو یا اس سے متعلق کسی بندے کو بھی پکڑنے یا ہاتھ بھی لگانے بلکہ برا سوچنے کی بھی کوشش کی ، وہ سمجھو اپنی موت پر مہر لگا رہا ہے ۔“ یہ کہہ کر دوسری طرف سے کچھ بھی سنے بغیر اس نے فون بند کیا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔
 ” پیغام تو دے دیا، اب یہ دوسرا بھی پھینک دوں۔“ سندو نے پوچھا۔
” نہیں اس پرابھی بھی کال آئے گی ۔ یہی کہنا، بلکہ رونیت تم کہنا۔“ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اس فون پر بھی کال آ گئی ۔ رونیت نے ایسا ہی پیغام دیا اور فون باہر پھینک دیا۔ انہوں نے طویل سانس لی اور پوری توجہ سڑک پر لگا دی ۔
واپس فارم ہاؤس تک آتے ہوئے آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ فوروہیل گیراج میں لگوانے کے بعد ہی بانیتا کور سکون سے اندر چلی گئی ۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ان سب کے سامنے یہی سوال ہوگا کہ اب کیا کرنا ہے؟
                                 #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط