سندو، بانیتا، جسپال اور رونیت چاروں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ موجودہ حالات کے بارے میں ایک ایک بات کر چکے تھے۔ تبھی سندو نے پوچھا۔
” یہ تو طے ہے کہ اب سبھی ہماری جان کے درپے ہیں، اب یہ ہم پر ہے کہ سسک سسک کر مریں یا ایک دم مر جائیں۔“
” یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے سندو ، ایک دم سے حوصلہ چھوڑ گئے ہو۔ یار اگر ہم مریں گے بھی تو کم از کم بہت سوں کو لے کر مریں گے۔
“ جسپال نے ہنستے ہوئے کہا۔
” سنو‘میری بات سنو۔“ بانیتا کورنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں متوجہ کرتے ہوئے کہا ، پھر لمحہ بھر رُک کر بولی۔
” مجھے یہ پوری طرح احساس ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ رات ہی سے میرے دماغ میں یہی سوال تھا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔یہ جان لو کہ ہم نے بھڑو ں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالا بلکہ ہم سانپوں کی بستی میں ہیں۔
(جاری ہے)
کوئی بھی اور کہیں سے بھی سانپ ڈنگ مار سکتا ہے ۔ کون کتنا زہر رکھتا ہے ،ہمیں نہیں معلوم کیونکہ…“
” شاعری مت کر ۔ سیدھی لائیں پر آ۔“ رونیت نے چڑتے ہوئے کہا۔
” اوکے ۔ تو سنو، یہ پنجاب ہے ، یہاں خالصہ کا جتنا زور ہے ، وہاں اتنی ہی منافقت ہے۔ ابھی ہمیں طاقت کی ضرورت ہے۔ایک مرکز پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں۔
ہمیں طاقت حاصل کرنا ہے اس وقت ہمیں وہ جگہ چاہئے کہاں ہمیں کچھ وقت کے لیے سکون اور طاقت مل سکے ۔ میرے خیال میں وہ جگہ ممبئی سے بہتر کوئی نہیں ہے ۔“ بانیتا کورنے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا۔
” یار وہ جگہ تو…“ رونیت نے کہنا چاہا تو جسپال بولا۔
” بانیتا بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ بندہ بھیڑ ہی میں گم ہوتا ہے ۔ “
” ممبئی ہی کیوں؟“رونیت کور اپنی جگہ اٹک گئی۔
” وہ اس لیے کہ سندو ابھی تک سامنے نہیںآ یا۔یہ جزیرے سے جمال کے ساتھ بھاگا، اس کے ساتھ گم ہوا، تو تب سے گم ہے ۔ ان کے خیال میں یہ انہی کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اُسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ممبئی پہنچنے کے بعد یہ ان سے بچھڑ گیاتھا۔یہ اپنا بزنس وہاں سیٹ کرے ۔ جیسا کہ چندی گڑھ میں کرتا تھا۔اور جو، اب یہ چندی گڑھ میں نہیں کرسکتا۔ یہ تم لوگ جانتے ہو۔
وہ لوگ جو سامنے نہیں ہیں، سندو کے ساتھ وہاں جڑ جائیں گے ۔ یہ دِنوں اور ہفتوں میں اپنے آپ کو مضبوط کرے گا۔ ہم باقی تین بچتے ہیں،ہم چھپ سکتے ہیں اور آزاد حالت میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔“
” ڈن ہو گیا۔“ رونیت کور نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” اب سب سے بڑا مسئلہ یہاں سے نکلنا ہوگا۔ اپنے سارے لوگوں سے کہو وہ ایک ایک کر کے یہاں سے نکل پڑیں اور ممبئی پہنچیں۔
سندو تم نکلو اور ان سے پہلے ممبئی پہنچو۔ تمہیں وہاں ایک ڈاکٹر سے ملنا ہے ۔ تم وہاں اس وقت سے ایڈمٹ ہو ، جب تم جزیرے سے ممبئی آئے ۔ تمہیں وہاں ایک ہمدرد انسان چھوڑ گیا تھا تم ایک سڑک پر زندگی اور موت کی کشمکش میں اسے ملے تھے اور وہی تمہارا علاج کروا رہاہے۔ وہاں ساری کاغذی کارروائی ہو چکی ہے ۔ وہاں تمہیں اسپتال ہی میں رہنا ہے ۔ وہ ہمدرد انسان تمہیں بزنس کروائے گا۔
“
” بانیتا!تمہارے ہاتھ دکھانا۔“ جسپال نے شوخی سے کہا تو اس نے حیرت سے ہاتھ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
” وہ کیوں؟“
” دیکھوں تو سہی تمہارے ہاتھ کتنے لمبے ہیں۔“
اس پر سبھی زیر لب مسکرا دئیے ۔ ماحول میں جو تناؤ تھا وہ ایک دم سے ختم ہو گیا۔ بانیتا کور کا چہرہ ایک دم سے سرخ ہوا ، جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو پھر سر جھٹک کر بولی۔
” سندو، تم نکلو،ہماری ملاقات اب ممبئی ہی میں ہوگی۔“یہ کہہ کر اس نے ڈاکٹر اور اس کے اسپتال کا نام بتایا۔ سندو اٹھا اور اندر کی طرف چل دیاتو وہ بولی۔
” رونیت ! اب ہمیں بھی نکلنا ہے ۔“
کچھ دیر بعد وہ تینوں ایک سیاہ کار میں سب فارم ہاؤس سے نکلتے چلے گئے ۔ ان کے حلیے کافی حد تک بدلے ہوئے تھے۔ تینوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔
پہلی نگاہ میں انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔
انہوں نے جالندھر سے لدھیانہ تک کا سفر بہت احتیاط سے کیا۔ بڑی شاہراہ سے ہٹ کر چھوٹی سڑکوں سے نکل کر ہی لدھیانہ اسٹیشن پہنچے تھے۔ ایک طویل سفر ان کے سامنے تھا، انہوں نے اپنی کار وہیں چھوڑی اور ممبئی جانے کے لیے اسٹیشن پر آگئے ۔ وہیں سے انہوں نے ٹرین پکڑی ، جسپال کے سامنے وہ دونوں بیٹھیں ہوئی تھیں۔
وہ تینوں ہی اونگھ رہے تھے۔وہ بڑی حد تک خود کو محفوظ سمجھ رہے تھے۔
#…#…#
ڈرائیور نے مجھے سوہنی کے گھر کے سامنے اتارا تومجھے اتار کر اس نے ڈگی کھولی۔اس میں سے ایک چھوٹا سوٹ کیس نکالا اور مجھے دیتے ہوئے بولا۔
” یہ آپ کے لیے ہے ، اس میں کچھ سامان ہے ۔“
میں نے وہ سوٹ کیس لیا اور اسے جانے کے لیے کہہ دیا۔
وہ چلا گیا تو میں نے بیل دی ۔
گیٹ کے ساتھ والا چھوٹا دروازہ کھلا تو میرے سامنے چھاکا تھا۔ وہ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا اور پھر ایک دم سے آ گے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ مجھے لگا کہ جیسے وہ رُو رہا ہے۔ میں نے جلدی سے اُسے الگ کیا تو اس کی آنکھوں سے آ نسو بہہ رہے تھے۔ میں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
” چھاکے خیر تو ہے نا؟“
” خیر ہی یار،بس تیرے آنے کی خوشی میں یہ آ نسو ہیں۔
تو ملتا ہے تب آنسو، بچھڑتا ہے تب بھی آنسو، یار وہ ہمارے خوشی بھرے عام سے د ن لوٹ کر واپس کیوں نہیں آ جاتے ۔“ اس نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا تو میں نے سکون کا ایک لمبا سانس لیا اور کہا۔
” جن لوگوں کے لیے کوئی اعلی مقصد چن لیا جاتا ہے نا، سکون ان کے لیے موت بن جاتی ہے ۔“
”یہ تو کیا کہہ رہا ہے ؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔
” تو نہیں سمجھے گا ،چل اندر چلیں، اماں آ ئی ہیں؟“ میں نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں، انہیں میں ہی لے کر آیا ہوں لیکن سوہنی نہیں آئی۔ اس نے کہا تھا کہ میں خود بات کر لوں گی ۔“ چھاکے نے کہا اور میرے ساتھ قدم بڑھا دئیے ۔
ڈرائنگ روم میں اماں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ انہوں نے سفید براق لباس پہنا ہوا تھا اور ہاتھ میں سیاہ تسبیح تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھیں اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ نجانے کتنی دیر تک میں مامتا کو محسوس کرتا رہا۔
امان نے مجھے خود سے الگ کیا اور میرا ماتھا چومنے کے بعد بولیں۔
” میرے رَبّ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تیری صورت دکھائی۔آ بیٹھ میرے پاس ۔“ وہ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولیں۔ چھاکا اندر کی طرف چلا گیا اور میں نے پنا سر اماں کی گود میں رکھتے ہوئے قالین پر بیٹھ گیا۔ وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولیں۔
” کیسا ہے تو ؟“
” اماں !وہ بچے کیسے ہوتے ہیں جو اپنی ماں سے بچھڑ جاتے ہیں۔
ماں سے بچھڑنا فطرت کی منشاء تو ہے لیکن بچھڑنے کے بعد وہ کہاں جاتا ہے ؟مجھے لگتا ہے میں ٹھیک مقام تک جا پہنچا ہوں۔“میں نے سکون سے کہا۔
” تو ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ چند دن پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا میرے بچے ۔میں نے دیکھا توایک پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہے، تیرے ارد گرد سبزہ ہی سبزہ ہے۔ لیکن تیرے سامنے جو وادی ہے، اس پر چیلیں، کوے اور نجانے کون کون سی فضائی مخلوق موجود ہے ،اور زمینی جانور کتے، بھیڑئیے، چیتے ، شیر نجانے کون کون سے درندے اس وادی پر حملہ آور ہیں۔
سب کی رالیں ٹپک رہی ہیں اور تجھے حکم ملتا ہے کہ تو ان سب کو بھگائے ۔ تو کبھی آگے دیکھتا ہے اور کبھی پیچھے اور ابھی تذبذب میں کھڑا ہے۔پھر مجھے ملتا ہے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ “یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئیں، پھر بولیں۔
” میں تب سے دعا مانگ رہی تھی کہ تو میرے پاس آ جائے اور تو آ گیا۔“
” اماں تیرا خواب سچا ہے ۔“ میں نے اماں کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
” سن، میری طرف سے تمہیں ہر طرح کی اجازت ہے۔اب میری گود سے نکل اور اپنے سچے مقصد کی جانب بڑھ ۔ اپنے وطن کی سرحدوں پر ڈٹ جانے والے بھی تو ماؤں کے بیٹے ہوتے ہیں۔ مائیں اپنے بیٹے وطن پر قربان نہ کریں تو یہ وطن بھی نہ رہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اللہ پاک ان ماؤں کو چنتا ہے جن کے بیٹے اس عظیم مقصد کے لیے چنے جاتے ہیں۔ وہ تو وردی میں ہوتے ہیں اور بغیر وردی میں خاموشی سے شہادت پا کر امر ہو جا۔ رَبّ کی مرضی کیا ہے اسے ہی قبول کر ۔“ اماں نے انتہائی خوشگوار لہجے میں کہا تو میں نے اماں کے چہرے پر دیکھا، وہاں سکون تھا۔ اماں نے میرا سر اپنی گود سے اٹھایا اور بولیں۔
” چل اب کچھ کھا پی لے ۔“
” اماں!سوہنی کیوں نہیں آئی ؟“ میں نے دھیمے سے پوچھا تو وہ بولیں۔