اس کے ساتھ ہی اسکرین پر جنید اور سلمان نے اشارے سے سمجھا دیا کہ وہ باہر نکل آیا ہے ۔ وہ زویا اور سلمان کی جانب چل پڑا تھا۔ جو دائیں جانب کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
” اوکے ، سو قدم پر جا کر ان سے پیچھے ہو جاؤ، جیسے ہی یہ دونوں گارڈ ختم ہوں، تم سامنے کھڑی کار میں جا کر بیٹھ جاؤ ، ہری اپ ۔“
سو قدم ہوتے ہی یک بارگی دو فائر نکلے، اس کے ساتھ ہی دو چیخیں بلند ہوئیں۔
وہ ایجنٹ سیدھا زویا اور سلمان والی کار میں پچھلی نشست پر جا بیٹھا۔ وہ اسکرین پر دکھائی دینے لگا تھا۔ مجھے وہ شکل ہی سے بھارتی لگا تھا۔ اس کا فون چل رہا تھا جو اس نے کان سے لگایا ہوا تھا۔
” ہری اپ جنٹل مین۔“ زویا بولی اور اس کے ساتھ ہی کار چل دی۔ ذرا دور جانے کے بعد گیت نے کہا۔
” دیکھوکہیں تعاقب تو نہیں ہو رہا؟“
” ایک سیاہ اکارڈکار آ رہی ہے۔
(جاری ہے)
“اس نے کہا۔
” دونٹ وری ، یہ ہمارے لوگ ہیں۔ یہ لوگ مجھے بتا دیں گے۔ وش یو گڈ لک۔“ جیسے ہی اس نے کہافون بند ہو گیا۔ اس نے فون کان سے ہٹا کر سلمان اور زویا کو دیکھا۔ کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ وہ کچھ دیر اِدھر ُادھر گھوم کر سیدھے واپس گھر آ گئے۔ انہوں نے پورچ میں کاریں کھڑی کیں اسے یوں لیا جیسے اس کی پوری حفاظت کر رہے ہوں۔ وہ ایک کمرے کی جانب بڑھ گئے اور اسے صوفے پر بٹھادیا۔
اس دوران اکبر نے اس کا پسٹل نکال لیاتھا۔ سلمان اس کے پاس گیا اور اس نے بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا۔
” کچھ چاہئے؟“
” پلیز تھوڑی سی وہسکی۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
” اوکے ۔“ سلمان نے کہا اور باہر چلا گیا۔
میں دیکھ رہاتھا کہ وہ کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوا ہے ۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس نے جلدی سے کال ملائی تو گیت کی آواز ابھری
” یہ بھارت کے نمبر ملا رہا ہے ، بات کروا دوں یا ڈراپ کر دوں؟“
” بات کرواؤ، تاکہ اسے پتہ چلے کہ یہ ٹریپ ہو چکا ہے پھر اس نمبر کی ہر کال سننا۔
“ اکبر نے تیزی سے کہا۔
” نہیں، مجھے ذرا سا وقت دیں۔ نمبر تو آ ہی گیا ہے، پہلے میں… “ سلمان نے تیزی سے کہا شاید وہ اپنے انداز سے اس ایجنٹ کو قابو کرنا چاہ رہا تھا۔
” اسے بات کرنے دو ، دیکھو تو سہی وہ کس سے بات کر رہا ہے ۔ پھر اسے دیکھ لینا۔“ میں نے کہا تو بات ان کی سمجھ میں آ گئی ۔ چند لمحے بعد اس کی کال مل گئی۔ اس نے تیزی سے کہا۔
” سر !یہ کیا سچویشن ہے ۔“ اس نے پوچھا۔
” کیسی سچویشن، بات کیا ہے ؟“ دوسری طرف سے سوال کیا گیا۔ تب اس نے انتہائی اختصار سے روداد سنا دی تو دوسری طرف سے کہا گیا۔” ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے ، تم ٹریپ ہو چکے ہو۔ فوراً یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو۔“
” اوہ!“ اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ فو ن بند ہو گیا۔
سلمان نے وہ سب سنا اور اٹھ گیا۔
اس نے ایک الماری سے بوتل نکالی، گلاس لیا اور زویا کو برف لانے کا کہہ کر کمرے میں چلا گیا۔ اس نے بوتل میز پر رکھی اور گلاس اسے تھما دیا۔ ایجنٹ نے جلدی سے گلاس لیا اور بوتل کھول کر اس میں سے شراب انڈیلی۔ اتنے میں زویا برف لے کر پہنچ گئی ۔ اس نے انتظار بھی نہ کیا اور شراب حلق میں انڈیل لی ۔ زویا ساتھ میں بیٹھ گئی ۔
” تم نے جس نمبر پر فون کیا ہے اب وہاں فون مت کرو ۔
اب اس نمبر سے تمہاری کال کوئی نہیں سنے گا ۔“ سلمان نے اس کا سیل فون پکڑتے ہوئے سکون سے کہا۔
” کیوں ؟“ اس نے خو دپر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
” تمہیں درست بتایا گیاہے کہ تم ٹریپ ہو چکے ہو۔ دراصل ہم خون خرابہ پسند نہیں کرتے اور نہ ہی تشدد کے قائل ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ تم ہمارے ساتھ تعاون کرو۔“ سلمان اسے یوں کہہ رہا تھا جیسے وہ اس کا بہت اچھا دوست ہو۔
” کون لوگ ہو تم؟“ اس نے سرسراتے ہوئے پوچھا۔
”فضول بکواس نہ کرو۔ ہم نے کوئی تمہارا نام پوچھا۔ ہے،جو تم ہمارے بارے میں پوچھ رہے ہو۔“ سلمان نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
” کیا چاہتے ہو تم لوگ؟“ اس نے پر اعتماد انداز میں کہا تو سلمان نے خوش ہو کر کہا۔
” ہاں یہ ہوئی نا بات ۔“ اس دوران اس نے گلاس میں شراب ڈالی اور گلاس اس کے آ گے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
” دیکھو ‘ہم سے تعاون کرو گے تو کچھ نہیں کہیں گے ، بلکہ مہمان نوازی کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں، تم وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہو ۔“
” دھمکیاں مت دو، کام کی بات کرو۔ “ اس نے شراب کا گلاس اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
” کیا ٹاسک دیا گیا ہے تمہیں یہاں؟“ سلمان نے کہا تو سامنے بیٹھے ایجنٹ نے اچانک گلاس سلمان کے منہ پر دے مارا۔
وہ پوری طرح تیار بیٹھا ہوا تھا، ہلکی سی جھکائی دے گیا۔ گلاس فرش سے ٹکرا کر چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ تب تک ایجنٹ نے سلمان پر چھلانگ لگا دی تھی۔ جب تک ایجنٹ زمین پر گرتا، تب تک زویا بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھی اور اس نے فرش پر گرنے سے پہلے ایجنٹ کے منہ پر زور دار ٹھوکر ماری۔ وہ ذرا سا اُچھلا اور فرش پر آ رہا۔ زویا نے اس کی گردن پر اپنی ہیل ماری تو وہ وہیں سُن ہو کر لیٹ گیا۔
سلمان نے آگے بڑھ کر اسے کالر سے پکڑا اور اسے اُٹھایا۔ اس کا چہرہ لہو لہان ہو رہا تھا۔
” اے لڑکی تو نے بہت زور سے مارا ، بھلا کوئی ایسے مارتا ہے ، دیکھو، اس طرح مارتے ہیں۔“ اس نے کالر والا ہاتھ اوپر کیا اور پھر پتلون کو پکڑا اور زور سے دیوار میں دے مارا۔ اس کی چیخ بلند ہوئی پھر بے جان سا ہو کر فرش پر گر گیا۔ سلمان نے بڑھ کر میز سے شراب کی بوتل اٹھائی، اور اس کے دونوں پیروں پر انڈیل دی ۔
پھر ماچس کی تیلی جلانے کے لیے رگڑی ہی تھی کہ وہ خوف سے چیخنے لگا۔
” نہیں، مجھے مت مارو۔“
” نہیں صرف پیر جلائیں گے ۔ شراب کا یہ مزہ بھی تو چکھو، دیکھو کیسے جلاتی ہے ۔“ سلمان نے سرد لہجے میں یوں کہا جیسے بہت غصے میں ہو ۔
” میں نے غلطی کی۔ میں مانتا ہوں۔“ وہ رو دینے والے لہجے میں بولا تو سلمان نے کہا۔
” ہم نے تو کہا تھا کہ تعاون کرو ۔
“
” بولو کیا پوچھنا ہے ؟“ اس نے کراہتے ہوئے کہا۔
”کیا ٹاسک ہے تمہارا؟“ سلمان نے دہرایا
” اِدھر اسلحہ آتا ہے ، کہاں سے آتا ہے مجھے نہیں معلوم ، میرا کام صرف یہ ہے کہ اسے بلوچستان اور سندھ کے علاقے تک پہنچانا ہوتا ہے ۔ بہت سارے مقامی لوگ میرے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔“ اس کا لہجہ تک درد بھرا تھا۔ سلمان چند لمحے خامشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر دھیمے سے پوچھا۔
” یہ کیسے ہوتا ہے ؟“
” نوٹ، سب کچھ نوٹ کرتا ہے ، یہاں ہر بندہ بکاؤ ہے، بس ریٹ اس کے مطابق لگانا پڑتا ہے ۔“ وہ کراہتے ہوئے جوش میں یوں بولا جیسے وہ گالی دے رہا ہو۔ تبھی میں نے کہا۔
” سلمان !فی الحال اِسے باندھو اور یہیں پڑا رہنے دو۔ بعد میں دیکھتے ہیں۔“
اس نے ویسے ہی کیا اور دو چار منٹ میں اسے باندھ کر وہیں ایک کونے میں ڈال دیا۔
وہ ہولے ہولے کانپتے ہوئے کراہ رہا تھا، وہ دونوں اُسے وہیں چھوڑ کر کمرے سے باہر آ گئے ۔ واپس کنٹرول روم میں آ کر اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔
” ابھی اس سے بہت کچھ معلوم کیا جا سکتا تھا۔“
” جلدی کس بات کی ہے ۔ رات بھر ہے نا تمہارے پاس ، سیٹھ نیلا اور اس کے مخالف، دونوں طرف کی بات سنو، وہ کیا کہتے ہیں، اسی کے مطابق اس سے پوچھنا، اور پھر صبح ہونے سے پہلے …“ میں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی ۔
” لیکن اس سے یہ تو معلوم ہو سکتا ہے کہ اسلحہ کیسے آتا جاتا ہے ، کون لوگ ہیں اس میں؟“ زویا نے تیزی سے کہا تو میں سکون سے بولا۔
” اسے اس وقت نہیں روکا جا سکتا، جب تک بھیجنے والے خریدنے والے موجود ہیں۔ رسد تبھی آتی ہے جب طلب موجود ہو۔ ہمیں طلب ختم کرنی ہے ۔“
” اوکے ۔ “ اس نے یوں کہا جیسے میری بات سمجھ گئی ہو ۔ اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ انہیں ابھی بہت کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے ۔
” تم لوگ کھانا وانا کھاؤ۔ پھر صبح تک کوئی آؤٹ پٹ نکلنا چاہئے۔“میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دئیے۔ ہم وہاں سے اٹھ کر باہر ڈرائنگ روم میں آگئے۔جہاں دارے نے کھانا لگا دیا تھا۔