Episode 43 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 43 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 ابھی صبح کی روشنی پھیلی نہیں تھی جب ٹرین بوریولی اسٹیشن کے قریب پہنچ گئی ۔ وہاں پر اُن کے چند خاص لوگ موجود تھے ، جنہیں زور دار سنگھ نے بھیجا ہوا تھا۔ انہوں نے ہر طرح کا جائزہ لے لیا ہواتھا ۔ وہ جگہ ان کے لیے محفوظ تھی۔ ٹرین رُکی تو انہوں نے کھڑکی سے دیکھا۔ ان کی پہچان کے مطابق کافی لوگ تھے ۔ وہ بڑے سکون سے اُترے اور باہر کی جانب چل دئیے۔
ان تینوں کے لیے ٹیکسی موجود تھی، وہ اس میں بیٹھے اور چل دئیے۔ وہ ہری اوم نگر کا علاقہ تھا جہاں کارٹر روڈ پرکویتا اپارٹمنٹ کے سامنے ٹیکسی جا رکی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ تیسری منزل پر گئے تو ایک اپارٹمنٹ ان کا منتظر تھا ۔ جس کے سامنے والے اپارٹمنٹ میں رونیت کے سارے دوست موجود تھے۔ تقریباً تیس گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد وہ کافی حد تک تھک چکے تھے۔

(جاری ہے)

وہاں ان کے لیے ملازمین کے نام پر کچھ سیکورٹی گارڈ تھے۔ انہوں نے ایزی ہو کر کھانا کھایا ۔ پھر چائے پیتے ہوئے سب اکٹھے تھے۔ تبھی بانیتا کورنے انہیں مخاطب کرتے ہوئے گہری سنجیدگی سے کہا۔
” یہاں ہم نے زیادہ دیر کے لیے نہیں رہنا لیکن جتنا بھی رہنا ہے، بالکل ایک عام سے شریف شہری کی طرح زندگی بسر کرنی ہے۔اس شہر کو خوابوں کا شہر کہا جاتا ہے۔
خواب پورے کرو، انجوائے کرو لیکن اپنے کان اور آنکھیں کھول کر رکھو۔ زندگی بہت قیمتی ہے مگر ہمارا مقصد زیادہ قیمتی ہے ، جس نے آ ئندہ آ نے والی نسلوں کو زندگی دینی ہے ۔“
” اس میں کوئی شک نہیں،ہم اپنی زندگی تک دینے کو تیار ہیں۔ لیکن یہاں کون ڈیل کرے گا ، سندو تو ابھی اسپتال ہی میں ہوگا۔“ 
” جب تک سندو منظر عام پر نہیںآ تا،تب تک رونیت کور سب کو ڈیل کرے گی۔
تم لوگ کل ہی سے مختلف کمپنیوں کو جوائن کرو گے اور ممبئی میں پھیل کر رہو گے۔ میں اور جسپال سنگھ تم سب کے ساتھ ٹچ رہیں گے کیونکہ ہم ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتے یہ ہماری مجبوری ہے ۔“ اس نے سنجیدگی ہی سے کہا اور اٹھ گئی تو سب بھی چلے گئے۔
وہ تینوں ایک کمرے میںآ گئے تو بانیتا کوربولی۔
” نوتن کور یہاں پہنچ چکی ہے اور اس نے ہمارے لیے سارا سیٹ اپ بنا لیا ہوا ہے۔
مجھے اور جسپال کوابھی یہاں سے نکلنا ہے اور رونیت، جب تک یہ سب اپنے ٹھکانے تک نہیں پہنچ جاتے تجھے یہاں رہنا ہوگا۔“
” اوکے۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ دونوں کویتا اپارٹمنٹ سے جانے کے لیے نکل پڑے ، ان کی منزل کیا تھی ، یہ انہیں نوتن نے بتانا تھا ۔
#…#…#
 دوپہر ہو نے کوتھی ۔ مقامی میڈیا چیخ رہا تھا۔ مگر ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
پولیس فورس کے بارے میں مختلف باتیں گردش کرنے لگی تھیں۔کراچی جو کبھی امن کا گہوارہ تھا ان دنوں مافیا اسٹائل کے قتل اور اغوا برائے تاوان سے لے کر عسکریت پسندی تک ، بم دھماکے اور فرقہ وارانہ قتل ، بوری بند لاشیں اور نوگوایریا ز اب شہر کی پہچان بن گئی تھی ۔بارود کے ڈھیر پر پڑے اس شہر میں جرائم کی سطح آخر کیوں بڑھ رہی ہے ؟یہی وہ بنیادی سوال ہے، جس کا جواب ہر شہری کو سوچنا ہوگا۔
کراچی اور ممبئی میں جہاں کئی معاملات میں تضاد ہے وہاں مماثلت بھی ہے۔کہیں جرائم کے معاملے میں ان شہروں کی مماثلت تو نہیں؟ کئی سارے سوال تھے جو میرے ذہن میںآ تے چلے جا رہے تھے ، مگر سب کا جواب ایک ہی تھا۔ کسی بھی بیماری کی علامت کو ختم کرنے کے لیے اس کی بنیادی وجہ کو تلاش کر کے ہی اس کا علاج کیا جاتا ہے ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ بیماری کیا ہے ؟ صرف علاج سے گھبرا رہے ہیں۔
جرائم کو ختم کرنے کے لیے جرائم کی دنیامیں اترنا بہت ضروری تھا۔میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک ایک خیال میرے ذہن میں سرائیت کر گیا۔ میں کچھ دیر اس پر سوچتا رہا، پھر میں نے اپنے طور پر فیصلہ کر لیا کہ چونکہ یہ ایک تجربہ ہوگا، اس کے بارے میں کسی کو نہ بتایا جائے، جب نتائج سامنے آئیں گے تو ہی اسے سب پر ظاہر کیاجائے۔میں اسی وقت اٹھ گیا۔
کنٹرول روم میں مہوش اکیلی بیٹھی گیت اور زویا سے گپ شپ کر رہی تھی۔ ان کے درمیان کوئی نیا سوفٹ وئیر زیر بحث تھا۔ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
” سوری ، میں نے ڈسٹرب تو نہیں کیا، کہتے ہیں کہ جس مرد کی شامت آئی ہو وہ خواتین میں جا بیٹھتا ہے ۔“
” اگر شوق ہے شامت کا تو وہ پورا کر دیتے ہیں۔“ گیت نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
” نہیں مجھے کوئی شوق نہیں۔
“ میں نے کہا لیکن ساتھ ہی سنجیدگی سے پوچھا۔
” زویا، یہ جو ہم نے کراچی میں سارا منظر بنا دیاہے، کیا اس کا کوئی فائدہ ہے ؟“ 
” سوائے اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دوبئی یا کسی دوسرے ملک میں بیٹھے ہوئے مداریوں کو اپنے ہونے کا احساس دلایا جائے ۔ “ گیت نے جواب دیا
” اور ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہونے والا ، سوائے چند دن کام رُک جانے کے۔
وہ اپنے نئے گھوڑے بنا لیں گے۔“
” کیا وہ مداری قسم کے لوگ تم لوگوں نے ٹریس کر لیے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
” نمبروں کی حد تک اور لوکیشن کے بارے میں ہمیں سو فیصد معلومات ہیں اور دوبئی میں موجود اس بندے کرامت جونیجوکے بارے میں پوری معلومات ہیں، جو یہاں جوا مافیا، اور اسلحہ اور دوسرے کئی جرائم میں ملوث ہے۔“ زویا نے بتایا تو میں نے پوچھا۔
” اس کے کام کا طریقہ کار بھی؟“ 
” کافی حد تک کی یہ ضروری ہے؟“ اس نے پوچھا۔
 ” اگر یہ ہو جائے تو کچھ نیا کیا جائے ؟“ میں نے کہا تو وہ سب آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ اس دوران جنید اور فہیم آگئے۔ تھوڑی دیر بات سمجھتے رہنے کے بعد فہیم بولا۔ 
” ہم کوشش کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ایسا ممکن ہے، ہو جائے گا۔“
” تو کرو، یہ سلمان اور اکبر کدھر ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
” وہ کچھ کارگو کروانے گئے ہیں لاہور کے لیے ۔ آتے ہی ہوں گے۔“ جنید نے بتایا
” میں رابطہ کرلیتا ہوں۔“ میں نے کہا اور اپنے سیل فون پر ان سے رابطہ کرنے لگا۔ وہ ٹرکوں والے اڈے پر موجود تھے۔ میں نے ان کے واپس آ جانے تک انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ تین گھنٹوں کے بعد وہ اسکرین پر میرے سامنے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سولہ کروڑ میں سے چودہ کروڑ لاہور کارگو کروا دئیے ہیں ۔
وہ پہنچا دئیے جائیں گے ۔ اس کے بعد وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ بات کیا ہے؟ 
” کیا تم آج ہی دوبئی جا سکتے ہو ؟“ میں نے پوچھا۔ 
 ” کیوں نہیں، بس ٹکٹ خریدنا ہوگا۔ میں ایسا بندوبست رکھتا ہوں۔“ اس نے جواب دیا
” تو پھر آج ہی دوبئی کے لیے نکلو، تمہارے ساتھ کوئی بھی جاسکتا ہے تو اسے لے جاؤ۔“ 
” کرنا کیا ہے ؟“ زویا نے سنجیدگی سے پوچھا۔
” کرامت جو نیجو کا قتل اور اسے یوں ٹھکانے بھی لگانا ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔“
” میں جاتی ہوں اس کے ساتھ، ہو جائے گا ۔“ زویا نے کہا تو سب اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ 
وہ دونوں دوبئی جانے کی تیاری میں لگ گئے اور ان سب نے پوری توجہ اس پر لگا دی کہ کرامت جونیجو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات مل جائیں۔ دوگھنٹوں کے بعد یہ معلوم ہوا کہ کرامت جونیجو دوبئی کے جنوب میں واقع ایک صحرائی علاقے الفقع میں جا رہا ہے ۔
جہاں کوئی فنکشن تھا۔
” میں فنکشن کے بارے میں جانتی ہوں۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ وہ ہمیں وہاں مل جائے گا۔ میرے خیال میں اس سے اچھا وقت کبھی نہیں مل پائے گا۔“ زویا نے انتہائی پر جوش ہوتے ہوئے کہا۔
شام ہونے تک سلمان اور زویا دوبئی پہنچ گئے۔ اس دوران وہ دونوں ہمارے رابطے میں تھے۔ ان کی آواز ہی نہیں تصویر بھی ہمیں دکھائی دے رہی تھی۔
اس وقت ان دونوں کے ساتھ بڑا جذباتی تعلق محسوس ہو رہا تھا۔ سلمان کے دوبئی میں کچھ غیر پاکستانی دوست تھے۔ ان میں دو لڑکیاں اور دو ہی لڑکے تھے ۔ وہ ایک اعلی ریستوران میں کھانا کھا چکے تھے، جب کرامت جو نیجو دوبئی سے نکل کر اس صحرائی علاقے کی جانب چل پڑا۔ اس کے ساتھ کتنا لاؤ لشکر تھا یا نہیں تھا اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔ وہ بھی اسی وقت اس علاقے کی جانب چل نکلے۔
انہوں نے پتہ کر لیاتھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ یہ وہاں کی ثقافتی روایت ہے کہ بیچ صحرا میں رات کے وقت رقص اور مے کشی سے لطف اندوز ہوا جائے۔ وقت اور حالات کے مطابق اس میں تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ لوگ بدلے تو انداز بھی بدل گئے۔
 وہ گاؤں بیچ صحرا میں تھا، جس سے دو کلو میٹر آ گے وہ میلہ نما تقریب تھی ۔ دور قناتیں لگی ہوئی تھیں ، جس کے درمیان میں روشنی اتنی تھی کہ آسمان کی طرف اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہیں پر سیکورٹی کا پہلا حصار تھا۔ان کی اچھی طرح سے جامہ تلاشی لی گئی اور آ گے جانے دیا گیا۔ قناتو ں سے کوئی سو قدم پہلے پھر اسکینگ کی گئی تو وہ اندر داخل ہو سکے۔ غیر ملکی اور لڑکیوں کا ساتھ ہونے کے باعث ان سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوئی تھی۔ 

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط