Episode 44 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 44 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

اندر کا سماں ہی کچھ عجیب تھا۔ عربی موسیقی کی دھن گونج رہی تھی۔ عین درمیان میں سرخ قالین بچھے ہوئے تھے، جن پر ایک نیم برہنہ رقاصہ تھرک رہی تھی۔ اس کا نیلے رنگ کا لباس چمک رہا تھا ۔ ایک طرف بے شمار برانڈ کی شراب کی بوتلیں سجی ہوئی تھیں ، جہاں سے لوگ پی رہے تھے۔ ایک طرف مختلف انواع و اقسام میں بنے گوشت کے کھانے تھے، لوگ ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے، کچھ پہلو میں لڑکیوں کو بٹھائے اپنی مستی میں گم تھے ۔
وہاں پر ہر طرح کی مستی کا پورا سامان میسر تھا۔ سلمان اور زویا کو وہاں کرامت جونیجو کی تلاش تھی۔ وہ بھی ایک قالین پر جا بیٹھیں۔
” ایک کمی ہے یہاں۔ مطلب ان کی مستیاں ایک خاص حد تک ہی جا سکتی ہیں، اس سے آگے تو بس تشنہ کامی ہے۔“ سلمان کے ایک دوست نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا تو دوسرا دوست ہنستے ہوئے بولا۔

(جاری ہے)

” جس تشنہ کامی کی تم بات کر رہے ہو ،اس کا راستہ یہیں کہیں سے نکلتا ہے ۔
یہاں سے کچھ فاصلے پر خیمے لگائے گئے ہوں گے ، کیونکہ یہ اس فنکشن کا حصہ ہے۔ جو جسے میسر ہوگا، وہی اپنے لیے مخصوص خیمے میں جا کر اپنی موج مستی کرے گا۔ “
” یعنی پورا اہتمام ہے۔“ ایک لڑکی نے کہا۔
” مگر ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ، ہمیں کسی وقت بھی چیک کیا جا سکتا ہے ۔ “ ایک دوست نے کہا۔
” لیکن یہ اس وقت ہوگا جب میزبان یہاں آئے گا اور وہ سب سے ملے گا۔
“ دوسرے نے بتایا۔
” مصیبت یہ ہے کہ وہ بندہ بھی تو تلاش کرنا ہے۔“ سلمان نے کہا تو گیت کی آواز گونجی
” سلمان۔ حلیہ ذہن نشین کرو، گول بھاری چہرہ، سندھی انداز کی خشخشی داڑھی کے ساتھ بھاری مونچھیں، کنجی آنکھیں، ناک پتلا اور ذرا سا خمیدہ، موٹی گردن اور دائیں گال پر زخم کا ہلکا سا نشان۔ یہ تصویر اس کی بزنس کمپنی کی سائیٹ پر لگی ہوئی ہے۔
” وہ رہا۔“ ایک دم سے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے زویا نے پر جوش لہجے میں کہا تو سلمان بولا۔
” اب اسے میں…“
” نہیں تم ٹھہرو، میں دیکھتی ہوں ۔“ یہ کہتے ہوئے زویا اٹھ گئی۔ تبھی سلمان اور اس کے ساتھی الرٹ ہو گئے۔
زویا دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس جا پہنچی ۔ وہ اس و قت جام ہاتھ میں لیے پوری توجہ سے رقاصہ کے رقص میں کھویا ہوا تھا۔
وہ اس کے قریب جا بیٹھی اور حتی الامکان اپنے لہجے کو خواب ناک بناتے ہوئے بولی۔
” ہیلو ، سر کرامت!کیسے ہیں آپ؟“
اس نے زویا کو عجیب سی اجنبیت کے ساتھ دیکھا اور پھرا کتائے ہوئے لہجے میں بولا۔
” میں نے تمہیں پہچانا نہیں۔“
” میں کب کہتی ہوں کہ آپ مجھے پہچانیں،ماضی کو یاد رکھنا بھی نہیں چاہئے۔میں تو ایک نئی ڈیل کے ساتھ یہاں آپ کے پاس آئی ہوں۔
“ زویا نے لہجے کو بارعب بناتے ہوئے کہا۔
” میں سمجھا نہیں، کیا کہنا چاہ رہی ہو؟“ اس نے پوچھا۔
 ” جب بات ہوگی تو ہی سمجھ میںآ ئے گی۔ یہاں اس ماحول میں ہو نہیں سکتی۔ میں کراچی کی تازہ صورت حال کے بارے میں بات کرنے آئی ہوں۔“ اس نے کہا تو کرامت نے چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟“
” وہی جو میں اپنے باس کی طرف سے آپ کے لیے پیغام لے کر آئی ہوں۔
سیٹھ نیلا سمیت ساری ڈیل ہو جائے گی۔ باقی آپ کی مر ضی۔“ زویا نے کہاتو اس نے چونک کر دیکھا اور اٹھ گی۔ تبھی وہ جام رکھ کر اضراری انداز میں اٹھ کھڑا ہوا۔
” تم کون ہو ؟ اور یہ باتیں…“
” آپ تو بچوں والی باتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں کرامت جونیجو سے بات کر رہی ہوں۔“ زویا کا لہجہ اکتایا ہوا تھا۔
” چل بات کرتے ہیں۔“ اس نے ایک طرف آنے کا اشارہ کیا تو زویا جان بوجھ کر باہر کی جانب جانے لگی۔
وہ دونوں خاموشی میں آگے بڑھتے گئے۔ قناتوں سے باہر آ جانے پر اس نے پوچھا
” اب بتا ، کیا کہتی ہو ؟“
” آپ کے مخالفین یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ کراچی پر قابو پا لیں۔ گھاس منڈی سے لے کر جہاں تک آپ کا سکہ چلتاہے۔یہ ان کی ابتدا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ ڈیل کرو تو انہیں سمندر میں پھینک دیں گے۔“ زویا نے انتہائی اعتماد سے کہا۔
” ڈیل کون کرے گا؟“ اس نے پوچھا۔
” میرا باس، اگر آپ ابتدائی باتیں ڈن کر لیں تو۔“ زویا نے اسی بااعتماد لہجے میں کہا۔
” کہاں بات کرنی ہے ؟“ اس نے پوچھا۔
” جہاں آپ چاہیں۔“ اس نے تیزی سے جواب دیا تو وہ اسے ان خیموں کی جانب لے کر چل دیا۔ پھر اچانک اسے خیال آیا وہ پلٹا اور اس طرف چل پڑا،جہاں ان کی گاڑیاں کھڑیں تھیں۔
وہ جیسے ہی ایک جدید فوروہیل کے پاس آیا، اس کے دو گارڈ فوراً سامنے آگئے۔ کرامت نے اشارہ کیا تو انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ وہ دونوں اندر جا بیٹھے۔ اس سے پہلے وہ کوئی بات شروع کرتے سلمان کے ساتھ ایک دوست وہاں وہیں پہنچ گئے۔ گارڈاگرچہ الرٹ تھے مگر انہیں صرف یہی احساس تھا کہ اندر ان کا باس ایک لڑکی کے ساتھ ہے۔ ان کی پوری توجہ اندر کی طرف ہی تھی۔
جیسے ہی سلمان ان کے سر پر پہنچا، وہ مڑے تب تک دونوں ان پر آن پڑے۔ سلمان نے پوری طرح انہیں ہلنے نہیں دیا ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ دوسرے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ ریت پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ 
” بولو، کیا ڈیل کرنی ہے ؟“ کرامت جو نیجو نے جیسے ہی کہا زویا اس پر ٹوٹ پڑی۔ وہ خاصا سخت جان تھا اور پہلے ہی سے محتاط تھا۔
اس کے وار سے بچ گیا۔ اس نے زویا کی گردن قابو میں کر لی اور اسے سیٹ پر لٹا دیا ، ایسے میں دروازہ کھلا اور سلمان اندر آ گیا۔ اس نے کرامت کی گردن پکڑی اور ایک زور دار جھٹکا دیا۔ وہ پورے بدن سے لرزا اور تڑپنے لگا۔ زویا نے اپنی گردن چھڑائی اور تیزی سے پیچھے ہٹی۔ اس کے دوست نے دروازے کھولے اور دونوں گارڈز کو گاڑی میں پھینک دیا۔ پھر دروازے بند کر کے واپس چل پڑا۔
سلمان نے چابی ٹٹولی تو کرامت کے پاس سے نکل آئی ۔ اس نے فور وہیل موڑی اور چل دیا۔
وہ بستی میں جانے کی بجائے اس کے قریب سے آ گے بڑھ گئے۔ اس کے دوست پیچھے پیچھے آتے ہوئے بستی سے سیدھے دوبئی کی جانب نکل پڑے۔ کرامت کی جیپ جاندار تھی ۔ وہ صحرا کی جانب چل پڑے۔ کافی دور جا کرزویا نے اس کا سیل فون قابو میں کیا تو سلمان نے ان تینوں کو صحرا میں پھینکا اور واپسی کے لیے پلٹ گیا۔
زویا نے سیل فون سے سم کارڈ نکالا اور سیل فون باہر پھینک دیا۔
” ویل ڈن۔ اب یہ سم کارڈ اپنے سیل میں ڈال لو اور کسی محفوظ مقام پر چلے جاؤ۔“ میں نے کہا۔
” اوکے ۔“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
 میرے سامنے میز پر کراچی میں موجود ان دو لوگوں کے نمبر تھے ، جن سے کرامت جونیجو کا رابطہ تھا۔ یہی اس کے تمام تر پھیلاؤ کے ذمے دار تھے۔
میں نے سب کو پانی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
” سب سنو‘کیا میں کرامت جونیجو کی آواز میں بات کر سکتاہوں۔“
” سو فیصد تونہیں لیکن چلے گا، ایک سوفٹ وئیر ہے جس سے آواز کو اس کے مطابق بنایا جا سکتاہے۔“ گیت نے کہا تو مہوش نے ہنستے ہوئے کہا۔
” یہاں تو بے سُرے ترین لوگ گلوکار بنے ہوئے ہیں، یہ تو بس آواز کو ذرا بھاری کرنا ہے ، تو نے کون سا گانے گنوانے ہیں؟“
 اس سمیت سبھی سمجھ گئے تھے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں ۔
مجھے اچھی طرح معلوم ہو گیاتھا کہ ان دونوں سے وہ کیسے کام لیتا ہے اور اس وقت ان کے درمیان کیسی بات چل رہی تھی۔ کرامت کے بات کرنے کا انداز میں سمجھ ہی گیا تھا۔ ایک گھنٹے بعد زویا اور سلمان بار دوبئی میں اپنے دوستوں کے پاس جا پہنچے۔ اس کا صرف فون آن رکھنا ضروری تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے کراچی میں موجود اس کے ایک کارندے فصیح صدیقی کو فون کر دیا۔
 ” کیا صورت حال ہے؟“ میں نے پوچھا۔
” وہ کیا خاک ہو گی۔ پیسہ پکڑا گیا، مخالفین نے سیٹھ نیلا کو پکڑ لیا اور ابھی تک آپ نے کچھ کیا نہیں۔“
” دیکھو‘میں بہت کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن ساری کوشش کس لیے غلط ہو رہی ہے معلوم ہے تجھے ؟“
” نہیں تو،کیا مطلب؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
” وہ لطیف شاہ یہ سارا کام اسی کا کیا دھرا ہے ، وہ غدار ہو گیا ہے ، گھاس منڈی پر حکومت کرنے کے لیے ؟“ میں نے انتہائی غصے میں کہا۔
” ایسا کیا واقعی…“ اس نے انتہائی حیرت سے کہا۔
” یہ ساجد آیا ہے نا یہاں پر، اس نے ساری بات تفصیل سے بتائی،میں نے اس کی تصدیق کی ہے تو کنفرم ہو گیا۔ “ میں نے غصے کو کم نہیں ہونے دیا
” یہ تو ہمیں بھی لے ڈوبے گا۔“ وہ تشویش سے بولا۔
” لے ڈوبے گا کیا، اس نے سارے نام دے دئیے ہیں، تھانے سے پتہ تو کرو، اوپر سے آرڈر آنے والے ہیں۔
تم خود سوچواتنی بڑ ی ڈکیتی، اندر کے بندے کے علاوہ کوئی دوسرا کر سکتا ہے۔ سیٹھ نیلا کیسے پکڑا گیا، اس کے سارے راز کس نے دئیے ؟“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” تو پھر، اب کیا کرنا ہے؟“
” لطیف شاہ کا جو بھی ٹھکانہ ہے، اسے اُڑا دو۔ اسے بھی ختم کردو۔ کوئی ثبوت نہ رہے ۔اب اس کے بغیر چارہ نہیں۔ یہ کام آج رات ہو جانا چاہئے، سورج نکلنے سے پہلے اس کا کام تمام کرکے میرے پاس یہاں دوبئی آ جاؤ۔
“ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
” ہو گیا سمجھو۔“ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا تو میں نے فون بند کر دیا۔ چند لمحے بعد میں نے لطیف شاہ کا نمبر ملا لیا، یہی باتیں اس سے کر کے کہا کہ تجھے ختم کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ تمہیں ختم کرے ، تم اسے نیست و نابود کرکے دوبئی آ جاؤ۔ وہ تیار ہو گیا۔
 کوئی دو گھنٹے گذرے ہوں گے کہ گھاس منڈی اور اس کے گردو نواح میں شدید فائرنگ کی اطلاعات ملنے لگیں ۔ ٹی وی اسکرین پر خبریں دکھائی دینے لگیں تھیں۔ لمحہ بہ لمحہ اس میں شدت آنے لگی۔ ہنگامے بڑھتے گئے ۔
                                  #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط