Episode 45 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 45 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

جسپال سنگھ اور بانیتا کور دونوں ویرولی کے پوش علاقے میں نوتعمیر بنگلے میں تھے۔ ممبئی میں اُن کا پہلا ٹھکانہ وہی تھا۔ وہ کچھ دیر نیند کے بعد ڈنر لے چکے تھے اور باہر جانے کے لیے تیار تھے۔ انہیں گوپال نند سے ملنا تھا۔ اگرچہ وہ ہندو تھا، لیکن وہ شوشلسٹ ہونے پر زیادہ فخر محسوس کرتا تھا۔وہ انہی لوگوں میں سے ایک تھا، جنہوں نے ” را“ کی ٹاپ میٹنگ کی ویڈیو بانیتا کور تک پہنچا دی تھی۔
اگرچہ وہ را سے تعلق نہیں رکھتا تھا لیکن اس کی رسائی بہت دور تک تھی۔ بانیتا کور خود اس سے ملنا چاہتی تھی اور گوپال نند سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ ان لوگوں سے مل لے ۔ اس کے پاس کوئی کام تھا، جسے وہ کر سکتے تھے۔ اس نے انہیں ایک بار کا وقت دیا تھا۔ وہ ایک ایسا بار تھا جو ممبئی میں جگہ جگہ کھل گئے تھے اور وہاں ناچ گانے اور شراب پینے کے علاوہ اور بہت کچھ ہو تا تھا۔

(جاری ہے)

وہ زیادہ تر ” بھائی لوگوں “ ہی کی نگرانی میں چل رہے تھے۔ اس لیے ہر غیر قانونی کام وہاں ہو رہا تھا۔ انہوں نے کوئی گاڑی لینے کی بجائے پیدل ہی نکلنا پسند کیا تھا، وہ اس بنگلے سے نکلے اور پیدل ہی آ گے بڑھتے گئے۔ کافی آ گے جا کر انہیں ٹیکسی ملی تو وہ اس میں بیٹھ گئے ۔
 ایک گھنٹے کے بعد وہ اس بار کے سامنے تھے ۔ وہ میں سڑک سے ہٹ کر ایک گلی میں تھا۔
وہاں لوگوں کی رہائش کم اور اس طرح کے کلب اور بار کے علاوہ مختلف سٹور اور کھانے پینے کی دوکانیں تھیں۔ ایک طرح سے وہ جگہ نائیٹ فوڈ اسٹریٹ کے جیسی تھی۔ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ وہاں کچھ دیر پھرتے رہے پھر گوپال نند سے رابطہ کیا ۔ وہ اسی بار کے اندر بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اندر گئے تو خاصاشور تھا۔ وہاں کافی سارے جوڑے تھے۔ اس کے علاوہ بھی خاصی خواتین دکھائی دے رہی تھیں۔
انہوں نے محتاط انداز میں اسے تلاش کرنے کے لیے ادھر ادھر دیکھا ، جلد ہی ان کے فون پر کال آ گئی ۔ وہ انہیں دیکھ رہاتھا ۔ 
میز پر آ منے سامنے بیٹھتے ہی اس نے کھانے پینے کا پوچھا اور پھر کولڈ ڈرنک منگوا لیے۔جب تک کولڈ ڈرنک آئے انہوں نے اپنے درمیان اجنبیت کو ختم کر لیاتھا
” بات یہ ہے کہ یہاں کے اور امرتسر کے ماحول میں بڑا فرق ہے میں بھی یہ مانتا ہوں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے لیکن ماحول کوئی بھی ہو، اصل چیز حوصلہ ہے،جو کر جائے ۔
معاف کرنا میں صرف دھرم کے لیے کام نہیں کرتا، بلکہ اپنے نظریے کے لیے کام کرتا ہوں اور ہر کام کے لیے سرمایہ بھی تو چاہئے نا۔“
” ہمیں اس سے غرض نہیں کہ تم کیا کرتے ہو اور کیسے کرتے ہو۔ تمہارے پاس ہمارے لیے کیا آفر ہے؟“ بانیتا کور نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولا۔
” روکڑے کی آپ فکر نہیں کریں۔
وہ اتنا ملے گا کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے اور کام بہت سے ہیں، جیسا کام ہوگا ویسا روکڑا ہوگا۔“
 ”مثلاً؟“ بانیتا کور نے پوچھا۔ 
” مطلب،ان میں ایک کام یہ بھی ہے کہ ایک کمشنر لیول کے پولیس والے کو اُڑانا ہے۔“یہ کہہ کر اس نے استہزایہ انداز میں ان دونوں کی طر ف دیکھا تو جسپال سنگھ نے ایک دم سے کہا۔
” ڈن ہو گیا۔ جو اور جیسے تم چاہتے ہو وہ ہو جائے گا اگلی بات کرو۔
“ 
اس کے یوں کہنے پرگوپال نند نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
” یہ کام ایسا نہیں ہے کہ تم بازار جاؤ اور کوئی برگر پیزا لے کر آ جاؤ۔ پولیس کمشنر ہے وہ ۔“ 
” وہ لوہے کا بنا ہوا ہے یا اس کے لیے کوئی مخصوص گولی بنی ہے؟“ جسپال نے سرد لہجے میں پوچھا۔ 
” تمہارا کیا خیال ہے یہ بندہ ہمیں کام دے گا۔“اس نے بانیتا کور کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا پھر جسپال کی طرف دیکھنے لگا۔
” تمہیں کام سے غرض ہے نا،بولو، باقی میں دیکھ لوں گی۔“ بانیتا کور نے بھی کہا تو ایک د م سے بے چین ہو گیا۔ پھر سنجیدگی سے بولا۔
” میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ ایسا کام ہے لیکن تم لوگوں کو شایدپتہ نہیں ہے کہ یہ کام کتنا مشکل ہے ۔ میرے پاس دوسرے کئی کام ہیں، مثلاً اغوا ، کسی بزنس مین کا قتل ، منشیات یا اسلحہ کی ڈلیوری۔ سوچ لو ، ان میں جو تم لوگ کرنا چاہتے ہو تو کل شام میں تمہیں بتا دوں گا۔
” ڈن ہو گیا ۔“ جسپال نے کہا وہ غور سے اسے دیکھنے لگا پھر اس نے جسپال سے ہاتھ ملا تے ہوئے پوچھا۔
” مزید کچھ لیں گے ؟“
 گویا اس نے بات ختم ہو جانے کا ا شارہ دے دیا تھا۔ وہ دونوں کو ئی مزید بات کیے بنا وہاں سے اٹھ گئے۔ اس وقت وہ داخلی دروازے کی جانب جا رہے تھے۔ اچانک داخلی دروازہ دھڑسے کھلا اور کئی سفید لباس والے اندر داخل ہوتے چلے گئے۔
وہ سبھی کالی پتلون،اور سفید ہاف سلیوشرٹوں میں تھے۔ان میں تین لوگ آگے بڑھ گئے، دو ایک طرف چلے اور دودوسری جانب، دوبندے دروازے میں کھڑے رہے ۔ان کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ پورا پلان کر کے آ ئے ہیں۔ 
” یہ چھاپہ ہے جسپال ۔“بانیتا کور نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو اس نے بھی ہولے سے کہا۔
” جو بھی ہو اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔“
” دروازے میں…“ بانیتا کورنے کہنا چاہا کہ اندر سے چند لڑکیاں چیختی ہوئی باہر آئیں۔
وہ انہیں یوں دھکے دے رہے تھے جیسے وہ کوئی جانور ہوں۔ وہ بے تحاشا گالیاں بک رہے تھے۔ وہ وہاں پر موجود لوگوں کے ساتھ یوں سلوک کر رہے تھے جیسے یہ بہت بڑے مجرم ہوں۔ میوزک بند ہو گیاتھا۔ ناچتے ،تھرکتے ہوئے جوڑے ایک دم سے رُک گئے تھے۔ سفید لباس والوں نے انہیں بھی آ گے لگا لیا۔ وہ انہیں ریوڑ کی مانند ہانکتے ہوئے باہر کی جانب لانے لگے تو ایک سفید لباس والے نے بانیتا کورکے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا اور بازو سے پکڑ کر آگے کی جانب دھکیلا۔
دوسرے نے جسپال کی گردن پر مارا اور آگے دھکیلا۔ وہ دونوں بھی اس چھاپے کی زد میں آ گئے تھے۔ وہ ان سب کو ہانک کر سڑک پر لے آئے ۔ ان میں گوپال نند بھی تھا، جو مسکراتے ہوئے اُن کی جانب دیکھ رہا تھا۔ باہر پولیس کی جیپ کے ساتھ قیدیوں والی گاڑی بھی کھڑی تھی ۔ ایک سفید لباس والے نے زور سے کہا۔
” چلو، سب بیٹھو گاڑی میں۔“
اس آواز کی باز گشت میں ایک موٹا سا بندہ بار کے دروازے میں سے باہر آیا اور اونچی آواز میں بولا۔
” میں اس بار کا مینجر ہوں۔تم ایسے نہیں کر سکتے ، یہ بھائی کاعلاقہ ہے، پہلے اس سے بات کرو۔“ 
 اس کے یوں کہنے پر جیپ میں سے کسی ولن کی طرح ایک پولیس آ فیسر نکلا، اس نے بھی ویسا لباس پہنا ہوا تھا، وہ قد میں ان سے لمبا، سر سے کافی حد تک گنجا، بھاری چپٹی ٹائپ مونچھیں، فربہ مائل تھا۔ وہ آ گے بڑھا اور اس مینجر کے پاس جا کر ایک زور دار تھپڑ مارا پھر کہا۔
” بولو‘کیا کہہ رہے تھے تم ؟“
” دیکھو اے سی پی ، تم مجھے چاہے مار دو ، لیکن میں اپنے کسٹمرایسے نہیں لے جانے دوں گا۔ بھائی…“ اس نے کہنا چاہا تو اے سی پی نے اسے گریبان سے پکڑ کر زور سے دھکا دیا۔ وہ سڑک پر جا رہا۔ اے سی پی نے اپنا سروس ریوالور نکالتے ہوئے اونچی آواز میں حکم دیا
” سب کو بٹھاؤ گاڑی میں ، دیکھتا ہوں اس کے بھائی کو،۔
“ یہ کہہ کر اس نے مینجر کو لات مارتے ہوئے کہا ۔
 ”چل بُلا اپنے بھائی کو ، کتنی دیر میںآ ئے گا وہ سالا چوہا، میں کھڑا ہوں ادھر۔“ 
” بھائی تیرا جھگڑا بھائی سے ہے ، کسٹمر کو جانے دے، ادھر ہی بات کرتے ہیں۔“ مینیجر نے اَڑتے ہوئے کہا۔
”اوئے تیری توماں کا …“اس نے زور دار گالی کے ساتھ اسے گریبان سے پکڑ کر پھر زمین پر دے مارا۔
ارد گردکھڑے لڑکے تو پریشان تھے لیکن لڑکیاں رُو رہی تھیں۔ تبھی ان میں سے ایک لڑکی نے آ گے بڑھتے ہوئے اے سی پی سے کہا۔
” میں جرمنی سے آئی ہوں، ہم چھ لوگ ادھر وزٹ کے لیے آئے ہیں، آپ ہمیں ایسے نہیں پکڑ سکتے۔“
” اوئے اسے پہلے ڈال اندر، اس کی جرمنی تو ادھر پولیس اسٹیشن میں جا کر نکالتے ہیں۔ سالی جرمنی کی۔“ اے سی پی نے انتہائی غصے میں کہا۔
اس دوران جسپال نے بانیتا کورکی طرف دیکھا۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیصلہ کر لیا۔ مینجر سیل فون پر وہاں کے حالات بتانے لگا تھا۔ سفید لباس والے لڑکے لڑکیوں کو پکڑ پکڑ کر گاڑی میں پھینک رہے تھے۔ جیسے ہی ایک سفید لباس والے نے بانیتا کورکو پکڑا۔ اس نے پوری قوت سے اس کی ناک پر پنچ مارا۔ تب تک جسپال نے ہوا ہی میں چھلانگ لگائی اور سیدھا اے سی پی جا پڑا۔
اس کا پہلا ٹارگٹ ریوالور کو قابو میں کرنا تھا۔ اے سی پی کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اس پر یوں حملہ کر سکتا ہے ۔ اس کا ریوالور ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ جسپال اسے لیتا ہوا سڑک پر آ رہا۔ اے سی پی کسی اسپرنگ کی طرح اچھلا۔ تب تک جسپال نے اس کی کنپٹی پر کھڑی ہتھیلی کا وار کیا۔ ایک لمحے سے بھی کم وقت میں وہ مدہوش سا ہوگیا۔ اس دوران جسپال نے اپنا پسٹل نکال کر اے سی پی کی کنپٹی پر رکھ دیا۔
سبھی سفید لباس والے ایک دم سے وہیں رُک گئے۔ 
” اوئے مینجر، جلدی کر، سب کو نکال لو گاڑی میں سے اور بھگا دو، میں دیکھتا ہوں اسے، لگتا ہے اسے زندگی نہیں پیاری ۔“ جسپال نے اونچی آواز میں کہا۔
منیجریوں کایا پلٹنے پر ابھی تک حیران کھڑا تھا۔جب تک وہ آ گے بڑھا جو چند لوگ تھے، وہ گاڑی سے نکل آئے ۔ وہاں موجود لڑکے لڑکیاں تیزی سے بھاگتے چلے گئے۔ ان بھاگنے والوں میں گوپال نند بھی تھا۔وہاں میدان میں اے سی پی ، سفید لباس والے، وہ دونوں اور منیجر دنگ رہ گئے۔ بانیتا کور کو وہ بندہ یاد تھا جس نے اسے دھکا مارا تھا، وہ اس کے پاس گئی اور بالوں سے پکڑ کر ان سے الگ کر لیا۔ پھر اپنا پسٹل نکال کر اس کے ماتھے پر نال رکھتے ہوئے بولی۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط