” جسے زندگی پیاری ہے وہ اپنے ہتھیار پھینک دے۔“ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ ایک نے فائرکر دیا۔ وہ بہت محتاط تھی سفید لباس والے کو لیتے ہوئے سڑک پر لیٹ گئی۔ پھر وہیں پڑے پڑے اس پر فائر کر دیا۔ ان میں سے ایک چیخ مارتے ہوئے گر گیا۔ میدان صاف ہوا تھا یا انہیں باہر آنے میں دیر ہوگئی تھی، یا انہیں گمان نہیں تھا ، کچھ بھی تھا، ایسے میں اس بار میں موجود غنڈے اسلحہ سے لیس باہر آ گئے ۔
انہوں نے سب کو کور کر لیا۔ جسپال دوسری طرف مصروف تھا، اس نے ٹٹول کراے سی پی کا دوسرا ریوالور نکال لیاتھا۔ نیچے پڑے سفید لباس والے نے بانیتا کورکو قابو کرنا چاہا تو بانیتا کورنے اس پر بھی فائر کر دیا۔ جسپال نے اے سی پی کی ٹانگ پر نال رکھی اور ٹرائیگر دبا دیا۔ جیسے ہی دونوں نے فائر کیا، اسی لمحے انہوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا، اور پھر ایک دم سے ان سب کو چھوڑکر وہ ایک طرف بھاگ نکلے۔
(جاری ہے)
وہ بھاگتے چلے جا رہے تھے کہ ان کے ساتھ ایک ٹیکسی بھی دوڑنے لگی ۔ گوپال نند اس میں بیٹھ اہوا تھا۔ اس نے چلا کر کہا۔
” آؤ بیٹھو۔“
اس کے ساتھ ہی ٹیکسی آ ہستہ ہو گئی۔ وہ دونوں اس میں بیٹھے تو ٹیکسی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔
” یار اتنی خطرناک جگہ پر بلایا تھا تو نے۔“ جسپال نے گوپال نند کی طرف دیکھ کر کہا۔
” میں تو روز ادھر ہی آتا ہوں ۔
لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ بھائی کی اس اے سی پی کے ساتھ لگ گئی ہے ۔ ایسا کبھی ہوا نہیں تھا، ضرور اونچے لیول کی گیم ہوگی۔“ وہ بولا۔
” لیکن ہم تو مارے جاتے نا ، اب بھی پتہ نہیں کسی چوک پر دھر لیے جائیں۔“ بانیتا کور نے کہا۔
” دھیرج رکھو‘اب کوئی ماں کا لال ،اس علاقے میں سے ہمیں نہیں پکڑ سکتا۔ “ وہ چہکتے ہوئے بولا۔
” اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟“ بانیتا کورنے پوچھا۔
” کام مل گیا ہے، میں جس بندے سے ملوانے جا رہاہوں، اس سے اتنی جلدی ملاقات ہو نہیں پاتی۔“وہ اس لہجے میں بولا تو وہ کاندھے اُچکا کر رہ گئی۔
وہ ایک وسیع و عریض پرانے طرز کی حویلی تھی۔وہ گیٹ پر ہی رک گئے تو ٹیکسی آگے نکل گئی ۔ گوپال نند نے اگر اسے کرایہ نہیں دیاتھا تو یہی گمان کیا جاسکتا تھا کہ وہ انہی لوگوں کا آدمی ہوگا۔ گیٹ پر ہی ان کی تلاشی لے کر اسلحہ رکھ لیا گیا۔
ان میں وہ سروس ریوالور بھی تھا جو اس نے اے سی پی سے چھینا تھا۔ وہ نہتے ہوگئے تھے۔ وہ دونوں گوپال نند کے پیچھے چلتے چلے گئے۔ وہ حویلی کے اندر نہیں گیا،بلکہ اوپر سے گھوم کر حویلی کی پچھلی جانب پائیں باغ کے لان تک چلا گیا۔ جہاں کافی ساری کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ آس پاس چند سیکورٹی والے گھوم رہے تھے۔ وہ ان پر جا کر بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی دو ملازم مشروبات کے ساتھ کافی کچھ کھانے کو بھی رکھ گئے۔
گوپال انہیں سرو کر کے بولا۔
” یہ رام تیواری لعل جی کی آبائی حویلی ہے۔ اس وقت حکومت میں ہیں اور تین منسٹریز ان کے پاس ہیں۔“
” تو پھر تم نے ہمیں یہاں لا کر بہت بڑا رسک لیا ہے۔“ جسپال نے کہا۔
” ایسا شاید دِلّی میں ہو سکتا تھا، یہاں تو یہ بے تاج بادشاہ ہیں۔ لو آپ آ گئے۔“ گوپال نند نے کہتے ہوئے سامنے دیکھا اور تنومند سا چھوٹے قد کا سر سے گنجا شخص آتا ہوا دکھائی دیا جس نے کرتا پاجامہ اور واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔
اس کے پاؤں میں لیدر کے ہلکے سلیپر تھے۔ اس نے دور ہی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
” ویلکم ویلکم جی، بھئی ابھی تم لو گوں کی میں نے تعریف سنی، بہت دنوں سے میں ایسے ہی کسی بندے کی تلاش میں تھا۔“
” میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جی جو آپ کو فون پر بتا یا۔“گوپال نے خوشگوار لہجے میں کہا تو رام تیواری نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” اس نے بتایا تو ہوگا آپ کو لیکن ابھی تفصیلات نہیں بتا پاؤں گا۔ رابطے میں رہو۔ ہم کام بتا دیں گے۔“
” کام جو بھی ہو ، وہ آپ کی مرضی کا ، لیکن کرنا کیسے ہوگا ، یہ ہم جانیں اور ہمارا کام ۔“ جسپال نے کہا۔
” بس ،ہماری طرف کوئی انگلی بھی نہ ہو ،“ وہ ہنستے ہوئے بولا۔
” ایسا ہی ہوگا۔“ جسپال نے کہا تو وہ اٹھ گیا پھر ہاتھ ملاتے ہوئے بولا۔
” ہم آپ جیسے لوگوں کی قدر کرتے ہیں، اس لیے ملنے ادھر ملنے کو آگئے ، ورنہ اندر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، خیر ملتے رہیں گے باتیں ہوتی رہیں گی۔“ یہ کہہ کر وہ اُسی تیزی سے اندر چلا گیا۔
” چل ، اب تم لوگوں کو چھوڑ دوں۔“ گوپال نے کہا تو وہ اس کے ساتھ باہر کی جانب چل پڑے۔ وہ گیٹ پر آئے تو سوٹ میں ملبوس ایک بندہ وہاں کھڑا ہوا تھا۔ اس نے ایک چھوٹا سا پیکٹ انہیں دیتے ہوئے کہا۔
” یہ صاحب کی طرف سے آپ کو منہ دکھائی ہے۔“
اس پر جسپال نے گوپال کی جانب دیکھا اس نے لے لینے کا اشارہ کیا تو اس نے وہ پیکٹ لے لیا تو وہ شخص واپس حویلی کی طرف پلٹ گیا۔وہاں گیٹ سے انہوں نے اپنے پسٹل لیے ، سروس ریوالور وہیں چھوڑ دیا اور باہر آگئے۔ چند لمحوں بعد وہی ٹیکسی آ گئی۔ وہ اس میں بیٹھ گئے۔گوپال نند ان کے ساتھ ہی ٹیکسی میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
وہ دونوں پیچھے بیٹھ گئے۔ ذرا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد گوپال نند نے جسپال سے کہا۔
” اتنی جلدی ، اتنے بڑے بندے کے ساتھ ملاقات ہو جانا، کچھ عجیب سا نہیں لگا تمہیں؟“
” لگا تو ہے ، میں تم سے یہ پوچھنے والا تھا، خیر ، تم بتاؤتم کہنا کیا چاہتے ہو؟“جسپال نے جواب دینے کی بجائے سوال کر دیا۔
” میں تمہیں صاف بتا دوں،یہ سب اتفاق نہیں تھا،بلکہ میں نے اس کی پوری پلاننگ کی تھی، بولو تو ایک تیر سے تین شکار کیے ہیں۔
“ یہ کہہ کر وہ ذراسا خاموش ہوا ، جس پر انہوں نے کوئی بات نہ کی تب وہ کہتا چلا گیا۔
” بانیتا کورکے بارے میں بہت سنا تھا، اس کے بہت دور تک تعلقات ہیں یہ بھی میں جانتا ہوں، لیکن خود کیا ہے، یہ میں نے نہیں دیکھا تھا۔ سوچا تھا کہ اس سے وہ کام لیا جائے جو ان دنوں ہمارے لیے وبال بنا ہوا ہے ،لیکن ساتھ میں یہ سوال بھی تھا کہ یہ کر لے گی ؟“
” تو پھر ؟“ بانیتا کورنے چبھتے ہوئے کہا۔
” میں نے پلان کیا، تمہیں جان بوجھ کر اس بار میں بلایا۔ ادھر پولیس کو انفارم کیا کہ اس بار میں کیا کچھ ہوتا ہے ۔ بار کے مالک اور اے سی پی کی آپس میں لگی ہوئی تھی۔ اسے موقعہ دیا گیا ، کیونکہ بار کا مالک خود کو بھائی سمجھنے لگا تھا اور پچھلے کئی ماہ سے تیواری صاحب کو ہفتہ نہیں بھیج رہا تھا۔ تم لوگوں کا حوصلہ بھی دیکھ لیا، بار کے مالک کو سبق سکھادیا اور اے سی پی کو اس کی اوقات یاد دلادی، ہمارے کئی کام اڑا کر بیٹھا ہوا تھا۔
“
” مطلب تم ہم پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تم بہت خطرناک بندے ہو ؟ ایسے ہی نا ؟“ بانیتا کورنے انتہائی طنزیہ لہجے میں کہا۔
” تم اسے جو مرضی سمجھ لو،“ اس نے ڈھٹائی سے کہا۔
” چل روک ٹیکسی۔“ بانیتا کورنے ایک دم سے کہا تو ٹیکسی روک دی گئی۔ وہ دونوں اترے اور جسپال نے وہ پیکٹ واپس اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔
” میں ایسا کوئی تحفہ نہیں لیتا، میرے ساتھ کام ڈن کرو تو اپنی مرضی سے لوں گا۔
واپس کر دینا تیواری کو۔“
وہ ایک مارکیٹ میں اتر گئے۔
کیاخیال ہے تمہارا ، یہ گوپال نند… “ بانیتا کورنے مارکیٹ کی جانب بڑھتے ہوئے کہنا چاہا تو جسپال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے تبصرہ کیا
” اعتماد والا بندہ نہیں ہے ۔“
” لیکن تم جانتے نہیں ، یہ رام تیواری شکل سے جتنا احمق لگتا ہے ، یہ اتنا ہی خطرناک ہے اور خفیہ والوں کے اندر تک رسائی رکھتا ہے ۔
یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔“ بانیتا کور نے عام سے لہجے میں کہا۔
” چلو ، دیکھتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے موضوع ہی ختم کر دیا اور دو سری باتیں کرنے لگے۔ایسے میں نوتن کور کا فون آ گیا کہ وہ ان کے ہاں پہنچ چکی ہے۔ کچھ دیر وہاں وقت گزارنے کے بعدوہ بنگلے کی جانب چل پڑے۔
نوتن کور ان کے انتظار میں بیٹھی سیل فون پر گیم کھیل رہی تھی۔
جسپال نے محسوس کیا کہ نوتن کا رویہ بانیتا کورکے ساتھ مودبانہ تھا۔ اس نے پاکستان میں ہونے والی تمام باتیں بتادیں۔ پھر دو سیل فون نکال کر انہیں دئیے۔
” یہ وہاں سے تم لوگوں کے لیے تحفہ آیا ہے۔“
” ان میں کیا خصوصیت ہے۔“ بانیتا کورنے پوچھا۔
”یہ جدید ترین ٹیکنا لوجی ہے ، ابھی بلیک مارکیٹ میں ہے۔ ان سے تمہاری کال کہیں بھی ٹریس نہیں ہوگی۔
بے دھڑک جمال سے بات کر سکتی ہو۔“ نوتن کور نے کہا تو بانیتا کور کے چہرے پر انہونی خوشی پھیل گئی۔ چند لمحے بعد حسرت سے بولی۔
” میں اس سے تب ہی بات کروں گی جب میں اسے کوئی تحفہ دینے کے لائق ہوئی۔“
وہ رات گئے تک آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اس وقت صبح کے آ ثار واضح ہو رہے تھے جب جسپال نے جمال کو کال کر دی۔
#…#…#