اس وقت میں سونے کے لیے بیڈ پر لیٹا ہی تھا کہ میرا سیل فون بج اٹھا۔ اسکرین پر کوئی نمبر نہیں تھا۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے پر جوش لہجے میں جسپال سنگھ بولا۔
” کیسے ہو؟ “
” اوئے جسپالے تُو؟ مطلب میرا تحفہ پہنچ گیا۔اوئے کیسا ہے تُو؟“
” بہت ٹھیک ہوں۔ واہ گرو کی مہر ہے ۔ ممبئی میں ہوں“ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔
” اُو خوش کیا۔
تو ایسے کر ساری صورت حال لکھ دے ، پھر میں تجھے بتاتا ہوں کیا کرنا ہے۔“ میں نے سنجیدگی سے کہا تو وہ بولا۔
” ٹھیک ہے، مجھے یہاں سیٹ اپ بنانے میں وقت لگ سکتا ہے۔“
” کوئی بات نہیں، اتنے دن موج کر ، بانیتا کور بڑے دل والی ہے ، وہ بڑی اچھی دوست بھی ہے ۔“ میں نے کہا۔
” لیکن تیرے لیے بڑا جذباتی ہو جاتی ہے ۔
(جاری ہے)
“ اس نے ہنستے ہوئے بتایا
” وہ اس لیے کہ وہ خود بہت اچھی ہے ۔
“ یہ کہہ کر میں نے الوداعی باتیں کیں اور فون بند کر دیا۔ میرے اندر عجیب سا خوشگوار تاثر پھیل گیا تھا۔
میں سو کر اٹھا تو کراچی کے ماحول میں تیزی تھی۔ عام آدمی کے لیے وہی سیاست دانوں کی بیان بازی تھی اور آفیسروں کی طفل تسلیاں جارہی تھیں۔ ان میں ایک اعلی پولیس آفیسر ثناء اللہ عباسی کا بھی بیان تھا۔ وہ بہت حقیقت کے قریب تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آفیسر اس معاملے کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہے۔
میں نے وہ نام ذہن میں رکھ لیا۔
دوپہر کے بعد میں نے فریش ہو کر لیپ ٹاپ کھولا۔ مجھے یقین تھا کہ جسپال کی ای میل آئی ہوئی ہو گی۔ اس نے ممبئی کی ساری روداد لکھ دی ، حتیٰ کہ رات اے سی پی اور رام تیواری کی بات بھی لکھ دی تھی۔ تمام حالات پڑھنے کے بعد میں کچھ دیر سوچتا رہا۔ میرے خیال میں اب ممبئی میں کام کا آغاز ہو جاناچاہئے ۔ میں نے اسے میل کا جواب دیا اور نوتن کور کا کچھ ہدایات دیں۔
مطمئن ہو کر نیچے آگیا تو ڈرائنگ روم میں مہوش بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے پاس دارا بیٹھا ہو ا گپیں لگا رہا تھا۔ میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ مجھے دیکھ کردارا لنچ لگانے چلا گیا۔ مہوش نے بتایا کہ زویا اور سلمان واپس کراچی آ گئے ہیں۔ فہیم چونکہ لاہور ہی کا ہے ، اس لیے اپنے گھر گیا ہوا ہے ۔ واپسی پر اسے کراچی سے آیا ہوا کار گو لانا ہے ۔ میں اور مہوش حالات کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ گیت کا فون آ گیا۔
” ایک بری خبر ہے ۔“ اس نے تیزی سے بتایا۔
” وہ کیا؟“ میں نے تحمل سے پوچھا۔
” کرامت جونیجو گروپ کو رات دھچکا ملا سو ملا، لیکن مخالف گروپ کا بھی علاقہ چھین لینے کی کوشش کی ہے۔“
” یہ بری خبر تو نہیں، اب یہ جرائم پیشہ کچھ دن آپس میں لڑتے رہیں گے ، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
” اصل خبر تو اس کے پس منظر میں ہے، یہاں جس بندے کو لا رہے ہیں ، وہ بہت بڑا ڈرگ کا سپلائیر ہے اور منشیات کی سپلائی کے لیے بچوں تک کو استعمال کرتا ہے ۔“ اس نے تیزی سے بتایا
” یہ بھی ان لوگوں کا عام کام ہے ۔ ہمارے لیے بری خبر…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولی۔
” یہ ہے کہ انہوں نے بھتہ خوری آج ہی سے شروع کر دی ہے اور بوری بند لاشوں کی دھمکیاں عام بزنس مین کو بھی دینے لگے ہیں۔
کہیں ہم نے کم برے لوگوں کو ختم کر کے زیادہ برے لوگوں کو آگے تو نہیں کر دیا۔ وہ اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کریں گے۔“
” ان کے بڑوں کا پتہ ہے کچھ؟“ میں نے پوچھا۔
” وہ تو پتہ ہے ایک اہم سیاست دان ہے رضا ہمدانی، بظاہر بڑا تاجر ہے لیکن جرائم پیشہ ہے ۔ وہی سب یہاں دیکھ رہاہے۔ لیکن انہیں ختم کیسے کریں گے ؟“ گیت نے میری بات سمجھتے ہوئے سوال کیا۔
” تم اس کے بارے میں مجھے معلومات دو، کچھ کرتے ہیں۔“ میں نے اسے کہا۔ تو وہ تیزی سے بتانے لگی ۔ میں نے اسی لمحے روہی میں سرمد سے رابطہ کیا۔ وہ آن لائن تھا۔ میں نے اسے اپنی ضرورت کے بارے میں بتایا۔ اس نے کچھ دیر بعد بتانے کو کہا۔ میں مطمئن ہو گیا اور گیت سے کہا ابھی کچھ مزید تلاش کرے ۔ میں اور مہوش اٹھ گئے ۔ لنچ لینے کے بعد ہم دوبارہ کمرے میں آئے تو گیت کے پاس کچھ مزید معلومات تھیں۔
اس وقت تک سرمد کا فون آ گیا تھا۔ اس نے یہی بتایا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر بعد آپ کو علی نواز کا فون آئے گا۔ میں کمرے میں بیٹھا ہی تھا کہ اس کا فون آ گیا۔ وہ سندھی تھا لیکن بلا کا حوصلے مند اور جرات والا تھا۔ میں نے اپنا فون کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کر دیا کہ سب لوگ بات سن لیں۔
” بہت کچھ سیکھا اور پھر بہت سنا ہے جی آپ کے بارے میں، بہت خوشی ہوئی کہ میں آ پ کے کسی کام آ رہا ہوں۔
“ اس نے سندھی لہجے میں کہا۔
” مجھ سے سیکھا؟“ میں نے پوچھا۔
” آپ کو شاید یاد نہیں ، میں نے آپ سے نشانہ بازی سیکھی تھی روہی میں۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ میں بھی تھا۔“ اس نے خوشی بھرے انداز میں بات کی۔
” علی نواز!تم میرے لیے نہیں انسانیت کے لیے کام کر رہے ہو ۔ فرض کرو تمہارا بیٹا ہے اور کوئی اسے نشے کی لت میں اس حد تک لگا دے کہ وہ نہ مرا ہوا ہو اور نہ زندہ ہو تو تمہاری حالت کیا ہو گی۔
“ میں دُکھی دل سے کہا۔
” میں آپ کے جذبات سمجھ گیاہوں۔ آپ حکم کریں۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
” رضا ہمدانی کا نام سنا ہے ؟“ میں نے پوچھا۔
” بالکل سنا ہے؟“ اس نے کہا۔
” ابھی ، اس وقت وہ اپنے لگژری آ فس میں ہے ، میرا ایک دوست اور تمہارے جیسا بھائی تم سے بات کرے گااور تم اس سے ڈن کر لو۔ آج شام سے پہلے پہلے اس کا وجود مٹ جائے۔
“ میں جذباتی ہو گیا تھا۔
” ہو جائے گا ۔ بھائی بھیجو ، میں انتظار میں ہوں۔“ اس نے کہا تو میں نے فون بند کر کے جنید اور اکبر سے کہا کہ وہ فوراً اس سے ملنے کے لیے چلے جائیں۔ اسکرین پر رضا ہمدانی کی تصویر آ گئی تھی ۔ یہ ان کی کسی سائیٹ سے اٹھائی ہوئی تصویر تھی ۔اس وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ عام لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے اگر چند لوگ مار دئیے جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
میں نے گیت سے کہہ دیا کہ ایسے چند بندوں کے نام بتا دے۔ وہ اس کام میں لگ گئی ۔
میں ان کے لیے سوچ رہا تھا کہ نوتن کور کا فون آ گیا۔
” میں انہی کے پاس ہوں، جس طرح کے بندے تم نے بتائے تھے ، ان میں سے صرف ایک آدمی ملا ہے۔ نوجوان ہے ، بنگلور کی سیلکون سٹی کاتربیت یافتہ ہے۔ اروند سنگھ نام ہے اس کا۔ “
” اسے فوراً اُن کے پاس پہنچا دو۔
رونیت کور کو بھی ادھر ہی بلا لو ۔“ میں نے کہا۔
” وہ رات کسی وقت تک آ جائے گا۔ اس وقت وہ تھائی لینڈ میں ہے اور بنکاک ائر پورٹ پر ہوگا۔ وہ جب بھی ممبئی پہنچا، اس کے لیے قریب ہی ایک ہوٹل میں بکنگ ہے ، وہ ادھر آ کر آرام کرے گا۔ پھر ہم اسے لے لیں گے۔“ نوتن کور نے تفصیل سے بتایا
”وہ جیسے ہی ادھر آئے تو مجھے بتانا، میں اس سے بات کروں گا۔
“یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
کوئی دو گھنٹے گذر گئے ۔ اس دوران فہیم واپس آ گیا ۔ اس نے چھوٹے چھوٹے چار کارٹن لا کر رکھ دئیے ۔ میں نے اسے تازہ صورت حال کے بارے میں بتایا تو وہ اپنے کام میں لگ گیا۔ جیسے ہی علی نواز کے پاس جنید اور اکبر پہنچ گئے اور انہوں نے ساری بات اسے سمجھا دی تھی تو جنید نے مجھے فون کر کے سب کچھ بتا دیا۔ سامنے اسکرین پر وہ مجھے دکھائی دے رہے تھے ۔
علی نواز ایک وجیہہ نوجوان تھا ۔ چھوٹی چھوٹی ترشی ہوئی داڑھی ، مونچھیں اور سرخ و سپید چہرہ ۔ وہ مجھے اچھا لگا۔تبھی فہیم نے کہا۔
” شام کے چار بج رہے ہیں۔ رضا ہمدانی اس وقت تک اپنے آفس ہی میں ہے ۔ جیسے ہی تم لوگ وہاں پہنچو گے ، میں سارے آفس کے نظام کو اپنے کنٹرول میں لے لوں گا۔ شرط یہ ہے کہ آفس میں داخلے سے پہلے اسی کمپنی کا کوئی ایک کارڈ حاصل کر لو پھر وہ آفس میرے قابو میں آئے گا۔
“
” ہو جائے گا۔“ جنید نے کہا۔
” تو پھر سمجھو اس کا آ فس کیسا ہے ۔“ فہیم بولا پھر اس نے اسکرین پر اس کے آفس کا نقشہ ظاہر کرکے انہیں گائیڈ کرنے لگا۔
” اس کا آفس پورے کا پورا اس کے اپنے کنٹرول میں ہے ۔ روڈ سے لیکر اس کے اپنے بیٹھنے والی جگہ تک کوئی بھی اس کی مرضی کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے وہ وہا ں پر محتاط نہیں ہو گا۔
جب وہ نہیں ہوتا تو اس کی صورت حال کیا ہوتی ہوگی ، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کارڈ میں نے اس لیے کہا ہے کہ سارے دروازے کارڈ ہی سے کھلتے ہیں۔ وہ کسی کا بھی ہو ، میں اسی کارڈ کا استعمال کر لوں گا۔ تم لوگوں نے وہاں استقبالیہ پر نہیں جانا۔ سیدھے اندر داخل ہو جانا۔ باقی میں تمہیں وہیں پر گائیڈ کر دوں گا۔“
وہ تینوں وہاں سے نکل کر باہر آ گئے۔
وہ ریلولے کالونی کی بڑی گلیوں والا پرانا علاقہ تھا۔ جب تک وہ مین روڈ پر آئے ، اس کے ساتھ چار پانچ گاڑیاں چل پڑی تھیں۔ عبداللہ ہارون روڈ سے آگے چورنگی کے مین روڈ پر پہنچتے ہوئے انہیں کوئی گھنٹہ لگ گیا۔ راستے میں اس نے اپنے لوگوں کو سمجھا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ انہوں نے گاڑیاں ایک طرف پارک کیں اور اس عمارت کے اطراف میں پھیل گئے ۔
ہر کوئی اسلحے سے لیس تھا۔ ہم صرف وہی منظر دیکھ سکتے تھے، جو جنید اور اکبر کی رینج میں آتا تھا۔وہ ایسا وقت تھا جب آفس بند ہونے والا تھا۔وہاں سے دو تین لوگ نکل کر پارکنگ کی جانب گئے ۔ علی نواز کے لوگوں نے انہیں وہیں دبوچ لیا ہوگا کیونکہ ذرا سی دیر بعد دو کارڈ ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔
” صرف ایک کارڈ ہی استعمال کر نا ہے جو پہلے جائے اس کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہ ہو ۔
“ فہیم نے انہیں تیزی سے کہا تو جنید آفس کے اندرچلا گیا۔علی نواز اور اکبر باہر ہی تھے۔ جنید اسکرین پر دکھائی دینے لگا تھا۔ وہ آفس میں داخل ہوتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ جیسے ہی اس نے دروازے میں کارڈ ڈالا، ایک لمحے سے بھی کم وقت میں اسکرین پر ایک جھپکا آیا ، پھرنارمل ہو گیا۔ تبھی فہیم کی آواز آئی ،” دروازہ کھل گیا ہے ۔ رضا ہمدانی کا سارا نظام اب میرے قبضے میں ہے۔ کوئی کیمرہ نہیں چل رہا اور ہر دروازے میں کارڈ ڈالتے جاؤ ، وہ کھلتا جائے گا۔“