Episode 48 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 48 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

” میں اور علی نوازاندر جا رہے ہیں۔“ اکبر کی آواز آئی۔ علی نواز وہیں نیچے رُک گیا اور اکبر آگے کی جانب بڑھا۔ لفٹ کا دروازہ بھی کارڈ ہی سے کھلا۔ جنید لفٹ میں چلا گیا اس کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔ اکبر نے اسے پسٹل دیا اور خود سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ 
 جنید ایک راہداری میں پہنچ گیا تھا۔ فہیم نے اسے بتا دیا تھا کہ بالکل سامنے والا کمرہ رضا ہمدانی کا ہے ، تمہارے پاس چند سیکنڈ ہیں۔
وہ اپنے کمپیوٹر کے پرو گرام بند کر رہا ہے ۔ اگر وہ کمپیوٹر بندہو گیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔ وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ آگے بڑھا۔ تبھی سائیڈ والے کمرے سے چند لوگ باہر آگئے۔ انہوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور کسی نے ایک دم سے آ گے بڑھ کر پوچھا۔
” کون ہو تم ؟“ 
 ان کی ساری توجہ جنید کی طرف تھی ۔

(جاری ہے)

شاید وہ اسے پکڑنا چاہتے تھے لیکن ان کی یہ خواہش ادھوری رہ گئی ۔

جنید ایک دم سے بیٹھ گیا تو اکبر ان پر فائر کرنے لگا۔ دو لمحے بعد وہ زمین بوس ہو چکے تھے۔ اس نے بیٹھے بیٹھے ہی کارڈ دروازے میں ڈالا، ایک دم سے الارم بج اٹھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے دروازہ کھل گیا۔ سامنے میز کی دوسری طرف رضا ہمدانی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر انتہائی درجے کی حیرت اور پریشانی چھلک رہی تھی۔ اس نے جیند کو دیکھتے ہی دراز میں ہاتھ ڈالا، تب تک اس نے میز پر فائر کر دیا۔
وہ پیچھے کی جانب الٹا۔ جنید اس کے سر پر پہنچ گیا۔ اس نے کمپیوٹر کی طرف دیکھا اور پسٹل کی نال اس کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔
” میں اس وقت تک تمہیں نہیں ماروں گا جب تک تم خود نہیں چاہو گے ۔“
” کیا مطلب؟“ اس نے کافی حوصلے سے کہا۔
 ” میں تم سے ایک ڈیل چاہتا ہوں۔ اٹھو اور اپنا کمپیوٹر کھولو، جلدی ۔“ اس نے دباؤ دیتے ہوئے کہا۔
” اور اگر میں نہ کھولوں تو ۔“ وہ ایک دم سے سمجھ گیا تھا کہ جنید کیا چاہتا ہے ۔ کیونکہ فہیم نے بتا دیا تھا کہ الارم اس لیے بجا کہ اس نے اپنا کمپیوٹر بند کر دیا تھا۔
” تو پھر یہ لو ۔“ یہ کہہ کر اس نے اس کی ٹانگ پر فائر کر دیا۔ پھر دوسری پر کیا۔ وہ چیخنے لگا۔ ایسے میں راہداری میں فائرنگ ہونے لگی۔ دو بندے لفٹ کے ذریعے اوپر آئے تھے ، اکبر نے انہیں پار کر دیا۔
یہی وہ وقت تھا ، جب علی نواز اور اس کے بندوں نے ایکشن میںآ نا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا لفٹ کے پاس چلا گیا۔ 
” جنید ختم کردو اسے اور پلٹو وقت کم ہے ۔“ میں نے کہا تو اس نے سر کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ اس نے ایک لمحہ کو اسے گرتے ہوئے دیکھااور پلٹ پڑا۔ اکبر اور جنید ایک دوسرے کو کور دیتے ہوئے سیڑھیاں اُترتے چلے گئے۔ استقبالیہ والا ہال خالی تھا۔
وہ بھاگتے ہوئے ہال میںآ ئے اور پھر باہرنکلتے چلے گئے۔ باہر گاڑیاں اسٹارٹ تھیں وہ مختلف گاڑیوں میں بیٹھے اور نکل پڑے۔
” جنید !اس کے باقی لوگوں کو چھوڑ کر صرف علی نواز کو اپنے ساتھ لے آ ، میں نے کچھ بات کرنی ہے۔“
 کوئی ایک گھنٹے بعد وہ لوگ پہنچ گئے ۔ علی نواز کے لیے وہ کنٹرول روم کافی حیرت کا باعث بنا تھا۔ وہ فریش ہو چکے تو میں نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
” جرم کی دنیا میں یہ جو انڈر ورلڈ ہے نا اس میں صرف ایک چیز کے لیے سارا ہنگامہ لگا رہتا ہے کہ کس کو کیا فائدہ ہوتا ہے ۔ ذاتی فائدہ، ہی سب سے اہم ہے۔ لیکن میں یہ سب اپنے ذاتی فائدے کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ “ یہ کہہ کر میں چند لمحے رکا اور پھربولا۔
” تم سب کے ذہن میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ تو پھر یہ سارا سلسلہ کیوں؟ میں نہیں جانتا کہ کس کے بھی ذہن میں کیا ہے ۔
مگر میں یہاں پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اگر میری کوشش سے کسی کو رَتی برابر بھی اختلاف ہو وہ خامشی سے ہمیں چھوڑ کر جا سکتا ہے کیونکہ اب میں ایک بہت بڑا رسک لینے جا رہا ہوں۔“ 
” رسک ، وہ کیا؟“ گیت نے پوچھا۔
” وہ میں بعد میں بتاتا ہوں، پہلے میری بات سننے کے لیے تم سب خود کو تیار کر لینا۔“ میں نے کہا۔
” اوکے ، تم کہو۔
“ سلمان نے کہا۔
” یہ جو ہماری پاکستانی قوم ہے ، ان کے چہروں پر رونق کیوں نہیں ہے ۔ احساس محرومی، ناامیدی ،بے یقینی، ذہنی بیماری کیوں ہے؟ ان میں خود داری کیوں نہیں، ان کی عزت نفس کیوں محفوظ نہیں؟وہ لوگ ہیں جو عزت ، مال ،جان کی قربانی دے کر بھی آج بھی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، اور وہ کون لوگ ہیں، جنہوں نے قربانیاں تک نہیں دیں اور وہ اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں؟ اسی ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور اسی عوام کو فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ کون لوگ ہیں جو اسی عوام کی رگوں سے قطرہ قطرہ لہو نچوڑ رہے ہیں؟ انگریزوں نے جاتے ہوئے اس قوم سے بہت بڑا انتقام لیا ، یہ نام نہاد اشرافیہ، چھوڑ گئے ، جو آج بھی ان انگریزوں کے غلام ہیں۔ انہی کے ایماء پر اپنے مفادات کی خاطر اور انگریزی سازش کے تحت یہ اس قوم کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اسلام تو مساوات کا درس دیتا ہے ۔ انصاف امیر اور غریب کے لیے ایک جیسا ہو ۔
قانون کی پاسداری ایک جیسی ہو ، جیسا حضرت عمر  نے کر کے دکھایا۔
کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے عوام بے وقوف ہیں کہ وہ اپنے ایسے نمائندے کیوں چنتے ہیں؟ وہ قوم جس کے پیروں میں جوتا تک نہیں ہوتا وہ ان کے جھنڈے اٹھائے کیوں پھرتے ہیں۔یہ بات اس عوام کی ان قربانیوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ جو ہر طرح کی قربانی دے چکے ہیں اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ اب بھی سب کچھ کرنے کو تیار ہے کہ یہاں وہ نظام آئے ، جس کے لیے پاکستان بنا۔ وہ کون لوگ ہیں جو دین اسلام کے نام پر آج بھی اس عوام کو سنہرے خواب دکھاتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ عوام تو آج بھی دین اور ملت کے لیے اپنا آپ قربان کرنے کو تیار ہیں ۔ وہ لوگ جو محب ملت و وطن ہیں، دین و ملت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں،انہیں کس نے روکا ہوا ہے ؟ پارلیمنٹ ہی کو لے لیں، ایک عام آدمی کو اس تک پہنچنے کے لیے کتنے بیرئیر پار کرنا ہوں گے ، دولت ، قومیت، برادری ازم ، صوبائی عصبیت، فرقہ بازی، یہ بیرئیر کس نے بنائے ، یہ نظام بنانے والا کون ہے ؟ جس نے قوم کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا، ان میں اس حد تک تفریق پیدا کردی کہ وہ کچھ سوچ ہی نہ سکیں۔
یہاں قانون ایک نہیں،امیر کے لیے قانون دوسرا ہے اور غریب کی تھانوں میں کھال اُدھیڑ دی جاتی ہے۔ نظام تعلیم ایک نہیں، تعلیم کا معیار دولت کے ساتھ منسلک کر دیا ہے ۔ علاج کی سہولت غریب کے لیے نہیں،لیکن غریب کے سرمائے سے نام نہاد اشرافیہ بیرون ملک سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔ کس نے اس قوم کی سوچ فکر کو پیٹ میں بند کر دیا کہ ان کا شعور ہی کام نہ کر سکے۔
یہ وڈیرہ شاہی ، جاگیرداری، سرمایہ داری ہے جس نے اس ملک کا نظام بنایا ہوا ہے ۔یہ خون آشام اشرافیہ عوام کا لہو چاٹ کر بھی آزاد ہے اور عوام پس رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ اس نام نہاد بے غیرت اشرافیہ کو وہ پاکستان نہیں چاہئے ، جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا۔ یہاں محمد رسول اللہﷺ کا نظام چلنا ہے ۔ جو انسانی بقا اور حیات جاودانی کا باعث ہے ۔
اس نام نہاد اشرافیہ نے محمد رسول اللہﷺ کا نظام نہ لا کر دین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ، یہ سراسر نافرمانی ہے ۔ اسلام کے حقیقی ثمرات سے دور رکھنے والے یہی بے غیرت اشرافیہ ہے، جنہوں نے محمد رسول اللہﷺ کا نظام نہ لا کر ان ثمرات سے محروم کر دیا اور یہ قربانیاں دینے والی قوم کے اُن جذبات سے کھیل رہے ہیں، جو وہ آج بھی محمد رسول اللہﷺ کا نظام لانے کو بے تاب ہیں۔
یہ موجودہ نظام ایسا نہیں ہے جس میں قوم کی صلاحیتوں کو ملکی تعمیر و ترقی کے لیے پوری طرح استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ بلکہ یہاں تو قدم قدم پر رکاوٹیں ہیں کہ کہیں یہ لوگ باصلاحیت یا ہنر مند نہ بن جائیں، بے روزگاری کا عفریت آج بھی نوجوان کو نگل رہا ہے ۔ کیوں؟ کیا یہ نام نہاد شرافیہ خود کو آسمانی مخلوق سمجھتی ہے ؟
فلاحی مملکت میں ٹیکس کے عوض سہولیات دی جاتی ہیں۔
لیکن یہاں ایک بھکاری بھی ماچس کی ڈبیا لیتا ہے تو وہ بھی اس پر ٹیکس دیتا ہے۔ عوام کو سرتاپا ٹیکس دینے والی مشین بنانے کے باوجود انہیں کوئی فائدہ نہیں۔ ٹیکس کے نام پر یہ وہ بھتہ ہے ، جو روزانہ عوام دے رہے ہیں اور ہر ماہ بعد گیس‘ پانی اور بجلی کا ایک ”ترقی پذیر بل “تھما دیا جاتا ہے۔ جس کی پوری طرح رسائی ہی نہیں ہے ۔
پاکستان میں نہ تودریاؤں کے پلوں کی توسیع ہو سکی اور نہ ہی نئے ڈیم بنانے کی روایات موجود ہے۔
ہر سال عوام کو غرق اور تباہ و برباد کرنے والے یہ کون لوگ ہیں؟ جن کا کوئی بھائی ، بہن یا بیٹا کبھی نہیں ڈوبا، ان کے محلات قائم ہیں۔ کبھی سیلاب میں کسی کا محل ڈوبا؟صرف قوم غوطے کھارہی ہے۔ پھر عوام کی مدد کا ڈرامہ کرنے والے، ہر برس کرپشن کرپشن کا راگ الاپنے والے ہی درحقیقت اُمت کے دشمن ہیں اور قانون الہی،نظام مصطفی کی مخالفت کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
یہ جعلی ہمدرد ہیں۔ جو ایک جال کی مانند ہیں تاکہ قوم اس سے نکل ہی نہ سکے اور پانی میں ڈوب کر مرتی رہے ۔ عوام ڈوبی رہے اور سر اٹھانے کی جرأت نہ کرے ۔ خدارا،شعور کی آنکھیں کھولو اور ان کے اصل چہرے دیکھو۔ ان کے پاؤں کے نیچے سے نکلو ا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ ۔ ڈیم بنانے میں رکاوٹ کون ہیں؟ یہ سیلاب میں ڈ وبتی عوام یا بیرونی امداد کھانے والے بے غیرت اشرافیہ؟ 
 اس نام نہاد اشرافیہ کو یہ معلوم ہے کہ جس دن قلندر لاہوری کا پیغام اس قوم نے پڑھ اور سمجھ لیا تو ہر انسان ایک تلوار ہوگااور اگران بیس کروڑ تلواروں میں سے ایک کروڑ تلواریں بھی نکل آئیں تو کون کیا کرے گا ؟ نام نہاد اشرافیہ کیا کرے گی ، یہ لوگ تو پہلے ہی موت سے گذر گئے ہیں۔
بغیر تیغ و سناں ،موت سے گزر کر یہ ملک حاصل کیا ۔ اس قوم کے سامنے لا الہ الااللہ ہی تھا۔ تو اب یہ محمد رسول للہ کے لیے کیا کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ نام نہاد اشرافیہ اور وہ لوگ جو اس ملک و قوم کے دشمن ہیں، یہ جان لیں جب پاکستان بنا تھا تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا، آج ان کے پاس ضربِ حیدری ہے، وقت لگ سکتا ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺکا نظام یہاں کوئی نہیں روک سکتا کہ یہ ملک بنا ہی اسی لیے ہے ۔
اس ملک کی قبا اور عزت فقط یہی نظام ہے کیونکہ خودی کا سر نہاں لاالہ الااللہ… خودی کا سر عیاں محمد رسول اللہ۔ یہی میرا پیغام ہے اور یہی میرا مقصد۔“
 میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا تھا۔ اس لیے کافی دیر تک خاموشی طاری رہی۔ پھر میں نے ہی کہا۔
” تم لوگ اگر سوچنا چاہتے ہو تو سوچ لو ۔ جو رہنا چاہتا ہے رہے جو جانا چاہتا ہے چلا جائے۔
 میں نے کہا اور اٹھ کر اوپر چلا گیا۔ میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا کیونکہ میں نے انہیں صاف بتا دیا تھا ، میں کسی کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔
 مغرب ہو جانے کے بعد جب میں نیچے آیا تو سبھی کو اپنی اپنی جگہ دیکھ کر دل خوشی سے بھر گیا۔
” مزیدکوئی بات نہیں ہوگی ، سب تمہارے ساتھ متفق ہیں اور شاید ہم بھی یہی چاہتے ہیں کیونکہ ہماری اس دنیا میں رہنے کی وجہ بھی انتقام ہی ہے، جو اس معاشرے کی ناانصافی کے باعث پیدا ہوا۔
اب بتاؤ کرنا کیا ہے ؟“
 ” وہ بھی بتا دوں گا، ابھی معاشرے کے ان ناسوروں کو ختم کرنا ہے، میرے خیال میں گیت تم نے…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولی۔
” تین بندے چنے ہیں ہیں میں نے۔“
” وہ علی نواز کو بتا دو۔ ادھر کراچی میں گیت، زویا اور سلمان رہیں گے ، اکبر ااور جنید ادھر آجائیں ۔ ہمیں اب ایک بڑے پر اجیکٹ پر کام کرنا ہے۔“
” اوکے ہو گیا۔“ سلمان نے کہا۔
” اب یہ کام جلد از جلد ہو جائے تو بہتر ہے ۔“ میں نے کہا اور وہاں سے اٹھ کر باہر لان کی جانب چل دیا۔ 
                                     #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط