Episode 53 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 53 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

میں لاہور میں گھر کی چھت پر کھڑا مشرق کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اُفقی لکیر پر ابھی اندھیرا تھا۔ اُفق پر پھیلی ہوئی سرخی اندھیرے پر چھا رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے گھر سے دور اُفق تک گھر ہی گھر پھیلے ہوئے ہیں ۔ ساری رات گذر گئی تھی۔ کچھ دیر پہلے گیت نے بتایا تھا کہ علی نواز، سلمان اور زویا نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔ جنید اور اکبر لاہور کے لیے پرواز کر چکے تھے۔
میں پر سکون ہو کر چھت پر آ گیاتھا۔ ہلکی ہلکی چلتی ہوئی ہوا میں خوشگواریت تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ میری سوچوں میں اضطراب تھا۔ مجھے لگا کوئی مجھ سے باتیں کر رہا ہے۔ میں نے غور کیا تو کوئی کہہ رہا تھا
”خود سے مقام خودی تک رسائی دینے والی قوت صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے عشق۔جب حضرتِ عشق طلوع ہوتا ہے تو وہ انسان کے سر سے پیر تک اپنی سلطانی قائم کر لیتا ہے ۔

(جاری ہے)

عشق میں بے ساختگی ہے۔ عشق کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور نہ اسے بنایا جا سکتا ہے۔یہ خود قدم اٹھاتا ہے ۔ اس چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا کہ حالات کیا ہیں۔ کوئی اس کے ساتھ چلتا ہے یا نہیں۔ عاشق کا کام تو اپنی ذات کے ساتھ آ گے بڑھنا ہے ۔ ایک سفر پر جانا ہے۔ کتنے ابو جہل ہیں یا کتنے ابو لہب ، راستے کی دشواریاں کیا ہیں اور مصیبتیں کس حد ہیں۔
یہ اس کی نگاہ میں نہیں ہوتیں اور نہ ہی اس کے عشق کے والہانہ پن میں کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔حالات عشق پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ عشق کی تکمیل کسی وجہ کی محتاج نہیں ہے۔“
” مجھے اپنی ذات میں عشق کی تکمیل کیسے کرنا ہوگی؟“
” عشق کی تکمیل نہیں ہوتی، یہ تونہ اپنی حد رکھتا ہے اور نہ اس کا کوئی کنارا ہے، بلکہ ذات کو اپنی طرح لامحدود ہونے کے ظہور کی وجہ بنتا ہے ۔
اصل میں عشق کرتا کیا ہے ؟ زندگی کو بنانے کے لیے عدم کو جَلاتا ہے، زندگی کو جَلانے سے وجود کو بناتا ہے اور اس سے ایک نئی زندگی کا ظہور ہوتا ہے جو عشق کے اپنے مطابق ہوتی ہے ، بلکہ عین عشق ہوتی ہے۔ کیونکہ عشق اپنی نئی تخلیق کرتا ہے جو کہ سر بکف ، جانباز اور مجاہد بناتا ہے ۔
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب ِ تمام 
 ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود 
 عشق کا مظہر خود انسان ہے، اس میں سے عشق کا ظہور ہوتا ہے انسان میں سے ہی عشق کو دیکھاجاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق میں بے ساختگی ہے لیکن زندگی کی پہلی ساخت کو توڑ کر اپنی ساخت پر لے آتا ہے۔ یہی خودی کی طرف پہلا قدم ہے۔ کیونکہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے مردِ مومن عیاں ہوتا ہے۔ “
” اس کا ظہور کیسے ہے؟“
” انسانی ذات ہی میں تو ہوتا ہے۔ یہ عشق اس کے اندر ہی تو پڑا ہوا ہے ۔ یہ انسان کا ارادہ ہی تو ہے کہ وہ مسلکِ عشق اختیار کرے ، گویا کہا جا سکتاہے کہ انسان ہی عشق کو اپناتا ہے۔
تب ذات کا ظہور، باطل کے مقابلے میں حق کو نمایاں کرنے سے ہوتاہے۔ یہ ظہور ظاہری اور باطنی ہے۔ باطل جس ، غرور و تکبر اور قوت سے سامنے آتا ہے ، حق بھی اسی سرکشی و بے باکی ، تندی و شوخی اور قوت کے ساتھ آئے گا۔ حق کے ہاتھ میں آجانے والے وسائل اور قوت نعمت بن جاتے ہیں، جبکہ باطل نری موت ہے۔“
” باطل کیا ہے؟“
” ہر وہ شے جو انسان کو اس کی انسانیت سے غافل کر دے، وہ باطل ہے۔
شیطان کا پہلا کام ہی یہی ہے کہ وہ انسان کو غافل بناتا ہے ، اور انسان کا اصلی چہرہ اس کے سامنے واضح نہیں ہونے دیتا۔ انسان تو اللہ کا خلیفہ ہے۔ اور انسان جب اپنے آپ کو پہچانتا ہے تو اسے اپنی قوت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو اسے مقام خودی تک پہنچاتا ہے، جہاں خودی ہر شے کو مغلوب کر دیتی ہے۔ انسان اپنے وجود میں پڑے ہوئے عدم کو نکال باہر پھینکتا ہے۔
انسان کا سیدھا ہونا ہی حق ہے۔ حق کا بڑھنا یا باطل کا مٹانا ، ایک ہی بات ہے۔ انسان اپنے آپ کو پہچانے۔ باطل نے سارے مسائل پیدا ہی اسی لیے کیے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو پہچان نہ پائے۔ باطل ہے ہی اس لیے کہ تم اس پر غلبہ پاؤ۔ خوفِ باطل کیا ہے کہ غارت گر ِ باطل بھی تُو ۔“
” اسے قوت کہاں سے ملتی ہے؟“ 
” اس کے اپنے اندر سے اور عشق اسے ہر طرح کی قوت دیتا ہے۔
یہ انسان پر ہے ، جہاں وہ اپنی ذات کی نفی کرے گا ، وہاں وہ کمزور ہوگا اور جہاں وہ اپنی ذات کا اثبات کرے گا، وہیں قوت ہوگی۔ ہر وہ شے جو ذہنی غلامی پیدا کرکے حوصلہ پست کرے، وہی اصل میں باطل اور شیطانیت کامعیار ہے۔ شیطان نظریاتی کمزوری کی تاک میں ہوتا ہے ۔ اور یہیں سے انسان کے اندر بُت بنتے چلے جاتے ہیں۔ ایمان کی کمزوری، تفرقہ بازی، تعصب، منافقت، عیش کوشی جاگیر داری اور سرمایہ داری کی تمام تر خباثتیں یہیں سے پیدا ہوتی ہیں۔
درویش میں ہو تو وہ عیار ہے اور بادشاہ میں ہوتو وہ بھی عیار ہوتا ہے۔ یہی وہ پہچان ہے جہاں بندہ مومن حق و باطل کی لکیر کھینچ کر عشق کی طاقت کے ساتھ آواز حق بلند کرتا ہے ۔“ 
” میں خود سے خودی تک کے سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم میرے اندر عشق کی گہرائی کیا ہے میں کیا ہوں، میری قوت کیا ہے ۔“
” عشق اپنے راستے اور وسائل خود بناتا ہے۔
اصل میں جب تک دل زندہ نہیں ہوتا، اس وقت تک خود زندہ نہیں ہوتا، سفر پر جانا چاہتے ہو تو یہ تمہارے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ یہی بقا کا راستہ ہے۔ فنا خود اخترائی ہے، نابصیری ہے اور خود پیدا کردہ ہے۔ تخریب کو ختم کرنا ہی دراصل تعمیر ہے۔ شیطان کو پکڑ ، اس پر غلبہ لے، انسان کا چہرہ خود بخود نکھر جائے گا۔ شیطان کے قبضے میں گئے وسائل کو چھین کر انسانیت کو لوٹانا ہے۔
اصل پیغام بنی نوع انسان کے لیے ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو، دنیاکا ہر انسان اپنے مثبت پہلو کی طرف دیکھے۔ یہی تیرا سفر ہے۔“ 
” میں تو سفر شروع کر چکا ہوں۔“
”تو پھر اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے کی حسرت نہ کرو بلکہ اپنے خواب کی تعبیر میں لگ جاؤ۔“
” خواب کی تعبیر…؟“
” خواب دیکھنا ہی خواب کی تعبیر کی طرف بڑھنا ہے، تعبیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
اپنے خوابوں سے پیار کرو، انہیں محبت دو ، انہیں اہمیت دو۔“ 
شاید میرے اندر مزید باتیں چلتیں ، تاہم میری توجہ اس بجتے ہوئے فون کی طرف ہو گئی، جس کاکہیں بھی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ بلاشبہ یہ بھارت سے کال تھی۔ میں نے وہ رسیو کی تو دوسری طرف جسپال تھا۔ اس نے رات ہونے والے واقعات کے بارے میں بتایا تو میں نے کہا۔ 
” رَبّ کا شکر کرو کہ تم لوگ ایک بہت بڑی سازش سے بچ گئے ، لیکن اب بھی بہت احتیاط سے ، کب، کون اور کہاں بدل جائے، اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
” ہاں ‘ یہ تو ہے ۔ لیکن مجھے بانیتا کی کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟“ اس نے الجھتے ہوئے کہا۔ 
” دیکھو ، اس کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ اپنی بقا ہے۔ ایک طرح سے تم لوگ سامنے آ چکے ہو اور پھر خاص طور پر جب معاملہ یہودیوں کا ہو ۔ تمہیں پتہ ہے کہ بھارت کا وہ طبقہ جو سارے وسائل پر قابض ہے وہ اُس گدھے کو بھی باپ مانتے ہیں جس کے پاس سر مایہ ہو اور یہ بے دریغ سرمایہ بھارت میں پھینک رہے ہیں۔
” ارے ہاں، ٹی ایس نے مجھے یہ بتایا کہ پاکستان میں براہ راست تو نہیں مگر چند سیاست دانوں کے ذریعے یہودیوں کے ایجنڈے کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس پر باقاعدہ کام ہو رہا ہے۔“
” کون ہیں وہ ؟“ میں نے چونکتے ہوئے کہا کیونکہ اسی لمحے میرے بدن میں سنسنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔
” بظاہر تو کوئی بندہ بھی سامنے نہیں ہوگا، لیکن اس نے صرف اتنا اشارہ دیا ہے کہ این جی اوز ہیں ، جو کام کر رہی ہیں۔
یہ اس وقت پاکستان میں اپنی جگہ بنا پائی ہیں ، جب زلزلہ آ یا تھا۔ “ اس نے بتایا
” اس سے کہو کہ وہ مزید بتائے، اندر تک سراغ لگائے ۔“ میں نے پر جوش لہجے میں کہا۔ 
” میری پوری کوشش ہوگی کہ میں ان کا سراغ لگا لوں۔ لیکن اب ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ سکون سے بیٹھ جائیں یا کچھ…“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ 
” سکون سے کیوں بیٹھو۔
انہیں اس حد تک مجبور کر دو کہ وہ صرف تمہاری بات مانیں۔ مجھے فقط وقت دو، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم نے کیاکرنا ہے۔ تم میری اس نوجوان اروند سنگھ سے بات کروانا، پھر کوئی کام کی بات سوچتے ہیں۔“ 
” ٹھیک ہے ۔ میں ابھی کچھ دیر میں کراتا ہوں۔“ اس نے کہا۔ 
” ہوسکے تو آن لائن ہی بات ہو ، تاکہ باقی بھی سن لیں گے اور ان سے بھی تعارف ہوجائے۔
“ میں نے کہا اور پھر ہمارے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔ 
سورج روشن ہو چکا تھا۔ میں چھت سے نیچے آیا تو جنید اور اکبر کنٹرول روم میں مہوش اور فہیم کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ملنے ملانے کے بعد باتیں ہونے لگیں ۔ دوسری طرف سلمان ، زویا اور گیت بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ سب باتیں سن رہے تھے۔ تب میں نے جسپال سے ہونے والی باتیں بتا کر اسی تناظر میں کہا۔
 
” ہماری پہلی ترجیح ایسے لوگوں کوتلاش کرنا ہے ۔“
” ہم ابھی سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ دنیا بھر میں سے جوزیادہ انسانی حقوق کی پامالی کر رہے ہیں ، انہوں نے ہی انسانی حقوق کی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں۔ اسی کی آڑ میں بہت کچھ ہو رہا ہے ۔“ گیت نے اپنی رائے دی تو فہیم تیزی سے بولا۔ 
” بالکل ، میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔
جس طرح کسی بھی ملک کی خبر رساں ایجنسی کہنے کو تو غیر جانبدار ہوتی ہے لیکن اس میں اپنے ملک و قوم کی جانبداری پوری طرح موجود ہوتی ہے ۔ مثلاً بی بی سی، کیا ان کے ملک میں کوئی جرم نہیں ہوتا، کوئی کرپشن نہیں، کوئی قتل نہیں لیکن دنیا بھر سے وہ اپنی پالیسی جو کہ مسلمان مخالف پالیسی ہے ، ا س پر عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی انتہائی جانبدار ہیں۔
انہیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے ، جنہیں وہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ امریکہ کا نائن الیون ہوا، تو دنیا بھر میں صف ماتم بچھ گئی ۔ لیکن مسلمانوں پر ہونے والا ظلم کہیں دکھائی نہیں دیتا۔“
” تو بس پہلے انہیں دیکھو اور میرے خیال میںآ ج شام تک اس کا نتیجہ سامنے آ جانا چاہئے۔“ میں نے کہا تو سبھی اس پر مختلف باتیں کرکے اپنی اپنی رائے دینے لگے ۔
اسی دوران جسپال آن لائن ہو گیا۔ اس کے ساتھ اروند سنگھ تھا۔ وہ پتلا سا نوجوان تھا، بہت گہری آنکھیں، گلابی ہونٹ، چوڑی پیشانی سفید رنگ اور سیاہ پگڑی باندھے ، ہونٹوں پر مسکان سجائے صاف انگریزی میں بولا۔ 
” سب کو میری طرف سے ست سری اکال ، آداب اور میری طرف سے سلامتی کی بہت زیادہ دعائیں۔“
” اروند سنگھ، تمہیں دیکھ کر اچھا لگا۔
میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ان دوستوں سے بات کرو۔ ہمارے درمیان جو رابطہ ہے ، وہ زیادہ سے زیادہ بہتر ہو۔“ میں نے کہا۔ 
” میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے یہاں آتے ہی رونیت کور کی صورت میں ایک بہترین کام کرنے والی ساتھی مل گئی ہے۔ یہ اس کی قابلیت ہے کہ اس نے جو بھی سیکھا ، اپنی مدد آپ کے تحت ۔ ہم دونوں مل کر آپ دوستوں سے رابطے کی پوری کوشش کریں گے۔
“ اس نے جوش بھرے لہجے میں کہا اور سب میں باتیں شروع ہو گئیں۔ وہ ساری ٹینیکل باتیں تھیں ۔ اس کے نتیجے میں دونوں میں بہت ساری معلومات کا اضافہ ہو گیا۔ اس نے سلمان کو مزید معلومات دیں۔ کچھ چیزیں لینے اور کچھ دینے کو کہا۔ اس سے مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ میں اب ممبئی میں بہت حد تک رسائی کر جاؤں گا۔ چاہے بھارت کمپیوٹر میں جتنا آگے ہے، بلیک مارکیٹ اس سے بھی تیز ہے۔ یہ تو کسی شے کو استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کتنا بڑا فنکار ہے۔ ایک چھوٹے سے چاقو سے پھل کاٹا جاتا ہے اور کسی کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے ۔
                                  ز…ز…ز

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط