آنند پارک کے علاقے میں دریائے دھائی سر کے کنارے بنے ہوئے فارم ہاؤس کے عقبی گیٹ سے نکل کر جسپال اور بانیتا پیدل چلتے ہوئے دریا کنارے تک چلے گئے تھے۔ وہ وہیں کنارے پر اُگے سبزے پر بیٹھ گئے ۔ان کے درمیان کافی بحث ہو چکی تھی اور اس وقت ان میں خاموشی تھی۔ شاید وہ اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے۔ سورج غروب ہونے میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا تھا۔ تبھی بانیتا نے دریا کی لہروں کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
” کیا کہتے ہو ؟“
” وہی جو تم نے سوچا۔“ جسپال نے دھیمے سے جواب دیتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا ہواکنکر دریا میں پھینک دیا۔
” تو پھر اٹھو، اس سالے گوپال نند تک پہنچنے میں تھوڑا وقت تولگے گا۔“ بانیتا کور نے ایک دم جوش سے اٹھتے ہوئے کہا تو جسپال سنگھ نے جیب سے فون نکالا ، اس پر نمبر پش کیے اور اٹھ کر چل دیا۔
(جاری ہے)
وہ دونوں چلتے جا رہے تھے۔
جسپال کا ملایا ہوا نمبر مل گیا تو اس نے کہا۔
ٹی ایس ہمیں جانا ہے گوپال نند سے ملنے کے لیے ۔“
” یہ تمہارا فیصلہ ہے۔“ ٹی ایس نے پوچھا۔
” آج نہیں تو کل ان سے سامنا تو ہونا ہی ہے۔ کیوں نہ آج ہی سہی۔“ جسپال نے کہا۔
” اوکے ہو گیا۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ سامنے ہی فارم ہاؤس کا عقبی گیٹ تھا۔ وہ اس تک پہنچے ہی نہیں تھے کہ گیٹ کھلا اور ایک سیاہ فور وہیل باہر آ گئی۔
اس میں ٹی ایس بیٹھا ہوا تھا۔ ڈررائیونگ سیٹ پر ایک اور نوجوان تھا۔ وہ گیٹ کھول کر بیٹھے اور چل دئیے۔ ان کا رخ براویلی کے علاقے کی طرف تھا۔ راستے میں مختلف جگہوں سے کئی لوگ ہمارے ساتھ چلنے لگے۔ وہ سب اپنی اپنی گاڑیوں میں تھے۔ جسپال اور بانیتا کو بھی ایک کار مل گئی۔ وہ اسی کارواں کے ساتھ رہے لیکن ان سے الگ آگے بڑھتے گئے ۔
وہ ایک مصروف بازار تھا، جس کے ایک ریستوران میں وہ دونوں جا بیٹھے تھے۔
ٹی ایس اور اس کے ساتھی ارد گرد پھیل گئے تھے۔ وہ انہیں دکھائی تک نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے گوپال نند کو وہیں بلایا تھا۔ اس نے وہیں آنے کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ وہ اس کے انتظار میں تھے۔ تبھی داخلی دروازے سے گوپال نند آ تا ہوا دکھائی دیا تو جسپال نے مخصوص اشارہ دے دیا۔ وہ آ کر ان کے پاس بیٹھ گیا اور اپنی مخصوص دھیمی مسکراہٹ سے بولا۔
” اتنی ایمر جنسی کیا آ ن پڑی کہ یوں بلوا لیا۔
“
” دیکھو گوپال! ہمارے پاس وقت نہیں ہے ،فضول قسم کی بھاگ دوڑ کے لیے ۔ جتنا ہو گیا سو ہو گیا۔ اب بولو اس پولیس آ فیسر کاکام تمام کرنا ہے یا نہیں، جس کا ایڈاوانس تم لوگ ہمیں دے چکے ہو؟“ جسپال نے پوچھا۔
” کیسی باتیں کر رہے ہو ۔ ارے کام تو کرنا ہے ، تبھی ایڈوانس دیا لیکن تم اتنی جلدی کاہے کو کر رہے ہو؟ ارے وہ پولیس آ فیسر ہے۔
کوئی ٹپوری نہیں جو تم یوں بات کر رہے ہو۔“ گوپال نے کافی حد تک الجھتے ہوئے پوچھا۔
” تمہاری کل والی فضول سی گیم نے ہمارا بہت سا وقت ضائع کر دیا۔ اگر کام ہے تو ٹھیک، ورنہ ہمیں آج ہی ملائشیا کے لیے نکلنا ہے، اپنا ایڈوانس واپس لو۔“ بانیتا کور نے کہا تو اس پر گوپال نند نے اسے غور سے دیکھا ، پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
” اب یہ اتنا آسان کا م نہیں ہے ۔
تم لوگ بھارت سے کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ کسی بھی ائر پورٹ پر تم لوگ دھر لیے جاؤ گے۔ میرا تو خیال ہے ممبئی سے بھی …“ اس نے کہنا چاہا مگر جسپال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” یہ ہمارا مسئلہ ہے ، تم اپنی کہو، کام ہے یا نہیں؟“
” ہے ۔“ اس نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔
” تو پھر ڈن تم نے کرنا ہے یا تیواری نے ؟“ بانیتا نے روکھے لہجے میں پوچھا۔
” میں ان سے بات کر لوں۔“ وہ جھجکتے ہوئے بولا۔
” اس کا مطلب ، تم کچھ نہیں کر سکتے۔ اٹھو اور بھاگ جاؤ ۔ دوبارہ ہم سے رابطہ نہیں کرنااور اگر ہماری ضرورت محسوس ہو تو تیواری سے کہنا کہ رابطہ کرے، چلو بھاگو۔“ بانیتا کور نے اس قدر درشتی سے کہا کہ گوپال نند کا منہ چند لمحے کھلا رہ گیا، پھر اسے ہوش آیا تو اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ بانیتا بولی۔
” ایک لفظ بھی کہا نا تو یہیں تیراحلیہ بگاڑ دوں گی سالے، چل بھاگ۔“
اس نے دونوں کی طرف دیکھا ، دھیرے سے اٹھا اور تیزی سے باہر کی جانب نکلتا چلا گیا۔اس کے کچھ دیر بعد وہ بھی بِل دے کر باہر کی جانب نکل پڑے۔ وہ باہر کھڑی کار کے پاس آئے ۔ انہیں کچھ فاصلے پر ٹی ایس دکھائی دیا۔ وہ کار میں بیٹھ گئے تو ٹی ایس کا فون آ گیا۔
” سالا پوری فوج کے ساتھ آیا تھا، کم از کم بارہ لوگ تھے اس کے ساتھ۔
“ اس نے بتایا
” ان میں سے اب بھی کوئی ہے؟“ جسپال نے پوچھا۔
” تیری بائیں طرف سیاہ ہنڈا اکارڈ میں چار لوگ اب بھی ہیں، لگتا ہے تعاقب کریں گے ۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
” چل پھر ان کا تو کام کر یں۔“ جسپال نے کہا اور کار بڑھا دی ۔ وہ ہنڈا بھی حرکت میں آ گئی اور ان کے پیچھے چلنے لگی۔ جسپال کے آ گے ٹی ایس کی فوروہیل تھی۔
وہ مہا دیو بھائی ڈیسائی روڈ کی طرف بڑھے اورپھر مین روڈ پر آ گئے۔ کافی آ گے جا کر کلوپوادی روڈ سے بھی آگے نکل کر نیشنل پارک کے پاس دائیں جانب کھلے میدان میں اُتر گئے۔ وہ کار مسلسل ان کے پیچھے تھی۔ جیسے ہی جسپال نے میدان میں کار روکی تو وہ ہنڈابھی رُک گئی۔ اس کے ساتھ ہی دوسری کاروں نے بھی انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ہیڈ لائیٹس کی تیز روشنی میں وہ کار صاف دکھائی دے رہی تھی۔
جسپال نے اپنا پسٹل نکالا اور کار سے باہر نکل کر یکے بعد دیگرے اس کے سامنے والے دونوں ٹائر برسٹ کر دئیے۔ اسی کے چند لمحے بعد کسی نے دوسری طرف سے فائر کیے تو کار کے پچھلے ٹائر بھی پھٹ گئے۔ جسپال نے اندر بیٹھے لوگوں کا چند لمحے انتظار کیا۔ ان میں سے کوئی باہر نہیں نکلا تو وہ سامنے آ گیا۔ اس نے اشارے سے انہیں باہر نکلنے کو کہا۔ وہ نہیں نکلے تو جسپال نے جیب میں سے دستی بم نکالا ۔
اسی لمحے باقی کاریں پیچھے کی طرف بڑھ گئیں۔ اس نے بم کی پن نکال کر اس کار کی طرف پھینک دیا ۔ اسی لمحے کار کے چاروں دروازے کھلے اور وہ تیزی سے باہر نکل کر پوری قوت سے بھاگے ۔ مگر تب تک جسپال اپنی کار میں بیٹھ چکاتھا۔ بانیتا نے کار کو گیئر لگا لیاتھا۔ انہیں عقب میں دھماکا سنائی دیا ۔ انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ ان کا حشر کیا ہوا ۔ وہ سب اسی طرح واپس مین روڈ کی طرف چل پڑے۔
تبھی جسپال کے سیل پر گوپال کا فون آ گیا
” تیری تیواری کے ساتھ ملاقات فکس کر دی ہے ۔ آج رات ہی کو …“
” بہت دیر کردی بھڑوے تم نے۔ ہم پر نگاہ رکھنے والے تیرے بھیجے ہوئے اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔“ جسپال نے کہا۔
” یہ کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے تو کسی کو نہیں بھیجا۔“ اس نے حیرت سے کہا۔
” پھر وہ کسی دوسرے کے لوگ ہوں گے۔
چل کس وقت کرا رہا ہے تیواری سے ملاقات۔“ اس نے پوچھا۔
” بس دو چار گھنٹوں میں ، تو فوراً آ جا۔“ اس کا لہجہ بالکل بدل گیا تھا۔ اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔
” گو پال ، اب جگہ میری ہوگی ، آنا ہے تو ٹھیک ورنہ تو اپنا آپ سنبھال، میں دیکھتا ہوں تیرے تیواری کو ۔“ یہ کہہ اس نے فون بند کر دیا۔
دس منٹ نہیں گذرے ہوں گے ، اس کا سیل بج اٹھا۔
جسپال نے فون رسیو کیا تو دوسری طرف کسی نے بڑی ملائمیت سے کہا۔
” ارے جسپال۔ ہم ہیں رام تیواری لعل ، بھئی کدھر ہو تم ، آؤ، بیٹھ کے کام کی بات کرتے ہیں۔“
” بات تو ہو گئی ہے ، ہاں اگر مزید بات ہی کرنی ہے تو جہاں ہم چاہیں گے وہاں آنا ہوگا۔“ جسپال نے کہا۔
” دیکھو ہم چاہیں تو ابھی تمہیں کان سے پکڑ کر اپنے سامنے لے آئیں۔
مگر ہم ایسا کریں گے کیوں۔ تم خود آؤ گے یاہم لائیں تمہیں۔“ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
” تو پھر اسی بات پر لگ گئی تیواری، اگر آج رات یا اگلے چوبیس گھنٹوں میں تم مجھے اپنے سامنے لے آؤ تو جو تم کہو گے میں کروں گا۔ اگر نہ لاسکے تو جہاں میں کہوں وہیں آ جانا۔“ جسپال نے اس سے بھی زیادہ طنز یہ لہجے میں کہا۔
” دیکھو۔ ہمیں مجبور مت کرو کہ تمہارے بارے میں کچھ غلط سوچیں۔“ اس نے غصے میں کہا۔
” سوچ کے دیکھ لو۔“ اب کہ جسپال کا انداز چڑانے والا تھا۔ اس نے مزید بات نہیں کی اور فون بند کر دیا۔ اس پر جسپال مسکرا دیا۔