Episode 58 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 58 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

” ٹھیک کہا اس نے ، اماں ٹھیک نہیں ہیں۔یہاں کے ڈاکٹرز نے جو کہا وہ اگر سن لیں تو تم بھی پریشان ہو جاؤ۔ اماں ہماری نہیں سنتیں۔ میں نے چھاکے سے کہا کہ وہ تمہیں بلائے۔“
” کیوں، کیا ہوا؟“ میں ایک دم سے پر یشان ہو گیا
” اب میں تفصیل بتاتی…“ اس نے کہنا چاہا تواماں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ 
”او پتر مجھے کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ ایویں پر یشان ہیں سب۔ اب عمر کا بھی تقا ضا ہے ، کمزوری تو آئے گی۔“ اماں نے پوری سنجیدگی سے کہا تومیں خاموش رہا، پھر تانی کی طرف دیکھا تو اس نے آ نکھوں ہی آ نکھوں میں مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ میں نے اس کی بات مان لی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ اماں اٹھ کر اندر چلی تو سوہنی انہیں چھوڑنے ساتھ چلی گئیں۔
” بات کیا ہے؟“ میں ا س کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو چند لمحے خاموش رہی پھر بولی۔

(جاری ہے)

 
” وہ سوہنی ہی بتا دے گی آپ کو۔“ اس نے کہا ہی کچھ اس طرح تھا کہ میں نے اس موضوع کو ایک طرف رکھ دیا اور میں نے دلچسپی سے پوچھا۔ 
” یہ تم نے بہت خوب کیا کہ یہاں کے نوجوانوں کو تربیت دے رہی ہو۔ یہ خیال کیسے آیا ؟“ 
” میری مجبوری تھی۔ مجھے اپنی فٹنس رکھنا تھی۔ دوسرے یہاں رہتے ہوئے میں فضول نہیں بیٹھ سکتی، سو میں نے اماں سے اجازت لی اور یہ سب شروع کر دیا۔
شروع میں تھوڑا مخالفت ہوئی ، پھر سب ٹھیک ہو گیا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا
” تم یہاں خوش تو ہو نا؟“ میں نے پوچھا۔ 
” ایک دم خوش۔“ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر سو رنگ بکھر گئے۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اسے یہاں کی سیکورٹی کا پورا احساس تھا۔ میں اس سے باتیں کر رہا تھا کہ سوہنی آگئی۔ وہ آتے ہی میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی اور میری طرف دیکھ کر بولی۔
 
” اماں بہت سیریس ہیں ۔ ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ ایک وقت ہی میں انہیں دو طرح کے مرض لاحق ہو گئے ہیں۔ ایک دل اور دوسرا انہیں ہائی بلڈ پریشر ہے۔“ 
” مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔“ میں نے چونکتے ہوئے کہا تو تیزی سے بولی۔ 
” اماں نے منع کیا تھا۔ وہ تو اب بھی نہیں چاہتی تھیں کہ تمہیں بتایا جائے، بس دوا کھالی تو ٹھیک۔“
” تو پھر تیاری کرو، اماں کو کسی بھی باہر کے ملک لے چلتے ہیں، اس پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی نا۔
“ میں نے فیصلہ کن لہجے میں کہا تو وہ بولی۔ 
” میں پتہ نہیں کتنی بار کہہ چکی ہوں۔ وہ نہیں مانتیں۔ تمہیں اسی لیے بلایا ہے۔ تم کہو تو شاید مان جائیں۔“
” ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں۔“ میں نے کہا تو اٹھ کر اندر جانے لگا۔ تب سوہنی نے مجھے روک دیا
” اس وقت وہ دوا کے اثر میں سو نے لگی ہیں۔ جگایا تو ان کی طبعیت…“
” ٹھیک ہے میں شام کو بات کروں گا۔
“ میں نے کہا اور باہر کی طرف چل دیا۔ میرے پیچھے ہی تانی بھی اٹھ آئی۔ چوہدری اشفاق میرے انتظار میں تھا۔ ہم نیچے ڈرائنگ روم میں آگئے۔کچھ دیر بیٹھنے اور وہاں کے بارے معلومات لینے کے بعدمیں اور اشفاق ،سارا کاا سکول دیکھنے چل پڑے۔واپسی پر ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ میں نے مسافر شاہ کے تھڑے پر مسافروں کے لیے کچھ سہولیات مہیا کرنے کا کہا تھا۔
اشفاق نے وہاں کافی کام کروا دیا تھا۔ میں نے اس کام کے بارے میں پوچھا تو اس نے کار کا رخ اُدھر موڑتے ہوئے کہا۔ 
” چل ادھر کا بھی ایک چکر لگا لیں۔ تو خود ہی دیکھ لے کیا کچھ کیاہے، جو رہ گیا ہو وہ بتا دینا۔“
اس نے وہاں کافی کام کروا دیا ہوا تھا۔ ایک طرف کمروں کی قطار تھی اور اس کے ساتھ برآمدے تھے، جہاں مسافر کچھ دیر بیٹھ کر سکون لے سکتے تھے۔
پانی کا بہترین انتظام کر دیا گیا تھا۔
” بس اب یہاں بجلی پہنچ جائے تو مزید بہتر ہو جائے گا، میرے خیال میں وہ جلد لگ جائے گی۔“ اشفاق نے بتایا۔ پھرایک طرف اشارہ کر کے بولا۔
” وہ دیکھو، کافی قطعات پر گھاس لگوا دی ہوئی ہے لیکن یہ سبز تبھی ہوں گے جب یہاں ٹیوب ویل لگ جائے گا۔“ وہ بتا رہا تھا لیکن میں وہاں کھڑا دیکھ رہا تھا، کنویں پر چند لڑکیاں پانی بھرنے آ ئی ہوئی تھیں ۔
میں نے دیکھا مسافر شاہ کے میدان کے ایک سرے پر بڑی رنگین جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ بلاشبہ یہ وہیں سے آ ئی تھیں۔ میں نے غور کیا، وہ خانہ بدوش نہیں تھیں۔ خانہ بدوش جو ہر طرح کا جانور، کتے بلے ، خنزیر تک کھا جاتے ہیں، مقامی زبان میں انہیں ” بوریے“ کہا جاتا ہے۔ ان میں ایک طرح کی نفاست تھی ، یہی شے مجھے ان میں دلچسپی پیدا کر رہی تھی۔ جب وہ پانی بھر چکیں تو میں نے آ گے بڑھ کر ان میں سے ایک بڑی لڑکی سے کہا۔
 
” وہ سامنے جھونپڑیاں تم لوگوں کی ہیں۔“
” ہاں ہماری ہیں۔“ اس نے تصدیق کی ۔ اس کا لہجہ اندورون روہی اور سندھی کا ملا جلا تاثر دے رہا تھا۔
” تم میں جو بڑا بزرگ ہے نا ، اسے یہاں بھیجو، میں اس سے کوئی بات کرنا چاہتا ہوں۔“ میں نے کہا تو انہوں نے کوئی جواب دئیے بغیر گھڑے سر پر اٹھائے اور تیز قدموں سے چل دیں۔ 
میں مسافر شاہ کے تھڑے پر بیٹھ گیا تھا۔
اشفاق بھی ذرا فاصلے پر میرے پاس براجمان ہو گیا۔ کچھ دیر بعد جھونپڑیوں سے ایک لمبے قد کا، پتلا سا آدمی نکلا۔ اس نے ہماری طرف دیکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا چل پڑا۔ اس نے گیروے رنگ کا کرتا اور سفید دھوتی باندھی ہوئی تھی۔ سر پر سفید بھاری پگڑی تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ اس کے کپڑے صاف اور دھلے ہوئے تھے۔ خانہ بدوشوں کی طرح میلے کچیلے نہیں تھے۔
اس کے پیچھے تین مختلف عمر کے نوجوان بھی آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ اس کی بڑی بڑی سفید مونچھیں اور بے تحاشا داڑھی اس کے پتلے چہرے پر عجیب سی لگ رہی تھیں۔ وہ تینوں نوجوان اس کے پاس کھڑے ہوگئے ۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر پر نام کیا۔ وہ ہندو تھے۔ بوڑھے کا نام رام لعل تھا۔ وہ جوگی تھا۔ وہ لوگ دو ہفتوں سے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ایک بات میں نے محسوس کی۔
جب تک وہ اپنا تعارف کراتا رہا ، اس دوران وہ مجھے گہری نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ اتنی گہری نگاہ کہ مجھے احساس ہو گیا کہ اس کے انداز میں ایک طرح کا غرور ہے۔ چند لمحے بعد وہ روہی اور سندھی ملے لہجے میں بولا۔ 
” جی حضور، فرمائیں، کس لیے بلایا؟“ 
” تم لوگ یہاں کیسے؟ “ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔ 
”اگر آپ کو ہمارے یہاں رہنے پر اعتراض ہے تو ہم آج ہی چلے جاتے ہیں۔
“ اس نے لہجہ مودب رکھا لیکن اس میں ایک خاص اکھڑ پن تھا ۔
”مجھے یہاں تمہارے ڈیرہ لگانے پر اعتراض نہیں ہے ، میں نے یہاں میلے کے علاوہ کبھی کسی خانہ بدوش کا ڈیرہ نہیں د یکھا۔اس لیے تم سے پوچھ رہاہوں کہ تم یہاں کیسے ؟ کوئی خاص مقصد ہے اس علاقے میں آنے کا ؟“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا جو کسی سانپ کی طرح چمک رہیں تھیں۔
وہ کچھ لمحے خاموش رہا پھر اسی لہجے میں بولا ۔
” میں ایک جوگی ہوں۔ میں خاص سانپوں کو پکڑنے کے لیے مختلف علاقوں کا سفر کرتا رہتا ہوں یہاں میں ایک خاص قسم کے سانپ کی تلاش میں آیاہوں۔ مجھے پتہ چلاہے کہ وہ یہاں پایا جاتا ہے۔“ اس نے مودب لہجے میں کہا۔ 
” کیا وہ سانپ یہاں ملا؟“ میں نے پوچھا۔ 
”اس کی موجودگی کے آثار تو ہیں لیکن دوہفتے ہوگئے، وہ ہمیں دکھائی نہیں دیا۔
پوری کوشش کے بعد بھی اسے تلاش نہیں کر پائے ہیں۔“ اس بار وہ ذرا عجیب سے لہجے میں بولا جیسے بے بس ہو گیا ہو۔ 
” کیا وہ اتنا ہی نایاب سانپ ہے، جس کی تلاش تمہیں یہاں تک لے آئی ؟“ میں نے پوچھا۔ 
” ہاں‘ وہ اتنا ہی نایاب ہے۔ لیکن لگتا ہے وہ اب یہاں نہیں ہے۔میرے آتے ہی شاید یہ جُوہ چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔“ اس نے قدرے فخریہ لہجے میں بتایا
” مطلب وہ سانپ تم سے ڈر گیا اوریہاں سے بھاگ گیا۔
یہی کہنا چاہ رہے ہو نا؟“میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ 
” لگتا تو یہی ہے؟“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا
” ایسی کیا بات ہے تم میں؟“ میں نے اس میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ 
”اس روئے زمین پر کوئی ایسا سانپ نہیں ہے جو اپنے زہر سے مجھے نقصان پہنچا سکے۔سنا ہے اس سانپ کا زہر بہت تیز ہے اتنا تیز کہ جیسے ہی وہ کسی بندے کو ڈستا ہے اس کا جسم پھٹنے لگتا ہے۔
زیادہ سے زیادہ دو منٹ میں اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس کا زہر مجھ پر اثر کرتا ہے کہ نہیں۔“ جوگی نے یہ کہتے ہوئے لاشعوری طور پر اپنی مونچھ پر ہاتھ پھیرا۔
” اس سانپ کی تلاش تمہیں اس لیے ہے کہ تم اس کے زہر پر تجربہ کر سکو؟“ میں نے پوچھا تو چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ 
” ہاں، ایک توتجربہ کرنا تھا، دوسرا… “ یہ کہتے ہوئے وہ یک دم سے رک گیا، لمحہ بھر بعد بولا۔
” جب وہ سانپ ہی نہیں ہے تو اس کا کیا ذکر، ویسے بھی ہم آج کل میں جانے والے ہیں۔“ 
” تمہیں تو وہ سانپ نہیں ملا لیکن اگر میں وہ سانپ یہاں بلا لوں تو کیا پھر خود کو ڈسواؤ گے ۔“ میں نے کہا تو اس نے شدید حیرت سے میری طرف دیکھا، چند لمحے اسی کیفیت میں رہا تو میں بولا۔
” میں دیکھنا چاہوں گا کہ اس سانپ کے کاٹنے سے بدن کیسے پھٹتا ہے۔“
” حضور یہ آپ بہت بڑی بات کر رہے ہیں؟“ اس نے یوں کہا جیسے میں پاگل ہوں اور یونہی بڑ میں کہہ رہاہوں۔ اس کے لہجے میں تیز طنز تھا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط