” اگر میں بلا لوں تو ؟“ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا تو وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگا ، پھر دھیمے سے لہجے میں بولا۔
” ہاں ، بلا لیں۔“
میں نے ایک نگاہ پورے میدان پر ڈالی۔ ایک طرف چٹیل میدان ، ایک طرف ٹیلے اور دو طرف جھاڑیاں اور درخت اُگے ہوئے تھے۔ میں چند لمحے دیکھتا رہا۔ مجھے لگا کہ میرے اندر سے کوئی قوت اس سارے میدان میں پھیل رہی ہے۔
زیادہ وقت نہیں گذرا تھا ،کہ ایک سانپ تیزی سے رینگتا ہوا تھڑے کی جانب آ رہا تھا۔ میں نے خود پہلی بار ایسا سانپ دیکھا تھا۔ اس کا رنگ ہلکا نیلا، جس میں کہیں کہیں سیاہ دھبے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ تین فٹ کا رہا ہوگا۔ پتلا سا ، چمکتا ہوا سانپ جس پر نگاہ نہیں ٹک رہی تھی۔ وہ تھڑے سے کچھ فاصلے پر آ کر رک گیا۔ میں نے واضح طور پر اس جوگی کے منہ سے حیرت زدہ آواز نکلتی ہوئی محسوس کی۔
(جاری ہے)
تبھی میرے قریب اشفاق نے ہولے سے کہا۔
” یہ کیا ہے ؟“
میں نے اس کی طرف تو جہ نہیں دی بلکہ جوگی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
” یہی ہے وہ سانپ، اسی کی تلاش تھی تمہیں؟“
” یہی ہے سانپ ، میں اسی کی تلاش میں یہاں تک آ یاہوں۔“ اس نے جوش بھرے لہجے میں کہا تو میں بولا۔
” چلو، اب اسے خود کو ڈسواؤ۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارا دعوی سچا ہے یا جھوٹا۔
“
میرے یوں کہتے ہی وہ ساتھ کھڑے تینوں نوجوان ایک دم سے بول پڑے۔ یہ ان کی ا صنطراری کیفیت تھی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ تبھی ایک نوجوان نے کہا۔
” نہیں گرو جی ، یہ بڑا زہریلا سانپ ہے، اس کا ڈسا پانی تک نہیں مانگ سکتا۔ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے ہم، بس پکڑ لیں ان کو ۔“
” ایسے نہیں پکڑ سکتے تم اسے، اپنے آپ کو ڈسواؤ تو پکڑو۔
“ میں نے ذرا سخت لہجے میں کہا تو جوگی نے میری طرف دیکھا پھر اپنے نوجوانوں کی طرف دیکھ کر بولا۔
” نہیں مجھے کچھ نہیں ہوگا۔“
جو گی سانپ پکڑنے کو آ گے بڑھا تو سانپ غضب ناک ہو گیا۔ اس کی پھنکار میں شدت تھی۔وہ سبھی چوکنا تھے۔ لیکن کسی کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ آگے بڑھ کر اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ تبھی جوگی نے حوصلہ پکڑا اور سانپ پر ہاتھ ڈال دیا۔
وہ سانپ اس کے ہاتھ سے لپٹ گیا۔ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ سانپ نے اسے ڈس لیا تھا۔ کیونکہ اس کے ماتھے پر ایک دم سے پسینہ بہنے لگا تھا۔ اس کی آ نکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ جھومنے لگا جیسے اسے سانپ کے ڈسنے سے سرور آ رہا ہو۔ وہ اپنے پاؤں سے ہل گیا ۔ اس کے چیلے بالکے اسے اس طرح دیکھ رہے تھے ، جیسے کوئی شے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہو۔ چند منٹ تک وہ اسی کیفیت میں رہا ۔
پھر اسے ہوش آ نے لگا۔ یہاں تک کہ وہ نارمل حالت میں میرے سامنے کھڑا تھا مسکرا رہا تھا۔
” بہت زہریلا ہے یہ سانپ ، جیسا سنا تھا ، ویسا ہی پایا۔“ وہ جوگی خوش ہوتے ہوئے بڑ بڑایا
” یہ تجربہ تم نے کر لیا کہ اس میں کتنا زہر ہے ۔ اب چھوڑ دو اسے۔“
” نہیں یہ نایاب سانپ مجھے چاہئے۔ میں اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔“
” کیا کر نا ہے تم نے سانپ کا کیوں چاہئے تمہیں؟“ میں نے پوچھا تو وہ خاموش رہا ، جیسے وہ مجھے بتانا نہ چاہتا ہو کچھ دیر بعد میں نے پھر پوچھا۔
” تم نے بتایا نہیں کہ تمہیں یہ سانپ کیوں چاہئے ۔“ میں نے پوچھا۔
” حضور آپ کیا کریں گے پوچھ کر، مجھے سانپ مل گیا۔“ اس نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔
” ہو سکتا ہے اب یہ تمہارے کام کا نہ رہا ہو اس نے تمہیں ایک بار ڈس لیا ہے …۔“ میں نے پوچھنا چاہا تو وہ بڑے غرور سے بولا۔
” نہیں ، یہ ایک ہی وقت میں کئی بار ڈس سکتا ہے ، ہر بار اس کا اثر اتنا ہی رہتا ہے ۔
میں نے جو اس سے کام لینا ہے وہ لے لوں گا۔“
” لیکن تمہیں بتانا ہوگا کہ یہ کس مقصد کے لیے لے کر جاؤ گے، کیا کام لو گے اس سے؟“ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا تو اس نے سرور میں آتے ہوئے بڑے غرور سے کہا۔
” میں مانتا ہوں کہ تم نے سانپ کو یہاں بلا لیا، کچھ تو ہو، لیکن اگر اسے ڈسوا لو تو میں بتا دوں گا۔“
” ایسا ہے ، تو لاؤ۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس نے اپنا وہ ہاتھ آگے کیا جس میں اس نے سانپ پکڑا ہوا تھا۔
میں نے اسے پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ لیا۔ سانپ کی فطرت ہے ڈسنا، اس نے مجھے ڈس لیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود بل کھانے لگا۔ میں نے اسے زمیں پر پھینک دیا۔ وہ جوگی حیرت اور غم میں زور زور سے چیخنے لگا۔
” یہ کیا ہو گیا۔ یہ مر گیا…یہ مر گیا۔“ وہ زمین پر پڑے ہوئے سانپ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
” تمہیں کیسے پتہ یہ مر گیا ہے۔“ میں نے سکون سے کہا تو اسی طرح دکھ بھرے لہجے میں بولا۔
” جب سانپ الٹ جائے تو وہ مر جاتا ہے ۔“
” نہیں، یہ ابھی مرا نہیں، جس طرح سانپ کے زہر نے تمہیں ہلا کر رکھ دیا تھا، اسی طرح جب سانپ نے مجھے ڈسا تو وہ خود بے خود ہو گیا ہے ۔انتظار کرو، ابھی ہوش میںآ جائے گا۔“
” ایسا ہے ، کیا میں اسے اپنے ساتھ لے جا پاؤ ں گا“ وہ ایک دم خوشی سے بولا۔
” ہاں ایسا ہی ہے، لیکن اسی وقت لے جاسکو گے جب تم مجھے یہ بتاؤ گے کہ اس کا کرنا کیا ہے۔
“
میری بات سن کر وہ چند لمحے خاموشی سے کھڑا سوچتا رہا۔ اس کے بالکے بھی ادب سے ایک طرف ہو کر کھڑے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے سانپ پر نگاہیں ٹکاتے ہوئے کہا۔
” مجھے اس کا زہر چاہئے۔ اس کے زہر میں خاص نایاب قسم کے جزہیں۔ میرا ایک بیٹا بہت بڑا کیمسٹ ہے۔ مجھے نایاب سانپ ڈھونڈنے کا شوق ہے تو اسے زہر کی خاصیتوں پر تجربات کرنے کا جنون ہے ۔
اس نے بہت ساری اختراع کرلی ہیں۔ یہ سانپ اسے چاہئے۔“
” اور وہ یہ سارا کام دولت بنانے کے لیے کر رہا ہوگا۔ اسے یہ کوئی غرض نہیں ہوگی کہ انسانیت کے لیے کیااچھا ہے اور کیا برا۔ “ میرے یوں کہنے پر وہ خاموش رہا۔ میں نے سانپ کی طرف دیکھا، وہ سیدھا ہو کر معمولی سی حرکت میں تھا۔ میں نے سانپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کراہت سے کہا
”اٹھاؤ اس سانپ کو اور لے جاؤ۔
“ وہ میری طرف دیکھنے لگا۔ میرے لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ وہ دم سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور گڑ گڑاتا ہوا بولا۔
” مجھے خود پر بہت زعم تھا ، بڑا ناز تھا، مجھے اسی وقت سمجھ جانا چاہئے تھا جب آپ نے سانپ کو بلایا۔ میں سمجھ گیا ہوں ، آپ بہت بڑے گیانی ہو۔ مجھے بس اپنے چرنوں میں جگہ دے دو، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
“
” کیوں رہنا چاہتے ہو تم یہاں۔ تمہیں سانپ چاہئے لے جاؤ، اور چاہئے تو مزید لے جاؤ۔“ میں نے یوں کہا جیسے یہ اب کچھ بھی اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ وہ مزید گڑ گڑانے لگا۔ میں اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر کہا۔
” تم ٹھیک سمجھے ہو، آج کے بعد تیرے بیٹے کے ہاتھ میں وہ اثر نہیں رہے گا اور نہ تم میں یہ صلاحیت، ایک چھوٹے سے سانپ کا زہر تمہیں مار سکتا ہے۔
“
” رحم حضور رحم…“ وہ گڑ گڑانے لگا۔
” یہاں رہو ، اپنے بیٹے کو بلاؤ، وہ مجھے مطمئن کرے گا تو ہی میں کچھ کہہ سکوں گا۔ جاؤ ، اپنے سب لوگوں کو ان کمروں میں لے آؤ ۔“ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔
” جیسے آپ کا حکم سرکار۔“ اس نے کہا اور سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنے چیلے بالکوں کو اشارہ کر دیا ۔ وہ فوری ہی پلٹ گئے۔
بظاہر وہ معاملہ ختم ہو گیاتھا۔
لیکن ایک بے چینی میرے اندر اب بھی تھی۔ مجھے سکون نہیںآ رہا تھا۔ تبھی میں نے اس جوگی سے پوچھا۔
” یہاں اس میدان میں یا اس کے ارد گرد تم لوگ ہی ہو یا کوئی دوسرا بھی ہے؟“
” یہاں تو ہم لوگ ہی ہیں، ہم سب آپس میں رشتے دار ہیں۔ ہمارے گھر شہر میں ہیں۔ لیکن اس طرح رہنا ہماری مجبوری ہے کہ ہم سانپ…“ اس نے مزید کہنا چاہا مگر میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، تم لوگوں کے علاوہ کوئی اور ہے اس علاقے میں۔“
میرے یوں کہنے پر وہ ایک دم سے چونکا۔ میری طرف دیکھنے لگا پھر بولا۔
” ایک ملنگ ہے ، اس طرف بڑے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا۔ وہ ہمارے آنے سے پہلے کا وہاں پر بیٹھا ہوا ہے ۔ وہیں رہتا ہے ، ہم نے کبھی اسے ادھر یہاں آتے ہوئے نہیں دیکھا ، اس کے معمولات کیا ہیں یہ بھی نہیں پتہ۔“
” کیا اب وہ وہاں پر ہوگا؟“ میں نے پوچھا۔
” پتہ نہیں۔“ اس نے جواب دیا تو میں اس جانب دیکھنے لگا۔ مجھے کافی کچھ محسوس ہونے لگا تھا۔ میں نے زمین پر پڑے ہوئے سانپ کو دیکھا اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔