Episode 60 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 60 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

” جانے دو اسے ، پھر جب چاہے بلا لیں گے اسے ، تمہیں تو صرف اس کا زہر ہی چاہئے نا ۔ وہ مل جائے گا۔“ میں نے کہا اور اس سمت چل پڑا ، جس طرف اس ملنگ کے ہونے کا جوگی نے بتایا تھا۔
 اس پورے میدان میں برگد کا درخت صرف مسافر شاہ کے تھڑے کے پاس ہی تھا ، یا پھر وہ برگد کا درخت تھا ، جس کے نیچے وہ ملنگ گدڑی بچھائے بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے قریب ہی کچھ برتن پڑے تھے۔
دو ایک پوٹلیاں تھیں۔ قریب ہی ایک بکری بندھی ہوئی تھی،جس کے آگے کافی سارا چارہ پڑا ہوا۔ اس کے سامنے مٹی کا ایک بڑا سا کونڈا دھرا ہوا تھا، جس میں وہ پورے جذب سے اس بھنگ کی طرف متوجہ تھا ۔ میں اس کے قریب چلا گیا تو اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ 
” بابا ! مجھے پیاس لگی ہے ، پانی تو پلاؤ۔“
ملنگ نے ہاتھ روک کر میری طرف دیکھا۔

(جاری ہے)

اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا ، پھر بولا۔ 
” جو پانی تھا وہ میں نے اسے نڈے میں ڈال لیا ، اب میرے پاس تو یہی ہے ، اگر تم چاہو تو یہ پی لو۔“ اس نے طنزیہ لہجے میں بھنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جیسے مجھے وہ پینے کے لیے اکسا رہا ہو ، اسی لیے میں نے پوچھا۔ 
” کیا یہ کوئی خاص شے ہے جو میں پی نہیں سکتا ؟“
” یہ بھنگ ہے جو میں گھوٹ چکا ہوں ۔
شاید یہ تیرے جیسے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔“
” کیا ہوتا ہے اس سے ؟“ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ 
” ہو ناکیا ہے ، نشہ کر دیتی ہے یہ بھنگ ، یہ میری طرح کے رند ہی پی سکتے ہیں۔“ اس ملنگ نے یوں کہا جیسے میری اس کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں ہو۔
” مجھے تمہاری بھنگ سے کوئی غرض نہیں ہے ، اور نہ اس کے نشے سے کوئی مطلب ہے ، میں تو اسے پانی سمجھ کر پی لوں گا ، دیتے ہوکیا مجھے ؟“
” ہاں ہاں ‘ آؤ بیٹھو، یہاں میرے سامنے ۔
“ اس ملنگ نے پھر اسی استہزایئہ لہجے میں کہا تو میں آگے بڑھ کر اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔ ہمارے درمیان کونڈا دھرا ہوا تھا ،جس میں لبا لب بھنگ پڑی ہوئی تھی ۔ اس نے بڑی نفاست سے مٹی کا پیالہ اٹھایا ، اسے لبا لب بھرا اور ایک ہی سانس میں پی گیا۔ دوسرا بھرا اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔
” یہ لو جامِ فلک سیر… لیکن فلک سے گر نہ جانا یہ رندی کی توہین ہے ۔
“ اس نے مجھے یو ں متنبہ کیا جیسے وہ مجھے گرانے پر تلا ہوا ہو۔ میں نے و ہ مٹی کا پیالہ پکڑا اور اس میں پڑی” فلک سیر“ کو پی گیا۔ اب اس کی باری تھی۔ اس نے پیالہ بھر ا اور پی گیا ۔ اس طرح ہم نے چار چار پیالے ایک گھنٹے میں لیے ختم کر لیے ۔ ملنگ کی آ نکھیں سرخ بوٹی کی مانند ہو چکی تھیں۔ وہ جھومنے لگا تھا تو مجھے احساس ہو گیا کہ اب یہ پورے نشے میں ہے ۔
آدھے سے زیادہ کونڈا بھنگ سے بھرا ہو اتھا۔ میں اس کے جھومنے پر مسکرا دیا اور پوچھا۔ 
” بابا جی کہاں پر ہو ، کون سا آ سمان ہے؟“
ملنگ نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور نیم باز آ نکھوں سے میری طرف دیکھا اور نشے میں لتھڑے ہوئے لہجے میں بولا۔ 
” میں ایک نیا آسمان بنا رہا ہوں…“ وہ اس سے زیادہ کچھ کہہ ہی نہیں سکا ۔ تب میں نے کہا۔
 
” بابا جی ! آپ اکیلے اکیلے ہی نیا آسمان بنا رہے ہیں، مجھے بھی ساتھ میں شامل کر لو۔“
ملنگ میری بات سن کر چونک گیا ۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے پوچھا۔ 
” کیا تمہاری سیر ابھی شروع نہیں ہوئی ؟“
” نہیں بابا جی میری توابھی تک پیاس بھی نہیں بجھی، میں نے سیر کیا خاک کرنی ہے ۔اگر اجازت دیں تو یہ باقی پڑی فلک سیر پی لوں یا ابھی آپ پئیں گے ؟“ 
اس نے لاچاری والے انداز میں ہاتھ ہلا کر اجازت دیتے ہوئے کہا۔
 
” اب اس سے زیادہ پینے کی میری گنجائش نہیں ہے ، تم اگر پی سکتے ہو تو پی لو ۔“ 
میں نے ایک بار پھر اس گرتے ہوئے ملنگ کو دیکھا ، پھر پیالے اور کونڈے کو ، میں نے کونڈا اٹھایا اور منہ کو لگا کر پینے لگا ۔ کونڈا خالی کر کے جب میں نے رکھا تو وہ ملنگ آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے برداشت نہیں ہو پا رہا تھا ۔ لگ رہا تھا کہ میرے پینے سے نشہ اسے ہی ہو گیا ہو۔
وہ حیرت کی انتہا پر تھا، مگر کوئی بات نہیں کر پا رہا تھا ، یہاں تک کہ اس کا جھومنا بند ہو گیا اور وہ بائیں کروٹ زمیں بوس ہو گیا۔
میں نے ارد گرد دیکھا، مجھے ایک گھڑا دکھائی دیا ۔ میں اس گھڑے کی طرف بڑھا تاکہ پانی لے سکوں ، مگر وہ خالی تھا ۔ میں نے پانی کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن مجھے پانی نہیں ملا۔ میری نگاہ قریب بندھی ملنگ کی بکری پر پڑی ۔
میں نے پیالہ اٹھایا اور بکری کا دودھ دھونے لگا ۔ آدھے سے زیادہ پیالہ بھر گیا۔ میں واپس اس ملنگ کے پاس آیا اور دودھ کا پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگایا ۔ اس نے آ نکھیں کھولیں اور پھر کچھ کہے بنا دودھ پینے لگا۔ پیالہ خالی ہوا تو میں نے الگ رکھ دیا اورانتظار کرنے لگا کہ وہ کب ہوش میںآ تا ہے ۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد اسے ہوش آ گیا لیکن اس کی حیرت ابھی تک کم نہیں ہوئی تھی ۔
وہ کبھی خالی کونڈے کی طرف اور کبھی میری جانب دیکھ رہا تھا۔ اس کے لبوں سے بات نہیں نکل رہی تھی ۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ وہ کچھ کہے ۔ تبھی اس نے پوچھا۔ 
” تمہیں کچھ نہیں ہوا ؟“
” نہیں۔“ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا
” یہ کمال تو بلا نوش رند کا ہے۔ تم نے اسے کیسے حاصل کیا؟“ اس ملنگ نے عاجزی بھرے لہجے میں پوچھا۔
 
’ میں سمجھا نہیں تم پوچھنا کیا چاہتے ہو اور یہ رند کیا ہو تا ہے؟“ میں نے جان بوجھ کر اس سے سوال کیا 
” رند ، مطلب وہ جو بلا نوش ہو، جو نشے پر قابو پا لے۔“ ملنگ نے کہا۔ 
” نہیں ، میرے نزدیک رند وہ ہوتا ہے جو نشے میں سے ہو ش حاصل کر لیتا ہے۔ میرے لیے یہ رندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔“ میں نے اسے بتایا تو حیرت سے بولا۔ 
” لیکن، تمہیں نشہ کیوں نہیں ہو ا ، جبکہ میں تو چار پیالوں ہی میں اپنا نشہ پورا کر لیا کرتا ہوں ۔
اتنی زیادہ توکوئی بر داشت نہیں کر سکتا جتنی تم پی گئے ہو ۔“
’ تم کیا چاہتے تھے ؟“ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ 
” میں … میں تمہیں گرانا چاہتا تھا ۔ میں نے سمجھاتھا کہ تم ایک دو پیالوں میں گر جاؤ گے ۔ “ 
اس کے اعتراف پر میں نے اسے مزید تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور پردے ہی میں کہا۔ 
” مجھے نشہ اس لیے نہیں ہوتا کہ میں نے شرابِ عشق پی ہوئی ہے۔
جو شرابِ طہورہ کے نام سے مشہور ہے۔“
” یہ کون سی شرا ب ہوتی ہے ، میں نے تو سنی نہیں۔ میں یہ پینا چا ہتاہوں تاکہ میں بھی تمہارے جیسا کمال حاصل کر سکوں۔“ اس نے تیزی سے کہا۔اس کے یوں کہنے پر میں مسکرا دیا اور بولا۔ 
” یہ ایسے نہیں مل جاتی ، اس کے لیے تھوڑا وقت لگانا پڑتا ہے ، کیا تم میرے کہنے پر صبر کر سکو گے ؟“ 
” جیسے آپ کہو۔
“ اس نے عاجزی سے جواب دیا تو میں نے اسے سختی سے کہا۔
” وہ سامنے بابا مسافر شاہ کا تھڑا دیکھ رہے ہو ؟“ 
اس نے نگاہ اٹھا کر تھڑے کی جانب دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
” جی جی دیکھ رہا ہوں“ 
” تو چلو وہاں جاؤ اور روزانہ صبح سے شام تک وہاں جھاڑو لگایا کرو ، تیرے نشے کا بندو بست کرتے ہیں۔“ 
” ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا۔
“ اس نے کافی حد تک بے پروائی میں کہا۔ 
” نہیں اب تم نہیں بھی جانا چاہو گے تو میں وہاں پر رکھوں گا۔ اٹھو، ورنہ لے جانے والے تجھے یہاں سے لے جائیں گے۔“ میں نے کہا تو وہ میری طرف دیکھنے لگا ۔
” جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔ وہ اپنی چیزیں اٹھانے لگا پھر اس نے اپنی بکر ی کھولی اور سارا سازو سامان اکٹھا کر کے کاندھے پر رکھا اور تھڑے کی جانب چل دیا ۔
میں اس کے پیچھے پیچھے ہی تھا۔
ہم واپس مسافر شاہ کے تھڑے پر آ گئے۔ جوگی اور اس کے ساتھ جو لوگ تھے وہ بھی وہیں آ گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کمروں کے نزدیک اپنی جھونپڑیاں لگانا شروع کر دی تھیں۔ میں نے جو گی کو اپنے پاس بلایا اور اس ملنگ کے بارے میں ہدایات دیں۔ اس نے وہ سب غور سے سنا اور عمل کرنے کی یقین دہانی کروا دی ۔ تب میں اشفاق کو لے کر وہاں سے گاؤں کی طرف چل پڑا۔
                                          ز…ز…ز

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط