Episode 61 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 61 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 ممبئی پر بادل چھائے ہوئے تھے۔شام ہو چکی تھی۔ سورج مغرب کی اوٹ چھپنے کو بے تا ب تھا۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ ایسے میں بانیتا کور فارم ہاؤس کے ایک لان میں اکیلی ٹہل رہی تھی۔ اس کے ٹہلنے میں اضطراب واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ کسی فیصلے تک پہنچنا چاہتی تھی۔ جسپال سنگھ ایک کمرے میں کھڑا اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ خود بھی ایسی حالت میں تھا۔
وہ فیصلہ تو کر چکا تھا کہ اب جو بھی گیم کرنی ہے ، وہ خود ہی کرنی ہے۔ تیواری کا نیٹ ورک پورے ممبئی میں تو نہیں پھیلا ہوا تھا، لیکن بوراویلی میں اسے پوری دسترس حاصل تھی۔ جس طرح اس نے ونود رانا جیسے پولیس آفیسر کے بارے میں سنا تھا اور ملاقات میں اس نے محسوس بھی کر لیا تھا، وہ بندہ یوں تیواری جیسے مجرموں کی لعنت ملامت سنے ، ایسا ہو نہیں سکتا تھا، مگر وہ مجبور تھا، سامنے اسے قطعاً جواب نہیں دے پا رہا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ اس کے خلاف سر گرم تھا۔

(جاری ہے)

اصل بات جو سوچنے والی تھی ، وہ یہی تھی کہ ونود رانا یہ ثابت کر پائے گا کہ جو کچھ بھی ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کیے گئے ہیں وہ جعلی ہیں اور جھوٹے ہیں؟ فوری طور پر دماغ اس بات کو ماننے سے انکاری تھا۔ کیا وہ فقط جھانسا دے کر ہمیں استعمال کر رہا ہے یا وہ ایسا کر پائے گا؟ لازمی بات ہے کہ بانیتا کور کے ذہن میں بھی یہی سوال ہوگا ، تبھی اس نے اپنے استعمال ہو جانے کی بابت کہا۔
اب انہیں کرنا کیا ہوگا؟ کیا وہ تیواری والے معاملے کو چھوڑ دیں؟ یہودی لابی والے معاملے کو بھول جائیں؟ چونکہ را ان کے پیچھے ہے، وہ یہاں سے نکل جائیں؟ کیونکہ یہاں پر تیواری جیسے بندے سے نپٹنے کے لیے ان کے پاس وہ قوت نہیں تھی کہ اکیلے گیم کر سکیں۔ دوسری صورت میں وہ دوسرے کے ہاتھوں میں استعمال ہونے پر مجبور تھے۔ 
 ایسے میں اس کے پیچھے نوتن کور آ کر کھڑی ہو گئی۔
اس نے باہر بانیتا کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ 
” کیا بات ہے؟ تم دونوں اتناپریشان کیوں ہو؟“
اس پر جسپال سنگھ نے اس کے چہرے پر دیکھا، جہاں سکون پھیلا ہوا تھا، پھر خودپر قابو پاتے ہوئے کہا
” میرے دماغ میں تیواری ہے اس وقت، اس کا دیا ہوا وقت ختم ہونے میں ایک آدھ گھنٹہ ہی رہتا ہے۔ “
” تم خوف زدہ ہو اس سے ؟“ نوین کور نے کسی تردد کے بغیر کہا تو جسپال نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ بولی۔
” مجھے بتاؤ ، کیا کر نا ہے تمہیں؟“
اس پر جسپال نے طویل سانس لی اور بولا۔ 
” اس کے نیٹ ورک کی مجھے تھوڑی بہت شدبد آ گئی ہے۔ مجھے وہ توڑنا ہے لیکن…“
” وہ اتنی جلدی ٹوٹ نہیں سکتا، تم اکیلے ہر جگہ تونہیں پہنچ سکتے، ظاہر ہے جب تک پوری معلومات نہ ہو ، ان پر اٹیک بے وقوفی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔“
” تم کہنا کیا چاہتی ہو؟“ جسپال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
 
” تیرے اور میرے درمیان بانیتا نہیں جمال ہے اور میں نے جمال کے لیے ہی کام کر نا ہے ، جو تم سوچ رہے ہو ، وہ میں پہلے ہی کر چکی ہوں۔ آؤ میرے ساتھ، میں تمہیں پیپر پر سمجھاؤں کہ تمہیں کرنا کیا ہوگا۔“ یہ کہتے ہوئے نوتن نے بڑے نرم انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ کسی معمول کی طرح اس کے ساتھ چل پڑا۔
 چند کاریڈرو پار کرنے کے بعد وہ اسے لیے اپنے کمرے میںآ ن پہنچی۔
اس نے جسپال کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود الماری کی جانب بڑھی۔ اس میں سے کچھ کاغذ اور قلم لے کر اس کے پاس آ بیٹھی۔کاغذ پر کچھ نشان تھے۔ وہ اسے سمجھانے لگی کہاں پر کیا کرنا ہے اور یہ سب کیسے ہوگا، وہ بھی اسے بتا دیا۔
” ڈن ہو گیا، آ ؤ بانیتا سے…“ جسپال نے جوش بھرے لہجے میں کہا اور اٹھ گیا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بولی۔ 
” یہ کبھی بانیتا کور پر ظاہر نہیں ہونے دینا کہ میں نے تمہیں یہ سب بتایا ہے ، میں چاہے کام اسی کے لیے کر رہی ہوں،لیکن یہ سب جمال کے لیے ہے اور میں اسی کے لیے یہ سب کرتی رہوں گی ۔
یہ میرا نیٹ ورک ہے۔جو تمہارے لیے کام کرے گا۔ اُس پر یہی ظاہر ہونا چاہئے کہ یہ سب تم نے کیا ہے ، یہ سب تمہاری طاقت ہے۔ تم چاہو تو جا نی بھائی کو بھی اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہو۔ وہ جوہو کے علاقے کا سب سے بڑا بھائی ہے۔ بانیتا کے پاس صرف زور دار سنگھ کا نیٹ ورک ہے اور اب ٹی ایس، یہ بھی بڑا گروہ ہے، لیکن اس کے اپنے مفاد ہیں۔“
” اوکے ۔
میں اپنے مطابق چلوں گا۔“ جسپال نے کہا اور باہر نکل پڑا۔ اس کے انداز میں تیزی اور جلدی تھی۔ اس وقت وہ بانیتا کے پاس پہنچا ہی تھا کہ جانی بھائی کا فون آ گیا۔ اس نے تمہیدی باتوں کے بعد کہا۔ 
” ارے اوہ جسپال، اماں کدھر ہو ، ممبئی میں ہوتے ہوئے تنہائی محسوس کرو، اپنا تو پھر ادھر نہ ہونے کا ہوا نا۔“
” میں بھائی فون کرنے ہی والا تھا۔
“ جسپال نے کہا۔ 
” تو بس بول ، کرنا کیا ہے، باقی میں دیکھ لوں گا۔“ جانی بھائی نے پوری سنجیدگی سے کہا۔ 
” ہم نے مل کر ہی کرنا ہے۔میں پلان …“ 
” تم نے جو کرنا ہے کرو، میں ایک لڑکے کا نمبر دے رہاہوں، اس سے بات کرو اور جو کہنا ہے وہ کہہ دو۔“ یہ کہہ کر اس نے الوداعی بات کی اور فون بند کر دیا۔
” کیا کرنے جا رہے ہو؟“ بانیتا کافی حد تک سمجھ گئی تھی۔
اس نے تجسس سے پوچھا۔ 
” تم آؤ میرے ساتھ اروند کے پاس ۔“ یہ کہہ کر اس نے کوئی بات کہے بنا فون جیب میں ڈالا اور مڑ گیا۔ وہیں اس نے اپنی معلومات کی بنیاد پر پلان ترتیب دینا تھا۔ وہ ایک دم سے جوش میں بھر گیا تھا۔
 اس وقت ممبئی پر رات اتر آ ئی تھی۔ جسپال اور بانیتا فارم ہاؤس سے نکل کر آ شا نگر کی طرف جانے کے لیے فور وہیل جیپ دوڑائے چلے جا رہے تھے۔
بانیتا ڈرائیونگ کر رہی تھی۔ جسپال فون ہاتھ میں لیے مسلسل سوچ رہا تھا۔ تیواری کا وہ حویلی نما گھر جواہر نگر کے علاقے میں تلسی جھیل کے کنارے تھا، جس سے کچھ ہی فاصلے پر فلم سٹی کمپلیکس تھا۔ لیکن تیواری کے پیچھے جو دماغ تھے ، وہ تین لوگ تھے۔ جو بوراویلی ہی کے مختلف علاقوں میں رہ رہے تھے۔ جسپال نے جو پلان ترتیب دیا تھا وہ یہی تھا کہ ایک ہی وقت میں ان تینوں کو اٹھایا جائے۔
ایک طرف نوتن نیٹ ورک کے لوگ تھے، دوسری جانب جانی بھائی کے اور تیسری طرف ٹی ایس کے لوگ۔ اس نے ونود رانا کو بتا دیا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ وہ پوری طرح اپنے لوگوں کے ساتھ الرٹ تھا۔
وہ پونا جانے والے روڈ پر تھا۔ ڈائمنڈ انڈسٹریل اسٹیٹ کے اسٹاپ پر پہنچ کر سڑک کے دائیں جانب ایک چھوٹا سا پختہ راستہ دھر کھاری گاؤں کی طرف جاتا تھا۔
جسپال کے اشارے پر بانیتا نے جیپ ادھر موڑ لی۔ کافی آ گے جا کر جنگل شروع ہوگیا، جہاں سے دھر کھاری گاؤں جدا ہو گیا تھا۔ وہ جنگل میں سفر کرنے لگے ۔دو کلو میڑ سے زیادہ سفر کرنے کے بعد جنگل کے درمیان کافی سارا کھلا میدا ن تھا۔ اس میدان کی شمال کی جانب ایک بڑا سارا گھر بنا ہوا تھا ، جس میں لکڑی کا زیادہ کام تھا۔ اس کی دوسری منزل پر روشنی ہو رہی تھی۔
بانیتانے اس گھر کے سامنے جیپ روک دی۔ وہ دونوں اترے اور بڑے دروازے کو کھول کر اندر داخل ہو گئے۔ ملجگا سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ راہداری پار کرتے ہی وہ ایک کھلے ڈرائینگ روم میں آ گئے ۔ سامنے سیڑھیاں تھیں۔ وہ دونوں اس پر چڑھتے چلے گئے۔ وہ سیڑھیاں ایک بڑے سے ہال میں ختم ہوئیں ۔ سامنے کمرے تھے ۔ جس کمرے میں روشنی ہو رہی تھی ۔ وہ اس میں داخل ہوگئے۔
سامنے اروند سنگھ، رونیت کور اور نوتن کور کھڑے تھے۔ تبھی نوتن کور بولی۔ 
” ممبئی میں یہ محفوظ ترین جگہ ہے ۔ یہ میں نے کچھ عرصہ قبل خریدی ہے۔ میرا اراد ہ تھا کہ پر سکون وقت گذارنے کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن اب یہی جگہ ہمارے لیے محفوظ پناہ گاہ ہو گی۔ یہیں بیٹھ کر ہم نے سب کچھ کرنا ہے ۔“
” رات ہونے کی وجہ سے میں دیکھ تو نہیں پائی ، مگر میں اسے گرین ہاؤس کہوں گی۔
” تم جو مرضی کہو ڈارلنگ۔“ نوتن کور نے کہا۔ 
” بہت خوب نوتن، مجھے تمہاری ذہانت پر ناز ہے۔“ بانیتا اسے سراہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی ۔
 مزید دوگھنٹوں میں اپنا سیٹ اپ بنا لیا۔ یہاں تک کہ انکا رابطہ لاہور سے بھی ہو گیا۔ اروند اور جسپال اسکرین کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ اروند اسے بتا رہا تھا۔” یہ گہر ے سبز رنگ کے گول دائرے والے جانی بھائی کے لوگ ہیں اور یہ اپنے ٹارگٹ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔
جو ہمیں یہاں ہلکے سبز رنگ کے دائرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ میں ابھی ان کا ویڈیو لنک لیتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ کی بورڈ کے ساتھ الجھ گیا اور کچھ ہی دیر بعد اسکرین پر منظر ظاہر ہو گیا۔ 
وہ گنیش نگر کے علاقے میں ایک کشادہ روڈ پر کھڑے تھے۔ روڈ لائیٹ سے وہاں کافی اجالا تھا۔ جس بندے کے پاس سگنل دینے والی ڈیوائس تھی ، وہ باہر نکلا تو اردگرد کا منظر سمجھ میںآ گیا۔
وہ تین کاروں میں تھے۔ وہ آ گے بڑھا اور میں گیٹ کے پاس چلا گیا۔ اس نے بیل دی اور انتظار کرنے لگا۔ چند لمحوں ہی میں ایک سیکورٹی گارڈ نے باہر جھانک کر دیکھا۔ وہ کچھ بھی پو چھ نہیں سکا تھا۔ کسی نے اسے گردن سے پکڑ کر وہیں دبا لیا۔ وہ اندر داخل ہو گئے۔ پورچ کے پاس دو سیکورٹی گارڈ بھاگ کر آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ وہ قریب نہ آ سکے، اس سے پہلے ہی ان کے فائر لگ گیا اور وہ سرمئی سڑک پر جا گرے ۔
گیٹ کھل گیا تھا۔ انہوں نے کاروں کی ترتیب جو بھی رکی لیکن وہ اندر ڈرائنگ روم میں پہنچ چکے تھے۔ وہیں ایک بوڑھا سا شخص بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ تبھی نوتن بولی۔ 
” یہی ہے ، پاریل ادت جو اس کی ساری فنانس دیکھتا ہے۔ اس کے گھر میں بہو ہے اور اس کی بیوی باقی سب فارن میں ہوتے ہیں۔ “
وہ حیرت سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ ایک لڑکا آ گے بڑھا اور اس نے اسے گردن سے پکڑ لیا۔
پاریل ادت مزاحمت کرنے لگا۔ تبھی لڑکے نے اس کے سر پر زور سے پسٹل مارا ۔ وہ ڈھلکتا ہوا بے ہوش ہوتا چلا گیا۔ لڑکے نے اسے اپنے بازؤں پر سہارا دیا اور باہر کی طرف نکلا۔ وہ بھا گتا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے پاریل ادت کو لے جا کر کار میں ڈال دیا۔ باقی شاید کسی مزاحمت میں مصروف ہوں گے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک روڈ پر چل دوڑے۔ اسی دوران دوسری طرف سے بھی انڈیکیشن ہونے لگی۔ وہ ٹی ایس کے لوگ تھے۔ پہلے والا منظر چھوٹا ہو کر اسکرین کی اوپر کی طرف چلا گیا نیا منظر سامنے آ گیا۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط