Episode 62 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 62 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

وہ پیٹر وادی کے علاقے کے ایک بار میں تھے۔ رنگ برنگی روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ مختلف لوگ ناچ رہے تھے۔ کچھ صوفوں اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں ایک جوان العمر شخص بیٹھاہوا تھا۔ اس دائیں بائیں دو نیم بر ہنہ لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ ان میں کھویا ہوا تھا۔
” یہ بمل راج ہے، جو اس کی ساری غنڈہ گردی کو دیکھتا ہے۔ یہی بندہ اس کی طاقت ہے۔
“ نوتن نے بتایا
” حیرت یہ ہے کہ یہ یہاں بیٹھا ہے، اسے تو…“ بانیتا نے کہنا چاہا تو وہ بولی۔ 
”اسے ابھی تک روکا گیا ہے پولیس اگر آج رات تک گوپال نند کو تلاش نہ کر سکی تو یہ کرے گا۔ لیکن اس کے لوگ شہر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور یہ بار ان کا سب سے بڑا ٹھکانہ ہے۔ “
” ٹی ایس کے لوگ بڑی خطر ناک جگہ جا پہنچے ہیں۔

(جاری ہے)

“ جسپال کے منہ سے بے ساختہ نکلا

” وہ تو ہے ،لیکن ابھی دیکھنا ۔
“ نوتن نے کہا تووہ سب اسکرین کی طرف دیکھنے لگے۔ بمل راج کوکسی نے مخاطب کیا تو اس نے چونک کر اس طرف دیکھا۔ پھر لمحہ بھر بات سننے کے بعد اس کے چہرے پر غصے کے آثار واضح ہو گئے۔ وہ ایک دم سے اٹھ گیا اور تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔ وہ چلتا چلا جا رہا تھا۔ یوں دکھائی دے رہا تھا کہ وہ باہر جا رہا ہے۔ وہ بار کے کاریڈور میں تھا،تبھی کسی نے اس کے سر پر ریوالور کا دستہ مارا، اس میں قوت برداشت تھی کہ وہ ضرب کھا کر گر ا نہیں بلکہ ایک دم سے پلٹا۔
تب تک اُسے دوسری ضرب پڑ چکی تھی ۔ وہ لڑکھڑا گیا۔ کسی نے اسے سہارا دے دیا۔ اچانک وہاں پر فائرنگ ہونے لگی۔ شور اور چیخوں کی آواز بڑھ گئی ۔ کچھ دیر ہی میں منظر بدل گیا۔ وہ باہر سڑک پر تھے اور کار بھاگنے لگی تھی۔ اورند سنگھ نے وہ منظر بھی اسکرین کے اوپر چھوٹا کر دیا۔ پہلے والے منظر پر بھی بھاگتی ہوئی سڑک نظر آ رہی تھی ۔
 تیسرا منظر واضح ہو گیا تھا۔
وہ کرشنا کالونی کا علاقہ تھا۔ وہاں ایک گلی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ بوراویلی کا پرانا علاقہ تھا۔ گلی کی نکڑ پر کافی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، وہ جوان سا بندہ تھا جس سے جا کر نوتن کور کے لوگ باتیں کرنے لگے۔ وہ کافی حد تک سکون سے باتیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اٹھ گیا۔
” یہ ہر دیک پوڑ وال ہے ، تیواری کے سیاسی معاملات اور میڈیا کے مسئلے یہی حل کرتا ہے ۔
یہ خود ایک اچھا صحافی ہے ، تیواری نے اسے غربت کے باعث خریدا ہوا ہے ۔“
” اب دیکھیں اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟“ بانیتا بڑبڑائی ۔ تب تک کچھ لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہو چکے تھے ۔ اچانک ہر دیک پوڑ وال کو کسی نے دھکا دیا۔ وہ منظر سے ہٹ گیا۔ سامنے کھڑے لوگ ہکابکا تھے۔ کیمرہ تیزی سے حرکت میںآ یا ، وہ بھی وین میں داخل ہو گیا۔ وین میں ہر دیک پوڑ وال نیچے پڑ اہوا تھا۔
اور وہ بھاگے جا رہے تھے۔
” چل بانیتا نکل ۔“ جسپال نے تیزی سے کہا اور کمرے سے نکلتے چلے گئے۔وہ بھاگتے ہوئے نیچے آئے اور باہر نکل کر فوروہیل میں جا بیٹھے۔ جسپال نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی اسے سٹارٹ کیا اور یوٹرن میں واپسی کی طرف پلٹا اور رفتار بڑھا دی ۔
 وہ پونا سے ممبئی کی جانب چل نکلا تھا۔ ایک اسٹاپ سے ذرا آگے نکل کر وہ سڑک سے اتر گیا اور کچے راستے پر گاڑی بھگاتا ہوا چلتا چلا گیا۔
وہاں بھی ایسا ہی ایک گھر تھا لیکن وہ چھوٹا تھا اور سارا لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس کے پاس ہی ایک ندی بہہ رہی تھے ، جس کا پانی ایک آبشار سے گرتا تھا۔ اس نے جا کر وہاں جیپ رُوک کر ہیڈ لائیٹس بند کر دیں۔ ایک دم سناٹے نے انہیں گھیر لیا۔ وہ دونوں نیچے اترے اور اس گھر کی جانب بڑھے۔ جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا، اندر روشنی ہو گئی۔ دو نوجوان ہاتھوں میں گنیں پکڑے الرٹ تھے۔
یہ سارا بندو بست نوتن کور کا تھا۔ یہ سارے لوگ اسی کے نیٹ ورک سے متعلق تھے۔ جسپال نے وہاں کی صورت حال کے بارے میں پوچھا تو ایک نوجوان نے بتایا کہ ارد گرد پوری سیکورٹی موجود ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا۔ وہ کافی حد تک مطمئن ہو گیا۔ وہ ایک بات اوپر گیا ، نیچے ٹہلتا رہا یہاں تک کہ اس کے سیل فون پر ان تینوں کی آمد کے بارے میں اطلاع دے دی گئی۔
یہ اطلاع وہاں کے سیکورٹی چیف کو بھی مل گئی تھی۔ وہ الرٹ ہو گئے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک ہائی ایس وین وہاں آ گئی۔ وہ اس طرح آ کر کھڑی ہوئی کہ وین اور گھر کا دروازہ آ منے سامنے تھا۔ وین میں فقط چار آدمی تھے ۔ وہ تینوں ، جنہیں اغوا کیا گیا تھا اور ایک جوان گورال ، پانچواں ڈرائیور تھا۔ وہ تینوں بے ہوش تھے۔، جنہیں جلد ہی گھر کے اندر پہنچا دیا گیا۔
جسپال اس شخص پر بہت خوش تھا، جس نے ان تینوں کے اغوا کو منظم کیا تھا۔ اتنے لوگوں کا رش اس نے کہیں راستے ہی میں ختم کر دیا تھا۔ وہ اسی سے رابطے میں تھا،
ان تینوں کو اس گھر میں موجود بڑے سارے تہہ خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ ساتھ آیا نوجوان گورال انہیں ہوش میں لا رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ہوش میںآ گئے۔جس نے بھی آ نکھ کھولی اس نے اپنے سامنے کھڑے ، بانیتا اور گورال کو پایا۔
سب سے پہلے بمل راج نے اکھڑ لہجے میں سوال کیا۔
” کون ہو تم لوگ اور ہمیں یہاں کیوں لائے ہو ؟“
 بانیتا آگے بڑھی اور پوری قوت سے جوتے کی نوک اس کے منہ پر دے ماری۔ وہ بلبلا اٹھا۔ دوسرے سہم گئے۔ تبھی وہ گورال آگے بڑھا اس نے بھی ایک ٹھوکر اس کی پسلیوں پر ماری۔ وہ چند لمحے اکٹھا ہو گیا۔ شاید اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔
تبھی بانیتا آگے بڑھی اور اس نے تینوں کی طرف دیکھ کر سرد سے لہجے میں کہا۔ 
” تیواری، صرف تیواری کے بارے میں بات ہوگی ۔ اس کے علاوہ صرف موت مل سکتی ہے۔ سمجھے یا نہیں؟“
” کیا چاہتی ہو تم؟“ بوڑھے پاریل ادت نے پوچھا۔ 
” تیواری کے وہ سارے کالے کارنامے، جو اس نے تم لوگوں کے ذریعے کیے ہیں۔ تم نہیں بتاؤ گے تو کوئی اور بتا دے گا لیکن تم لوگوں کا فقط اتنا نقصان ہو گا کہ تم لوگوں کے گھر کا ہر ہر فرد ایک ایک کر کے مار دیا جائے گا اور آ خرمیں تم لوگ مار دئیے جاؤ گے ۔
تمہاری ہڈیاں اسی تہہ خانے کے کچے فرش میں دبا دی جائیں گی۔ اب فیصلہ تم لوگوں نے کرنا ہے کہ کیا چاہتے ہو تم لوگ؟“ بانیتا نے کسی دوسرے درجے کی فلم کے ولن کی مانند کہا۔ 
” تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی ہو …“ بوڑھے پاریل ادت نے کہا۔ 
” تمہارے لیے نہ سہی، لیکن اتنا تو پتہ چلا کہ اتنی گہری وفاداری ہے کہ اپنے بچے بھی اس پر…“ 
” نہیں ،تم غلط سمجھی ہو، ہم بتا بھی دیں تو اس نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، جب اس نے جرم کیا ہی نہیں تو ثابت کیا ہوگا۔
ہم نے کیاہے سب، سارے سیاست دانوں کے فرنٹ مین ایسا ہی کرتے ہیں۔ کوئی عدالت اسے سزا نہیں دے سکتی ۔“ اس بار اس کا لہجہ مایوسی بھر اتھا۔ لیکن اس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ بہت گھاگ قسم کا بندہ ہے ۔
” غلط کہتے ہو تم۔“ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے جسپال نے کہا تو سبھی نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ سبھی اسے دیکھنے لگے تھے۔وہ ان کے قریب آ کر بولا۔
” دراصل تم سب بھڑوے ہو ۔ دلال، دھرتی کو ماتا مانتے ہو اور اپنی ماں ہی کا سودا کرنے والے دلال، مان بیچنے والے۔“ یہ بات سن کر بمل راج غصے میں پاگل ہو گیا۔ اس نے انتہائی نفرت اور حقارت سے کہا۔ 
” تمہیں یہ بہت مہنگا پڑے گا“
لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ بانیتا نے پہلے کی طرح ایک زور دار جوتے کی نوک اس کے منہ پر ماری۔
” کوئی بھی کسی کو باندھ کر مار سکتا ہے، میرے ہاتھ پیر کھولو تو میں تمہیں بتاؤں۔
“ وہ زور سے چیختے ہوئے بولا۔ 
” شرط یہ ہے کہ جو ہار مان جائے، دوسرا اسے قتل کر دے گا۔“ بانیتا نے کچھ اس طرح کہا کہ سبھی نے ایک دفعہ اسے دیکھا تب تک اس نے گورال کو اسے کھولنے کا اشارہ کر دیا۔ بمل راج کے ہاتھ پیر جیسے ہی کھلے ، وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بانیتا نے اسے پوری طرح اٹھنے ہی نہیں دیا اور لات گھما کر اس کی کمر پر دے ماری ۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا دیوار تک گیا۔
بانیتا اسے مارنے کو لپکی،لیکن وہ بجلی کی سی سرعت سے پلٹا اور اس نے ایک کھڑی ہتھیلی بانیتا کی گردن پر ماری ۔ وہ ہل گئی۔ اس نے وہ لمحہ ضائع نہیں کیا، اس نے پنچ ماتھے کے درمیان میں مارا۔ وہ گھوم کر زمین پر گری، تبھی وہ اسے پکڑنے کے لیے لپکا،یہی اس کی غلطی تھی۔ بانیتا ایک طرف ہٹ گئی وہ زمین پر آن رہا۔ اس نے دونوں ہاتھ باندھے اور اس کی گردن کی پچھلی طرف پوری قوت سے مارے۔
وہ بالکل ہی زمیں بوس ہو گیا۔ اس کے ساتھ ایک ٹھوکر اس کی پسلی میں ماری۔ وہ تڑپ کر اٹھنے لگا مگر وہ بانیتا ہی کیا جو اب اسے اٹھنے دیتی۔ وہ وحشیوں کی مانند اس پر پل پڑی۔ بمل بے ہوش ہو گیا۔ اس نے کالر سے پکڑ کر اٹھایا لیکن وہ نہیں اٹھ سکا۔وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے الگ ہو گئی۔ جوان آگے بڑھا اور وہ اسے ہوش میں لانے لگا ۔ کچھ دیر بعد اسے ہوش آ گیا تو وہ نہایت غصے میں بولی۔
 
” کوئی بھی حلال زادہ غنڈہ گردی نہیں کرتا، امیروں کا کتا بن کر غریبوں پر نہیں بھونکتا۔ اس کے خون میں شک ہوتا ہے جو کمزوروں پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ اٹھ ، اب بتا،کس طرح مرنا چاہے گا بول۔“
وہ اسے مارے جا رہی تھی اور انتہائی وحشت سے کہتی جا رہی تھی۔ تبھی جسپال نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ 
” نہیں، اسے مارنا مشکل نہیں ہے ، اسے چھوڑدو ۔“ یہ کہہ کر اس نے بمل راج کو اس سے چھڑا لیا۔ وہ بے دم سا زمین پڑا تھا۔ چند لمحے یونہی خامشی میں گذر گئے تو وہ بولا۔ 
” پاریل جی ، تم جانتے ہو کہ تیواری نے دو پولیس آفیسر مارے ہیں اور اب تیسرے کی باری ہے۔ اس کے جرائم کی لسٹ بہت بڑی ہے۔ اور…“

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط