” کتنی دیر میں آ سکتے ہو؟“
” کہاں آنا ہوگا۔“
” وہیں جہاں ہم ملے تھے۔ اس کے قریب ہی ۔“
” ایک گھنٹہ تو لگ سکتا ہے۔“
” کہیں تم وہیں تو نہیں ہو ، جہاں وہ ابھی تک ہیں۔“
” وہیں ہوں۔“ میں نے بتایا تو اس نے کہا۔
” تمہیں شاید زیادہ وقت لگ جائے۔ تم سیدھے بوراویلی پولیس اسٹیشن کے پاس آ کر مجھے کال کرو۔
“
” میںآ رہا ہوں۔“ جسپال نے کہا اور بانیتا کو فون کیا۔ وہ ان تینوں کو وہاں موجود گورال کے سپرد کر کے فوراً ہی آ گئی۔ بانیتانے اروند کو فون کیا تاکہ وہ ہمیں گائیڈ کر سکے اور وہاں سے نکل پڑے۔ وہ چالیس منٹ سے بھی کم وقت میں بوراویلی پولیس اسٹیشن کے پاس ایک چوک میں آ کر رک گئے ۔ وہاں سے اس نے کال کر کے ونود کو بتایا وہ اسے کافی حیرت ہوئی کہ وہ اتنی جلدی کیسے پہنچ گیا ۔
(جاری ہے)
” اچھا کیا تم جلدی پہنچ گئے ہو ، یہیں اسی چوک سے ٹرن لو بائیں جانب ، آگے دو گلیاں چھوڑ کر تیسری میں بائیں جانب ہی گلی میں آ جاؤ۔ میں باہر ہی ہوں۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔
وہ وہاں پہنچے تو ونود گلی کی نکڑ پر ہی تھا۔ وہ وردی میں نہیں تھا۔ اس نے کار وہیں کھڑی کرنے کو کہا اور اپنے ساتھ پولیس وین میں بٹھا لیا۔ ایک باربانیتا نے میری طرف دیکھا۔
اس کی آ نکھوں میں یہی تھا کہ کہیں یہ پولیس والے ہمیں دھوکے سے بڑے آرام کے ساتھ لے کر تو نہیں چلے۔ ہم تیواری کا شکار کر رہے تھے اور تیواری ہمارا شکار کر لے؟ میں نے رسک لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ مختلف سڑکوں اور گلیوں میں سے بھگاتا ہوا ایک پرانی بلڈنگ میں لے گیا۔ جس کے سامنے کافی گند تھا اور نشئی قسم کے لوگ سوئے پڑے ہوئے تھے۔ ہم تینوں اندر چلے گئے ۔
دوسری منزل پر ایک کمرے میں خاصا کاٹھ کباڑ پڑا تھا۔ دھول بھی خاصی تھی اور ایک خاص طرح کی چراند پھیلی ہوئی تھی۔ وہیں چند لوگ یوں پیٹھے ہوئے تھے جیسے کوئی پانڈی کام سے تھکے ہارے ہوں۔ اس کے اندر سے ایک مزید کمرہ کھلتا تھا۔ وہ انہیں وہاں لے گیا۔ جیسے ہی وہ اندرداخل ہوئے ، سامنے ایک کرسی پر تیواری بیٹھا ہو ا تھا۔ اس کا چہرہ غضب ناک تھا۔
اس کے ساتھ دو گرانڈیل گارڈ کھڑے تھے۔ ونود نے جاتے ہی بڑے ادب سے کہا۔
” جناب کیا یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے…“ لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے تھے کہ تیواری انتہائی غصے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
” انہیں تم ایسے ہی لے آئے ہو ، ان کی ٹانگیں اور بازو کیوں نہیں توڑے تم لوگوں نے ، کیا وہ تینوں آ گئے ہیں، جنہیں یہ اغوا کر کے لے گئے تھے۔
“
اس کے یوں کہنے پر بانیتا اور جسپال نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ بانیتا کی آ نکھوں میں یہی تھا کہ کیا میں نے تمہیں پہلے نہیں اشارہ دیا تھا کہ ونود ہمارے ساتھ دھوکہ کر رہا ہے۔ اس نے بھی ڈبل گیم کھیلی تھی ۔ایک طرف تیوارای کے خلاف ثبوت لے لیے اور دوسری طرف انہیں لے جا کر تیواری کو خوش کر دیا۔ جسپال کے بدن میں آ گ لگ گئی تھی۔ وہ ایسے تو ان کے ہاتھ آ نے والا نہیں تھا۔
وہ ماحول کا جائزہ لینے لگا۔ بانیتا اور اس نے آ نکھوں ہی آ نکھوں میں طے کر لیا کہ انہیں کیا کر نا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی طے شدہ حکمت عملی پر عمل کرتے ونود بولا۔
” سر! وہ تینوں بھی برآمد ہو گئے ہیں۔ وہ انتہائی زخمی حالت میں ہیں۔ انہیں میں نے اسپتال بھجوا دیا ہے ، وہاں ان کی ٹریٹمنٹ ہو رہی ہے ۔ جیسا آ پ نے کہا میں ان سے وہی سلوک کرتا مگر مجھے انہیں آپ کے سامنے بھی تو لا نا تھا اور دوسرا میں نے ان کا ڈنگ نکال دیا ہے۔
یہ اب کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اب آ پ جو کہیں میں وہی سلوک ان کے ساتھ …“
” تم بولتے بہت زیادہ ہو ۔ خیر انہیں ہمارے حوالے کرو، ہم دیکھیں گے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا سکتا ہے۔“ اس نے انتہائی نخوت سے کہا تو جسپال بولا۔
” دیکھو تیواری، اگر تم مرد ہو تو اپنی زبان پر قائم رہو، تم نے چوبیس گھنٹوں میں مجھے پکڑنا تھا ، وہ تم نہیں پکڑ سکے۔
ہم نے تیرے…“
” ابے چپ سالا مرد ہونے کی بات کرتا ہے ، ہم یہاں حلف دے کر اس کا پاس نہیں کرتے، وعدوں کی پاس داری کرتے رہے تو کر لی سیاست،“ یہ کہہ کر اس نے اپنے گارڈز کی طرف دیکھا اور بولا۔
” لے چلو انہیں۔“ جیسے ہی وہ آ گے بڑھے، ونود نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پسٹل سیدھا کیا اور یکے بعد دونوں کے چہروں کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔
وہ گھوم کر فرش پر جا پڑے ۔ ونود نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پورا میگزین ان پر خالی کر دیا۔تیواری ایک دم حیرت زدہ ہو کر دیکھنے لگا ۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور اس کی آنکھیں باہر آ گئیں۔
” یہ … یہ کیا کیا تو نے…؟“ وہ حیرت کی انتہاؤں پر تھا اس لیے لکنت زدہ آوا ز میں بولا۔
” تم نے بہت بے غیرتی کر لی، تیرے سارے ثبوت میرے پاس آ چکے ہیں۔
وہ تینوں میرے مہمان ہیں اور انہوں نے ہی وہ ثبوت دئیے ہیں۔ میں نے تو تیرے ساتھ کھیل کھیلنا ہے ، تو اب میرے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا، اگر تجھے پھانسی نہ بھی ہوئی تو جیل میں تجھے مروا دوں گا۔ پولیس والوں کے قتل ایسے ہضم نہیں ہوتے۔“
” کیا چاہتے ہو؟“ اس نے پوچھا۔
” ظاہر ہے ، تمہاری گرفتاری پر میڈیا میں واویلا اٹھے گا، تمہاری پارٹی اور بے غیرت سیاست دانوں کا وہ کلب جس کے تم ممبر ہو وہ طوفان ِ بد تمیزی اٹھائے گا۔
پورا بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھی یہ جان لے کہ تم پکڑے گئے ہو۔ سنو ‘ یہ سب تمہارے ہی خلاف استعمال کرنے والا ہوں۔ جگجیت بھر بھرے میرے محسن ہیں، ان کے خلاف سوچنے والے کو بھی میں موت کی نیند سلا دیتا ہوں۔“
” تم جو چاہو سو کرو، مگر مجھ سے جلدی بات کرو۔“ شاید اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ونود اسے مارنے والا نہیں اس لیے جسپال آ گے بڑھا اور اس نے اسے گریبان سے پکڑ کے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔
” تمہیں اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دور کر لو، میں تمہارے حلق میں اب بھی گولی مار سکتا ہوں۔ باہر سے کوئی تمہاری مدد کو نہیںآ ئے گا۔ وہاں سب اپنے ہی لوگ بیٹھے ہو ئے ہیں ، جو پہلے ہی تیرے ساتھ آئے قافلے کو کہیں دوسری جگہ لے جا چکے ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ وہ لڑکھڑا گیا اور فرش پر گر گیا۔
” سنو ، میں کیا چاہتا ہوں۔
تمہارے لوگ اس گرفتاری کو محض سیاسی رنگ دیں گے ۔ یہ سیاسی رنگ رہ سکتا ہے اگر تم اگلے چوبیس گھنٹوں میں وہ فلم غلط ثابت کرو، جو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے تم نے بانیتا تک پہنچائی تھی۔“ ونود نے کہا۔
” اوہ‘ یہ ہو جائے گا۔“ اس نے تیزی سے کہا۔
” تب تک تم میرے مہمان رہو گے۔ میں تمہاری گرفتاری نہیں ڈالوں گا ، بس تم بھی اغوا ہو گئے ہو۔
دوسروں کی طرح۔ واویلا کروگے تو تمہاری لاش کسی ویرانے سے برآمد کر لی جائے گی۔“
” ونود ‘ تم اسے ایک دن رات رکھنا چاہتے ہو؟“ بانیتا نے پوچھا۔
” ہاں، مگر تم کیوں …“
” کل رات اسے مجھ سے لے لینا۔ یہ مجھے دے دو ، مجھے اس سے بہت ساری باتیں کر نی ہیں۔“
” دیکھ لو، یہ رابطہ کیسے کرے گا اپنے لوگوں سے ؟“ ونود نے لمحہ بھر سوچ کر کہا۔
” یہ میرا درد سر ہے ۔“ وہ اعتماد سے بولی۔
” لے جاؤ۔“ ونود نے کہا تو بانیتا کسی چیل کی طرح اس پر جھپٹی۔ اسے دو چار ایسی لگائیں کہ وہ بے ہوش ہوتا چلا گیا۔ تب تک ونود اپنے لوگوں سے رابطہ کر چکا تھا۔وہ پولیس کی حفاظت میں تیواری کو وہیں چھوڑ گئے، جہاں وہ پہلے تینوں تھے۔
ز…ز…ز