Episode 65 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 65 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 مغرب سے ذرا دیر بعد میں اماں کے پاس جا پہنچا۔ وہ کمرے میں اکیلی ہی تھیں۔ میں ان کے پاس بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگیں۔ کچھ دیر بعد میں نے کہا۔ 
” اماں! تو نے مجھے بتایا نہیں۔اتنی بیمار ہو گئی ہو اور…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات پر ٹوکتے ہوئے بولیں۔ 
” پتر ، میں بیمار نہیں ہوں۔“
” اماں یہ ڈاکٹر ، سوہنی ، تانی یہ سب کیا جھوٹ بول رہے ہیں۔
“ میں نے نرم سے لہجے میں کہا تو وہ بولیں۔ 
” تن کا زخم سب کو دکھائی دے جاتا ہے پتر لیکن جو من میں ہو اسے صرف وہی محسوس کر سکتا ہے ، جس کے من میں ہو۔“
” میں سمجھانہیں اماں؟“ میں نے جان بوجھ کر پوری بات سمجھنے کے لیے پوچھا تو بڑے نرم لہجے میں بولیں۔
” وہ سب سچے ہیں کہ انہیں یہی دکھائی دے رہا ہے ۔

(جاری ہے)

لیکن اصل سچائی کیا ہے، یہ تو میں ہی جانتی ہوں نا۔

” اماں تُو اپنے پتر کو بھی نہیں بتائے گی؟“ میں نے شکوہ بھرے لہجے میں پوچھا۔ 
” تجھے ہی تو بتانا ہے پتر۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے یوں خاموش ہو گئیں جیسے کچھ سوچ رہی ہوں۔ پھر جیسے ان کے خیالات مجتمع ہوگئے تو وہ بولیں۔
” اس کائنات میں ہر جاندار شے اپنے ماحول میں خوش رہتی ہے، بعض اوقات تو ماحول پر ہی اس کی زندگی کا دارمدار ہوتا ہے۔
جیسے مچھلی ، پانی کے بنا مر جاتی ہے، میری حالت بھی ایسے ہی ہے پتر۔“ 
” کیا آپ کو یہ ماحول پسند نہیں ہے؟“ میں نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ 
” نہیں، بلکہ میں یہاں لمحہ لمحہ مرتی ہوں۔ میرا دم گھٹتا ہے یہاں۔ یہ حویلی چاہے اب سوہنی کے پاس ہے ،وہی اس کی مالک ہے لیکن یہاں وہ شخص رہا ہے ، جس نے تیرے باپ کو قتل کیا ۔ چاہے تم نے اس سے انتقام لے لیا ہے۔
لیکن مجھے تو ہر دم احساس رہتا ہے۔ مجھے ہر دم یہی یاد رہتا ہے۔ میں بھلانا بھی چاہوں تو نہیں بھلا پاتی۔ میں اگر اس ماحول سے الگ ہو جاؤ ں تو میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے ۔“
” تو پھر الگ کیوں نہیں ہوئیں۔ اتنی اذیت کیوں برداشت کر رہی ہیں ، کیا مجبوری ہے آ پ کو ۔“ میں نے تیزی سے پوچھا۔ 
” سوہنی ہی کی مجبوری ہے مجھے۔
وہ صرف خدمت گذار ہی نہیں میرے لیے اور بہت زیادہ اہم ہے۔ وہ کیا تھی جب میرے پاس آئی تھی، اور اب کیا ہے ، یا تم نے اس میں فرق ہی محسوس نہیں کیا؟“
” اماں ! وہ تو ساری کی ساری بدل گئی ہے۔“ میں نے اعتراف کیا
” بس یہی ، میں اسے یہ دُکھ کہہ نہیں سکتی اور اس کا بھی تواب کوئی نہیں ہے۔ میں اب اُسے چھوڑ بھی نہیں سکتی۔“ اماں نے بے چارگی سے کہا۔
 
” درمیان میں فقط ماحول ہی ہے نا، میں ایسا کرتا ہوں ، آپ دونوں کو لندن بھجوا دیتا ہوں۔ وہاں آپ کا علاج بھی ہوگا اور آپ کاماحول بھی بدل جائے گا، پھر اس کے بعد سوچ لیں گے۔“ میں نے اس کا حل دیا تو وہ سنجیدگی سے بولیں۔
” نہیں پتر، وہاں جا کر تو شاید میں زندہ ہی نہ رہ سکوں، کیا تم سارا کو بھول گئے ہو،جس نے یہاں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
تانی کا کون ہے؟ اشفاق کا کون ہے ؟ بھیدہ بے چارہ کہاں جائے گا۔ وہ میرے آسرے جی رہاہے۔ میں ان سب کی ماں بھی ہوں اور باپ بھی۔ پھر وہ سب جن کی اب میںآ س ہوں۔“ 
” تو اماں بتاؤ ، میں کیا کروں کہ تو خوش رہے ؟“ میں بے چارگی سے پوچھا تو ایسے میں سوہنی اندر آ گئی اور بڑے سکون سے بیڈ کے کنارے پر بیٹھ کر بولی۔ 
” میں بتاتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ یوں باتیں سننا انتہائی غلط بات ہے ۔
لیکن ماں بیٹے کی باتیں میرے کانوں میں پڑیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جمال کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ سو میں اماں کے ساتھ اسی گھر میں رہوں گی۔ میں خود یہاں گھٹن محسوس کرتی ہوں۔ یہ گھر میں سارا کو دے دوں گی۔ وہ اسے جیسے چاہے استعمال کرے اور اماں اب میںآ پ کی کوئی بات نہیں سنوں گی۔“ اس نے حتمی لہجے میں کہا۔ 
” جیسے تیری مرضی پتر، میں تو زندہ ہی اب تم لوگوں کے لیے ہوں۔
“ اماں نے کہا۔ 
” چلیں آئیں، میں نے کھانا لگوا دیا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی۔ میں نے اماں کو اٹھایا اور باہر چل دیا۔
کھانے کی میز پر سبھی تھے۔ تبھی اشفاق نے میری اور جوگی والی جو ملاقات ہوئی اور جو سانپ والا واقعہ ہوا، وہ سب بتا دیا۔ اس نے ملنگ والی بات شاید اس لیے نہیں بتائی کہ وہاں جو ہوا اس کا گواہ میں اور ملنگ ہی تھا۔
سوہنی اور اماں نے اس واقعہ پر اتنا تبصرہ نہیں کیا لیکن سارا اور تانی چونک اٹھی تھیں۔ انہوں نے بہت سارے سوال کر دئیے۔ میں چپ چاپ سنتا رہا ، کھانے کے بعد میں یہی کہہ کر اٹھ آیا کہ میں بتاؤں گا بھی تو تم لوگوں کی سمجھ میں نہیںآ ئے گا۔
 مجھے احساس تھاکہ تانی مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہے اور میں بھی اس سے بہت ساری باتیں کرناچاہتا تھا۔
اس لیے کھانے کے بعد میں اسے ساتھ لیے حویلی کی چھت پر چلا گیا۔ ملجگی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔وہا ں کر سیاں اور چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ ہم ان پر نہیں بیٹھے ، بلکہ ٹھنڈی اور خمار آ لود ہوا کا لطف لیتے ہوئے ٹہلتے رہے ۔ وہ مجھے وہاں کے بارے میں بتاتی رہی ۔ کافی دیر بعد ہم چار پائیوں پر آ کر بیٹھ گئے تو تانی نے بڑ ے مان سے کہا۔ 
” جمال ایک بات پوچھوں؟“
” میں تمہیں یہاں لایا ہی ا س لیے ہوں کہ تم جتنی چاہے مجھ سے باتیں کر سکو۔
تمہیں کبھی بھی مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دی ۔ پھر یک لخت سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔ 
” میری اس بات کو کسی منفی سوچ میں نہ لینا، میں صرف سمجھنا چاہتی ہوں کہ ایک ہی شے دو جگہ مختلف رنگ کیسے بنا لیتی ہے؟“ 
” تم کھل کر کہو ، کیا کہنا چاہتی ہو ؟“ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ 
” دیکھو، سوہنی بھی تم سے محبت کرتی ہے اور میں بھی، دونوں کی محبت میں کوئی غرض نہیں ہے، انتہائی خلوص ہے اس میں اور میں اپنے بارے میں جانتی ہوں۔
لیکن‘ وہ انتہائی مطمئن ہے ، اس کی ذات میں سکون ہے اور میں بے حد بے چین، افسردہ اور تنہائی محسوس کرتی ہوں، یوں سمجھ لو کہ میرا دل ہر وقت بجھا رہتا ہے۔ میں خوش نہیں رہتی ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟“ اس نے بہ مشکل اپنی بات کہی ۔ جبکہ میں اس کی بات کو سمجھ چکا تھا۔
” تانی! یہ لوگ جب صبح اٹھتے ہیں تو وہ اپنا منہ کیوں دھوتے ہیں۔ حالانکہ اس پر کچھ بھی نہیں لگا ہوتا۔
آ فس کے لیے یا کہیں بھی جاتے وقت ۔ ہم بہت تیار ہوتے ہیں، اپنی پسند کی خوشبو لگاتے ہیں، یہ خوشبو لگانا ، اپنے آپ کو سنوارنا یہ کیوں ؟ “ میں نے پوچھا۔ 
” میرے خیال میں ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں سکون ملتا ہے ، ہمیں ایسا کرکے خوشی ملتی ہے۔“ اس نے جواباً کہا۔ 
” اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ مست الست رہتے ہیں، انہیں اپنے آپ کو سنوارنے یا خوشبو لگانے جیسا کام نہیں کرتے ، وہ کیوں؟“ میں نے پوچھا۔
 
” میرے خیال میں وہ بھی اسی حالت میں خوش رہنا پسند کرتے ہوں گے۔“
” زندگی کا اصل حاصل اس کی مسرت ہے۔مسرت کے حصول ہی میں حسن ہے۔ جو بندہ خوش و خرم ہوگا، اس کا چہرہ اس کے اندر کی خوشی کا اظہار کر دیتا ہے۔“ میں نے کہا تو اس نے پوچھا۔ 
” وہی تو، ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔“
” ا س کا سارا تعلق دل سے ہے۔ مردہ دل ارب پتی ہونے کے باوجود چہرے پر رونق نہیں رکھتا۔
اس میں منفی جذبوں کا فروغ ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ زندگی محض ایک حادثہ ہے۔ وہ معاملے کو عقل کے تقاضوں پر لے جاتا ہے۔ اس میں منفی سوچ کا فروغ پانا عین فطری ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس میں زندگی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں جو صاحب دل ہوتا ہے اس کے پاس مادی سہولیات بھلے نہ ہو ، روپیہ پیسہ بھی کم ہو پھر بھی وہ خوش رہتا ہے اور پورے زمانے کا مقابلہ کررہا ہو تا ہے۔
اس کی ضرورت دنیا نہیں ہوتی اصل میں ضروریات سے نکلا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی سرشار ہوتی ہے کیونکہ خوشی وجود میں انرجی پیدا کرتی ہے۔ یہ فطری ہے۔“
” مگر یہ سب ہوتا کیسے ہے ؟“ تانی نے پوچھا۔ 
” زندہ دلی محبت کے ساتھ آتی ہے۔“ میں نے کہا وہ چند لمحے خاموش رہی پھر الجھتے ہوئے بولی۔ 
” کیا میری محبت میں اب بھی تمہیں شک ہے؟ کیا میرے اندر محبت نہیں ہے؟“
” مجھے تمہاری محبت پر کوئی شک نہیں اور نہ ہی انکار ہے۔“ میں نے سکون سے کہا۔ 
” تو پھر…؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔ 

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط