” پی کیوں نہیں رہے ہو؟“ میں نے پوچھا تو ملنگ نے سر اٹھائے بغیر ہولے سے کہا
” میں اپنے آپ پر حیرت زدہ ہوں، مجھے خود پر بہت مان تھا۔ لیکن میں تو مٹی کا ڈھیر ثابت ہوا۔ شاید یہ اس لئے ہوا ہے کہ کوئی میرے مقابلے پر نہیں آیا تھا یا…“ یہ کہتے کہتے وہ رک گیا اور بے بسی سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں اس کی بات سن کر مسکرا دیا۔ پھر اس بوڑھے جوگی کی طرف دیکھ کر پوچھا
” اور تم ؟ تمہیں کوئی حیرت ہے؟“
” ہاں میں بھی حیرت زدہ ہوں لیکن میری حیرت کی نوعیت کچھ دوسری ہے۔
“ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ میں ہنس دیا۔
” کیا ہے وہ حیرت؟“ میں نے پوچھا
” یہی کہ میں نے جھوٹ بولا اور یونہی بات گھڑی ، لیکن آپ نے اسے سچ کر دکھایا۔“ اس نے لہجے میں حیرت ٹپک رہی تھی۔
(جاری ہے)
” کیا اور کیسا جھوٹ، میں سننا چاہوں گا۔“ میں نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا
” میں جوگی ضرور ہوں اور میرا تعلق بھارت کے علاقے صورت گڑھ کے پاس مناسکر گاؤں سے ہے۔
میں وہیں ایک پرانے گاؤں کا باسی ہوں، یہ بھی سچ ہے کہ مجھ پر زہر اثر نہیں کرتا اور میرا یہ پیشہ ہمارے آباء و اجداد سے ہے۔ میری اسی صلاحیت کو استعمال کیا گیا۔ مجھے بھارت کی خفیہ تنظیم را نے تربیت دی ہے کہ دشمن کے علاقے سے اطلاعات کیسے اکھٹی کی جاتی ہیں۔ میں پچھلے تیرہ برس سے یہی کام کرتا آرہا ہوں ۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ ایسے ہی پھر رہاہوں۔
یہاں بھی مجھے ایک خاص مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اور وہ یہی مقصد تھا کہ جب بھی جمال یہاں آئے ، فوراً اطلاع کرکے اگلی ہدایات کا انتظار کیا جائے ۔ میرا کام صرف اتنا ہی ہوتا ہے ۔ “
” مجھ سے کیا جھوٹ بولا۔“ میں نے پوچھا
” یہی کہ یہاں پر ایک خاص قسم کا سانپ ہے، حالانکہ یہ سانپ اس علاقے کا ہے ہی نہیں، یہ افریقی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور میں نے آج تک اسے نہیں دیکھا تھا۔
آپ کا چمتکار ہے یہ ، وہ سانپ جو یہاں ہے ہی نہیں، اسے یہاں نہ صرف حاضر کر لیا بلکہ دکھا دیاکہ وہ آ پ کا مطیع بھی ہے۔ میں نے پوری زندگی ایسا چمتکار نہیں دیکھا۔“ اس نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا
” یہ ملنگ بھی تو اسی مقصد کے لئے یہاں بیٹھا ہے۔ یہ بھی تو بھارتی خفیہ کا بندہ ہے ۔ اس کی صلاحیت…“ میں نے کہنا چاہا تو وہ ملنگ بولا
” مجھے نشے پر پوری دسترس تھی۔
لوگ مجھے نشے میں دھت سمجھ کر اپنے سارے راز اُگل دیتے ہیں۔ اب مجھے پتہ چلا جسے میں اپنی طاقت سمجھتا تھا، وہ تو میری سب سے بڑی کمزوری ہے۔“ اس کے لہجے میں شکستگی تھی ۔
” تو اب کیا کرنا چاہتے ہو؟ اپنا فرض نبھایا؟ دے دی اطلاع؟“ میں نے پوچھا
” نہیں، اور نہ ہی دے سکتے ہیں۔“ جوگی نے ہاتھ باندھ کر کہا
” کیوں؟“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھ کر پوچھا
” میں سمجھتا ہوں کہ اب میری نسل سے یہ صلاحیت ختم ہو جائے گی۔
اور سرے سے یہ صلاحیت ہی نہیں ہے ۔ اور نہ ہی انسانیت۔ ہم بھی سانپ صفت ہو گئے ہیں ۔ ہمیں انسان بننا ہے۔شیطان نہیں۔ نیلی آنکھوں والا سانپ شیطان ہی تو ہے۔“ جوگی نے دست بدستہ ہو کر کہا
” یہ ملنگ…؟“ میں نے پوچھا
” میں بھی اپنے ہوش میں آنا چاہتا ہوں۔“ اس نے صاف لفظوں میں کہا
” یہاں رہو اور اپنی حالت کا مشاہدہ کرو۔ اپنے آپ کو تسخیر کرو۔
تم پر تمہارا باطن کھل جائے گا۔“ میں نے کہا
” کیسے؟“ جوگی نے اسی طرح ہاتھ باندھے پوچھا
”انسان چاہے جس مذہب، نظریے یا عقیدہ کا ہو ، وہ انسا ن ہے اور رَبّ تعالی نے انسان کو بے تحاشا صلاحیتوں سے نوازا ہے ، اسے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ یہ خود ہے جو اسفل سافلین میں جا گرتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے اپنی ان ذاتی صلاحیتوں سے جو اسے رَبّ تعالی نے دیں ہیں۔
ان سے دنیا کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا ، بظاہر انہونیاں ہو ئی ہیں۔ لیکن جب بھی انسان اپنے باطن سے جڑا ، تب اس نے انسانیت کے لئے بہت کچھ کیا۔ اگر انسان اپنا آپ شیطانیت کو دے سکتا ہے تو اس سے چھٹکارا بھی خود اسی نے پانا ہے۔ خود ہی کرنا ہے اس نے۔ اپنے باطن تک اس نے خود ہی رسائی لینی ہے ۔ اپنا آپ تسخیر کرو، یہی تمہاری تعمیر ہے۔“ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔
وہ دونوں میری طرف دیکھتے رہے ۔ میں کار میںآ بیٹھا۔ تانی میرے ساتھ اگلی نشست بیٹھ گئی۔ تبھی اشفاق نے پوچھا
” ان کا کرنا کیا ہے ؟ جانے دیں انہیں۔ خواہ مخواہ توجہ ان کی طرف رہے گی ۔“
” دیکھو، انہیں دیکھو، یہ کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ خود کو بدل لیں تو دشمن کا یہی تیر، دشمن ہی کے سینے میں جا لگے گا۔ یہ جان لو کہ یہ تیر زہر میں بجھے ہوئے ہیں۔
احتیاط کرنا۔“ میں نے کہا
” انہیں میں دیکھ لوں گی۔“ تانی نے عام سے لہجے میں کہا تو میں نے اس کی طرف دیکھا سیاہ حجاب میں اس کا گلابی چہرہ تمتما رہا تھا۔ تبھی میں نے اشفاق سے کہا
” اور ہاں۔! آج سے یہ سارا نور نگر تم دونوں کے حوالے، اس کی سیکورٹی سے لے کر ، یہاں کے سب انتظامات تک تمہاری ذمہ داری ہے۔“ میرے کہنے پر وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
واپس حویلی آنے تک پھر ہم میں کوئی بات نہیں ہوئی ۔
#…#…#
اس نیم تاریک کمرے میں جگجیت بھر بھرے اور دائیں جانب ونود رانا بیٹھے ہوئے تھے ان سے ذرا فاصلے پر دیوار کے ساتھ تین کانسٹیبل کھڑے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا تو جسپال کے ساتھ بانیتا اندر آ گئے ۔ وہ دونوںآ کر ان کے سامنے دھری کر سیوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے جگجیت بھر بھرے کو پہلی بار دیکھا تھا ۔
وہ اس سارے معاملے میں پس پشت رہا تھا۔ وہ اچھی شخصیت کامالک تھا اور اس کے چہرے پر عام پولیس والوں کی طرح سختی نہیں تھی ۔ وہ اگر سول کپڑوں میں ہوتا تو پرو فیسر ہی لگتا۔ اُن دونوں کے بیٹھتے ہی وہ مسکرایا اور پھر نرم اور پر سکون لہجے بولا
” میں تم دونوں کا بہت مشکور ہوں۔ آپ نے ہماری بہت مدد کی ۔ہم اس کا کوئی عوض تو نہیں دے سکتے ،ہاں مگر ایک چھوٹا سا تحفہ ضرور دیں گے۔
اور وہ ہے ،تم دونوں کی بے گناہی، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم جرائم پیشہ نہیں ہو بلکہ محبت وطن اور حریت پسند ہو ۔ “
” تھینک یو آ فیسر۔“ بانیتا نے کسی جذبے کے بغیر کہا
” اگر میں آپ دونوں کو پولیس جوائن کرنے کامشورہ دوں تو کیا آپ …“ اس نے مسکراتے ہوئے ،دھیمے لہجے میں پوچھا تووہ تیزی سے بولی
” ہم ہر گز جوائن نہیں کریں گے۔
“
” پوچھ سکتا ہوں کیوں؟“ جگجیت بھر بھرے نے پوچھا
” محکمے میں رہ کر سو پابندیاں ہیں، جیسے کہ آپ ہماری مدد لینے پر مجبور تھے۔ ہمارا مقصد انسانیت ہے، اس کے لئے ہم کام کرتے رہیں گے۔“ بانیتا ہی نے جواب دیا تو اس نے سر ہلاتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہا
” یہ ممبئی بھی ایک گورکھ دھندہ ہے۔دہلی کی ساری سیاست اب یہاں سمٹی ہوئی ہے۔
میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ یہ یہودی ایک وائرس کی طرح ہیں، جہاں جائیں گے اس قوم کو کھوکھلا کر دیں گے۔ اور ہمارے سیاست دان ان کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ صرف ہمارے ہی نہیں پڑوسی ملک کے سیاست دان بھی۔ ان میں کچھ سرمایہ دار ہیں ، کوئی اپنی صنعت کا تحفظ چاہتا ہے اور کوئی اپنی بین الاقوامی ساکھ بچانا چاہتا ہے ۔ اس سے ہو گا کیا؟ یہاں کے اور سرحد پار کے عوام کا لہو بہے گا۔
کتنے بچے مارے جائیں گے ، کتنی عورتیں کتنے جوان ، تباہی کے سوا کچھ نہیں، اور ان کی تجوریاں بھریں گی اسلحہ بیچ کر ۔“
” تو پھر انہیں یہاں سے بھگا کیوں نہیں دیتے ؟“ جسپال نے کہا
” میں انہیں ایک منٹ برداشت نہیں کرتا۔ لیکن میرے اکیلے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے ان کی ،فقط یہود نواز سیاست دانون کی فائل کھولی تھی، اور اتنا ہنگامہ ہو گیا۔
“ جگجیت بھر بھرے نے دکھی لہجے میں کہا
” تو بس ، آپ نے جنگ ہار دی ۔“ جسپال نے پوچھا
” نہیں، جنگ تو اب شروع ہوئی ہے۔ اس تیواری سے بہت کچھ ملا ہے، میری اور اس کی ڈیل ہو گئی ہے ۔ اس نے خود کو بچانے کے عوض ایک ہفتے کے اندر اندر دوسروں کے بارے میں بتانے کا کہا ہے، وہ سب کچھ جو اس کے پاس پڑا ہے، ہردیک کو میں تھائی لینڈ بھجوا رہا ہوں۔
وہاں اس کے لئے کام کا بندو بست بھی کر دیاہے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ وہی رامیش پانڈے ایک بہت بڑی گیم کھیلنے جا رہاہے۔“ جگجیت بھر بھرے نے جوش سے کہا
” کیسی گیم ؟“ جسپال چونکتے ہوئے بولا
”ابھی مجھے اس کے پورے خدوخال کا نہیں پتہ ۔ لیکن میں اپنے ماضی کے تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا
” ماضی میں کیا ہو تھاا؟“ بانیتا نے سوال کیا تو وہ ذرا دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا ، پھر بولا
” سن دو ہزار سے تم لوگوں نے ناندیڑ بم دھماکا،ٹرین بم دھماکا، اجمیر شریف بم دھماکا، مالیگاؤں بم دھماکا ،احمد آباد بم دھماکا، یہ سب سنا ہوگا؟“ اس نے پوچھا
” کچھ کچھ کا یاد ہے مجھے۔“بانیتا سوچتے ہوئے بولی